ہگزبوزن کی تلاش اور نظریہ وحدت…

مادے کے ذرے فرمیون بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی قسم Quark کہلاتی ہے اور دوسری قسم Lepton۔


ڈاکٹر رام چند April 07, 2013

انسان ابتدا ہی سے اس کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی جستجو میں مگن ہے۔ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ کائنات مادے سے وجود میں آئی ہے، مگر اس مادہ کی حقیقت کیا ہے؟ اور یہ کیونکر دکھائی دیتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جس نے انسان کو بدستور الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ سائنس دانوں نے اس حقیقت کے پیش نظر بہت سے نظریات پیش کیے ہیں۔ درحقیقت ہم ایک ایسے سادہ مگر مکمل اور جامع نظریے کی تلاش میں ہیں جو کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے تمام افعال کی نہ صرف تشریح کردے یا بنیاد بتائے بلکہ ہر شے کی حقیقت کو بھی واضح کردے۔

بیسویں صدی کی اہم کامیابی یہ بھی ہے کہ ہم نے اس کائنات کی بناوٹ اور اس میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو ایک سادہ اور خوبصورت نمونے میں ڈھال دیا ہے جسے ہم اسٹینڈرڈ ماڈل یا S.M کہتے ہیں۔ درحقیقت ہم سب ایک ایسے سادہ اور بنیادی نظریے کی تلاش میں ہیں جسے ہم نظریہ وحدت یا Theory of Everything کہتے ہیں۔

یہ نظریہ ایسے مساواتی ڈھانچے پر مشتمل ہوگا جو ہمیں سادہ طریقے سے ان تمام سوالات کا جواب دے، جیسے کہ ہم کیا ہیں؟ مادہ کیا ہے؟ اور یہ ساری کائنات اس طرح کیوں دکھائی دیتی ہے؟ اور مزید کہ یہ ماڈل آج تک دریافت ہونے والے تمام سائنسی نظریات یا فارمولوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں جوڑ دے۔ اس نظریہ وحدت (TOE) کی بنیاد تقریباً 40 سال پہلے رکھی گئی تھی۔

درحقیقت نظریہ وحدت اس کائنات میں اب تک دریافت ہونے والی چاروں قوتوں کو ایک ہی ریاضیاتی بندھن میں جوڑتا ہے، ان ہی چاروں قوتوں کے قاصد ذرے درحقیقت بنیادی ذرے ہیں جو کہ اسٹینڈرڈ ماڈل کے ہی حصے ہیں جب کہ (S.M) کے مطابق یہ پوری کائنات 17 ذرات سے مل کر بنی ہے، جس طرح اردو کے 37 حرف تہجی ہیں اور ان ہی 37 الفاظ کی بدولت ہم کتنے ہی لفظ، کتابیں اور لائبریریاں تخلیق کرسکتے ہیں، اسی طرح ان 17 ذرات کی ایک خاص ترتیب کی بدولت پوری کائنات تشکیل پاسکتی ہے، ان تمام ذروں کو اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

ایسے ماڈل بنانے کے لیے یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ تمام بنیادی ذرے بغیر کمیت کے ہیں یعنی ان کا کوئی وزن نہیں ہے یعنی (Massless) ہیں لیکن یہ بات حقیقت کے منافی ہے کیونکہ اگر کمیت نہ ہوگی تو مادہ تشکیل ہی نہیں پاسکتا اور نہ ہی ہمارا وجود ،اس حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے ایک نظریہ پیش کیا کہ ایک ایسا بنیادی ذرہ ہونا چاہیے جو سب ہی مادی ذروں میں کمیت پیدا کرسکے۔ سائنسدانوں نے اس ذرہ کو ہگزبوزن (Higgs Boson) کا نام دیا ہے، اصل میں یہ Higgs Boson ہے جو اس پوری پراسرار کائنات کی تخیل کا ذمے دار ہے۔

یہ Higgs Boson ہی کی کرشمہ سازی ہے جو ایٹموں، مالیکیولوں، مادے اور زندگی کو طبعی حقیقت کا روپ دیتے ہیں۔ اگر ہگزبوزن کا وجود نہ ہو تو نہ ہی ہم کسی ایٹم کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دنیا وجود میں آسکتی ہے۔ اس وجہ سے ہگزبوزن S.M کا حصہ بن گیا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کو آج تک دیکھا نہ جاسکا، جب کہ باقی 16 ذرے دریافت ہوچکے ہیں۔

لیکن حال ہی میں دنیائے فزکس کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے سرن (CERN) نے 4 جولائی 2012 میںہگزبوزن کی دریافت کا اعلان کیا ہے اور اس کی تصدیق 14 مارچ 2013 کو کردی گئی ہے۔

