افغان پیپرز ایک اہم کتاب
دنیا بھر کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں سیاست ایک شفاف سمندر کی نہیں بلکہ دلدل کی مانند ہے۔
گزشتہ دنوں ایک سیاسی تدبر پر مبنی کتاب کی تقریب رونمائی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی ایک دلفریب سا تاثر ذہن کے گوشوں میں ابھرا، بے حد پروقار محفل تھی، شرکا سے ہال بھرچکا تھا اور خاموشی کی دبیز چادر نے ماحول کو سحر انگیز سا بنادیا تھا اس کی وجہ شہر بھر کی علمی و ادبی شخصیات تشریف لائی تھیں اور اکابرین مسند نشینوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھیں۔
سینیٹر عبدالحسیب خان، شعر و سخن اور صحافت کے حوالے سے محمود شام، ڈاکٹر معصوم حسن اور ڈاکٹر تنویر خالد موجود تھے۔ ''افغان پیپرز'' آغا مسعود حسین کی تصنیف ہے، جو دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ آغا مسعود ممتاز صحافی اور ٹی وی چینلز کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
ایک حوالہ ان کا صوبائی وزیر کا بھی ہے، یہ ماضی کا قصہ ہے، سیاسی تدبر سے مرقع تحریریں اہل علم و فن اور قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔ کتاب میں مختلف اہل فن کی آرا شامل ہیں، ایس ایم فضل، سینیٹر عبدالحسیب خان، محمود شام نے آغا مسعود کا تعارف اور افغانستان کے پس منظر میں مختصر مضامین قلمبند کیے ہیں، پیش لفظ رشید جمال نے تحریر کیا ہے جو دوسری تحریروں پر بھاری ہے اور اس سے بھاری آغا مسعود حسین کے افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ماضی اور حال کا نوحہ ہے جو لفظوں میں ڈھل گیا ہے۔ دیدہ زیب سرورق نے قارئین، دانشوروں اور سیاسی مفکرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔
منصف نے اپنے مضمون ''کچھ کتاب کے بارے میں'' افغانستان کے پس منظر اور پیش منظر کو اس طرح سمودیا ہے، جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیاگیا ہو، افغانستان کی پوری تاریخ کی تصاویر بھی متحرک نظر آتی ہیں، ابتدا انھوں نے اس طرح کی ہے کہ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جس طرح بھارت اور ایران وسطی ایشیائی ریاستیں ہیں۔ ایک قدیم کہاوت ہے سیاسی اور معاشی تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہوسکتا ہے، اس کے پیش نظر تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں لیکن پڑوسیوں کو بدلا نہیں جاسکتا۔
افغانستان، بھارت اور ایران سے ہماری سرحدیں ملی ہوئی ہیں یہ ہمارے پڑوسی ہی رہیںگے ہر چند کہ روز اول سے افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے، افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا یہ پہلا اسلامی اور پڑوسی ملک تھا جس نے کھل کر نوزائیدہ اسلامی مملکت پاکستان کی مخالفت کی تھی بھارت کا رویہ اس کے برعکس تھا۔
دنیا بھر کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں سیاست ایک شفاف سمندر کی نہیں بلکہ دلدل کی مانند ہے اور یہ دلدل غداروں اور ہوس پرستوں کو اپنے اندر اتار لیتی ہے اور سازشی عناصر اچھے اچھوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں اور اگر اتحاد بین المسلمین میں کچھ اضافے کی صورت پیدا ہوجائے تب دوسری قوتیں ملک کے حکمرانوں خصوصاً مسلم ممالک کے سربراہوں کے گرد موت کا گھیرا تنگ کردیتی ہیں۔ افغانستان بد ترین حالات کا شکار رہا ہے۔ آغا مسعود نے ایسے ہی دلخراش واقعات کا ذکر کیا ہے۔
1976 کا سال تھا جب کولمبو (سری لنکا) میں غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کے لیے انھیں نہ کہ وہاں جانے کا بلکہ سردار داؤد جوکہ ان دنوں افغانستان کے صدر تھے، ان کا انٹرویو لینے اور ان کے ہاتھوں سے چائے پینے کا موقع پر میسر آیا اور آج تک وہ اس چائے کا مزہ نہیں بھول سکے ہیں۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایاتھا کہ غیر وابستہ کانفرنس کے بعد وہ پاکستان کا دورہ کریںگے اور بھٹو سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر کھل کر بات کریںگے۔
سردار داؤد نے انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ تجارت اور ثقافت کے شعبے میں۔ انھوں نے اس سچائی کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا، پاکستان کی حکومت اور عوام کا یہ بڑا پن ہے کہ انھوں نے افغانستان کے لیے تجارت کا راستہ کبھی بند نہیں کیا، اس سے پہلے کہ دونوں ملکوں کے حالات ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوتے کہ افغان کمیونسٹ فوجیوں نے انھیں اور ان کے خاندان کے تیس افراد کو بڑی بے دردی سے اس وقت قتل کردیا جب وہ پاکستان کا دورہ کرکے واپس گئے تھے۔
سفارتی حلقوں کے مطابق انھیں بھارت اور روس کی مشترکہ سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ اچھے مراسم قائم کرنے کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ دوسرے یہ کہ افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی اپنی خواہش کے مطابق اقتدار میں آگئی۔ جب ملک میں دشمن عناصر اور میر و صادق مختلف کرداروں اور شکلوں میں اپنے مشن پر کام کررہے ہوں اور ڈالروں کی بارش ہورہی ہو تب اسی طرح حکومتیں گرائی جاتی ہیں اور زوال پذیر ہوتی ہیں۔
کتاب میں مصنف نے اپنی صلاحیت اور علمیت کی بنا پر سیاسی حقائق کو بہت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ طالبان کو پروان چڑھانے والا بھی امریکا تھا اور انھیں افغان مجاہدین کا نام دے کر استعمال کیا گیا اور طالبان کی حکومت بھی امریکا اور شمالی اتحاد نے مل کر ختم کی۔ امریکا کا یہی کمال ہے کہ وہ مسلم مالک پر گہری نظر رکھتا ہے اور اپنی دیرینہ منصوبہ بندی کے تحت دوسروں کی بربادی اور خصوصاً مسلم آبادی کو خاک و خون میں ملاکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔
افغان پیپرز میں مصنف نے امریکی حملوں اور طالبان کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ سات اکتوبر 2016 کو افغانستان میں امریکا کو طالبان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پندرہ سال مکمل ہوگئے ہیں۔
امریکا نے سات اکتوبر 2001 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف حملہ کیا تھا ان دنوں صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت تھی ان کا یہ خیال تھاکہ 11 ستمبر 2011 کو نیو یارک کے ٹریڈ ٹاورز پر جو حملہ ہوا تھا اس کا تعلق افغانستان سے ہے جہاں القاعدہ کی مرکزی قیادت براجمان تھی، امریکا کا یہ خیال تھا کہ نو یارک ٹریڈ ٹاور پر حملہ اسامہ بن لادن نے کرایاتھا۔ اس لیے امریکا نے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کردیا جائے طالبان حکومت کے انکار پر امریکا نے نہ کہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ اسے افغانستان میں مداخلت کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
افغان طالبان پندرہ برسوں سے امریکی فوج کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں جس میں اب تک ہزاروں طالبان اور نہتے شہری شہید ہوچکے ہیں۔ اس وقت بھی جنگ جاری ہے۔ امریکا نے اپنے ایک لاکھ فوجیوں کو واپس بلالیا ہے لیکن دس ہزار نیٹو اور امریکا کے فوجی ہلمند کے مقام پر خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔
تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل کتاب افغانستان کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتی ہے۔ رشید جمال نے 25 صفحات پر مشتمل اپنے مضمون بعنوان ''افغانستان ...تاریخ پس منظر'' میں کا مکمل تعارف اس کی معاشرت و ثقافت، قبائلی اور سیاسی پس منظر سے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے داعش کے بارے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے زیادہ خطرناک داعش ہے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ اگر داعش کا راستہ نہ روکا گیا تو لوگ طالبان کا غم بھول جائیں گے۔
بعض عالمی طاقتیں داعش کے ذریعے پشتون سرزمین کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں عالمی طاقتوں کی چپقلش کے منفی اثرات پاکستان، چین اقتصادی راہداری پر بھی پڑیںگے، رداہداری منصوبے کی کامیابی کے لیے افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنایاجائے۔
کتاب میں منصف کے وہ فکر انگیز کالم بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اخبارات کے لیے لکھے تھے چند کے عنوانات یہ ہیں۔ (1) افغان قیادت ذرا سوچے۔ (2) پاکستان افغانستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ (3) افغان صدر کا دورہ بھارت۔ (4) کرزئی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی۔ (5) اشرف غنی کا یوٹرن۔ ان عنوانات سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ آغا مسعود حسین کی سیاسی بصیرت اور افغانستان کے حالات پر گہری نگاہ ہے۔ غیر ملکی تجزیہ نگاروں کی تحریریں بھی شامل کتاب میں اس طرح افغانستان کے مسائل اور امریکا کے مظالم پر ان کا نقطہ نظر بھی واضح ہوگیا ہے۔
تصویری البم نے کتاب کو مزید وقیع بنادیا ہے۔ آٹھ صفحات پر تصویری کہانی نے افغانستان کے مختلف ادوار اور اس خطے پر ڈرون اور خودکش حملوں میں جھولتی ہوئی لاشوں کی نقاب کشائی کی ہے کہ کس طرح ماضی میں طالبان نے ظلم کی تاریخ رقم کی تھی۔
سینیٹر عبدالحسیب خان، شعر و سخن اور صحافت کے حوالے سے محمود شام، ڈاکٹر معصوم حسن اور ڈاکٹر تنویر خالد موجود تھے۔ ''افغان پیپرز'' آغا مسعود حسین کی تصنیف ہے، جو دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ آغا مسعود ممتاز صحافی اور ٹی وی چینلز کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
ایک حوالہ ان کا صوبائی وزیر کا بھی ہے، یہ ماضی کا قصہ ہے، سیاسی تدبر سے مرقع تحریریں اہل علم و فن اور قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔ کتاب میں مختلف اہل فن کی آرا شامل ہیں، ایس ایم فضل، سینیٹر عبدالحسیب خان، محمود شام نے آغا مسعود کا تعارف اور افغانستان کے پس منظر میں مختصر مضامین قلمبند کیے ہیں، پیش لفظ رشید جمال نے تحریر کیا ہے جو دوسری تحریروں پر بھاری ہے اور اس سے بھاری آغا مسعود حسین کے افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ماضی اور حال کا نوحہ ہے جو لفظوں میں ڈھل گیا ہے۔ دیدہ زیب سرورق نے قارئین، دانشوروں اور سیاسی مفکرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔
منصف نے اپنے مضمون ''کچھ کتاب کے بارے میں'' افغانستان کے پس منظر اور پیش منظر کو اس طرح سمودیا ہے، جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیاگیا ہو، افغانستان کی پوری تاریخ کی تصاویر بھی متحرک نظر آتی ہیں، ابتدا انھوں نے اس طرح کی ہے کہ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جس طرح بھارت اور ایران وسطی ایشیائی ریاستیں ہیں۔ ایک قدیم کہاوت ہے سیاسی اور معاشی تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہوسکتا ہے، اس کے پیش نظر تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں لیکن پڑوسیوں کو بدلا نہیں جاسکتا۔
افغانستان، بھارت اور ایران سے ہماری سرحدیں ملی ہوئی ہیں یہ ہمارے پڑوسی ہی رہیںگے ہر چند کہ روز اول سے افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے، افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا یہ پہلا اسلامی اور پڑوسی ملک تھا جس نے کھل کر نوزائیدہ اسلامی مملکت پاکستان کی مخالفت کی تھی بھارت کا رویہ اس کے برعکس تھا۔
دنیا بھر کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں سیاست ایک شفاف سمندر کی نہیں بلکہ دلدل کی مانند ہے اور یہ دلدل غداروں اور ہوس پرستوں کو اپنے اندر اتار لیتی ہے اور سازشی عناصر اچھے اچھوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں اور اگر اتحاد بین المسلمین میں کچھ اضافے کی صورت پیدا ہوجائے تب دوسری قوتیں ملک کے حکمرانوں خصوصاً مسلم ممالک کے سربراہوں کے گرد موت کا گھیرا تنگ کردیتی ہیں۔ افغانستان بد ترین حالات کا شکار رہا ہے۔ آغا مسعود نے ایسے ہی دلخراش واقعات کا ذکر کیا ہے۔
1976 کا سال تھا جب کولمبو (سری لنکا) میں غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کے لیے انھیں نہ کہ وہاں جانے کا بلکہ سردار داؤد جوکہ ان دنوں افغانستان کے صدر تھے، ان کا انٹرویو لینے اور ان کے ہاتھوں سے چائے پینے کا موقع پر میسر آیا اور آج تک وہ اس چائے کا مزہ نہیں بھول سکے ہیں۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایاتھا کہ غیر وابستہ کانفرنس کے بعد وہ پاکستان کا دورہ کریںگے اور بھٹو سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر کھل کر بات کریںگے۔
سردار داؤد نے انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ تجارت اور ثقافت کے شعبے میں۔ انھوں نے اس سچائی کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا، پاکستان کی حکومت اور عوام کا یہ بڑا پن ہے کہ انھوں نے افغانستان کے لیے تجارت کا راستہ کبھی بند نہیں کیا، اس سے پہلے کہ دونوں ملکوں کے حالات ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوتے کہ افغان کمیونسٹ فوجیوں نے انھیں اور ان کے خاندان کے تیس افراد کو بڑی بے دردی سے اس وقت قتل کردیا جب وہ پاکستان کا دورہ کرکے واپس گئے تھے۔
سفارتی حلقوں کے مطابق انھیں بھارت اور روس کی مشترکہ سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ اچھے مراسم قائم کرنے کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ دوسرے یہ کہ افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی اپنی خواہش کے مطابق اقتدار میں آگئی۔ جب ملک میں دشمن عناصر اور میر و صادق مختلف کرداروں اور شکلوں میں اپنے مشن پر کام کررہے ہوں اور ڈالروں کی بارش ہورہی ہو تب اسی طرح حکومتیں گرائی جاتی ہیں اور زوال پذیر ہوتی ہیں۔
کتاب میں مصنف نے اپنی صلاحیت اور علمیت کی بنا پر سیاسی حقائق کو بہت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ طالبان کو پروان چڑھانے والا بھی امریکا تھا اور انھیں افغان مجاہدین کا نام دے کر استعمال کیا گیا اور طالبان کی حکومت بھی امریکا اور شمالی اتحاد نے مل کر ختم کی۔ امریکا کا یہی کمال ہے کہ وہ مسلم مالک پر گہری نظر رکھتا ہے اور اپنی دیرینہ منصوبہ بندی کے تحت دوسروں کی بربادی اور خصوصاً مسلم آبادی کو خاک و خون میں ملاکر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔
افغان پیپرز میں مصنف نے امریکی حملوں اور طالبان کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ سات اکتوبر 2016 کو افغانستان میں امریکا کو طالبان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پندرہ سال مکمل ہوگئے ہیں۔
امریکا نے سات اکتوبر 2001 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف حملہ کیا تھا ان دنوں صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت تھی ان کا یہ خیال تھاکہ 11 ستمبر 2011 کو نیو یارک کے ٹریڈ ٹاورز پر جو حملہ ہوا تھا اس کا تعلق افغانستان سے ہے جہاں القاعدہ کی مرکزی قیادت براجمان تھی، امریکا کا یہ خیال تھا کہ نو یارک ٹریڈ ٹاور پر حملہ اسامہ بن لادن نے کرایاتھا۔ اس لیے امریکا نے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کردیا جائے طالبان حکومت کے انکار پر امریکا نے نہ کہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا بلکہ اسے افغانستان میں مداخلت کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
افغان طالبان پندرہ برسوں سے امریکی فوج کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں جس میں اب تک ہزاروں طالبان اور نہتے شہری شہید ہوچکے ہیں۔ اس وقت بھی جنگ جاری ہے۔ امریکا نے اپنے ایک لاکھ فوجیوں کو واپس بلالیا ہے لیکن دس ہزار نیٹو اور امریکا کے فوجی ہلمند کے مقام پر خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔
تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل کتاب افغانستان کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتی ہے۔ رشید جمال نے 25 صفحات پر مشتمل اپنے مضمون بعنوان ''افغانستان ...تاریخ پس منظر'' میں کا مکمل تعارف اس کی معاشرت و ثقافت، قبائلی اور سیاسی پس منظر سے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے داعش کے بارے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے زیادہ خطرناک داعش ہے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ اگر داعش کا راستہ نہ روکا گیا تو لوگ طالبان کا غم بھول جائیں گے۔
بعض عالمی طاقتیں داعش کے ذریعے پشتون سرزمین کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں عالمی طاقتوں کی چپقلش کے منفی اثرات پاکستان، چین اقتصادی راہداری پر بھی پڑیںگے، رداہداری منصوبے کی کامیابی کے لیے افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنایاجائے۔
کتاب میں منصف کے وہ فکر انگیز کالم بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اخبارات کے لیے لکھے تھے چند کے عنوانات یہ ہیں۔ (1) افغان قیادت ذرا سوچے۔ (2) پاکستان افغانستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ (3) افغان صدر کا دورہ بھارت۔ (4) کرزئی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی۔ (5) اشرف غنی کا یوٹرن۔ ان عنوانات سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ آغا مسعود حسین کی سیاسی بصیرت اور افغانستان کے حالات پر گہری نگاہ ہے۔ غیر ملکی تجزیہ نگاروں کی تحریریں بھی شامل کتاب میں اس طرح افغانستان کے مسائل اور امریکا کے مظالم پر ان کا نقطہ نظر بھی واضح ہوگیا ہے۔
تصویری البم نے کتاب کو مزید وقیع بنادیا ہے۔ آٹھ صفحات پر تصویری کہانی نے افغانستان کے مختلف ادوار اور اس خطے پر ڈرون اور خودکش حملوں میں جھولتی ہوئی لاشوں کی نقاب کشائی کی ہے کہ کس طرح ماضی میں طالبان نے ظلم کی تاریخ رقم کی تھی۔