بھارتی ترقی کی پول کھل گئی
بھارت پر ہی صادق آتی ہے کہ زبردستی شرح نمو بڑھالینے سے ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی۔
بھارت میں جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ملک کی معاشی ترقی کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کا پرچار کیا جارہا ہے۔ مودی جی اپنے ہر بھاشن میں بھارتی معیشت کی چمکدار تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ جو اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ محض عوام کو لبھانے اور بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ بھارت کی جانب مبذول کرانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
مودی جی کے لیے سب سے پریشان کن بات بین الاقوامی آزاد اداروں کی وہ سروے رپورٹس ہیں، جن میں بھارت کی معیشت کی حقیقی تصویر پیش کی جاتی ہے ۔ مودی حکومت ان عالمی اداروں کی سچی رپورٹوں کو جھٹلانے اور عوام کی توجہ ان سے ہٹانے کے لیے مغربی خود ساختہ سروے کمپنیوں کو بھاری معاوضے پر ہائرکرتی ہے جن کی مصنوعی سروے رپورٹس میں بھارت کو تیز رفتار ترقی کرتا دکھایا جاتا ہے ۔ ان جائزوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں لگاتار خوشحالی آرہی ہے اور وہاں کے عوام اس خوشحالی کی وجہ سے خوشی سے خوب نہال ہورہے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والی ورلڈ ہیپی نس رپورٹ 2018 نے بھارتی معیشت کی خوشحالی کی پول کھول دی ہے۔ اس میں بھارت کو دنیا کی خوشحال قوموں میں 133 ویں نمبر پر دکھایا گیا ہے جب کہ گزشتہ سال یہ 122 ویں نمبر پر تھا یعنی کہ اس سال بھارت کے عوام کی خوشحالی میں دس درجے کمی آگئی ہے ۔
یہ رپورٹ ہر سال اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے ''Sustainable Development Solutions Network'' کہا جاتا ہے جاری کرتا ہے۔ جس میں اس دفعہ دنیا کے 156 ممالک کی حقیقی خوشحالی کا جائزہ لیا گیا ہے، اس رپورٹ میں بھارت خوشحالی میں افریقا کے کئی پسماندہ ممالک سے بھی پیچھے ہے ۔
اصل حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان، بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما جیسے ملک بھی عوامی خوشحالی کے معاملے میں بھارت جیسے بڑے ملک سے بہتر ہیں۔ ورلڈ ہیپی نس رپورٹ میں ملکوں کی خوشحالی کو ان کے عوام کی فی کس آمدنی، صحت کی معیاری سہولیات، عمروں کا تناسب، سماجی حالات اور آزادی کی بنیاد پر ناپا گیا ہے۔ اس سال جو رپورٹ جاری کی گئی ہے ، اس میں بھارتیوں کی خوشحالی میں کمی آنا حیران کن ہے کیونکہ وہاں کے قائدین تو بھارت کی شرح نمو میں مسلسل حیرت انگیز اضافے کا روز ہی دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی ملک کی صرف شرح نمو کے بڑھنے سے وہاں کے عوام کی خوشحالی میں اضافہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہاں کا سماج خوشحال کہلایا جاسکتا ہے۔ در اصل یہ بات بھارت پر ہی صادق آتی ہے کہ زبردستی شرح نمو بڑھالینے سے ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ ہیپی نس رپورٹ میں پاکستان 75 ویں نمبر پر، نیپال 101 نمبر پر اور بنگلہ دیش 115 نمبر پر تو ہیں مگر وہ بھارت سے زیادہ خوشحال ہیں جب کہ بھارت ان ممالک کو غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کا درجہ دیتا ہے۔
یہ چیز بھی غور طلب ہے کہ فلسطین جیسا محکوم اور صومالیہ جیسا قحط زدہ ملک بھارت سے بہتر بتائے گئے ہیں۔ سارک ممالک میں صرف افغانستان ہی بھارت سے پیچھے ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ ہیپی نس رپورٹ میں بھارت 111 ویں نمبر پر تھا اس وقت سے اب تک حالانکہ بھارت کے شیئر بازار میں شیئرز کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی بھارتی عوام کی خوشحالی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
دنیا میں تیزی سے معاشی ترقی کرنے والا ملک امریکا اس رپورٹ میں 18 ویں نمبر پر ہے، برطانیہ 19ویں نمبر پر اور متحدہ عرب امارات 20 ویں نمبر پر ہیں۔ یہ ممالک اپنی تیز رفتار معاشی ترقی کے باوجود خوشحال ترین ممالک میں سب سے اوپر جگہ نہیں بناسکے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے پیمانوں پر ضرور سوال کھڑے کیے جاسکتے ہیں کیونکہ آج کل یہ رجحان جڑ پکڑگیا ہے کہ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کی سالانہ شرح نمو سے ناپی جاسکتی ہے ۔
صرف شرح نموکو اس لیے بھی پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہ کسی ملک کی صرف پیداواری ہدف کو ہی ظاہرکرتا ہے۔ فن لینڈ کو اس رپورٹ میں دنیا کی سب سے خوشحال اور خوش باش قوم کا درجہ دیاگیا ہے، در اصل اس کی وجہ اس کی صرف شرح نمو نہیں ہے بلکہ وہاں کرپشن کا کسی سطح پر نہ ہونا عوام کے لیے صحت، تعلیم اور دوسری بنیادی سہولیات کی معیاری اور آسان رسائی، چوری ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز سے پاک معاشرہ وہاں کی پولیس کا بے مثال کردار اور فی کس آمدنی کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔
بھارت کی اصل معاشی حالت جسے سرکاری طور پر چھپایا جاتا ہے وہ پاکستان، ایران اور بنگلہ دیش سے بھی بد تر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ بھارت میں روزگارکے متبادل ذرائع بہت سے ہیں مگر عوام کی ان تک رسائی نہیں ہے اور اسی وجہ سے عوام میں مایوسی چھائی ہوئی ہے جب کہ پاکستان جیسے ممالک میں اگرچہ عوام کے لیے روزگارکے متبادل مواقعے محدود ہیں مگر وہ جس دائرے میں کام کررہے ہیں وہ اس سے خوش اور مطمئن ہیں۔
بھارت اگرچہ صحت کے شعبے پر ایک بڑی رقم خرچ کر رہا ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ ہے مگر اس کا معیار ان دونوں ممالک سے کم ہے۔ کسی ملک کو اس وقت ہی خوشحال کہاجاسکتا ہے جب اس کی معاشی سرگرمیوں کا براہ راست فائدہ اس کے عوام تک پہنچ رہا ہو جب کہ بھارت میں ایسا نہیں ہے وہاں عوام کی فکر کرنے کے بجائے پڑوسی ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے لیے جنگی سازوسامان کی خرید کو اولیت دی جاتی ہے۔
شرح نموکے معاملے میں چین بھارت سے کہیں بہتر حالت میں ہے مگر وہاں بھی چونکہ عوام کو براہ راست معیشت سے فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے، اسی لیے اسے ہیپی نس رپورٹ میں 86 ویں نمبر پر جگہ ملی ہے۔ بھارتی معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق مودی نے معیشت کی پہلے سے زیادہ حالت خراب کردی ہے اور عوام کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس نے نوٹ بندی کی بے وقوفانہ اسکیم کے بعد اب بینک لون کو مشکل بناکر اور سیل ٹیکس میں اضافہ کرکے کسانوں کو خودکشیوں اور عوام کو فاقہ کشی پر مجبورکردیا ہے۔
پاکستانی قوم اس لحاظ سے یقینا قابل فخر ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے زیادہ خوش اور خوشحال ہے اگرچہ اس وقت ملکی معیشت کمزور ہے، ملک دہشت گردی کا شکار ہے، چوریاں، ڈکیتیاں بھی بلند سطح پر ہیں،کرپشن کا بازار بھی گرم ہے پھر پولیس بھی اپنی ذمے داریاں پوری طرح ادا نہیں کررہی ہے مگر اس کے باوجود بھی ایک بین الاقوامی آزاد ادارے کی جانب سے پاکستانیوں کو خوشی سے نہال قوم قرار دینا ہم سب پاکستانیوں کے لیے قابل فخر بات ہے۔
اس رپورٹ نے تو حکومت کا بھی سر فخر سے بلند کردیا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو بغیرکسی رکاوٹ کے اپنے پانچ سال مکمل کرنے دیے جاتے تو بے شک ان کی موجودہ کارکردگی پر دل کھول کر تنقید کی جاسکتی تھی تاہم حکومت کی یہ بات ضرور سراہنے والی ہے کہ اس نے مودی کی طرح ملکی معیشت کی کبھی جھوٹی تصویر پیش نہیں کی۔