نوشہرہ NA5 ماضی میں نامور شخصیات اس حلقہ سے منتخب ہوتی رہیں

ماضی کی طرح 2013 کے انتخابات میں بھی این اے 5 پر سخت اور سنسنی خیز مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔


جہانزیب خٹک April 07, 2013
۔2008 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے طارق خٹک کامیاب ہوئے تھے۔ فوٹو: فال

این اے 5 نوشہرہ کی قومی اسمبلی کی نشست میں صوبائی اسمبلی کے دوحلقے پی کے 12اورپی کے13شامل ہیں۔

2002 ء میں کی گئی نئی حلقہ بندیوں سے قبل یہ حلقہ این اے 4 تھا۔ اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر میجرجنرل(ر)نصیراللہ بابر،اے این پی کے سربراہ اجمل خٹک، امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اورجے یوآئی کے امیرمولانا سمیع الحق کے والدمولانا عبدالحق جیسی بڑی شخصیات منتخب ہوچکی ہیں۔

2008 ء کے انتخابات میں اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداددولاکھ 63 ہزار153تھی،جن میں سے 97 ہزار271 ووٹ پول ہوئے، 2701 ووٹ مسترد کیے گئے اور پولنگ کی شرح 36.96 فیصد رہی ۔2008 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے انجنیئر محمد طارق خٹک 31907 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے طارق حمید خٹک نے 29572 ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی ،مسلم لیگ(ق)کے میاں یحیٰ شاہ کاکاخیل کو 17397 ،(ن)لیگ کے اشتیاق احمد ایڈووکیٹ کو 4229 جبکہ ایم ایم اے کے مفتی محمد سجاد کو 9192 ووٹ ملے۔

مئی 2013 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کی جانب سے ایک مرتبہ انجنیئر طارق خٹک کو ہی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے ،حالانکہ اس نشست کے لیے پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی صدر سنیٹر سردارعلی خان کے صاحبزادے بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے،عوامی نیشنل پارٹی اس نشست پر دائود خٹک کو سامنے لائی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پرویز خٹک اس نشست پر امیدوار ہیں ،جماعت اسلامی کی جانب سے جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی امیدوارہیں ،جمیعت علماء اسلام(ف)نے تاحال اس حلقہ سے کوئی نامزدگی نہیں کی جبکہ مسلم لیگ(ن)نے پیر نبی یامین کو نامزد کیا ہے ۔



ضلع نوشہرہ اب قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 5 اور این اے 6 پر مشتمل ہے ،1997 ء کے انتخابات تک قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقہ این اے 4 پر مشتمل تھا۔اب ضلع نوشہرہ میں کل رجسٹڑد ووٹروں کی تعداد 6 لاکھ 20 ہزار546 ہے جن میں این اے 5 کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 3 لاکھ25 ہزار813 ہیں جن میں مرد ووٹرز 1لاکھ 82ہزار452 اور خواتین ووٹرز 1لاکھ 43ہزار361 ہیں ۔پچھلے انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو1988 ء کے انتخابات این اے 4 نوشہرہ کے لیے انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوئے جہاں قومی اسمبلی کے اس حلقہ پر ہارجیت صرف 85 ووٹوں سے ہوئی اور جیت پیپلزپارٹی کے حصہ میں آئی.

پیپلز پارٹی کے میاں مظفر شاہ نے یہ کامیابی 27902 ووٹ حاصل کرکے سمیٹی جبکہ ان کے مقابلے میں اے این پی کے احرار خٹک کو 27817 ووٹ ملے اور آئی جے آئی کے امیدوار مولانا انوار الحق کے حصہ میں 16439 ووٹ آئے ۔

1990 ء کے انتخابات میں این اے 4 سے این اے پی کی جانب سے پارٹی کے سینئر رہنما محمد اجمل خان خٹک جبکہ پیپلزڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے پرویز خان خٹک کو مقابلے کے لیے میدان میں اتارا گیا، جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں ،جمیعت علماء اسلام(ف)نے مولانا شیر علی شاہ کو میدان میں اتارا، تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے محمد اجمل خٹک 38389 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ ان کے مقابلے میں پی ڈی اے کے پرویز خان خٹک کو 25722 ووٹ ملے ،جے یو آئی کے مولانا شیر علی شاہ کے حصہ میں 13961 جبکہ آزاد امیدوار محمد امین خٹک کو 3639 ووٹ ملے ۔

1993 ء کے انتخابات کے لیے جب میدان سجا تو عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پارٹی کے مرکزی صدر محمد اجمل خان خٹک میدان میں آئے ،چونکہ مقابلہ انتہائی سخت تصور کیاجارہا تھا اس لیے پیپلزپارٹی نے بھی اس حلقہ پر ایک مرتبہ پھر اپنا امیدوار تبدیل کردیا اور میاں مظفر شاہ یا پرویز خٹک کی جگہ میجرجنرل(ر)نصیر اللہ خان بابر کو ٹکٹ دیا گیا جبکہ میاں مظفر شاہ آزاد حیثیت میں میدان میں اترے ،دوسرے پاکستان اسلامک فرنٹ نے معراج الدین کو مقابلے کے لیے میدان میں اتارا ،اس حلقہ پر سخت مقابلہ کے بعد پیپلزپارٹی کے میجرجنرل (ر)نصیر اللہ خان بابر چھ ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کرگئے ،نصیر اللہ بابر نے 36116 جبکہ اے این پی کے محمد اجمل خان خٹک نے 30020 ووٹ حاصل کیے ،دیگر دو امیدواروں میں سے پاکستان اسلامک فرنٹ کے معراج الدین نے 15896 اورآزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے والے میاں مظفر شاہ نے 548 ووٹ حاصل کیے۔



1997 ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف حصہ لے رہی تھی جس نے این اے 4 پر بھی اپنے امیدوار عمر خان یوسفزئی کو میدان میں اتارا جبکہ پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر نصیر اللہ خان بابر ہی کو ٹکٹ دیا تاہم عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار تبدیل کرلیا اور ولی محمد خان کو ٹکٹ دیاگیا ،اصل مقابلہ اے این پی اورپیپلزپارٹی ہی کے درمیان ہوا جس میں اے این پی کے ولی محمد خان ،نصیر اللہ بابر کو پچھاڑکر کامیاب ٹھہرے ،ولی محمد خان کو43511 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ نصیر اللہ بابر 22213 ووٹ لے سکے ،تحریک انصاف کے عمر خان یوسفزئی صرف 3022 ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکے ۔

2002 ء کے عام انتخابات کے سلسلے میں نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں نوشہرہ کو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی دو نشستیں دی گئیں جس کے باعث گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 4 تبدیل ہوکر این اے 5 نوشہرہ ون بن گیا جبکہ دوسرا حلقہ این اے 6 نوشہرہ ٹو ہوگیا۔این اے 5 کے اس اہم ترین حلقہ پر متحدہ مجلس عمل نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا جن کے مقابلے میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کی جانب سے نصیر اللہ خان بابر جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے میاں راشد علی شاہ کو ٹکٹ دیا ۔

چونکہ 2002 ء کے انتخابات کو خیبرپختونخوا کی حد تک متحدہ مجلس عمل کا الیکشن کہا جاتا ہے اس لیے این اے 5 نوشہرہ ون پر ہونیوالے اس معرکہ میں ایم ایم اے کے قاضی حسین احمد ہی فاتح ٹھہرے جنہوںنے 40879 ووٹ لیے جبکہ نصیر اللہ خان بابر کو 22189 ووٹ ملے اور عوامی نیشنل پارٹی کے میاں راشد علی شاہ 11944 ووٹ لے سکے۔ تاہم 2008 ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے بائیکاٹ کی وجہ سے قاضی حسین احمد اس نشست سے الیکشن میں حصہ نہ لے سکے ۔



نوشہرہ ضلع سے منتخب ہونے والے تمام اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی گزشتہ دورمیں حکمران جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ اس دور میں نوشہرہ میں اتنے زیادہ ترقیاتی کام کیے جائیں گے،فنڈز جاری بھی ہوئے تاہم ترقیاتی کام اس طریقہ سے نظر نہیں آرہے ۔2010 ء کے سیلاب کی وجہ سے نوشہرہ کے باسیوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے جو نقصانات ہوئے وہ بھی اپنی جگہ موجو د ہیں اور سیلاب کے کئی متاثرین آج بھی در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ان حالات کے تناظر میں 2013 ء کے انتخابات کے لیے میدان میں اترنے والے امیدواروں کے لیے اس حلقہ میں مقابلہ کرنا یقینی طور پر مشکل ہوگا کیونکہ انھیں سیلاب متاثرین اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں کے تند وتیز اورسوالات کا سامنا بھی کرنا ہوگا ۔

ماضی کی طرح ان انتخابات میں بھی این اے 5 پر سخت اور سنسنی خیز مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے ، پرویز خٹک پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے پہلے دور میں یہاں سے ضلع ناظم رہ چکے ہیں، جب وہ پیپلزپارٹی شیر پائو کا حصہ تھے جبکہ دائود خٹک دوسرے بلدیاتی دور میں ضلع ناظم تھے جب وہ پیپلزپارٹی کے عوام دوست گروپ کی جانب سے منتخب ہوئے تھے تاہم آج وہ اے این پی کا حصہ ہیں جبکہ انجینئر طارق خٹک پانچ سال قومی اسمبلی میں اس حلقہ کی نمائندگی کرچکے ہیں ۔

PK-12' نوشہرہ 1

پی کے 12 نوشہرہ ون جو 2002 ء کے عام انتخابات میں پی ایف 12 تھا ،پر مذکورہ انتخابات میں انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلہ دیکھنے کو ملا ،جیتنے والے امیدوار نے ہارنے والے دو امیدواروں سے صرف دو ہزار ہی ووٹ زیادہ لیے ۔2002 ء میں پی کے 12 نوشہرہ ون کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر انجینئر محمد طارق خٹک جو پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے امیدوار تھے کو 10695 ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین جو 2008 ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد صوبائی کابینہ میں شامل ہوکر وزیر بنے رنر اپ رہے جنھیں 8851 ووٹ ملے تھے جبکہ مسلم لیگ(ن)کے میاں شوکت حیات نے 8699 ووٹ لیے تھے۔

2008 ء کے انتخابات میں پی کے 12 پر عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین کا مقابلہ مسلم لیگ(ن)کے مرکزی سیکرٹری جنرل انجنیئر اقبال ظفر جھگڑا کے علاوہ مسلم لیگ(ق)کے خلیق الرحمٰن اورپیپلزپارٹی کے سید افتخار علی شاہ کے علاوہ آزاد امیدواروں دولت خان اور میاں نصر اللہ خان کے ساتھ تھا۔ اے این پی کے میاں افتخار حسین نے اس نشست پر 13072 ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ(ق)کے خلیق الرحمان نے 12655 ووٹ حاصل کیے جبکہ تیسرے نمبر پر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے امیدوار سید افتخار علی شاہ رہے جن کو 8835 ووٹ ملے ،مسلم لیگ(ن)کے اقبال ظفر جھگڑا اس مقابلے میں 6614 ووٹ لے پائے ۔

اب الیکشن 2013 ء کے لیے اس نشست پر صورت حال کچھ یوں ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے میاں افتخار حسین کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے جن کے لیے مذکورہ انتخابی مہم اس اعتبار سے بڑی مشکل ہوگی کہ گزشتہ دور میں ان کے اکلوتے صاحبزادے میاں راشدحسین کو ہلاک کرنے کے بعد اب ان کو بھی سکیورٹی خدشات لاحق ہیں اور ان کے لیے دیگر امیدواروں کی طرح کھل کر انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگا جبکہ دوسری جانب ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹ خلیق الرحمان کو دیا گیا ہے جو مسلم لیگ(ق)کو چھوڑ کراب تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں.

پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز نے ایک مرتبہ پھر سید افتخار علی شاہ کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہے جبکہ جمیعت علماء اسلام(ف)نے مولانا محمد اجمل کو اس نشست کے لیے ٹکٹ دیا ہے ،مسلم لیگ(ن)نے اشفاق احمد جبکہ جماعت اسلامی نے نادر شاہ خٹک کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اس سیٹ پرتوقع کی جارہی ہے کہ پر بعض جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیں جس سے امیدواروں کی تعداد میں کمی ہوجائے گی تاہم مقابلہ مزید سخت ہوجائے گا۔

PK-13' نوشہرہ 2

پی کے 13 نوشہرہ دو پر 2013 ء کے انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ 2008 ء کے انتخابات میں پی کے 13 نوشہرہ 2 کی نشست سے پیپلزپارٹی شیر پائو کے امیدوار اور اس وقت کے پارٹی کے صوبائی صدر پرویز خٹک کامیاب ہوئے تھے جن کے مقابلے میں مسلم لیگ(ق)میاں یحیٰ شاہ کاکاخیل رنر اپ رہے تھے ۔

مذکورہ انتخابات میں پی کے تیرہ نوشہرہ دو کی نشست پر مجموعی طور پر 6 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا جن میں سے پیپلزپارٹی شیر پائو کے پرویز خٹک نے 15168 ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دیگر امیدواروں میں عوامی نیشنل پارٹی کے ذوالفقارعزیز نے 9468، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے محمد فاروق ایڈوکیٹ نے 5310 ،مسلم لیگ(ق)کے میاں یحٰی شاہ کاکاخیل نے 9997 ،مسلم لیگ(ن)کی جانب سے خاتون امیدوار ثوبیہ نوشین نے 348 اورمتحدہ مجلس عمل کے امتیاز علی نے 2918 ووٹ حاصل کیے تھے ۔

الیکشن 2013 ء کے حوالے سے صورت حال کچھ یوں ہے کہ اس حلقہ پر عوامی نیشنل پارٹی نے شاہد خٹک کو میدان میں اتارا ہے ،پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کی جانب سے میاں یحیٰ شاہ کاکاخیل ،جمیعت علماء اسلام(ف)کی جانب سے مفتی امتیاز علی ،مسلم لیگ(ن)کی جانب سے راشد علی شاہ ،قومی وطن پارٹی کی جانب سے انجینئر ذوالفقارعزیز اور جماعت اسلامی کی جانب سے حنیف خان میدان میں ہیں جبکہ اس نشست پر تحریک انصاف کی جانب سے پرویز خٹک امیدوار ہیں جبکہ متحدہ دینی محاذ کی جانب سے بھی امیدوار میدان میں ہوگا جس کی وجہ سے اس حلقہ پر بھی بڑاسخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ 2002 ء کے انتخابات میں اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین پی کے بارہ کے علاوہ پی کے 13 پر بھی امیدوار تھے تاہم اس حلقہ پر وہ تیسرے نمبر پر آئے تھے جبکہ کامیابی پیپلزپارٹی شیر پائو(موجودہ قومی وطن پارٹی)کے امیدوار لیاقت خان خٹک کو ملی تھی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں