قوم کا خون پسینہ یا مالِ غنیمت

پنجاب کے وزراء اور پارلیمانی سیکریٹریوں کے علاوہ 350 ارکان اسمبلی کو684 ایام کا ٹی اے ڈی اے دیا گیا۔


Ghulam Mohi Uddin April 08, 2013
جمہوریت میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ہر ووٹر کو حماقت کا ایک موقع دیتی ہے فوٹو: فائل

طاقت کے سر چشموں پر مشتمل ایوانوں کے اراکین کی متفقہ رائے آج بھی وہی ہے، جو قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے ترجمان کی طرف سے 16 جنوری 2012 کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے جاری کی گئی تھی۔

ترجمان کے مطابق ''میڈیا میں شائع ہونے والی یہ خبریں بے بنیاد ہیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین پر پانچ سال میں اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیںبل کہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تن خواہیں اور الائونس دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہیں''۔ اس کے چند دن بعد قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اپنے فرمودات میں اسی ''کس مہ پرسی'' کا اعادہ کیا، محترمہ کے اس بیان کو پڑھ کر فروری2011 میں شائع ہونے والی ایک خبر کی سرخی ''Parliament cafeteria aladdin's cave'' یاد آ گئی یعنی پارلیمنٹ کا کیفے ٹیریا یا الٰہ دین کی غار۔ اِس خبر کے مطابق پارلیمنٹ کے کیف آورکیفے ٹیریا میں اشیاء خورد و نوش کے نرخوں کی تفصیل کچھ یوں تھی۔

چائے کا کپ ایک روپیا، سوپ کا پیالہ پانچ روپے پچاس پیسے، دال کی پلیٹ ایک روپیہ پچاس پیسے، چپاتی ایک روپیا، مرغ مسالہ کی بڑی پلیٹ چوبیس روپے پچاس پیسے، سبزی بریانی فی پلیٹ آٹھ روپے اور ہر طرح کی مچھلی تیرہ روپے کلو؛ اِس تفصیل کے نیچے کسی ستم ظریف نے یہ گرہ بھی لگا دی کہ حکومت اپنے غریب پارلیمنیٹرینز کو نہایت ارزاں نرخوں پر یہ سب کچھ فراہم کر رہی ہے البتہ ان ''غریب اراکین'' کے ساتھ ایک بدتمیزی ''سیلف سروس'' کے نام پر کی جاتی ہے جس پر یہ لوگ چڑ بھی جاتے ہیں، کیا کریں انسان ہی تو ہیں (بل کہ انسان یہ ہی تو ہیں)۔ اس کیفے ٹیریا میں کسی بھی سہولت کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ اراکین پارلیمان کی خدمت اقدس میں باوردی چاکروں کی فوجِ ظفر موج مسلسل ''مصروفِ پیکار'' رہتی ہے، متعدد نے اراکین کے ذاتی نوکروں کا کردار سنبھال رکھاہے جس سے انہیں درخواستیں وغیرہ منظور کراکے کچھ مل ملا جاتا ہے۔

فروری 2007 میں اس وقت کی حکومت نے اس سحرآگیں کیفے ٹیریا میں صحافیوں کا داخلہ بند کرا دیاتھا، بہانہ یہ تھاکہ الیکٹرانک میڈیا کے بھاری بھرکم آلات کی وجہ سے دشواری ہوتی ہے، نہ صرف یہ بل کہ صحافیوں کو کسی وزیر کے چیمبر میں داخل ہونے سے بھی روک دیا گیا، اندر کا حال جاننے والوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں حکومت کی بدعنوانیوں کی خبریں بہت آرہی تھیں۔ خیر شیشہ گھر میں بیٹھنے والے خوش فہم تو ہوتے ہی ہیں۔

چلیے کہ پارلیمنٹ کی عمارت میں دو کیفے ٹیریا ہیں، تہ خانے والا اجلاف (عوام) کے لیے ہے اور بالاخانے والا اشراف (اراکین) کے لیے، دونوں کے ماحول، معیار، اشیاء کی قیمتوں پکوان اور تزئین و آرائش میں فرق وہی ہے جو حاکم اور محکوم کے مابین ہونا چاہیے۔

جون 2010 میں کیفے ٹیریا کی ازسرنو تزئین و آرائش ہوئی، افتتاح کے موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور تب کے چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائک میں ٹھن گئی، ایک طرف ضد کہ افتتاح میں کروں گی، دوسری طرف ہٹ کہ میں کروںگا۔ تنازع شدت اختیارکرگیا تو وزیراعظم اور صدر کو مداخلت کرنا پڑگئی اور طے پایا کہ دونوں ہی یہ رسم مل کر ادا کردیں، تنازع ختم نہ ہوتا تو اللّٰہ جانے اس ملک پر کیا بلا نازل ہو جاتی۔ اس موقع پر صحافیوں کو داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔

ان اراکین کی تن خواہوں اور ان کی سہولتوں پر ذرا نظر ڈالتے چلیے۔

26 جنوری 2012 کو قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ سے جاری ہوئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان کی ماہانہ تن خواہ 62 ہزار 280 روپے ہے، جن میں الائونسز بھی شامل ہیں۔ یہ پندرہ فی صد اضافہ مالی سال 2011-12 کے بجٹ اضافے کے بعد ہوا تھا اور اس کے تحت ماہانہ تن خواہ35 ہزار سے بڑھ کر 52,250 روپے ہو گئی تھی، اسی سال تن خواہ بڑھاکر62,280 روپے کردی گئی۔

بیان کے مطابق ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ تن خواہ 23 ہزار 803 روپے، ایڈہاک الاونس 11 ہزار 903 روپے، مینٹی نینس الائونس 8 ہزار روپے، ٹیلیفون الائونس 10 ہزار روپے اور دیگر الائونسز 8 ہزار 571 روپے تھے جب کہ ایک رکن قومی اسمبلی کو ڈیلی الائونس کے تحت ایک ہزار روپے، سفری الائونس 750 روپے اور ہائوسنگ الائونس کے تحت 2 ہزار روپے دیے جاتے تھے، جن دنوں اسمبلی کا سیشن شروع ہوتاتھا تو اجلاس سے تین دن پہلے اور تین دن بعد بھی یہ الائونسز دیے جاتے تھے۔ اگر اسمبلی کے کسی اجلاس میں کوئی رکن شامل ہوتا تو اجلاس سے دو دن پہلے اور دو دن بعد کے لیے بھی یہ الائونس پیش کیے جاتے تھے تاہم اس بیان میں متعدد الاؤنسز کا ذکر ہی نہیں ہے۔

میڈیا کی کوششوں سے معلوم ہوا کہ آئین کی شق 1974 کے تحت ہر قائمہ کمیٹی کے رکن اور چیئرمین کو الگ سے اضافی تن خواہیں دی جاتی تھیں، یہ رقم 12 ہزار 700 روپے تھی، اس کے علاوہ اسٹاف کار 360 لیٹر پیٹرول کے ساتھ اور چار رکنی عملہ بھی اس پیکیج کا حصہ ہوتا تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں 42 قائمہ کمیٹیاں کام کررہی تھیں اور ہر ایک میں 15 سے 20 اراکین شامل تھے، اس کے علاوہ 6 خصوصی کمیٹیاں بھی کام کررہی تھیں جن میں 151 اراکین کو نمائندگی حاصل تھی۔

درحقیقت 342 رکنی ایوان کا ہر رکن کسی نہ کسی قائمہ کمیٹی کا حصہ تھا اور اس کے تحت وہ اضافی تن خواہ، مراعات اور الاؤنس لے رہا تھا۔ اسی شق کے تحت ہر رکن کو سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے سفری ووچرز بھی دیے جاتے تھے اور اسی مد میں 90,000 روپے نقد بھی، علاوہ ازیں بزنس کلاس کے پندرہ ہوائی ٹکٹ (آمد و رفت) بھی ہر رکن کو ملتے تھے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں کے دوران بھی اراکین کو بزنس کلاس کے اخراجات اور دیگر الاؤنس ملتے تھے۔

بعدازاں قومی اسمبلی نے پارلیمینٹیرینز کی تن خواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ایکٹ 1974میں جولائی 2012 تک جو ترامیم کیں، ان میںتن خواہوں میں اضافے کے ساتھ فیڈرل سروسز میڈیکل اٹینڈنس رولز1990، دی وارنٹ آف پریسی ڈینس اور نو ٹیفی کیشن ریگارڈنگ فے سیلی ٹیز فار ایکس ممبرز کو بھی شامل کرلیا گیا، جو مزیداضافے کے ساتھ کچھ یوں ہے۔

رکن اسمبلی کی تن خواہ 27,377 روپے ماہانہ

2010کا ایڈہاک الائونس 11,903 روپے ماہانہ

آفس مینٹی نینس الائونس 8000 روپے ماہانہ

ٹیلی فون الائونس 10,000 روپے ماہانہ

ذاتی مصارف الائونس 5,000 روپے ماہانہ

2011 کا ایڈہاک ریلیف الائونس3,571 روپے ماہانہ

2012 کا ایڈہاک ریلیف الائونس، 5,475 روپے ماہانہ

کل رقم: 71,326 روپے ماہانہ

ٹی اے/ڈی اے الائونس (سیشن اور کمیٹی میٹنگز

الائونس 1000 روپے روزانہ

کنوینس الائونس 750 روپے روزانہ

ہائوسنگ الائونس 2,000 روپے روزانہ

کل رقم:3750 روپے

یہ الائونس اجلاس سے تین دن پہلے اور تین دن بعد بھی ملتا تھا، اگر رکن کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہو تو اجلاس سے دو دن پہلے اور دو دن بعد تک بھی استفادہ کر سکتا تھا، یوں سمجھیے کہ کام ایک دن کا، وصولی پانچ دن کی۔