درحقیقت ہگزبوزن ہمارے لیے ایک نئے نظریہ ''نظریہ وحدت'' کا اہم جز بن گیا ہے کہ سائنسدانوں نے اسے خدائی ذرے یعنی (God Particle) کا نام دے دیا ہے۔ نظریہ وحدت انسان کا ایک خواب ہے جو کہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔ آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے مشہور یونانی سائنسدان ڈیموکریٹس (Democritus) نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادہ درحقیقت بنیادی ذروں سے مل کر بنا ہے، جسے ایٹم کہا جاتا ہے۔

پچھلی صدی کی ابتدا میں جب سائنسدانوں نے اس یونانی ایٹم کا بغور مشاہدہ کیا تو اس چھوٹے سے ذرے میں انھیں ایک انتہائی خفیف مگر پیچیدہ کائنات نظر آئی جس نے بہت سے سوالوں کو جنم دے ڈالا کہ اب تک ایٹم جو کہ ایک ناقابل تقسیم ذرہ سمجھا جاتا تھا خود کتنے ہی ذروں سے مل کر بنا ہوا ہے، ان ذروں کو (S.M) میں انتہائی سادہ اور خوبصورت طریقے سے درجہ بندی کرکے سمجھایا جاسکتا ہے۔

کائناتی تخلیق کے ان بنیادی ذروں کو کام کی نوعیت کے مطابق دو اہم گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی ایک وہ ذرے جو مادہ کی تخلیق کا سبب ہیں ان کو (Material Particles) کی کلاس (Fermiones) میں رکھا گیا ہے۔ فرمیون کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ایک جگہ پر ساتھ نہیں رہتے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی دوسرے ذرے کے ساتھ Share نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ یہ کائنات ایک مخصوص شکل کے ساتھ (3D) میں نظر آتی ہے۔ دوسرے گروپ کے ذرے (Boson) کہلاتے ہیں جو کہ اپنی جگہ Share کرسکتے ہیں، مطلب یہ کہ ان ذرات کو ہم کثیر تعداد میں ایک ہی جگہ پر رکھ سکتے ہیں۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Fermiones اس کائنات کو شکل دیتے ہیں جب کہ اس کائنات میں جو حرکت نظر آتی ہے اس کی وجہ Boson ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Boson مادہ ذروں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ Boson دو کام سرانجام دیتے ہیں، ایک یہ کہ وہ منتشر (Fermiones) کو پکڑ کر مادہ کو موجودہ شکل دینے میں برسر پیکار رہتے ہیں، اسی خاصیت کی وجہ سے انھیں Force Career بھی کہا جاتا ہے۔ ایسی فیملی سے تعلق رکھنے والے Boson کو (Guage Boson) کہا جاتا ہے۔ Boson کا دوسرا کام ذروں میں کمیت (Mass) پیدا کرنا ہے، ایسے بوزن کو (Higgs Boson) کہتے ہیں۔

مادے کے ذرے فرمیون بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی قسم Quark کہلاتی ہے اور دوسری قسم Lepton۔ ان کی تعداد بھی بالترتیب چھ چھ ہے۔ ان ذروں سے ہی یہ کائنات وجود میں آتی ہے۔

Leptonذروں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ گروپ کے بجائے آزادانہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان ذروں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ان سے ہم اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتے ہیں۔ مثلاً الیکٹران جس کو ہم ایک خاص حرکت دے کر اس میں سے بجلی پیدا کرتے ہیں اس کے برعکس Quark جو کہ گروہوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کا سبب Boson کی فیملی سے تعلق رکھنے والے ذرے Gluon ہیں جو Quark کو پکڑ کر ٹولیوں کی شکل میں رکھتے ہیں، ان ٹولیوں کی شکل میں بننے والے ذروں کو (Hadron) کہتے ہیں۔

تین Quark پر مشتمل ہونے والے Hadron کو (Baryon) کہا جاتا ہے، مثلاً پروٹان اور نیوٹران کو Baryon کی کلاس میں رکھا گیا ہے۔ ان ہی پروٹان اور نیوٹران اور الیکٹران جو Lepton سے مل کر ایٹم بنتا ہے، اور ایٹم مل کر مالیکیول بناتے ہیں اور مالیکیولوں کی بناوٹ سے ہی مایع، گیس اور یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے، ان ہیFermion کی بنائی ہوئی کائنات میں Boson ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

(سندھی سے ترجمہ: سید مسعود علی)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں