تقسیم در تقسیم
عمران خان ملک بھر کی تین چار نشستوں سے زور آزمائی کرکے پاکستانیت کو پروان چڑھا سکتے ہیں، بھٹو اور نواز شریف کی طرح۔
ایک آدمی درزی کے پاس ایک میٹر کپڑا لے کر گیا اور کہا کہ اس کی پندرہ ٹوپیاں بنانی ہیں۔ درزی نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر اس آدمی نے سوچا اور کہا کہ پچیس ٹوپیاں بن سکتی ہیں؟ درزی نے کہا بن جائیں گی۔ وہ آدمی کپڑا دے کر دکان سے چلا گیا۔ پھر سوچ کر واپس آیا اور کہا کہ چالیس ٹوپیاں بن جائیں گی؟ درزی نے کہا کہ ٹھیک ہے بنا دوں گا۔ آدمی ذرا سا مسکرایا پھر تھوڑا سا جھجکا اور کہا پچاس ٹوپیاں بن جائیں گی؟ درزی نے کہا پچاس بنادوں گا۔ چند دن بعد وہ آدمی آیا تو موزے کی طرح کی پچاس ٹوپیاں سامنے تھیں۔
واقعہ یہاں آکر رک جاتا ہے۔ آدمی نے کہا ہوگا کہ یہ ٹوپیاں سر میں کس طرح پہنی جاسکتی ہیں، تو ممکن ہے دکاندار نے کہا ہو کہ ایک میٹر کپڑے میں پچاس ٹوپیاں تو اسی سائز کی ہوں گی۔ پاکستان بنا تو وہ بھی ایک صاف ستھرے کپڑے کی طرح کا تھا۔ ہم اس سے اسلام، وطن، ایثار، اخوت، پیار، خلوص کی چھ سات ٹوپیاں سی سکتے تھے۔ ہم نے آہستہ آہستہ تعداد بڑھانی شروع کردی۔ پندرہ سے پچیس اور پھر چالیس سے پچاس۔ یوں ہم نے نادان شخص کی طرح لالچ میں آکر کپڑے کو تقسیم در تقسیم کردیا۔
پاکستان میں 70ء کی انتخابی مہم سے دسویں انتخابات تک آتے آتے اور تقریباً نصف صدی گزار کر ہم نے اپنے نظریاتی چہرے کو کس طرح آلودہ کرلیا ہے؟ یہ ایک کرب ناک حقیقت ہے۔ قومیت، فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت میں اپنے آپ کو بری طرح تقسیم کرلیا ہے۔ روٹی کو چورا چورا کرلیا ہے، کپڑے کو تار تار کرلیا ہے یا گوشت کا قیمہ بنالیا ہے۔ ہم اتنے نازک طبع ہوگئے ہیں کہ بہتری کی کوئی تجویز سننے کو تیار نہیں۔
چھوٹے چھوٹے گروہ اور ٹولیاں نما پریشرز گروپ بن چکے ہیں۔ دکانداریاں ہیں کہ اپنا مال بیچنے کے لیے آوازیں لگائی جارہی ہیں۔ کوئی اور ''دکان'' کھولے تو اسے اپنے پیٹ پر لات لگنا سمجھ کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جائز ذرایع اختیار کیے جائیں تو کہا جاسکتا تھا کہ ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'' لیکن نہیں، ہر جائز اور ناجائز حربے سے فریق پر حملہ کرنا گوارا کرلیا جاتا ہے۔ عوام بھی تقسیم در تقسیم کا اس طرح شکار ہیں کہ بڑی اکثریت عقل کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اتنی بوجھل گفتگو کے بعد یہ لطیفہ حسب حال ہے۔
ایک بزرگوار کے گھر میں تقریباً نصف درجن بہو بیٹیاں تھیں۔ آج نہ جانے ٹیلر ماسٹرز خوش ہوں گے یا ناراض کہ دوسرا واقعہ بھی اتفاقاً ان ہی سے متعلق ہے۔ درزی نے ان صاحب کا پاجامہ دو انچ بڑا کردیا۔ جب زیادہ لمبا محسوس ہونے لگا تو بزرگوار نے تمام بہو بیٹیوں کے سامنے اپنی تکلیف بیان کی اور پاجامہ ہینگر پر لٹکا دیا۔ انھوں نے تمام خواتین سے کہا کہ جسے موقع ملے وہ یہ پاجامہ دو انچ کم کردے۔ گھر کی تمام بچیاں اپنے ابو یا سسر سے محبت کرتی تھیں۔ تمام کی تمام نے دو انچ پاجامے کا سائز کم کردیا، اب وہ پاجامہ کسی بڑے کے پہننے کے بجائے کسی بچے کا نیکر بن گیا۔
70ء میں مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم تو زبان اور حقوق کی بنا پر لڑی گئی جس کی بنیاد ملک کے مغربی حصے سے نفرت پر رکھی گئی تھی جب کہ مغربی پاکستان میں صورت حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں نظریاتی بنیاد اور پارٹی پروگرام کو موضوع بحث بنایا گیا تھا۔ عوام بظاہر تقسیم نظر آتے تھے لیکن سیاسی پارٹیوں نے اصول اور نظریے کا دامن تھامے رکھا۔ آہستہ آہستہ ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے گئے۔ کیسے؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے!
