غیر یقینی اور ابہام کی صورتحال
ملک پر قرضوں کا حجم خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔
SYDNEY:
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے اور غیریقینی بدستور موجود ہے۔ افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں پانچ چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن ہو چکے ہیں اور سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں ناکام رہی ہے۔
اس حوالے سے بھی سیاست میں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ادھر ملک کی سیاسی فضا میں کبھی جودڈیشل مارشل لاء کی باتیں گردش کرتی ہیں اور کبھی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی باتیں ہوتی ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے معیشت دباؤ میں آ رہی ہے۔ گو ملک کے ادارے اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے عزم کے ساتھ دہرا رہے ہیں لیکن ملک میں افواہیں بدستور جاری ہیں اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
پاکستان کے اس پس منظر کا سب سے زیادہ اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں ہے۔ معیشت پر چینی ساخت کی اشیاء کا بوجھ بڑھ رہا ہے جب کہ مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹری مسلسل زوال پذیر ہے۔ پاکستان چین اور دیگر ملکوں کے لیے کنزیومر مارکیٹ بن چکا ہے۔ درآمدات اور برآمدات کے درمیان تفاوت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امپورٹ بل مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ملک پر قرضوں کا حجم خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی ٹھہرا ہوا ہے۔ تعمیراتی شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ملکی معیشت کے تمام شعبے یکساں رفتار سے ترقی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک اور عوام کے لیے اچھی نہیں ہے۔ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹرز اور انجینئرز بے روزگار ہیں اور ان کے لیے سرکاری اور نجی شعبہ دونوں میں نوکریاں نہیں ہیں۔
پاکستان کے نوجوان غیر قانونی ذرائع اختیار کر کے بیرون ملک جا رہے ہیں اور ایسی خبریں میڈیا پر تواتر سے آتی رہتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی فلاں سمندر میں ڈوب گئے اور اتنے پاکستانی ڈوب کر مر گئے، کہیں یورپی یا دیگر ملکوں کی سرحدی فورسز انھیں گولیاں مار کر اگلے جہاں پہنچا دیتی ہیں۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غیرہنرمند افراد کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی بھکاریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ بیماریاں عام ہیں اور عوام کے پاس علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت تو موجود ہی ہے لیکن پورے ملک میں جرائم بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں خصوصاً لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ ادھر نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
خانگی جھگڑوں میں روزانہ درجنوں افراد قتل ہو رہے ہیں لیکن ان تمام مسائل سے الگ اعلیٰ سطح پر باہمی جھگڑے جاری ہیں۔ ادارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ عدالتی نظام سیاسی مقدمات میں الجھ گیا ہے جب کہ عوام کے مقدمات التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ حکومتی نظام ایک طرح سے مفلوج ہو گیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کی کارکردگی جو پہلے ہی خراب تھی، مزید خراب ہو گئی ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں عوام زندہ رہے ہیں۔ اس سارے معاملے میں خرابی کہاں ہے، اسے تلاش کرنا حکمران طبقے کا کام ہے کیونکہ اختیار اسی کے پاس ہے۔ پاکستان کے ارد گرد کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ افغانستان پاکستان کے لیے شروع دن سے مسائل کا سبب ہے۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں مخالفت کرنے والا بھی یہی ملک تھا۔
پاکستان نے سرد جنگ میں جو پالیسی اختیار کی، اس کا خمیازہ اب بھگتا جا رہا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجر ملک کے لیے مصیبت بن چکے ہیں، دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں افغان مہاجر یا فاٹا کا کوئی باشندہ نکلا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغان جنگ کے خاتمے کے بعد کوئی پالیسی نہیں بنائی کہ آگے کیا کرنا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکیوں کی بہتات ہو گئی ہے، افغانوں کے ساتھ ساتھ، ازبک، تاجک، عرب اور افریقہ سے آئے ہوئے با شندے بھی یہاں مقیم ہو گئے ہیں۔
ستر برس گزرنے کے باوجود فاٹا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا آئینی اسٹیٹس تبدیل نہیں کیا گیا۔ فاٹا اور بلوچستان کے باشندے پورے ملک میں آزادانہ کاروبار کر سکتے ہیں، جائیدادیں خرید سکتے ہیں، ہر قسم کی سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن پنجاب، کراچی کے لوگ وہاں جا کر ایسا نہیں کر سکتے، اس آئینی اور قانونی ابہام نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
پنجاب اور کراچی ہر قسم کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں جب کہ ملک کا بڑا حصہ قومی خزانے میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہا، وقت آگیا ہے کہ ملک کے سٹیک ہولڈرز اس صورتحال پر غور کریں اور کوئی راہ عمل تلاش کریں۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے اور غیریقینی بدستور موجود ہے۔ افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں پانچ چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن ہو چکے ہیں اور سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں ناکام رہی ہے۔
اس حوالے سے بھی سیاست میں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ادھر ملک کی سیاسی فضا میں کبھی جودڈیشل مارشل لاء کی باتیں گردش کرتی ہیں اور کبھی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی باتیں ہوتی ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے معیشت دباؤ میں آ رہی ہے۔ گو ملک کے ادارے اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے عزم کے ساتھ دہرا رہے ہیں لیکن ملک میں افواہیں بدستور جاری ہیں اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
پاکستان کے اس پس منظر کا سب سے زیادہ اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں ہے۔ معیشت پر چینی ساخت کی اشیاء کا بوجھ بڑھ رہا ہے جب کہ مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹری مسلسل زوال پذیر ہے۔ پاکستان چین اور دیگر ملکوں کے لیے کنزیومر مارکیٹ بن چکا ہے۔ درآمدات اور برآمدات کے درمیان تفاوت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امپورٹ بل مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ملک پر قرضوں کا حجم خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی ٹھہرا ہوا ہے۔ تعمیراتی شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ملکی معیشت کے تمام شعبے یکساں رفتار سے ترقی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک اور عوام کے لیے اچھی نہیں ہے۔ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹرز اور انجینئرز بے روزگار ہیں اور ان کے لیے سرکاری اور نجی شعبہ دونوں میں نوکریاں نہیں ہیں۔
پاکستان کے نوجوان غیر قانونی ذرائع اختیار کر کے بیرون ملک جا رہے ہیں اور ایسی خبریں میڈیا پر تواتر سے آتی رہتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی فلاں سمندر میں ڈوب گئے اور اتنے پاکستانی ڈوب کر مر گئے، کہیں یورپی یا دیگر ملکوں کی سرحدی فورسز انھیں گولیاں مار کر اگلے جہاں پہنچا دیتی ہیں۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غیرہنرمند افراد کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی بھکاریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ بیماریاں عام ہیں اور عوام کے پاس علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت تو موجود ہی ہے لیکن پورے ملک میں جرائم بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں خصوصاً لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ ادھر نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
خانگی جھگڑوں میں روزانہ درجنوں افراد قتل ہو رہے ہیں لیکن ان تمام مسائل سے الگ اعلیٰ سطح پر باہمی جھگڑے جاری ہیں۔ ادارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ عدالتی نظام سیاسی مقدمات میں الجھ گیا ہے جب کہ عوام کے مقدمات التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ حکومتی نظام ایک طرح سے مفلوج ہو گیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کی کارکردگی جو پہلے ہی خراب تھی، مزید خراب ہو گئی ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں عوام زندہ رہے ہیں۔ اس سارے معاملے میں خرابی کہاں ہے، اسے تلاش کرنا حکمران طبقے کا کام ہے کیونکہ اختیار اسی کے پاس ہے۔ پاکستان کے ارد گرد کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ افغانستان پاکستان کے لیے شروع دن سے مسائل کا سبب ہے۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں مخالفت کرنے والا بھی یہی ملک تھا۔
پاکستان نے سرد جنگ میں جو پالیسی اختیار کی، اس کا خمیازہ اب بھگتا جا رہا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجر ملک کے لیے مصیبت بن چکے ہیں، دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں افغان مہاجر یا فاٹا کا کوئی باشندہ نکلا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغان جنگ کے خاتمے کے بعد کوئی پالیسی نہیں بنائی کہ آگے کیا کرنا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکیوں کی بہتات ہو گئی ہے، افغانوں کے ساتھ ساتھ، ازبک، تاجک، عرب اور افریقہ سے آئے ہوئے با شندے بھی یہاں مقیم ہو گئے ہیں۔
ستر برس گزرنے کے باوجود فاٹا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا آئینی اسٹیٹس تبدیل نہیں کیا گیا۔ فاٹا اور بلوچستان کے باشندے پورے ملک میں آزادانہ کاروبار کر سکتے ہیں، جائیدادیں خرید سکتے ہیں، ہر قسم کی سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن پنجاب، کراچی کے لوگ وہاں جا کر ایسا نہیں کر سکتے، اس آئینی اور قانونی ابہام نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
پنجاب اور کراچی ہر قسم کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں جب کہ ملک کا بڑا حصہ قومی خزانے میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہا، وقت آگیا ہے کہ ملک کے سٹیک ہولڈرز اس صورتحال پر غور کریں اور کوئی راہ عمل تلاش کریں۔