چکوالNA60‘NA61 عوام پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن دونوں سے نالاں
ضلعی حکومتیں منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں، عوام آج بھی ضلعی حکومتوں کو سنہری دور کے طور پر گردانتے ہیں۔
ضلع چکوال میں قومی اسمبلی کی دوسیٹیں این اے 60 اوراین اے 61 جبکہ صوبائی اسمبلی کی چارسیٹیں ، پی پی ۔20پی پی۔21پی پی ۔22 اورپی پی۔23 شامل ہیں۔
2008 ء کے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے پاکستان مسلم لیگ ن کے چوہدری ایاز امیر ایک لاکھ25ہزار 421 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،دوسر ے نمبر پر سردار نواب خان آف کوٹ چوہدریاں رہے تھے،انہوںنے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر91ہزار 207 ووٹ حاصل کیے تھے،تیسرے نمبر پرپیپلزپارٹی کی محترمہ فوزیہ بہرام تھیں جنہوں نے24ہزار 545 لیے تھے۔قومی اسمبلی کے دوسرے حلقہ این اے 61 چکوال II پر مسلم لیگ (ن) کے سردار فیض ٹمن نے کامیابی حاصل کی تھی انہیں91ہزار 979 ملے تھے،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی91ہزار 684 ووٹ لے کر شکست سے دوچار ہوئے تھے۔
تیسرے نمبر پر پی پی پی کے سردار ممتاز ٹمن تھے جنہیں 37978 ووٹ ملے تھے۔پی پی 20 چکوال I سے مسلم لیگ (ن) کی چوہدری عفت لیاقت 50039 ووٹ حاصل کر کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں ۔دوسرے نمبر پرمسلم لیگ (ق) کے چوہدری اعجاز حسین فرحت رہے جنہیں 42966 ووٹ ملے۔ پی پی 21چکوال II سے ملک تنویر اسلم مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 57448 لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ (ق) کے پیر شوکت حسین رہے جنہیں 44156 ووٹ ملے۔
پی پی 22 چکوال III سے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سردار خرم نواب 42747 ووٹ حاصل کر کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پر پیر نثار قاسم جوجی رہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا انہیں 34653 ووٹ ملے۔ پی پی 23 چکوال IV سے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پرملک ظہور انور 44974 ووٹ حاصل کرکے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پر کرنل (ر) سلطان سرخرورہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھاانہیں 41957 ووٹ ملے۔
2002 ء کے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے مسلم لیگ (ق) و سردار گروپ کے مشترکہ امیدوارمیجر (ر) طاہراقبال ملک 72133 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے چوہدری ایاز امیر رہے جنہیں 69825 ووٹ حاصل ہوئے۔ این اے 61 چکوال II سے آزادامیدوارسردار فیض ٹمن کامیاب ہوئے ان کا سردار غلام عباس گروپ سے تعلق تھا،انہوںنے ایک لاکھ ایک ہزارسات ووٹ لیے،دوسرے نمبر پر آنے والے سردار منصور حیات ٹمن نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 75557 ووٹ حاصل کرسکے تھے حلقہ پی پی 20 چکوال I سے سردار غلام عباس گروپ اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری اعجاز حسین فرحت کامیاب ہوئے۔
انہوںنے 41161 ووٹ لیے،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کی چوہدری عفت لیاقت رہیں جنہیں 36794 ووٹ ملے۔ پی پی 21 چکوال II سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے امیدوار ملک تنویر اسلم کامیاب ہوئے،انہیں 35564 ملے،دوسرے نمبر پر پیر شوکت حسین کرولی رہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا اور 35418 ووٹ لے کر شکست سے دوچار ہوئے۔ پی پی 22 چکوال III سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے امیدوارسید تقلید رضا شاہ 48024 ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے سردار ذوالفقار دولہہ رہے جنہوں نے 28715 ووٹ لیے ۔
پی پی 23 چکوال IV سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے مشترکہ امیدوارکرنل (ر) سلطان سرخرو 54962 لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) کے ملک ظہور انوررہے جنہیں 43191 ووٹ ملے۔اب گیارہ مئی کوہونے والے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری ایاز امیر نے کاغذات نامزدگی جمع کروا ئے جوریٹرننگ افسرنے مستردکردیئے،وہ اب ایپلٹ ٹریبیونل میں اپیل کرینگے ،تاہم مسلم لیگ ن کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) قیوم ملک ، میجر طاہر اقبال ملک اور چوہدری لیاقت علی خان بھی امیدوارہیں،ان میں سے کسی ایک کوٹکٹ کا فیصلہ ابھی ہوناہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ ثنا ء الحق ایڈووکیٹ نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔اس نشست پراب پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے مشترکہ امیدوار سردار غلام عباس جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجہ یاسر سرفراز ہونگے۔جماعت اسلامی کے ملک محمود حسین اعوان ملک عامر نذر اعوان ایم کیو ایم اور محمد طفیل آزاد نے بھی کاغذات داخل کروائے ہیں،این اے 61 چکوال II سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امید وار سردار ممتاز ٹمن نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔ان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ق) ،سردار گروپ اور پی پی پی کے متفقہ امید وار چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا۔
اس حلقے سے چودھری پرویزالٰہی کے بیٹے راسخ الٰہی نے بھی کاغذات جمع کروائے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار فیض ٹمن نے بھی اس حلقہ سے کاغذات نامزدگی داخل کروا دیئے ہیں لیکن ان کی ڈگری کا مسئلہ درپیش ہے،سردار منصور حیات نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کروائے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے مولانا محمد امیر اور نور محمد بھی اس حلقہ سے امیدوارہیں۔
PP-20' چکوال I
پرپاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری لیاقت علی خان،پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری محمد علی خان ،پاکستان تحریک انصاف چوہدری علی ناصر بھٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ شاہ جہان سرفراز امیدوارہونگے۔شیخ وقار علی نے بھی آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی داخل کروا ئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے راشد گل بھی امیدوارہیں۔حلقہ پی پی 21 چکوال II میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ملک تنویر اسلم سیٹھی،پاکستان تحریک انصاف کے پیر شوکت حسین کرولی ،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے مشترکہ امیدوار ملک اختر شہباز ،پی پی پی کے ملک اسد نواز اور جماعت اسلامی کے ملک محمود حسین اعوان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔
PP-22 'چکوال III
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ذوالفقار دولہہ ،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے امیدوار سردار خرم نواب اور پیر نثار قاسم، پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ فوزیہ بہرام نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کروا ئے ہیں، آزاد حیثیت میں سردار غلام عباس اور کرنل (ر) سردار ذوالفقار حسین بھی امیدوار ہیں۔ جماعت اسلامی کے حق نواز ، محمد طفیل آزاد ، ڈاکٹر علی حسنین پی پی پی نے بھی کاغذات داخل کروائے ہیں ۔
PP-23' چکوال IV
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک ظہور انور اور حبیب الرحمن،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے سردار امجد الیاس،پاکستان تحریک انصاف کے کرنل (ر) سلطان سرخرو جبکہ پروفیسرڈاکٹر حمید اللہ نے بھی کاغذات داخل کروا دیئے ہیں ۔ ضلع میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیاجائے توسب سے زیادہ ترقی 2002 ء سے 2008 ء تک ہوئی۔ 2002ء میں چونکہ ضلعی حکومتوں کا نظام چل رہا تھا لہذاتمام ترقیاتی منصوبے ناظم ضلع کی وساطت سے پایہ تکمیل تک پہنچ رہے تھے۔
