چھپی ہوئی ہے تقدیر ووٹوں میں ہماری
ہمارے یہاں عوام کو جینے کا جمہوری حق دینے والی حکومت کب بنے گی؟ اس بات کا جواب کوئی نہیں دے سکتا
پاکستان کی تاریخ میں2013کا سال بہت اہمیت رکھتاہے،کیونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال کی مدت پوری کی ہے، اس وقت ملک میں نگراں حکومت کا سیٹ اپ قائم ہوچکا ہے ،ہرطرف الیکشن کی باتیں ہورہی ہیں، الیکشن کی تیاریاں اس وقت پاکستان میں زور وشور سے چل رہی ہیں، پاکستان ایک بار پھر انتخابات کے مراحل سے گزرنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہاہے مگر اس وقت شہری زیادہ خوفزدہ نظر آرہے ہیں کہ کہیں پھر سے روٹی، کپڑا، مکان تو نہیں چھین لیاجائے گا جو پچھلے5سال غریب عوام کے ساتھ ظلم ہوا کہیں پھر سے وہی کہانی تو نہیں دہرائی جائے گی۔ اس بار کے الیکشن اپنے ساتھ دو چیزیں لے کر آرہے ہیں، ایک ڈر وخوف، دوسرا اچھی امید، غریب عوام ڈر وخوف کے ساتھ ساتھ اچھی امید بھی لیے ہوئے ہیں کہ کیا معلوم اس الیکشن سے غریب پاکستانی عوام کی تقدیریں بدل جائیں اور پاکستان میں واقعی انقلاب آجائے۔
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے چند سیاسی گھرانوں کی میراث رہی ہے،ذات پات، برادری سسٹم، قبائلی نظام اور مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری پاکستان کی سیاست کا محور اور مرکز ہے، پرانے اور عمر رسیدہ سیاستدان جو گزشتہ بیس تیس سال سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں، ان کے علاوہ کیا کوئی دوسرا نہیں جو ملک کی تقدیر بدل دے جو شہریوں کو بنیادی سہولت فراہم کرے جو روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے ہی نہیں کرے بلکہ حقیقت میں فراہم بھی کرے اور یہ سب کام وہی کرسکتاہے جو خود ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرچکا ہو، وہی عام آدمی کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔لہٰذا اب ہم کو ایک ایسے سیاستدان کی ضرورت ہے۔
جو خود عام غریب شہری ہو، وہی اقتدار میں آکر مسائل کو اچھے سے اچھا حل کرسکتاہے نہ کہ محلوں میں رہنے والے سیاستدان۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ایسے مخلص سیاستدان پاکستان کو دوبارہ نصیب نہیں ہوئے، لیاقت علی خان کا انتقال ہوا اور ان کو کفن پہنایاجارہاتھا ، جب ان کی قمیض اتاری گئی تو اندر کی بنیان جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں، ایسے ہوتے ہیں سیاستدان جو عوام کے پیسوں کو ملک کی امانت سمجھتے تھے، کیا آج ہمارے سیاستدان لیاقت علی خان جیسے ہیں؟
افسوس صدافسوس دور دور تک ہمیں کوئی ایسا سیاستدان نظر نہیں آتا جو لیاقت علی خان جیسا ہو، پھر ہم اپنے ووٹ آخر کس کو دیں، کس کو کرسی پر بٹھائیں؟ہمارے ملک میں وہی پرانے چہرے ہیں، عوام جائیں تو کہاں جائیں،کس کو ووٹ دیں، کون ہے جو ان کی ہر بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے گا۔ اس انتخابات سے کیا واقعی کوئی تبدیلی آئے گی، ملک اور اقوام کے لیے یا نہیں یہ بات تو وقت ہی ہمیں بتائے گا۔
پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اپنی اقتصادی زبوں حالی کے باوجود اس کا معاشی حجم173ملکوں میں37واں ہے، جو کسی بھی لحاظ سے نہ تو کوئی بڑی طاقت نظر انداز کرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی چھوٹا ملک، اب اس ذہنی اور مادی افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام تر سیاسی جماعتیں کسی واضح منشور اور مناسب ٹیم کے بغیر الیکشن میں اترجاتی ہیں اور عوام انھیں پرکھے بغیر جیت سے ہمکنار بھی کرادیتے ہیں، سیاستدان ہمارے ووٹ کے ذریعے پانچ سال کے لیے ملک کے مالک بن جاتے ہیں، اب عوام کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، ہمارے ووٹ کی بہت اہمیت ہے، اس کااحساس عوام کو ہونا چاہیے، بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ اپنی طاقت کا استعمال عوام کو کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے ووٹ کے ذریعے ان پارٹیوں کو برسر اقتدار لائے جو واقعی عوام کے ساتھ مخلص ہو، قوموں کی زندگی میں عام انتخابات اور ریفرنڈم بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں بہت سے افراد مایوس ہیں اور بولتے ہیں کہ ہمارے ووٹ کی کیا کوئی اہمیت ہے؟جمہوریت میں لوگوں کے ووٹ بہت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت سے افراد ان کی تاریخ اور اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔
آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں، لہٰذا اس مرحلے میں ہمیں بہت زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان ترقی کرے اور جن لوگوں کو ہم اپنے ووٹ دے رہے ہیں جو ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر کے مالک بننے والے ہیں وہ ہمارے ساتھ مخلص ہوں تبھی عام آدمی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، ابھی تو ہر فرد پریشان اور سوچوں میں گم ہے کہ کیا کیاجائے؟ کس کو چنا جائے، کون ہے جو مہنگائی، دہشت گردی، قتل وغارت گری، لوٹ مار سے نجات دلائے گا اور خوشحال پاکستان بنائے گا؟
ہمارے یہاں عوام کو جینے کا جمہوری حق دینے والی حکومت کب بنے گی؟ اس بات کا جواب کوئی نہیں دے سکتا ہے، عوام کو جمہوریت اسی وقت پسند آئے گی جب اشیائے خورونوش سستی ہوںگی، لوگوں کو روزگار ملے گا، دہشت گردی ختم ہوگی۔ ایسی جمہوریت جس میں عوام کے لیے اور ملک کے لیے مفید کام کیے جائیں نہ کہ اپنے اکائونٹ بھرے جائیں، پچھلے پانچ سال کی بد ترین جمہوریت اب عوام کو ہر گز نہیں چاہیے۔اقتدار کے چاہنے والوں کو انتخابات کے قریب جمہوریت کیوں یاد آجاتی ہے؟ جمہوریت اچھی چیز ہے اور ملک کو ترقی دیتی ہے مگر پچھلے پانچ سال کی جمہوریت تو جمہوریت کے نام پر بد ترین داغ تھی اب عوام اپنا حق چاہتے ہیں، اب وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا ہر شہری اپنا حق مانگے گا اب لوگوں کے اندر شعور بیدار ہوگیاہے وہ جانتے ہیں صحیح کیا اور غلط کیا ہے۔
اس وقت ملک تاریخی دور سے گزررہا ہے، اس وقت تمام سیاستدانوں کو بس فکر ہے تو اپنے اقتدار کی ہے کہ کیسے کرسی پر بیٹھا جائے، کیسے دوبارہ عوام کو بیوقوف بنایاجائے۔ پاکستان میں اس وقت بے شمار مسائل ہیں، ان میں سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے، اس پر تمام جماعتوں کو یکجا ہونا چاہیے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا، سیاسی جماعتوں کو اس وقت اتحاد کی بے حد ضرورت ہے، جمہوریت کا مزہ بھی اسی وقت آتاہے جب ساری سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہو اور ہر طرف سکون ہی سکون ہو، غریب عوام کے مسائل کو فوری حل کیاجاتاہو اور جمہوری دور میں ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جب جمہوریت کے لیے عوام سے ووٹ لیے جارہے ہیں، تو عوام کو اصل جمہوریت بھی دینی چاہیے جس سے عوام اور ملک خوشحال ہو نہ کہ سیاستدان صرف خوشحال رہے۔
جمہوریت کے نام پر عوام خوشی سے ووٹ تو دیتے ہیں پھر پانچ سال روتے رہتے ہیں جیسے کہ پچھلے پانچ برس عوام خوب ہی روئے ہیں ہر ایک فرد کے زبان پر بس ایک ہی بات تھی کیا ایسی جمہوریت ہوتی ہے؟جس نے عوام کو مسائل کے انبار میں دبادیا، پچھلی حکومت تو چلی گئی مگر اس کے باوجود عوام کی تقدیر نہیں بدلی ہے کیونکہ پچھلی حکومت کے اقدامات ہی کچھ اس طرح کے تھے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ابھی کافی وقت لگ جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے تاریخی الیکشن میں عوام اپنے ووٹ کس کو دیتے ہیں؟الیکشن کے بعد وہ کون سی سیاسی پارٹی ہوگی جو عوام کے ووٹ کے ذریعے ملک اور عوام کی تقدیر بنے گی؟عام غریب شہریوں کی جماعت ہوگی اور کیا وہ واقعی ملک اور عوام کو خوشحال بنادے گی؟ میں اور آپ ہم سب منتظر ہیں کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے بہت کامیابی لے کر آئے، ہر ایک کے لبوں پر اس وقت دعا ہے(اے اﷲ ہمارے پاکستان کو بچالے)
پچھلے پانچ سال میں جتنا پاکستان کو نقصان پہنچا ہے اب مزید نہ پہنچے، جمہوریت کے دور کے لیے عوام کے ووٹ کی بے حد اہمیت ہوتی ہے، آپ لوگ اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کے لیے اور ملک کے لیے بہترین رہنما ثابت ہوں، ملک کی تقدیر اب عوام کے ووٹوں میں چھپی ہوئی ہے، یہی ووٹ ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر کو اچھا بھی بناسکتے ہیں اور برا بھی بناسکتے ہیں، فیصلہ ہم عوام پر ہے کہ ہم کس کو ووٹ دیتے ہیں؟
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے چند سیاسی گھرانوں کی میراث رہی ہے،ذات پات، برادری سسٹم، قبائلی نظام اور مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری پاکستان کی سیاست کا محور اور مرکز ہے، پرانے اور عمر رسیدہ سیاستدان جو گزشتہ بیس تیس سال سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں، ان کے علاوہ کیا کوئی دوسرا نہیں جو ملک کی تقدیر بدل دے جو شہریوں کو بنیادی سہولت فراہم کرے جو روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے ہی نہیں کرے بلکہ حقیقت میں فراہم بھی کرے اور یہ سب کام وہی کرسکتاہے جو خود ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرچکا ہو، وہی عام آدمی کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔لہٰذا اب ہم کو ایک ایسے سیاستدان کی ضرورت ہے۔
جو خود عام غریب شہری ہو، وہی اقتدار میں آکر مسائل کو اچھے سے اچھا حل کرسکتاہے نہ کہ محلوں میں رہنے والے سیاستدان۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ایسے مخلص سیاستدان پاکستان کو دوبارہ نصیب نہیں ہوئے، لیاقت علی خان کا انتقال ہوا اور ان کو کفن پہنایاجارہاتھا ، جب ان کی قمیض اتاری گئی تو اندر کی بنیان جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں، ایسے ہوتے ہیں سیاستدان جو عوام کے پیسوں کو ملک کی امانت سمجھتے تھے، کیا آج ہمارے سیاستدان لیاقت علی خان جیسے ہیں؟
افسوس صدافسوس دور دور تک ہمیں کوئی ایسا سیاستدان نظر نہیں آتا جو لیاقت علی خان جیسا ہو، پھر ہم اپنے ووٹ آخر کس کو دیں، کس کو کرسی پر بٹھائیں؟ہمارے ملک میں وہی پرانے چہرے ہیں، عوام جائیں تو کہاں جائیں،کس کو ووٹ دیں، کون ہے جو ان کی ہر بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے گا۔ اس انتخابات سے کیا واقعی کوئی تبدیلی آئے گی، ملک اور اقوام کے لیے یا نہیں یہ بات تو وقت ہی ہمیں بتائے گا۔
پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اپنی اقتصادی زبوں حالی کے باوجود اس کا معاشی حجم173ملکوں میں37واں ہے، جو کسی بھی لحاظ سے نہ تو کوئی بڑی طاقت نظر انداز کرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی چھوٹا ملک، اب اس ذہنی اور مادی افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام تر سیاسی جماعتیں کسی واضح منشور اور مناسب ٹیم کے بغیر الیکشن میں اترجاتی ہیں اور عوام انھیں پرکھے بغیر جیت سے ہمکنار بھی کرادیتے ہیں، سیاستدان ہمارے ووٹ کے ذریعے پانچ سال کے لیے ملک کے مالک بن جاتے ہیں، اب عوام کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، ہمارے ووٹ کی بہت اہمیت ہے، اس کااحساس عوام کو ہونا چاہیے، بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ اپنی طاقت کا استعمال عوام کو کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے ووٹ کے ذریعے ان پارٹیوں کو برسر اقتدار لائے جو واقعی عوام کے ساتھ مخلص ہو، قوموں کی زندگی میں عام انتخابات اور ریفرنڈم بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں بہت سے افراد مایوس ہیں اور بولتے ہیں کہ ہمارے ووٹ کی کیا کوئی اہمیت ہے؟جمہوریت میں لوگوں کے ووٹ بہت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت سے افراد ان کی تاریخ اور اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔
آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں، لہٰذا اس مرحلے میں ہمیں بہت زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان ترقی کرے اور جن لوگوں کو ہم اپنے ووٹ دے رہے ہیں جو ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر کے مالک بننے والے ہیں وہ ہمارے ساتھ مخلص ہوں تبھی عام آدمی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، ابھی تو ہر فرد پریشان اور سوچوں میں گم ہے کہ کیا کیاجائے؟ کس کو چنا جائے، کون ہے جو مہنگائی، دہشت گردی، قتل وغارت گری، لوٹ مار سے نجات دلائے گا اور خوشحال پاکستان بنائے گا؟
ہمارے یہاں عوام کو جینے کا جمہوری حق دینے والی حکومت کب بنے گی؟ اس بات کا جواب کوئی نہیں دے سکتا ہے، عوام کو جمہوریت اسی وقت پسند آئے گی جب اشیائے خورونوش سستی ہوںگی، لوگوں کو روزگار ملے گا، دہشت گردی ختم ہوگی۔ ایسی جمہوریت جس میں عوام کے لیے اور ملک کے لیے مفید کام کیے جائیں نہ کہ اپنے اکائونٹ بھرے جائیں، پچھلے پانچ سال کی بد ترین جمہوریت اب عوام کو ہر گز نہیں چاہیے۔اقتدار کے چاہنے والوں کو انتخابات کے قریب جمہوریت کیوں یاد آجاتی ہے؟ جمہوریت اچھی چیز ہے اور ملک کو ترقی دیتی ہے مگر پچھلے پانچ سال کی جمہوریت تو جمہوریت کے نام پر بد ترین داغ تھی اب عوام اپنا حق چاہتے ہیں، اب وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا ہر شہری اپنا حق مانگے گا اب لوگوں کے اندر شعور بیدار ہوگیاہے وہ جانتے ہیں صحیح کیا اور غلط کیا ہے۔
اس وقت ملک تاریخی دور سے گزررہا ہے، اس وقت تمام سیاستدانوں کو بس فکر ہے تو اپنے اقتدار کی ہے کہ کیسے کرسی پر بیٹھا جائے، کیسے دوبارہ عوام کو بیوقوف بنایاجائے۔ پاکستان میں اس وقت بے شمار مسائل ہیں، ان میں سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے، اس پر تمام جماعتوں کو یکجا ہونا چاہیے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا، سیاسی جماعتوں کو اس وقت اتحاد کی بے حد ضرورت ہے، جمہوریت کا مزہ بھی اسی وقت آتاہے جب ساری سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہو اور ہر طرف سکون ہی سکون ہو، غریب عوام کے مسائل کو فوری حل کیاجاتاہو اور جمہوری دور میں ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جب جمہوریت کے لیے عوام سے ووٹ لیے جارہے ہیں، تو عوام کو اصل جمہوریت بھی دینی چاہیے جس سے عوام اور ملک خوشحال ہو نہ کہ سیاستدان صرف خوشحال رہے۔
جمہوریت کے نام پر عوام خوشی سے ووٹ تو دیتے ہیں پھر پانچ سال روتے رہتے ہیں جیسے کہ پچھلے پانچ برس عوام خوب ہی روئے ہیں ہر ایک فرد کے زبان پر بس ایک ہی بات تھی کیا ایسی جمہوریت ہوتی ہے؟جس نے عوام کو مسائل کے انبار میں دبادیا، پچھلی حکومت تو چلی گئی مگر اس کے باوجود عوام کی تقدیر نہیں بدلی ہے کیونکہ پچھلی حکومت کے اقدامات ہی کچھ اس طرح کے تھے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ابھی کافی وقت لگ جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے تاریخی الیکشن میں عوام اپنے ووٹ کس کو دیتے ہیں؟الیکشن کے بعد وہ کون سی سیاسی پارٹی ہوگی جو عوام کے ووٹ کے ذریعے ملک اور عوام کی تقدیر بنے گی؟عام غریب شہریوں کی جماعت ہوگی اور کیا وہ واقعی ملک اور عوام کو خوشحال بنادے گی؟ میں اور آپ ہم سب منتظر ہیں کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے بہت کامیابی لے کر آئے، ہر ایک کے لبوں پر اس وقت دعا ہے(اے اﷲ ہمارے پاکستان کو بچالے)
پچھلے پانچ سال میں جتنا پاکستان کو نقصان پہنچا ہے اب مزید نہ پہنچے، جمہوریت کے دور کے لیے عوام کے ووٹ کی بے حد اہمیت ہوتی ہے، آپ لوگ اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کے لیے اور ملک کے لیے بہترین رہنما ثابت ہوں، ملک کی تقدیر اب عوام کے ووٹوں میں چھپی ہوئی ہے، یہی ووٹ ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر کو اچھا بھی بناسکتے ہیں اور برا بھی بناسکتے ہیں، فیصلہ ہم عوام پر ہے کہ ہم کس کو ووٹ دیتے ہیں؟