حفیظ جالندھری ہمارے قومی ترانے کے خالق ہیں۔ اتنے بڑے اعزاز کے حامل شخص ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ یہ وہ واقعہ ہے جسے امجد اسلام امجد بڑی محبت اور مزے سے لے کر سناتے ہیں۔ حفیظ نے ٹرین میں بیٹھے شخص کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ''میرا نام حفیظ ہے اور میں شاعر ہوں''۔ اس آدمی نے کوئی خاص جواب نہ دیا۔ حفیظ نے کہا کہ پاکستان کا قومی ترانہ میں نے لکھا ہے۔ وہ آدمی ریل کے باہر کے نظارے کرتا رہا۔ حفیظ نے کہا کہ ''شاہنامہ اسلام'' میں نے لکھی ہے۔ اس پر بھی اس آدمی کے چہرے کے تاثرات نہ بدلے۔ پھر حفیظ نے کہا کہ ''بندہ خدا میں حفیظ جالندھری ہوں۔
وہ شخص بڑی بے تابی سے ان کی طرف بڑھا اور کہا کہ ''خوشی ہے کہ آپ کا تعلق جالندھر سے ہے''۔ یہ ہے تقسیم در تقسیم کی صورت حال۔ ایک شخص کی قابلیت دھری کی دھری رہ گئی۔ ایک مسافر نے ایک بڑے شاعر کو اس وقت اہمیت دی جب اسے پتہ چلا کہ اس کا تعلق اس کے اپنے علاقے سے ہے۔ زمین، سرزمین، شہر و صوبے اور ملک و وطن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص اخلاق، کردار، تعلیم اور شرافت کو چھوڑ کر بداخلاق، بدکردار، جاہل اور شریر کو اس لیے ووٹ دے کر آجاتا ہے کہ اس کا تعلق اس کی برادری سے ہے۔
ہم زبان، ہم وطن اور ہم علاقہ ہونے کی اہمیت ہوتی ہے۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں اس شخص کو اپنا نمایندہ بناتی ہیں جو اس علاقے کی زبان، کلچر اور رسومات سے تعلق رکھتا ہو۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر زبان و علاقے کے لوگ بستے ہیں۔ زیادہ تر پارٹیاں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ پٹھانوں، سندھیوں، بلوچوں، اردو اسپیکنگ، میمنوں اور پنجابیوں کے علاقوں سے ان کو ٹکٹ دیں جو اس حلقہ انتخاب کی اکثریت کی زبان سمجھتا ہو۔ حمیداﷲ خان پختون اکثریت تو اسد اﷲ بھٹو سندھی اکثریتی علاقوں سے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ فاروق ستار، حسین محنتی، رشید گوڈیل، حبیب میمن اور حنیف طیب ان دو حلقوں سے انتخابات لڑتے ہیں جہاں میمنوں کو اکثریت ہے۔
اس کے باوجود کراچی سے اصغر خان اور شیرباز مزاری 77 کے انتخابات میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ بھٹو صاحب لاہور سے تو نواز شریف خیبرپختونخوا سے کامیابی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ ایم کیو ایم کا ارادہ نبیل گبول کو عزیز آباد سے ٹکٹ دینے کا ہے۔ یہ تقسیم در تقسیم کی نفی ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں اپنے دو مضبوط ترین امیدواروں کو ان کی آبائی نشست تبدیل کرکے انتخابات لڑاتیں تو یہ علاقائیت اور صوبہ پرستی کے بت کو توڑنے کا باعث بن سکتا تھا۔
امین فہیم سکھر سے اور خورشید شاہ ہالا سے فارم جمع کرواسکتے تھے۔ شہباز شریف پنڈی سے تو چوہدری نثار لاہور سے قسمت آزمائی کرسکتے تھے۔ یہ پرانی پارٹیوں کے پکی سیٹ کے امیدواروں کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ عوام کے ذہن سے علاقائی ذہنیت کو خارج کریں۔ عمران خان ملک بھر کی تین چار نشستوں سے زور آزمائی کرکے پاکستانیت کو پروان چڑھا سکتے ہیں، بھٹو اور نواز شریف کی طرح۔
ٹی وی چینلز اپنے چٹکلوں اور خاکوں کے ذریعے عوام کو میرٹ پر ووٹ دینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ جب اپنی مرضی کے خلاف لباس نہیں پہنا جاسکتا یا بال نہیں بنوائے جاسکتے تو اپنی مرضی کے خلاف غلط شخص کو ووٹ کیوں دیں۔ اگر عوام میرٹ پر ووٹ دیں تو توڑا جاسکتا ہے وہ بت جس نے ہمیں کردیا ہے تقسیم در تقسیم۔
واقعہ یہاں آکر رک جاتا ہے۔ آدمی نے کہا ہوگا کہ یہ ٹوپیاں سر میں کس طرح پہنی جاسکتی ہیں، تو ممکن ہے دکاندار نے کہا ہو کہ ایک میٹر کپڑے میں پچاس ٹوپیاں تو اسی سائز کی ہوں گی۔ پاکستان بنا تو وہ بھی ایک صاف ستھرے کپڑے کی طرح کا تھا۔ ہم اس سے اسلام، وطن، ایثار، اخوت، پیار، خلوص کی چھ سات ٹوپیاں سی سکتے تھے۔ ہم نے آہستہ آہستہ تعداد بڑھانی شروع کردی۔ پندرہ سے پچیس اور پھر چالیس سے پچاس۔ یوں ہم نے نادان شخص کی طرح لالچ میں آکر کپڑے کو تقسیم در تقسیم کردیا۔
پاکستان میں 70ء کی انتخابی مہم سے دسویں انتخابات تک آتے آتے اور تقریباً نصف صدی گزار کر ہم نے اپنے نظریاتی چہرے کو کس طرح آلودہ کرلیا ہے؟ یہ ایک کرب ناک حقیقت ہے۔ قومیت، فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت میں اپنے آپ کو بری طرح تقسیم کرلیا ہے۔ روٹی کو چورا چورا کرلیا ہے، کپڑے کو تار تار کرلیا ہے یا گوشت کا قیمہ بنالیا ہے۔ ہم اتنے نازک طبع ہوگئے ہیں کہ بہتری کی کوئی تجویز سننے کو تیار نہیں۔
چھوٹے چھوٹے گروہ اور ٹولیاں نما پریشرز گروپ بن چکے ہیں۔ دکانداریاں ہیں کہ اپنا مال بیچنے کے لیے آوازیں لگائی جارہی ہیں۔ کوئی اور ''دکان'' کھولے تو اسے اپنے پیٹ پر لات لگنا سمجھ کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جائز ذرایع اختیار کیے جائیں تو کہا جاسکتا تھا کہ ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'' لیکن نہیں، ہر جائز اور ناجائز حربے سے فریق پر حملہ کرنا گوارا کرلیا جاتا ہے۔ عوام بھی تقسیم در تقسیم کا اس طرح شکار ہیں کہ بڑی اکثریت عقل کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اتنی بوجھل گفتگو کے بعد یہ لطیفہ حسب حال ہے۔
ایک بزرگوار کے گھر میں تقریباً نصف درجن بہو بیٹیاں تھیں۔ آج نہ جانے ٹیلر ماسٹرز خوش ہوں گے یا ناراض کہ دوسرا واقعہ بھی اتفاقاً ان ہی سے متعلق ہے۔ درزی نے ان صاحب کا پاجامہ دو انچ بڑا کردیا۔ جب زیادہ لمبا محسوس ہونے لگا تو بزرگوار نے تمام بہو بیٹیوں کے سامنے اپنی تکلیف بیان کی اور پاجامہ ہینگر پر لٹکا دیا۔ انھوں نے تمام خواتین سے کہا کہ جسے موقع ملے وہ یہ پاجامہ دو انچ کم کردے۔ گھر کی تمام بچیاں اپنے ابو یا سسر سے محبت کرتی تھیں۔ تمام کی تمام نے دو انچ پاجامے کا سائز کم کردیا، اب وہ پاجامہ کسی بڑے کے پہننے کے بجائے کسی بچے کا نیکر بن گیا۔
70ء میں مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم تو زبان اور حقوق کی بنا پر لڑی گئی جس کی بنیاد ملک کے مغربی حصے سے نفرت پر رکھی گئی تھی جب کہ مغربی پاکستان میں صورت حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں نظریاتی بنیاد اور پارٹی پروگرام کو موضوع بحث بنایا گیا تھا۔ عوام بظاہر تقسیم نظر آتے تھے لیکن سیاسی پارٹیوں نے اصول اور نظریے کا دامن تھامے رکھا۔ آہستہ آہستہ ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے گئے۔ کیسے؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے!
حفیظ جالندھری ہمارے قومی ترانے کے خالق ہیں۔ اتنے بڑے اعزاز کے حامل شخص ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ یہ وہ واقعہ ہے جسے امجد اسلام امجد بڑی محبت اور مزے سے لے کر سناتے ہیں۔ حفیظ نے ٹرین میں بیٹھے شخص کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ''میرا نام حفیظ ہے اور میں شاعر ہوں''۔ اس آدمی نے کوئی خاص جواب نہ دیا۔ حفیظ نے کہا کہ پاکستان کا قومی ترانہ میں نے لکھا ہے۔ وہ آدمی ریل کے باہر کے نظارے کرتا رہا۔ حفیظ نے کہا کہ ''شاہنامہ اسلام'' میں نے لکھی ہے۔ اس پر بھی اس آدمی کے چہرے کے تاثرات نہ بدلے۔ پھر حفیظ نے کہا کہ ''بندہ خدا میں حفیظ جالندھری ہوں۔
وہ شخص بڑی بے تابی سے ان کی طرف بڑھا اور کہا کہ ''خوشی ہے کہ آپ کا تعلق جالندھر سے ہے''۔ یہ ہے تقسیم در تقسیم کی صورت حال۔ ایک شخص کی قابلیت دھری کی دھری رہ گئی۔ ایک مسافر نے ایک بڑے شاعر کو اس وقت اہمیت دی جب اسے پتہ چلا کہ اس کا تعلق اس کے اپنے علاقے سے ہے۔ زمین، سرزمین، شہر و صوبے اور ملک و وطن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص اخلاق، کردار، تعلیم اور شرافت کو چھوڑ کر بداخلاق، بدکردار، جاہل اور شریر کو اس لیے ووٹ دے کر آجاتا ہے کہ اس کا تعلق اس کی برادری سے ہے۔
ہم زبان، ہم وطن اور ہم علاقہ ہونے کی اہمیت ہوتی ہے۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں اس شخص کو اپنا نمایندہ بناتی ہیں جو اس علاقے کی زبان، کلچر اور رسومات سے تعلق رکھتا ہو۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر زبان و علاقے کے لوگ بستے ہیں۔ زیادہ تر پارٹیاں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ پٹھانوں، سندھیوں، بلوچوں، اردو اسپیکنگ، میمنوں اور پنجابیوں کے علاقوں سے ان کو ٹکٹ دیں جو اس حلقہ انتخاب کی اکثریت کی زبان سمجھتا ہو۔ حمیداﷲ خان پختون اکثریت تو اسد اﷲ بھٹو سندھی اکثریتی علاقوں سے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ فاروق ستار، حسین محنتی، رشید گوڈیل، حبیب میمن اور حنیف طیب ان دو حلقوں سے انتخابات لڑتے ہیں جہاں میمنوں کو اکثریت ہے۔
اس کے باوجود کراچی سے اصغر خان اور شیرباز مزاری 77 کے انتخابات میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ بھٹو صاحب لاہور سے تو نواز شریف خیبرپختونخوا سے کامیابی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ ایم کیو ایم کا ارادہ نبیل گبول کو عزیز آباد سے ٹکٹ دینے کا ہے۔ یہ تقسیم در تقسیم کی نفی ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں اپنے دو مضبوط ترین امیدواروں کو ان کی آبائی نشست تبدیل کرکے انتخابات لڑاتیں تو یہ علاقائیت اور صوبہ پرستی کے بت کو توڑنے کا باعث بن سکتا تھا۔
امین فہیم سکھر سے اور خورشید شاہ ہالا سے فارم جمع کرواسکتے تھے۔ شہباز شریف پنڈی سے تو چوہدری نثار لاہور سے قسمت آزمائی کرسکتے تھے۔ یہ پرانی پارٹیوں کے پکی سیٹ کے امیدواروں کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ عوام کے ذہن سے علاقائی ذہنیت کو خارج کریں۔ عمران خان ملک بھر کی تین چار نشستوں سے زور آزمائی کرکے پاکستانیت کو پروان چڑھا سکتے ہیں، بھٹو اور نواز شریف کی طرح۔
ٹی وی چینلز اپنے چٹکلوں اور خاکوں کے ذریعے عوام کو میرٹ پر ووٹ دینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ جب اپنی مرضی کے خلاف لباس نہیں پہنا جاسکتا یا بال نہیں بنوائے جاسکتے تو اپنی مرضی کے خلاف غلط شخص کو ووٹ کیوں دیں۔ اگر عوام میرٹ پر ووٹ دیں تو توڑا جاسکتا ہے وہ بت جس نے ہمیں کردیا ہے تقسیم در تقسیم۔