اس دوران ضلع چکوال میں 22 ارب سے زائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے جن میں تعلیم کے میدان میں گورنمنٹ ڈگری کالج چکوال اور گرلز ڈگری کالج چکوال اور ڈگری کالج بوائز اور گرلز ڈگری کالج تلاگنگ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لئے اضافی بلاکس کی تعمیرہوئی، چوآسیدن شاہ ، ڈھڈیال اور بلکسر میں انٹر کالجوں کا قیام، 330 سے زائد مڈل اورپرائمری سکولوں کی اپ گریڈیشن ، نجی شعبہ کے تعاون سے ٹیکسلا انجینئرنگ یونیورسٹی کیمپس کا قیام اور پولی ٹیکنیکل کالج کا قیام،زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لئے مخیر حضرات کے تعاون سے کروڑوں روپے کی اراضی کی فراہمی شامل تھی۔
محکمہ صحت کے شعبہ میں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ایمرجنسی بلاک کی تعمیر اور اس کی اپ گریڈیشن ڈائیلاسز مشینری کی تنصیب ،تلاگنگ کے ہسپتال میں اضافی بلاک کی تعمیر نجی شعبہ کے تعاون سے مریضوں کا مفت علاج اور ڈائیلاسز کی سہولت فراہم کی گئی۔ ضلع چکوال میں کروڑوں کی لاگت سے 8 سمال ڈیمز کی تعمیر، ضلع بھر میں سڑکوں کی تعمیر اور تین ارب روپے کی لاگت سے سوہاوہ سے میانوالی تک مرکزی شاہراہ کی تعمیر ،کیڈٹ کالج کی تعمیر، چکوال شہر میں سیوریج کا منصوبہ، زراعت کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے ٹربائن اور زرعی آلات کی فراہمی، ہر یونین کونسل میں ایک ایک ٹریکٹر اور لیزر مشین فراہم کر کے زمینداروں کو ارزاں نرخوں پر کاشت کاری کے لئییہ سہولت دی گئی۔
شہری اور دیہی علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر گویا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا کہ جس میں ترقی نہ ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ ضلع چکوال میں نجی شعبہ میں 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے صنعتوں کا قیام بھی ضلعی حکومت کا کارنامہ تھا۔ اس کا تمام تر کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ضلعی ناظم سردار غلام عباس کو جاتا ہے، جن کی کاوشوں سے شب وروز کی محنت سے چکوال کا شمار ترقی یافتہ اضلاع میں ہونے لگا ہے۔ اس دور میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی صرف اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی سفارشات دے سکتے تھے۔
ضلعی حکومتیں منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ضلعی حکومتوں کے دور کو آج بھی عوام یاد کر کے اسے سنہری دور کے طور پر گردانتے ہیں۔ 2008 ء کے انتخابات کے بعد چونکہ ضلعی حکومتوں کو محدود کر دیا گیا تھا بلکہ مکمل طور پر ختم ہی کر دیا گیا۔گزشتہ پانچ برس کے عرصہ میں اس ضلع کی بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب مرکز میں پی پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں قائم ہوئیں چونکہ مرکزی سطح پر حکومت کی طرف سے اس لئے فنڈز فراہم نہ ہوسکے کہ منتخب ہونے والے دونوں اراکین اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے تھا جبکہ صوبائی سطح پر بھی دو اراکین اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا ان کو بھی فنڈز نہیں مل سکے۔
رہی سہی کسر مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نے کردی اورترقی کا پہیہ مکمل طور پر جام ہو کر رہ گیا ۔البتہ رکن قومی اسمبلی چوہدری ایاز امیر نے اپنی ذہانت اور اثرو رسوخ سے مرکز ی سطح پر بجلی سوئی گیس اور مرکزی محکموں سے کروڑوں کے فنڈز حاصل کر کے ترقیاتی کام کروائے ہیں،اس کے علاوہ چکوال میں پاسپورٹ دفتر کا قیام عمل میں لاکر اس ضلع کے عوام کو گھر وں کی دہلیز پر ہی پاسپورٹ بنوانے اور تجدید کروانے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔
سر دست عوام مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں سے نالاں ہیں لیکن شائد مرکزی قائدین کے جلسوں اور مسلم لیگی امیدواروں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمہ سے ان کی پوزیشن عوام میں بہتر ہو سکے اور یہ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی جانب راغب کر سکیں، بصورت دیگر دوسری جماعتوں کا کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
2008 ء کے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے پاکستان مسلم لیگ ن کے چوہدری ایاز امیر ایک لاکھ25ہزار 421 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،دوسر ے نمبر پر سردار نواب خان آف کوٹ چوہدریاں رہے تھے،انہوںنے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر91ہزار 207 ووٹ حاصل کیے تھے،تیسرے نمبر پرپیپلزپارٹی کی محترمہ فوزیہ بہرام تھیں جنہوں نے24ہزار 545 لیے تھے۔قومی اسمبلی کے دوسرے حلقہ این اے 61 چکوال II پر مسلم لیگ (ن) کے سردار فیض ٹمن نے کامیابی حاصل کی تھی انہیں91ہزار 979 ملے تھے،ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی91ہزار 684 ووٹ لے کر شکست سے دوچار ہوئے تھے۔
تیسرے نمبر پر پی پی پی کے سردار ممتاز ٹمن تھے جنہیں 37978 ووٹ ملے تھے۔پی پی 20 چکوال I سے مسلم لیگ (ن) کی چوہدری عفت لیاقت 50039 ووٹ حاصل کر کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں ۔دوسرے نمبر پرمسلم لیگ (ق) کے چوہدری اعجاز حسین فرحت رہے جنہیں 42966 ووٹ ملے۔ پی پی 21چکوال II سے ملک تنویر اسلم مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 57448 لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ (ق) کے پیر شوکت حسین رہے جنہیں 44156 ووٹ ملے۔
پی پی 22 چکوال III سے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سردار خرم نواب 42747 ووٹ حاصل کر کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پر پیر نثار قاسم جوجی رہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا انہیں 34653 ووٹ ملے۔ پی پی 23 چکوال IV سے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پرملک ظہور انور 44974 ووٹ حاصل کرکے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پر کرنل (ر) سلطان سرخرورہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھاانہیں 41957 ووٹ ملے۔
2002 ء کے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے مسلم لیگ (ق) و سردار گروپ کے مشترکہ امیدوارمیجر (ر) طاہراقبال ملک 72133 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے چوہدری ایاز امیر رہے جنہیں 69825 ووٹ حاصل ہوئے۔ این اے 61 چکوال II سے آزادامیدوارسردار فیض ٹمن کامیاب ہوئے ان کا سردار غلام عباس گروپ سے تعلق تھا،انہوںنے ایک لاکھ ایک ہزارسات ووٹ لیے،دوسرے نمبر پر آنے والے سردار منصور حیات ٹمن نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 75557 ووٹ حاصل کرسکے تھے حلقہ پی پی 20 چکوال I سے سردار غلام عباس گروپ اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری اعجاز حسین فرحت کامیاب ہوئے۔
انہوںنے 41161 ووٹ لیے،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کی چوہدری عفت لیاقت رہیں جنہیں 36794 ووٹ ملے۔ پی پی 21 چکوال II سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے امیدوار ملک تنویر اسلم کامیاب ہوئے،انہیں 35564 ملے،دوسرے نمبر پر پیر شوکت حسین کرولی رہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا اور 35418 ووٹ لے کر شکست سے دوچار ہوئے۔ پی پی 22 چکوال III سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے امیدوارسید تقلید رضا شاہ 48024 ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے،دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے سردار ذوالفقار دولہہ رہے جنہوں نے 28715 ووٹ لیے ۔
پی پی 23 چکوال IV سے مسلم لیگ (ق) اور سردار غلام عباس گروپ کے مشترکہ امیدوارکرنل (ر) سلطان سرخرو 54962 لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) کے ملک ظہور انوررہے جنہیں 43191 ووٹ ملے۔اب گیارہ مئی کوہونے والے انتخابات میں این اے 60 چکوال I سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری ایاز امیر نے کاغذات نامزدگی جمع کروا ئے جوریٹرننگ افسرنے مستردکردیئے،وہ اب ایپلٹ ٹریبیونل میں اپیل کرینگے ،تاہم مسلم لیگ ن کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) قیوم ملک ، میجر طاہر اقبال ملک اور چوہدری لیاقت علی خان بھی امیدوارہیں،ان میں سے کسی ایک کوٹکٹ کا فیصلہ ابھی ہوناہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ ثنا ء الحق ایڈووکیٹ نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔اس نشست پراب پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے مشترکہ امیدوار سردار غلام عباس جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجہ یاسر سرفراز ہونگے۔جماعت اسلامی کے ملک محمود حسین اعوان ملک عامر نذر اعوان ایم کیو ایم اور محمد طفیل آزاد نے بھی کاغذات داخل کروائے ہیں،این اے 61 چکوال II سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امید وار سردار ممتاز ٹمن نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔ان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ق) ،سردار گروپ اور پی پی پی کے متفقہ امید وار چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا۔
اس حلقے سے چودھری پرویزالٰہی کے بیٹے راسخ الٰہی نے بھی کاغذات جمع کروائے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار فیض ٹمن نے بھی اس حلقہ سے کاغذات نامزدگی داخل کروا دیئے ہیں لیکن ان کی ڈگری کا مسئلہ درپیش ہے،سردار منصور حیات نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کروائے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے مولانا محمد امیر اور نور محمد بھی اس حلقہ سے امیدوارہیں۔
PP-20' چکوال I
پرپاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری لیاقت علی خان،پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری محمد علی خان ،پاکستان تحریک انصاف چوہدری علی ناصر بھٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ شاہ جہان سرفراز امیدوارہونگے۔شیخ وقار علی نے بھی آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی داخل کروا ئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے راشد گل بھی امیدوارہیں۔حلقہ پی پی 21 چکوال II میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ملک تنویر اسلم سیٹھی،پاکستان تحریک انصاف کے پیر شوکت حسین کرولی ،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے مشترکہ امیدوار ملک اختر شہباز ،پی پی پی کے ملک اسد نواز اور جماعت اسلامی کے ملک محمود حسین اعوان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔
PP-22 'چکوال III
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ذوالفقار دولہہ ،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے امیدوار سردار خرم نواب اور پیر نثار قاسم، پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ فوزیہ بہرام نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کروا ئے ہیں، آزاد حیثیت میں سردار غلام عباس اور کرنل (ر) سردار ذوالفقار حسین بھی امیدوار ہیں۔ جماعت اسلامی کے حق نواز ، محمد طفیل آزاد ، ڈاکٹر علی حسنین پی پی پی نے بھی کاغذات داخل کروائے ہیں ۔
PP-23' چکوال IV
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک ظہور انور اور حبیب الرحمن،پاکستان مسلم لیگ (ق) اور سردار گروپ کے سردار امجد الیاس،پاکستان تحریک انصاف کے کرنل (ر) سلطان سرخرو جبکہ پروفیسرڈاکٹر حمید اللہ نے بھی کاغذات داخل کروا دیئے ہیں ۔ ضلع میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیاجائے توسب سے زیادہ ترقی 2002 ء سے 2008 ء تک ہوئی۔ 2002ء میں چونکہ ضلعی حکومتوں کا نظام چل رہا تھا لہذاتمام ترقیاتی منصوبے ناظم ضلع کی وساطت سے پایہ تکمیل تک پہنچ رہے تھے۔
اس دوران ضلع چکوال میں 22 ارب سے زائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے جن میں تعلیم کے میدان میں گورنمنٹ ڈگری کالج چکوال اور گرلز ڈگری کالج چکوال اور ڈگری کالج بوائز اور گرلز ڈگری کالج تلاگنگ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے لئے اضافی بلاکس کی تعمیرہوئی، چوآسیدن شاہ ، ڈھڈیال اور بلکسر میں انٹر کالجوں کا قیام، 330 سے زائد مڈل اورپرائمری سکولوں کی اپ گریڈیشن ، نجی شعبہ کے تعاون سے ٹیکسلا انجینئرنگ یونیورسٹی کیمپس کا قیام اور پولی ٹیکنیکل کالج کا قیام،زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لئے مخیر حضرات کے تعاون سے کروڑوں روپے کی اراضی کی فراہمی شامل تھی۔
محکمہ صحت کے شعبہ میں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ایمرجنسی بلاک کی تعمیر اور اس کی اپ گریڈیشن ڈائیلاسز مشینری کی تنصیب ،تلاگنگ کے ہسپتال میں اضافی بلاک کی تعمیر نجی شعبہ کے تعاون سے مریضوں کا مفت علاج اور ڈائیلاسز کی سہولت فراہم کی گئی۔ ضلع چکوال میں کروڑوں کی لاگت سے 8 سمال ڈیمز کی تعمیر، ضلع بھر میں سڑکوں کی تعمیر اور تین ارب روپے کی لاگت سے سوہاوہ سے میانوالی تک مرکزی شاہراہ کی تعمیر ،کیڈٹ کالج کی تعمیر، چکوال شہر میں سیوریج کا منصوبہ، زراعت کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے ٹربائن اور زرعی آلات کی فراہمی، ہر یونین کونسل میں ایک ایک ٹریکٹر اور لیزر مشین فراہم کر کے زمینداروں کو ارزاں نرخوں پر کاشت کاری کے لئییہ سہولت دی گئی۔
شہری اور دیہی علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر گویا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا کہ جس میں ترقی نہ ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ ضلع چکوال میں نجی شعبہ میں 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے صنعتوں کا قیام بھی ضلعی حکومت کا کارنامہ تھا۔ اس کا تمام تر کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ضلعی ناظم سردار غلام عباس کو جاتا ہے، جن کی کاوشوں سے شب وروز کی محنت سے چکوال کا شمار ترقی یافتہ اضلاع میں ہونے لگا ہے۔ اس دور میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی صرف اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی سفارشات دے سکتے تھے۔
ضلعی حکومتیں منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ضلعی حکومتوں کے دور کو آج بھی عوام یاد کر کے اسے سنہری دور کے طور پر گردانتے ہیں۔ 2008 ء کے انتخابات کے بعد چونکہ ضلعی حکومتوں کو محدود کر دیا گیا تھا بلکہ مکمل طور پر ختم ہی کر دیا گیا۔گزشتہ پانچ برس کے عرصہ میں اس ضلع کی بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب مرکز میں پی پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں قائم ہوئیں چونکہ مرکزی سطح پر حکومت کی طرف سے اس لئے فنڈز فراہم نہ ہوسکے کہ منتخب ہونے والے دونوں اراکین اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے تھا جبکہ صوبائی سطح پر بھی دو اراکین اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا ان کو بھی فنڈز نہیں مل سکے۔
رہی سہی کسر مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نے کردی اورترقی کا پہیہ مکمل طور پر جام ہو کر رہ گیا ۔البتہ رکن قومی اسمبلی چوہدری ایاز امیر نے اپنی ذہانت اور اثرو رسوخ سے مرکز ی سطح پر بجلی سوئی گیس اور مرکزی محکموں سے کروڑوں کے فنڈز حاصل کر کے ترقیاتی کام کروائے ہیں،اس کے علاوہ چکوال میں پاسپورٹ دفتر کا قیام عمل میں لاکر اس ضلع کے عوام کو گھر وں کی دہلیز پر ہی پاسپورٹ بنوانے اور تجدید کروانے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔
سر دست عوام مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں سے نالاں ہیں لیکن شائد مرکزی قائدین کے جلسوں اور مسلم لیگی امیدواروں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمہ سے ان کی پوزیشن عوام میں بہتر ہو سکے اور یہ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی جانب راغب کر سکیں، بصورت دیگر دوسری جماعتوں کا کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