سفری الائونس کے تحت ملنے والی رقم کا احوال کچھ یوں ہے کہ رکن پارلیمنٹ بزنس کلاس میں ہوائی سفر کے لیے 150 روپے فی کلومیٹر کا حق دار ہوا، ریل ہوتو اے سی کلاس میں تنہا اور سیکنڈ کلاس میں اپنا ایک ملازم سفر پر لے جا سکے گا، اپنی رہائش سے اسمبلی تک سڑک کا سفر کرے گا تو 10 روپے فی کلومیٹر کے حساب سے دو طرفہ وصول کرے گا۔ ایک سال کے دوران 3 لاکھ روپے کے سفری ووچرز اور اسی مد میں 90 ہزار روپے نقد بھی لے گا، سالانہ 20 بزنس کلاس کے ریٹرن ایئر ٹکٹ بھی لے گا، اپنی رہائش پر ایک مفت لینڈ لائن ٹیلی فون، کلاس ون سرکاری افسر کے برابر طبی سہولیات لے گا۔

سابق پارلیمنٹیرینز کو سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی سیکریٹیریٹ کی لائبریریوں اور لائونجز تک مفت رسائی کی سہولت ہے، ایوانوں کے اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے ان کو مستقل انٹری پاس جاری کیے گئے، ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر یہ ارکان وی آئی پی لائونجز استعمال کرنے کے حق دار ہیں، بیرون ملک پاک سفارت خانوں میں یہ سہولت ملے گی، وفاقی حکومت کے تمام لاجز اور گیسٹ ہائوسز اور پارلیمنٹ لاجز معمولی کرایہ پر حاصل ہوں گے، سرکاری پاسپورٹ بلامعاوضہ ملے گا۔

پارلیمنٹیرینز اور ان کے خاندانوں کو وہ تمام میڈیکل سہولتیں بھی اعلیٰ سرکاری افسروں کے برابر دی جاتی ہیں، اسپتالوں میں وی آئی پی کمرے ملیں گے۔

دونوں ایوانوں کی تزئین و آرائش اور اراکین کی آسائش کے اخراجات الگ ہیں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے مناظر سے اراکین کے دیدہ و دل کو راحت پہنچانے کے مصارف الگ، یہ اربوں روپے اس دھرتی کی سوتیلی اولاد یعنی محکوم ادا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

پنجاب اسمبلی: ایک دن کا اجلاس،

7 روز کا الائونس

لاہور سے رانا نسیم

خواتین کی 66 اورغیرمسلموں کی 8 مخصوص نشستوں کے ساتھ370 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہونے والے پانچ سالہ دور میں پہلی مرتبہ 133بل اور 173 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس عرصہ میں 9 ارکان اسمبلی رکنیت سے مستعفی، 6 فوت اور 22 نااہل ہوئے، 36 ضمنی الیکشن ہوئے اور23 بار وزیرِاعلیٰ ایوان میں آئے۔ 414 ایام پر مشتمل 45 اجلاس ہوئے جن میں302 عامل ورکنگ ڈیز تھے۔ وزراء اور پارلیمانی سیکریٹریوں کے علاوہ 350 ارکان اسمبلی کو684 جب کہ اسمبلی کے ملازمین کو 954 ایام کا ٹی اے ڈی اے دیا گیا جو بالترتیب 58 کروڑ 65 لاکھ 30 ہزار اور59کروڑ روپے بنتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پانچ سال کے دوران صرف الائونسز اور سٹیشنری کی مد میں تقریباً 2 ارب روپے خرچ ہوئے۔

ایک رکن پنجاب اسمبلی کی صرف تن خواہ تقریباً 52 ہزار، وزیر کی83 ہزار، مشیرکی 80 ہزار روپے کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ اسمبلی اجلاس یا کسی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت پر ایک رکن کو 2450 روپے روزینہ ملتا ہے، ہر رکن کواجلاس سے تین دن پہلے اور تین دن بعد تک الائونس ادا کیا جاتا ہے، یعنی ایک روز کے اجلاس پر7 روز کا الائونس؛ جو تقریباً 18ہزار روپے بنتاہے۔ وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریوں کو چھوڑ کر 350 اراکین اسمبلی کو صرف الائونس کی مد میں 63 لاکھ روپے ادا ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کا ایک روز کا اجلاس حکومت کو تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے میں پڑتا ہے۔

کسی بھی کمیٹی کی ایک روز کی میٹنگ پر ارکان کو 3 دن کا الائونس ملتا ہے، یعنی ایک روز پہلے اور ایک دن بعد کے الائونس کی بھی ادائی کی جاتی ہے، اسمبلی اجلاسوں کے الائونسزشامل کرکے ایک ایم پی اے کی ماہانہ تنخواہ 80 ہزارسے زیادہ بنتی ہے۔ صحت اور سفری سہولیات کے لیے ایم پی اے سرکاری کے خزانہ سے لاکھوں روپے الگ وصول کرتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے ملازمین کی تعداد تقریباً 750 ہے اور ان ملازمین کو بھاری تن خواہوں کے ساتھ دو قسم کا الائونس ملتا ہے، اوور ٹائم اور سیشن الائونس، یادرہے کہ اسمبلی ملازمین کا الائونس دوگنا ہوتا ہے، اجلاس ایک دن ہو توملازمین کو الائونس پندرہ روز کا ملتا ہے، یعنی 7روز پہلے اور7روز بعد کا الائونس دیا جاتا ہے۔ سیشن الائونس بنیادی تن خواہ کے برابر سو فی صد ملتاہے، یعنی ایک ملازم کی ماہانہ تن خواہ 30 ہزار ہے تو ایک روز کے اسمبلی اجلاس پر اسے 15ہزار روپے کا الائونس ملے گا۔

پنجاب اسمبلی کے صرف ملازمین کی تن خواہوں کے لیے 89 کروڑ روپے کا بجٹ ہے، جو ہر سال بڑھتاہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ تن خواہ کے علاوہ مختلف مدات میں لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرنے والے اراکین اسمبلی کو شکایت ہی رہتی ہے کہ انہیں بہت کم ملتاہے اسی لیے متعدد ''غریب الایمان'' ارکان اسمبلی میں جعلی حاضری لگواتے پکڑے بھی گئے لیکن کیا کیا جائے کہ پکڑنے والے خود اسی نوع کی کسی نہ کسی ''دیانت'' میں مبتلا تھے۔

ارکان کے نزدیک قوم کے خون پسینے کی کمائی کی اہمیت یہ ہے کہ 18دسمبر 2012 کو پنجاب اسمبلی کا ایک اجلاس ہوا جو صرف 24 منٹ جاری رہا، لیکن اس پر سوا کروڑ خرچہ آیا۔

بلوچستان: پس ماندہ صوبہ

امیر نمائندے

غلام مرتضیٰ زہری

نوا ب محمد اسلم خان رئیسانی ان کی کابینہ اور بلوچستان اسمبلی نے اپنے پنج سالے میںکئی ریکارڈ بنائے مثلاً اسمبلی نے ساڑھے چار سال اپوزیشن لیڈر کے بغیر گزارے، اسی طرح حجم کے اعتبار سے بھی رئیسانی کابینہ رئیس ترین رہی، سیاسی مبصرین کہتے ہیں بلوچستان کابینہ ایوان کے کل اراکین کی تعداد کے تناسب سے دنیا میں سب سے بڑی رہی اور مزے کی بات یہ کہ قائمہ کمیٹیوں کے بغیر، حتیٰ کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی بھی نہیں، یاد رہے کہ اس کمیٹی کی موجودی میں بدعنوانی کرتے ذرا جھجک ہوتی ہے سو اب بدعنوانی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ الزامات کی بھرمار ہے کیوںکہ 65 ارکان کے ایوان میں 54 اراکین وزیر اور مشیر رہے، جنہوں نے نہ صرف خود مراعات حاصل کیں بل کہ اپنے ساتھیوں پربھی نوازشات کی بارش کیے رکھی اور یہ بادل حکومت کے بعد برس رہاہے۔ وزراء تاحال سرکاری رہائشوں اور سرکاری گاڑیوں پر قابض ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق ان اراکین اسمبلی اور وزراء کو ملک بھر میں سب سے زیادہ فنڈز ملے۔ نہ صرف پی ایس ڈی پی میں ان کے من پسند منصوبے شامل کیے گئے بل کہ ان کے صواب دیدی فنڈز بھی تھے اس کے علاوہ ایک وزیر کو ماہانہ جو مراعات ملتی رہیں ذرا وہ بھی دیکھیں:

سابق وزراء اور مشیروں کو تن خواہ اور دیگر مراعات کی مد میں ماہانہ تقریباً1لاکھ 50 ہزار روپے مل رہے تھے جب کہ ٹریول اور ڈیلی الاؤنسز اس کے علاوہ تھے، ہر وزیر نے دو دو گاڑیاں رکھیں، ایک اپنے محکمے کی جانب سے اور ایک صوبائی محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے، ان میں سے ایک گاڑی کے لیے لامحدود فیول فراہم کیا جاتا تھا، دوسری کے لیے ماہانہ 250 سے 300 لیڑ پٹرول مقرر تھا۔ بعض وزیروں نے تو پندرہ سے بیس بیس سرکاری گاڑیاں ذاتی کاموں کے لیے استعمال کیں، جہاں سے گاڑی لی اسی محکمے سے فیول بھی لیا۔

2008 کے انتخابات کے بعد وزراء کو پہلے دو سال صواب دیدی فنڈز کی مد میں 15 کروڑ روپے سالانہ ملتے رہے بعد میں یہ رقم 20 کروڑ روپے ہوگئی۔ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد مزید یہ ہندسے 25 کروڑ کو جالگے، تشفی پھر بھی نہ ہوئی 30 کروڑ روپے ملنے لگے۔ یہ فنڈز صرف ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے ہوتے ہیں مگر ہمارے صبوے فلاح و ترقی نام کی چڑیا پر نہیں مارتی۔

ایک وزیر نے تو سرکاری فنڈز سے مدرسہ تعمیر کرالیا۔ اسلم رئیسانی نے چوںکہ اکثر باہر ہی رہے سو بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں کا کسی نوٹس ہی نہیں لیا البتہ عدلیہ نے مدرسے کی تعمیر کا نوٹس ضرور لیا۔ بعض وزراء پرغیرقانونی بھرتیوں اور بیوروکریسی پر دباؤ ڈالنے کے الزامات لگے رہے۔

وزراء کے فون بل کی ماہانہ حد 20 ہزار روپے تھی لیکن عملاً لامحدود رہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض سابق وزراء کے تاحال سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ جنہوں نے گاڑیاں واپس کیں انہوں نے دراصل گاڑیوں کے خالی کھوکھے واپس کیے ہیں اور تو اور بعضوں نے سرکاری عملے واپس نہیں کیے، یہ عملے الیکشن مہم میں حرام کھا کھا کر سابق آقاؤںسے نمک حلالی کررہے ہیں۔

سیکیوریٹی کے لیے ان سابق وزراء کو چار چار پولیس اہل کار ملے ہوئے ہیں لیکن ان میں چوںکہ اکثر بہادر بہت واقع ہوئے ہیں لہٰذا لیویز کے 10سے 15 اضافی اہل کار سے لیے پھرتے ہیں(پھرتے پھر بھی کم ہی ہیں)۔ بعض سابق وزراء نے سرکاری رہائشوں کے سامان بھی اینٹھ لیے، بعض مفلسین ایم پی اے ہاسٹل کے مقروض ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی کی واضح ہدایات کے باوجود صورت حال بہ دستور ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سابق وزراء کی غالب اکثریت تاحال سرکاری خزانے پر دست درازی کر رہی ہے۔

اس سب کے باوجود قانون سازی کا تکلف نہیں کیا گیا، سارے دورانیے میں41 قوانین کی منظوری اور وہ بھی اس بے دلی سے کہ اکثر اہم نوعیت کے قوانین چار سے پانچ منٹ کی ریکارڈ قلیل مدت میں منظور کیے گئے۔ بہت سے اجلاسوں کا دورانیہ پانچ سے پندرہ منٹ کے درمیان رہا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی کے لیے سال میں 100دن اجلاس ضروری ہیں، اس لحاظ سے بلوچستان اسمبلی کے پانچ سال کے دوران 410 اجلاس لازمی ہیں۔ اکثر اجلاس کورم کی نشان دہی کے بغیر چلائے گئے اور آئینی تقاضے پورا کرنے کے لیے ایک سیشن کے تمام دنوں کو شمار کیا گیا حاؒل آںکہ ایک سیشن کے اجلاسوں میں بھی کئی کئی روز تک وقفے آتے رہے۔

بلوچستان اسمبلی اور ایم پی ایز ہاسٹل کے مجموعی آپریشنل اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان اسمبلی کا ایک اجلاس 40 لاکھ روپے سے زیادہ میں پڑ ا۔ نگراں وزیراعلیٰ کی ہدایت پرچیف سیکرٹری اور دیگر حکام اخراجات میں کمی کے لیے ترجیحی اقدامات کر رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ سرکاری اور اس پس ماندہ ترین صوبے کے وسائل کے بے دریغ استعمال کو روکنے میں کس حد تک کام یاب ہوتے ہیں...!!

غریب صوبہ، چونچلے شاہانہ

پشاورسے روخان یوسف زئی،نویدجان

مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد جب حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی ''تن خواہ'' طے ہونے لگی توآپ ؓ نے اپنے لیے مزدور کے برابر رقم طلب کی، پوچھاگیا ''گزران مشکل ہوگئی تو؟'' فرمایا ''مزدور کی اجرت بڑھا دوںگا''۔ اس تناظر میںاسلامی جمہوریۂ پاکستان کے منتخب اور سرکاری حکم رانوں کا طرز دیکھیے شرم آتی ہے۔ بڑے بھٹوشہید نے روٹی، کپڑا، مکان اور مزدور کی اجرت ایک تولہ سونے برابر کا نعرہ بلند کیا تھا، خدائی خدمت گارتحریک نے تصور دیاکہ ''سپورہ وی کہ پورا وی، پہ شریکہ بہ وی'' روکھی ہو کہ گیلی، کھائیں گے مل بانٹ کر''، اس ''مل بانٹ'' نے بندربانٹ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مراعات در مراعات کی زنجیر ہے کہ ٹوٹنے میں نہیں آتی، آپ اک ذرا پلک جھپکیے ادھر ایک عدد ''مراعات''(میرات) بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اب تو خیر سے تاحیات مراعات کا بل بھی پل چھن میں منظور ہوئے جاتے ہیں؛ اب رہا بعد از مرگ مراعات کا بل، دیکھیے یہ کب منظور ہوتا ہے۔

خیبرپختون خوامیںعوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت جب 2008 میں برسراقتدار آئی تو اس وقت ایک ممبر کی بنیادی تن خواہ اٹھارہ ہزارروپے تھی جب کہ ٹی اے اور ڈی اے اس کے علاوہ ملتے تھے لیکن جلد ہی ایک ترمیمی بل کے ذریعے تن خواہوں اور مراعات میں سو فی صد اضافہ کر دیا گیا۔2007-08 میں کل تن خواہیں6327 166 روپے اور سفری اخراجات کی مدمیں 8968420 روپے ادا کرنا پڑے، 2008-09 میں تن خواہیں 32979761 روپے اور سفری اخراجات 18230122 روپے، 2009-10 میں تن خواہیں 40921240 روپے اور سفری اخراجات 24997900 روپے ہوگئے، 2011-12 میں تن خواہیں 40303156 روپے اور سفری اخراجات 26198994 روپے ہوگئے، 2012-13 میں تنخواہیں 32249276 روپے اور سفری اخراجات 20552321 روپے تک جا پہنچے۔

جب کہ A05270 کے مطابق اسمبلی سیشن اور دیگر اخراجات کی مد میں2400000 روپے ادا کیے گئے، یوں پانچ سال میں تن خواہیں اور مراعات ملا کر خرچہ 326180952 روپے کو پہنچا۔ صوبائی وزراء کی تن خواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں ادا شدہ رقم کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک وزیر کی بنیادی تنخواہ 18 ہزار روپے، انٹرٹینمنٹ الائونس 6 ہزار روپے اور ہاؤس الاؤنس چالیس ہزار روپے ہے، یہ کل رقم ہوئی 64 ہزار روپے۔

اسی طرح ہر وزیر کو ہر ماہ چھ سو لیٹر پٹرول اور 452 روپے ڈیلی الاؤنس بھی ملتا رہا جب کہ ایک وزیر عملے کی صورت میں گریڈ 17 کا پرائیویٹ سیکریٹری، گریڈ 16 کا پی اے، گریڈ 14 کا اسسٹنٹ، گریڈ 7 کا جونیئر کلرک اور 3 عدد کلاس فور کا عملہ رکھ سکتا ہے، مشیروں اور محکموں کی جانب سے مراعات اور عملے کی تعیناتی اس کے علاوہ ہے۔ مقام فکرہے کہ ہر دور حکومت میں وزیروں کی فوج ظفر موج اور ان کے شاہانہ اطوار کا ایک غریب اورمقروض ملک کیوںکر متحمل ہوسکتاہے، کیا عوام کے ٹیکسوں اور خون پسینے کی کمائی کو اپنی شاہانہ طرززندگی پر پانی کی طرح بہانا اس ملک اوراس کے عوام سے وفا ہے؟؟؟

سندھ اسمبلی: جاتے جاتے

مراعات میں اضافہ

کراچی سے اقبال خورشید

صوبائی نشستوں پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندوںکوحکومت سندھ کی جانب سے جو تن خواہیںاور مراعات فراہم کی جاتی ہیں اُن کی تفصیلات، سندھ اسمبلی کے اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق کچھ یوں ہیں:

٭ رکن اسمبلی:

رکن سندھ اسمبلی کی مجموعی تن خواہ 41000 روپے ہے، اجزائے ترکیبی اس کے کچھ یوں ہیں: بنیادی تن خواہ 15000 ، ہائوس رینٹ 10000 ، آفس مینٹی ننس الائونس 5000 ، ٹیلی فون رینٹل چارجز 5000 ، Sumptuary الائونس 3000 اور گیس اینڈ الیکٹری سٹی چارجز 3000 روپے۔

ہر رکن علاج معالجے کے بعد بل جمع کرواتا ہے، جو اسے ادا کردیا جاتاہے، بِل کی حد مقرر نہیں، سندھ اسمبلی کا رکن پاکستان کے کسی بھی اسپتال سے علاج کرواسکتا ہے البتہ بیرون ملک علاج پر پابندی ہے، مجبوری ہوتو وزیراعلیٰ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

٭ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر:

اسپیکر سندھ اسمبلی کی مجموعی تن خواہ 76000 بنتی ہے۔ بنیادی تن خواہ 30500 روپے ہے، جب کہ ہائوس رینٹ کی مد میں 39500 ملتے ہیں، جب Sumptuary الائونس 6000 ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کی بنیادی تن خواہ 27000 روپے۔ ہائوس رینٹ 35000 ہے۔ اسپیکر کے مانند اسے ملنے والا جب Sumptuary الائونس بھی 6000 ہے۔ یوں اس کی مجموعی تن خواہ 68000 بنتی ہے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے بجلی اور ٹیلی فون کے بلز حکومت ادا کرتی ہے۔

٭ صوبائی وزرا:

صوبائی وزرا کی مجموعی تن خواہ 78000 روپے ہے۔ بنیادی تن خواہ 39000 روپے، 30 ہزار Sumptuary الائونس، سرکری رہائش نہ ہوتو 70000 روپے ہائوس رینٹ کی مد میں ملتے ہیں۔ وزیر حکومتی رہایش میں قیام پذیر ہو تو بجلی اور فون حکومت فراہم کرتی ہے، ذاتی یا کرایے کے مکان میں مقیم ہے تو بلز کی ادائی کے لیے ایک مخصوص رقم اسے دی جاتی ہے۔ صوبائی وزرا کو ماہانہ چھے سو لیٹر پیٹرول دیاجاتا ہے اس کے علاوہ جن اداروں کے قلم داں انھوں نے سنبھالے ہوتے ہیں، وہ بھی مراعات پیش کرتاہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ہر صوبائی وزیر پر حکومت سندھ ماہانہ 6 سے 10 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔

٭ اسٹینڈنگ کمیٹیز کے الائونسز:

اسٹینڈنگ کمیٹی کے، کراچی میں مقیم رکن کو اجلاسوں کے دوران یومیہ 950 روپے ملتے ہیں۔ اِس نوع کی کمیٹیوں میں شامل اندرون سندھ مقیم ارکان کو بھی 550 روپے یومیہ الائونس اور 400 روپے سفری اخراجات ملتے ہیں، ان میں فی کلومیٹر تین روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اندرون سندھ سے آئے ارکان کو کراچی میںقیام کے لیے 1500 روپے ملتے ہیں، یہ مجموعی رقم 2450 بنتی ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین کو سفری الائونس نہیں ملتا، اُسے حکومت دیتی ہے، ساتھ ماہانہ پیٹرول کے 8000 روپے ملتے ہیں، اگر وہ کراچی میں مقیم نہیں، تو یومیہ 1500 روپے ملیں گے۔

٭ الوداعی اجلاس میں تن خواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کا بل:

مارچ 2013 میں سندھ اسمبلی کے ارکان جاتے جاتے اپنی آسائشوں کا مزیدسامان کرگئے۔ وزیر قانون سندھ ایاز سومرو نے ارکان اسمبلی کی تن خواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کا بل پیش کیا، جو کثرت رائے سے منظورہوا۔ اس بل کی رو سے رکن اسمبلی کی مجموعی تن خواہ 60 فی صد بڑھی۔ بنیادی تن خواہ 15 ہزار سے بڑھا کر 24 ہزار کی گئی، آفس مینٹینس الائونس میں تین ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا، یوں رکن اسمبلی کی مجموعی تن خواہ 65000 ہزار روپے ہوگئی۔ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرا اور معاون خصوصی کی مجموعی تن خواہوں میں 40 فی صد اضافے کا فیصلہ ہوا، وزرا کی بنیادی تن خواہ 54600 ، Sumptuary الائونس 42 ہزار اور الائونسز میں 6 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔ یوں اُن کی مجموعی تن خواہ 109200 روپے ہوگئی۔

ابھی آگے چلیے! ارکان سندھ اسمبلی کے استحقاق کا ترمیمی بل بھی منظور کر لیا گیاہے، جس کے تحت سابق ارکان سرکاری مہمان خانے، سرکاری نرخ پر استعمال کریں گے، اسپیکر گیلری، سیکریٹیریٹ اور لائبریری پاسز بھی حاصل کرسکیں گے، اور تمام ایئرپورٹس پر وی آئی پی لاؤنج استعمال کرنے کے بھی اہل ہوں گے لیکن مسلم لیگ ن نے کھنڈت ڈال دی تاعمر مراعات کا بل سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا سو فی الحال نگراں وزرا پرانی تن خواہوں پرکام کر رہے ہیں۔

کہا یوں گیا ہے کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے، عوام پر کی جاتی ہے اور عوام کے لیے کی جاتی ہے تاہم یہ جمہوریت کی ایک مثالی صورت ہے جو ازحد ترقی یافتہ ممالک میں بھی شاذ ہی دکھائی دیتی ہے تب ہی اس کے منصف مزاج مداحین اس کی تعریف کے لیے ایک دل چسپ پیرایہ اختیار کرتے ہیں ''جمہوریت ایک بدترین نظامِ حکومت ہے، سوائے ان نظاموں کے جو اس سے پہلے آزمائے جا چکے ہیں '' ، یہ ایک ایسے ملک کا مدبّر وزیرِ اعظم (سر ونسٹن چرچل) کہ رہا ہے جو جمہوریت کی ماں (انگلستان) کہلاتا ہے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے کہ سردست اس سے بہتر کوئی اور نظام نہیںہے۔

ہمارے ہاں چوںکہ جمہوری ثقافت ابھی اُس درجے پر نہیں پہنچ پائی جس پر اُدھر کی اقوام فائز ہیں لہٰذا یہاں جمہوریت اور آمریت جڑواں بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے چہرے اور اطوار ادل بدل کرتی ہیں، مثال کے طور پر یہ بوالعجبی وارد ہوئی کہ آمریت نے میڈیا کے لیے اپنی برداشت کا جغرافیہ لامحدود کر دیا اور یہ ظریفانہ ستم بھی سرزد ہوا کہ جمہوریت نے عدلیہ کا ناطقہ بند کرنے کے جتن کیے۔

مغربی مفکر ایلن کورینک کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں عوام اپنے لیے اپنی پسند کا آمر چنتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں فی الوقت کی جمہوریت پر صادق آتا قول ہے، بہتری کی توقع ہرچند ہے لیکن ہمارا قومی معدہ ابھی خاصا کم زور ہے اور اس کے علاج کے لیے جو معجونِ مرکب ہمیںدیا جاتا ہے وہ لوٹاپا، برادریت، تھانہ کچہری، گلیاں، نلکے، سبزباغ وغیرہ جیسے اجزاء میں دھونس دھاندلی، جھرلو جیسی مقویات کا جزوِاعظم ڈال کر تیار کیا جاتا ہے جسے استعمال سے کسی کی آنتیں قل ھواللّٰہ پڑھنے لگ جاتی ہیں، کسی کا دل ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، کسی کو مراق آلیتا ہے، کسی کے گھٹنے میں دردِ جگر اور ۔۔۔ الغرض تمام قومی اعضائے رئیسہ میں انتشار رونما ہو جاتا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے حقیقی قائد کی فطرت بتائی کہ فتح کے موقع پر وہ ہمیشہ پیچھے رہتا ہے تاکہ دوسرے آگے آئیںاور مرحلہ خطرناک ہو تو اپنی چھاتی سب سے آگے رکھتاہے؛ لیکن یہ نیلسن منڈیلا ہیں، ایسا کہ سکتے ہیں، ہم کیا کریں؟ ہمارے ہاں تو یوں ہے کہ قائد ''مالِ غنیمت'' پر سب سے پہلے جھپٹتا ہے اور سر کٹانے کا مرحلہ درپیش ہو تو اُس کے پاس بے شمار احمقوں کے سر ہمہ دم موجود ہوتے ہیں۔

دیگ میں سے چاول کا یہ دانہ ملاحظہ ہو کہ ایک ساست دان کچھ عرصہ پہلے جیل میں تھا، بچوں کی فیسوں کے لالے پڑے ہوئے تھے، وقت نے پلٹا کھایا تو اسے اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا؛ پھر یوں ہوا کہ چند سو دن ہی گزرے تھے کہ اس کا وسیع و عریض عالی شان محل تیار ہوگیا، واقفانِ درونِ خانہ بتاتے ہیں کہ اس محل کی بیرونی دیوار ہی آٹھ کروڑ روپے میں چنی، وہ بچے، جن کی فیسیں وہ ادا نہیں کر پارہا تھا، آج وہ بی ایم ڈبلیوز اور رولس رائسیں خریدنے کے دعوے کرتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی تہی دست کا ''بزنس'' اتنی کم مدت میں اتنا پھلاپھولا ہو۔

مقدس ایوانوں میں بیٹھ کر منشیات حتیٰ کہ حج کے معاملات میں بھی بددیانتی دوسرے الفاظ میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں خدا فروشی ۔۔۔۔ لیکن رکیے! کیا سارا کیا دھرا ان قائدین ہی کا ہے؟ صاحبو! خدا لگتی تو یوں ہے کہ ہم عوام بھی کچھ کم نہیں ہیں، ہم خود ہی لیڈر صاحب کو مسند پر بٹھاتے ہیں پھر اپنا جوتا اتار کر پیش کرتے ہیں اور انتہائی لجاجت کے ساتھ اپنا سرتسلیم خم کرتے ہیں اور عرض گزرانتے ہیں کہ حضور شوق فرمایے! اب اچھا لیڈر تو وہی ہے جو عوام کی خواہشات کا احترام کرے، ''جیسی روح ویسے فرشتے'' ایسوں ہی کے لیے کہا جاتا ہے اور اسی نوع کی جمہوریت کے لیے آرٹ سپینڈر نے کہا تھا ''جمہوریت میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ہر ووٹر کو حماقت کا ایک موقع دیتی ہے''۔ خیر اس طرح کے اقوال کے باعث جمہوریت سے بے زار ہونے کی ضرورت نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو جمہوریت کے شایان بنائیں۔ کیسے بنائیں؟ ذیل میں کچھ لکھا ہے، اس پر غور کریں اور آئندہ کیا کرنا ہے؟ طے کر لیں۔ (انوار فطرت)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں