لاوارث کراچی کا آلودہ سمندر
یہ اور ان جیسے تمام اقدامات کے انتظام کے لیے ہم اہلیان ِ کراچی کو ہی کوششیں کرنی ہوں گی۔
پاکستان کو خدائے ذوالجلال نے اپنی بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ۔ اونچے اونچے پہاڑ ، گلیشئرز ، صاف ، شفاف و میٹھے پانی کے جھرنے ، بہتے ہوئے دریا ، ہرے بھرے کھیت ، وسیع ریگستانی و میدانی علاقے، قدرتی جھیلیں اور گرم پانی کا حامل بحر ِ بے مثال۔
بحیرہ ِ عرب ماضی کی سندھو تہذیب اور موجودہ پاکستان کا بیرونی ممالک سے روابط اور تجارت کا واحد اور اہم آبی ذریعہ ہے ۔ آج سے 5000 سال قبل موہن جو دڑو کی بیرون ِ ملک تجارت دریائے سندھ کے ڈیلٹا (انڈس ڈیلٹا) کے توسط سے اسی بحر ِسندھ( بحر ِ ہند) کے ذریعے ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔ 300قبل مسیح میں جب الیگزینڈر ایران فتح کرنے کے بعد سندھ پہنچا تو بحر ِ سندھ کی ساحلی پٹی (موجودہ مکران، کراچی ، ٹھٹہ اور بدین کی ساحلی پٹی) کی دلکشی اور محل ِ وقوع سے بڑا متاثر ہوا ۔
اُس نے خشکی کے بجائے بحر سندھ کے ذریعے بھارت تک سفر کرنے کو ترجیح دی ۔ عرب مورخ وشاعر ابن العربی نے8 ویں صدی عیسوی اور مورخ و عالم البیرونی نے 11 ویں صدی عیسوی میں بھی یہاں دو بندرگاہوں '' دیبلان'' (دیبل کا جمع) کا ذکر کیا ہے جو ایک سرسبز وادی پر محیط تھے۔ جب کہ 14ویں صدی عیسوی میں مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ نے بھی یہاں کی ان بندرگاہوں میں سے ایک اہم بندرگاہ لاہری بندر یا لاڑی بندر (دیبل بندرکا اُس دور کا نام) کی فعال حالت کا ذکر کرتے ہوئے اسے اس وقت کی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ قرار دیا تھا۔
عربوں نے جب سندھ میں قدم رکھا تو انھوں نے سب سے پہلے ان ہی دونوں بندرگاہوں (دیبلان) پر اپنا قبضہ جمایا ،جس کا ثبوت بھنبھور(دابیجی ) اور منوڑہ پر موجودبرصغیر کی پہلی مساجد (منوڑہ کی مسجدکی تعمیر کو محمد بن قاسم سے منسوب کیا جاتا ہے ) کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ یہ دونوں بندرگاہیں اُس وقت بھی مصر اور افریقہ و یورپ کے دیگر ملکوں سے تجارت کے بڑ ے مرکز کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کے حامل شہروں پر مشتمل تھیں۔
پھر 16ویں صدی کے اوائل میں انگریز اور یورپ کے بحری بیڑوں (جہازوں) کا جب یہاں سے گذر ہوا تو وہ بھی ایشیا کے لیے موزوں ترین اوردلکش و حیرت انگیز محل ِ وقوع کی حامل سندھ کی اس ساحلی پٹی پر اپنے پاؤں جمانے کی سعی میں لگ گئے ۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں انھوں نے سندھ کے تالپور حکمرانوں سے براہ ِ راست و سلطنت ِ ہندوستان کے ذریعے بڑی کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔
بالآخر 19ویں صدی کے آغاز میں سندھ کے تالپور حکمرانوں کے ساتھ تجارتی و صنعتی معاہدوں کے تحت انگریزیہاں اپنے پیر رکھنے میں کامیاب ہوا اور آگے چل کر19ویں صدی کے نصف میں یہی معاہدے سندھ پر راج برطانیہ کے مکمل قبضے کا باعث بنے۔
انگریز نے یہاں منوڑہ -کیماڑی کے قدیم پورٹ کی جگہ ایک نئی و جدید عالمی سطح کی بندرگاہ تعمیر کی اور اُس کا انتظام کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام سے قائم کردہ ایک ادارے کے حوالے کیا جب کہ کلفٹن ساحل کی طرف(موجودہ کلفٹن و سی ویوپوائنٹ) سیاحت و تفریح کے انتظامات کیے ۔جہاں شام ہوتے ہی کلاچی (کراچی ) کے شہری اپنی تھکن دور کرنے اور ذہنی و جسمانی سکون حاصل کرنے پہنچ جاتے تھے ۔
ہزارہا سالوں سے تجارت و سیاحت کے لیے استعمال ہونے کے باوجودتقریباً 600میل پر پھیلی یہ ساحلی پٹی اپنے منفرد و دلکش محل ِ وقوع اور تازگی کو برقرار رکھتی تھی۔ جس کی وجوہات ہیں : ایک طرف دریائے سندھ کا وہ میٹھا پانی جو ہمالیہ کے پہاڑوں،شمالی علاقوںاور پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے مختلف منرلز سمیٹے کیٹی بندر کے مقام پر انڈس ڈیلٹا کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا تھا تو دوسری جانب حب و لیاری ندیاں پہاڑوں کے برساتی پانی کو سمندر میں شامل کرتی تھیں ۔انڈس ڈیلٹا میں سمندر کو قدرتی طور پر صاف رکھنے والے نباتات و حیوانات کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے ۔ان نباتات میں مختلف اقسام کے تمر یعنی مینگروزکے درختوں کے حامل آبی جنگلات سب سے اہم ہیں۔
1972میں ایک عالمی سطح کے سروے میں کہا گیا کہ بحیرہ عرب کے انڈس ڈیلٹا پر موجودمینگروز کی 8اقسام کا یہ جنگل دنیا کے بڑے آبی جنگلات میں سے ایک ہے۔جہاں کئی اقسام کے آبی پرندے اور میمل ، کچھوے ، مگر مچھ و دیگر رینگنے والے آبی و ارضی جانوروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں ۔جو ماحولیاتی آلودگی کے باعث اب ختم ہوچکے ہیں یا ختم ہونے کے قریب ہیں جب کہ کئی معروف قسم کی مچھلیاںبھی نایاب ہوچکی ہیں ۔
1970کے عشرہ میں یہاں ماضی کے دیبلان (یعنی منوڑہ اور بھنبھوردابیجی) کے بیچ میں پورٹ قاسم کی بندر گاہ تعمیر کی گئی جو انڈس ڈیلٹا کے قریب اُن نایاب نسل کے مینگروز درختوں کے جنگلات کو کاٹ کر بنائی گئی ۔جس سے ان مینگروز میں سے 4اقسام کے جنگلات ختم ہوکر رہ گئے۔
سالانہ 1.7کروڑ ٹن سامان کی تجارت کی حامل یہ بندرگاہ پورٹ قاسم پاکستان کی مجموعی ضروریات کا 40%تجارت کرنے والی بندرگاہ ہے ۔ جب کہ منوڑہ -کیماڑی پر واقع 62اسکوائر کلو میٹر پر پھیلی کے پی ٹی بندرگاہ جو کہ جغرافیائی محل ِ وقوع کے حساب سے عالمی آبی گزرگاہوں '' آبنائے ہرمز'' کے بالکل قریب واقع ہے،اس پر 2.5(ڈھائی) کروڑ ٹن سامان کی سالانہ تجارت ہوتی ہے ۔
اِ ن دونوں بندرگاہوں کے بننے سے یہاں( کراچی میں) جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اُس کے لیے نہ تو جدید طرز ِ زندگی کے اُصولوں کے مطابق اقدامات کیے گئے ہیں اور نہ ہی ماحولیات و انسان دوست صنعتی و تجارتی پالیسیاں بنائی گئی ہیں ۔ اس وقت یہ ساری ساحلی پٹی بالخصوص کراچی سے ملحقہ ساحلی پٹی بالواسطہ یا بلا واسطہ وفاق کے کنٹرول میں ہے۔ متعدد ادارے اپنی اسٹریٹجک تنصیبات و دفاتر کے علاوہ یہاں بڑے پیمانے پر رہائشی اسکیمیں بنا چکے ہیں ۔اب تو ساحل کی حد تک کا تعین نہیں رہا ۔ماضی کی گذری و سلطان آباد (مائی کلاچی روڈ )کریک کو تو انھوں نے مٹی ڈال کر ختم کردیا ہے اور اس پر تعمیرات کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری و ساری ہے۔
یہی نہیں بلکہ کورنگی کریک کی جانب ساحل پر دو دریا ، سی ویو کے مقام پر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں کبھی سمندر تھا ہی نہیں ۔ بڑے بڑے رہائشی و کمرشل منصوبوں کی بھرمار دیکھ کر یوں تو لگتا ہے کہ ہم نے تعمیراتی سطح پر بڑی ترقی کرلی ہے لیکن ان تعمیراتی انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ جو ماحولیاتی و شہری تباہیاں برپا ہورہی ہیں ان کی جانب نہ تو ان اداروں نے اور نہ ہی محکمہ پلاننگ و ڈویلپمنٹ کی جانب سے کبھی توجہ دی گئی ہے ۔
پی ٹی کی جانب سے سمندری آلودگی کو ختم کرنے کے لیے 1996میںایک ماتحت ادارہ میرین پلوشن کنٹرول ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا جوکہ کے پی ٹی کے ماتحت بندرگاہ کی حدود میں زمینی و آبی آلودگی اور فضلاتی مواد کی روک تھام اور صفائی کا ذمے دار ہے جیسے: سمندر میں گرنے والے تیل کی صفائی ، بحری جہازوں کا معائنہ ، بندرگاہ کی نگرانی ، بندرگاہ کی صفائی ، تیل کی تنصیبات کے علاقے میں ماحولیاتی آڈٹ، پانی کے معیار کی نگرانی ،تیل /پانی کے ناؤ کی فٹنس ،آئل بوم کے ذریعے آئل ٹینکرز کی بحالی ، ساحل پر فضلات کورفع کرنے کی نگرانی ،مینگرو درختوں کی بحالی ، جہازوں سے کیچڑ /کوڑا کرکٹ ہٹانے کا طریقہ کار یا عمل وغیرہ۔
بظاہراس ادارے کی جانب سے دن میںایک یا دو مرتبہ پورے بندر گاہ کا چکر لگاکر ساحل کی آبی و زمینی نگرانی کی جاتی ہے اوراس کی رپورٹ بنائی جاتی ہے جو کہ ایک مقرر کردہ آلودگی سے متعلق پروفارما کو پُر کرکے کی جاتی ہے۔ریکارڈ کی خانہ پوری کے حساب سے تو یہ ذمے داری ادا کی جارہی ہے لیکن یہاں موجود انتہائی آلودگی کچھ اور ہی داستان بتاتی ہے۔
اسی طرح 2009میں پورٹ قاسم اتھارٹی نے بندرگاہ کو آلودگی سے پاک بنانے کے ایک عملدرآمدی ایگریمنٹ پر دستخط کیے، جس کے تحت خطرات و نقصانات سے تحفظ کے اُصولوں پر ایک کول ، سیمنٹ اور کلنکر ٹرمینل تعمیر کیا گیا ۔ لیکن عملی طور پر اس طرف کی صورتحال بھی یہ ہے کہ دنیا کے بڑے میگروز جنگلات کی حیثیت کے حامل اس انڈس ڈیلٹا میں اب 4نایاب نسل کے مینگروزکے جنگلات برائے نام رہ گئے ہیں اور متذکرہ بالا پرندے ، میمل ، جانور اور مچھلیاںختم ہوچکی ہیں جوکہ سمندر کو قدرتی طور پر آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کی صلاحیت کے حامل تھے ۔
2003میں پورٹ قاسم پر ایک تباہ کن منظر تب نظر آیا جب بندر گاہ پر کھڑے ایک یونانی رجسٹرڈ آئل ٹینکر ''تسمان اسپرٹ'' سے تیل کا رساؤ شروع ہوا اور اُس پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی دنوں تک یہ عمل جاری رہا اورساحل ِ سمندر پر کتنے ہی آبی جانور و پرندے مرگئے اور کتنے ہی انسان بے حال ہوگئے ، سانس ، پیٹ و چمڑی کی کئی اقسام کی بیماریاں پھیل گئیں۔
جب کہ 20مئی 2017کو سینڈ اسپٹ (Sandspit)بیچ پر اور ستمبر 2017میں کلفٹن کے ساحل پر بھی پانی میں تیل پھیلا ہوا پایا گیا لیکن کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی اور اسے اداراتی طور پردبا کر Mythبنادیا گیا لیکن اس کے خطرات تو بہرحال تفریح کے لیے آنیوالوں اور ساحل کے قریب رہنے والوں کو لاحق ہوتے رہے۔ ساتھ ہی شہر بھر کا یومیہ 480ملین گیلن نکاسی ِ آب کا آلودہ پانی ، کراچی بھر کے کارخانوں سے نکلنے والے کیمیکلز اور دوسرا شہری و انڈسٹریل فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے ۔جس کی مقدار سالانہ 6.4ملین ٹن ہے جس میں 60فیصد پولی تھین (Polythene) شاپنگ بیگ یعنی پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں۔
اس سے متعلق 2016میںنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینوگرافی( NIO)اور دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کی گئی اسٹڈی کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ولیج ، ساحل ایوینیو 2اور دو دریا بیچ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں اوریہاں کا ساحلی پانی تابکار ی آلودگی کا حامل ہے کیونکہ یہاں کورنگی کریک اور گذری کریک و چھنہ کریک کا گھریلو و صنعتی فضلہ براہ راست بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں خارج کیا جارہا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ ابراہیم حیدری پر واقع ماہی گیروں کی ایک غیر سرکاری چھوٹی بندرگاہ بھی اس ماحولیاتی آلودگی کے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے ۔ یہاں کشتیوں اور لانچوں کے ذریعے مچھلی پکڑنے اورساحل پر ہی فروخت کرنے کا کاروبار ہوتا ہے خصوصاً چھوٹی مچھلی (جس کے پکڑنے پر پابندی عائد ہے) پکڑ کر مرغیوں کی فیڈ بنانے کے لیے کارخانوں کو بیچی جاتی ہے ۔ یہیں پر مچھلی کو ڈبوں میں پیک کرنے کا ایک کارخانہ بھی ہے۔
اس بندرگاہ اور وہاں موجود کارخانوں کا فضلہ بھی واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان بھر کے نکاسی ِ آب و سیم کے پانی اور پنجاب کے کارخانوں کا پانی بھی ایل بی اوڈی کے ذریعے بدین کے مقام سے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں براہ راست ڈالا جارہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو کسی ادارے نے اس طرف توجہ دی اور نہ ہی ساحلی پٹی پر برپا ہونے والی ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثراقدامات کیے گئے ۔ آج بھی یہ سلسلہ جوں کا توں جاری و ساری ہے۔
موجودہ صورتحال تو اس قدر بھیانک ہے کہ لیاری سے کیٹی بندرتک پوری ساحلی پٹی خصوصاً کھارادر ، کیماڑی ، کلفٹن ، سی ویو اور دو دریا کے ساحل تو سمندر کے نیلے و شفاف پانی کے بجائے گٹر کے کالے پانی کا تالاب محسوس ہوتے ہیں ۔ جہاں وفاقی حکومت اور دیگر انتظامی ادارے اس تباہی کے ذمے دار ہیں وہیں سندھ کی صوبائی حکومت اور کراچی کے بلدیاتی ادارے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
یوں تو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ریکارڈ پر 4ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہیں لیکن وہ بڑے عرصے سے ناکارہ ہیں ۔ کراچی کا کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے لیے چائنیز کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا ہے ۔ شہر بھرکا کوڑا کرکٹ ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں پھینکنے کی بھی اطلاعات ہیں اور آلودگی کی وجہ سے تمام ساحلی پٹی میں سانس و چمڑی کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور اُن میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس طرح ان تمام اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ماحولیات کے تحفظ کے اُمور میں برتی گئی شدید لاپرواہیوں کی وجہ سے اس ساری ساحلی پٹی خصوصاً کراچی اور اُس میں بسنے والے 2کروڑ شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
عرصہ دراز سے سول سوسائٹی اس بات پر واویلا کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی و ماحولیاتی سرگرمیاں بھی کرتی رہی ہے جیسے مینگروز و دیگر ساحلی ماحول دوست درخت لگانے کی مہم چلانا ۔ ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کی جانب سے مینگروز کے تحفظ کے لیے کمیونٹی ، مقامی اسکولی بچوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز جیسے پورٹ قاسم اور محکمہ جنگلات کی شراکت سے سماجی ، ماحولیاتی اور معاشی آگاہی مہم و اقدامات کیے گئے ۔ لیکن ساحلی پٹی پر پھیلی تباہی کے آگے یہ اقدامات و آگاہی مہم کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ان چھوٹے اقدامات کرنے سے سول سوسائٹی ، عوام اور دیگر اداروں کی ذمے داری ختم ہوتی ہے بلکہ اہلیان ِ کراچی کوساحل ِ سمندر کے حقیقی وارث ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس بڑے پیمانے پر پھیلی تباہی کی روک تھام کے لیے تمام مقامی، صوبائی اور وفاقی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہوگاخصوصاً کے پی ٹی اور پورٹ قاسم پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ سمندر سے براہ ِ راست منافع کمانے والے اداروں کے طور پر سمندر کے آبی وزمینی ساحلی ماحولیات کا تحفظ بھی ان ہی کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں مثلاً : مینگروز کے جنگلات کو بڑھایا جائے ،جہازوں سے غیر محفوظ طریقے سے سامان کا اُتار و چڑھاؤ، سمندر میں تیل کے گرنے کی روک تھام کے لیے سخت پالیسی بنانا، بندرگاہ کی مکمل حدود میں پانی کی صفائی کو یقینی بنانا، سمندر میں جانے والے نکاسی ِ آب،کارخانوں سے فضلے کو صاف کرنے والے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعداد وغیرہ بڑھانے اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نگرانی کے عمل کو سخت کرنا ، اور مقامی ، صوبائی اور وفاقی اداروں خصوصاً نجی کارخانوں کو ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا پابند بنانے کے اقدامات وغیرہ ۔ اسی طرح حکومت ِ سندھ کے ماتحت بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور عسکری ادارے کے ماتحت ڈیفنس اتھارٹی پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بے ہنگم و بے ترتیب ماحول دشمن منصوبے بنانے سے گریز کریں ۔
یہ اور ان جیسے تمام اقدامات کے انتظام کے لیے ہم اہلیان ِ کراچی کو ہی کوششیں کرنی ہوں گی کیونکہ ہمیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو یہیں رہنا ہے ۔ یہاں کی فضا ہماری ہی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی رہے گی ۔ اس لیے ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم کراچی کے خوبصورت ماضی کو لوٹانے کے لیے کوششیں کریں کیونکہ وہ کراچی جس کے راستوں کو انگریز کے دور میں روزانہ شام کو دھویا جاتا اورخوشبوؤںسے مہکایا جاتا تھا وہ کراچی آج گندگی ، بدبو اور آلودگی کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے ۔
بحیرہ ِ عرب ماضی کی سندھو تہذیب اور موجودہ پاکستان کا بیرونی ممالک سے روابط اور تجارت کا واحد اور اہم آبی ذریعہ ہے ۔ آج سے 5000 سال قبل موہن جو دڑو کی بیرون ِ ملک تجارت دریائے سندھ کے ڈیلٹا (انڈس ڈیلٹا) کے توسط سے اسی بحر ِسندھ( بحر ِ ہند) کے ذریعے ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔ 300قبل مسیح میں جب الیگزینڈر ایران فتح کرنے کے بعد سندھ پہنچا تو بحر ِ سندھ کی ساحلی پٹی (موجودہ مکران، کراچی ، ٹھٹہ اور بدین کی ساحلی پٹی) کی دلکشی اور محل ِ وقوع سے بڑا متاثر ہوا ۔
اُس نے خشکی کے بجائے بحر سندھ کے ذریعے بھارت تک سفر کرنے کو ترجیح دی ۔ عرب مورخ وشاعر ابن العربی نے8 ویں صدی عیسوی اور مورخ و عالم البیرونی نے 11 ویں صدی عیسوی میں بھی یہاں دو بندرگاہوں '' دیبلان'' (دیبل کا جمع) کا ذکر کیا ہے جو ایک سرسبز وادی پر محیط تھے۔ جب کہ 14ویں صدی عیسوی میں مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ نے بھی یہاں کی ان بندرگاہوں میں سے ایک اہم بندرگاہ لاہری بندر یا لاڑی بندر (دیبل بندرکا اُس دور کا نام) کی فعال حالت کا ذکر کرتے ہوئے اسے اس وقت کی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ قرار دیا تھا۔
عربوں نے جب سندھ میں قدم رکھا تو انھوں نے سب سے پہلے ان ہی دونوں بندرگاہوں (دیبلان) پر اپنا قبضہ جمایا ،جس کا ثبوت بھنبھور(دابیجی ) اور منوڑہ پر موجودبرصغیر کی پہلی مساجد (منوڑہ کی مسجدکی تعمیر کو محمد بن قاسم سے منسوب کیا جاتا ہے ) کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ یہ دونوں بندرگاہیں اُس وقت بھی مصر اور افریقہ و یورپ کے دیگر ملکوں سے تجارت کے بڑ ے مرکز کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کے حامل شہروں پر مشتمل تھیں۔
پھر 16ویں صدی کے اوائل میں انگریز اور یورپ کے بحری بیڑوں (جہازوں) کا جب یہاں سے گذر ہوا تو وہ بھی ایشیا کے لیے موزوں ترین اوردلکش و حیرت انگیز محل ِ وقوع کی حامل سندھ کی اس ساحلی پٹی پر اپنے پاؤں جمانے کی سعی میں لگ گئے ۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں انھوں نے سندھ کے تالپور حکمرانوں سے براہ ِ راست و سلطنت ِ ہندوستان کے ذریعے بڑی کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔
بالآخر 19ویں صدی کے آغاز میں سندھ کے تالپور حکمرانوں کے ساتھ تجارتی و صنعتی معاہدوں کے تحت انگریزیہاں اپنے پیر رکھنے میں کامیاب ہوا اور آگے چل کر19ویں صدی کے نصف میں یہی معاہدے سندھ پر راج برطانیہ کے مکمل قبضے کا باعث بنے۔
انگریز نے یہاں منوڑہ -کیماڑی کے قدیم پورٹ کی جگہ ایک نئی و جدید عالمی سطح کی بندرگاہ تعمیر کی اور اُس کا انتظام کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نام سے قائم کردہ ایک ادارے کے حوالے کیا جب کہ کلفٹن ساحل کی طرف(موجودہ کلفٹن و سی ویوپوائنٹ) سیاحت و تفریح کے انتظامات کیے ۔جہاں شام ہوتے ہی کلاچی (کراچی ) کے شہری اپنی تھکن دور کرنے اور ذہنی و جسمانی سکون حاصل کرنے پہنچ جاتے تھے ۔
ہزارہا سالوں سے تجارت و سیاحت کے لیے استعمال ہونے کے باوجودتقریباً 600میل پر پھیلی یہ ساحلی پٹی اپنے منفرد و دلکش محل ِ وقوع اور تازگی کو برقرار رکھتی تھی۔ جس کی وجوہات ہیں : ایک طرف دریائے سندھ کا وہ میٹھا پانی جو ہمالیہ کے پہاڑوں،شمالی علاقوںاور پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے مختلف منرلز سمیٹے کیٹی بندر کے مقام پر انڈس ڈیلٹا کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا تھا تو دوسری جانب حب و لیاری ندیاں پہاڑوں کے برساتی پانی کو سمندر میں شامل کرتی تھیں ۔انڈس ڈیلٹا میں سمندر کو قدرتی طور پر صاف رکھنے والے نباتات و حیوانات کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے ۔ان نباتات میں مختلف اقسام کے تمر یعنی مینگروزکے درختوں کے حامل آبی جنگلات سب سے اہم ہیں۔
1972میں ایک عالمی سطح کے سروے میں کہا گیا کہ بحیرہ عرب کے انڈس ڈیلٹا پر موجودمینگروز کی 8اقسام کا یہ جنگل دنیا کے بڑے آبی جنگلات میں سے ایک ہے۔جہاں کئی اقسام کے آبی پرندے اور میمل ، کچھوے ، مگر مچھ و دیگر رینگنے والے آبی و ارضی جانوروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں ۔جو ماحولیاتی آلودگی کے باعث اب ختم ہوچکے ہیں یا ختم ہونے کے قریب ہیں جب کہ کئی معروف قسم کی مچھلیاںبھی نایاب ہوچکی ہیں ۔
1970کے عشرہ میں یہاں ماضی کے دیبلان (یعنی منوڑہ اور بھنبھوردابیجی) کے بیچ میں پورٹ قاسم کی بندر گاہ تعمیر کی گئی جو انڈس ڈیلٹا کے قریب اُن نایاب نسل کے مینگروز درختوں کے جنگلات کو کاٹ کر بنائی گئی ۔جس سے ان مینگروز میں سے 4اقسام کے جنگلات ختم ہوکر رہ گئے۔
سالانہ 1.7کروڑ ٹن سامان کی تجارت کی حامل یہ بندرگاہ پورٹ قاسم پاکستان کی مجموعی ضروریات کا 40%تجارت کرنے والی بندرگاہ ہے ۔ جب کہ منوڑہ -کیماڑی پر واقع 62اسکوائر کلو میٹر پر پھیلی کے پی ٹی بندرگاہ جو کہ جغرافیائی محل ِ وقوع کے حساب سے عالمی آبی گزرگاہوں '' آبنائے ہرمز'' کے بالکل قریب واقع ہے،اس پر 2.5(ڈھائی) کروڑ ٹن سامان کی سالانہ تجارت ہوتی ہے ۔
اِ ن دونوں بندرگاہوں کے بننے سے یہاں( کراچی میں) جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اُس کے لیے نہ تو جدید طرز ِ زندگی کے اُصولوں کے مطابق اقدامات کیے گئے ہیں اور نہ ہی ماحولیات و انسان دوست صنعتی و تجارتی پالیسیاں بنائی گئی ہیں ۔ اس وقت یہ ساری ساحلی پٹی بالخصوص کراچی سے ملحقہ ساحلی پٹی بالواسطہ یا بلا واسطہ وفاق کے کنٹرول میں ہے۔ متعدد ادارے اپنی اسٹریٹجک تنصیبات و دفاتر کے علاوہ یہاں بڑے پیمانے پر رہائشی اسکیمیں بنا چکے ہیں ۔اب تو ساحل کی حد تک کا تعین نہیں رہا ۔ماضی کی گذری و سلطان آباد (مائی کلاچی روڈ )کریک کو تو انھوں نے مٹی ڈال کر ختم کردیا ہے اور اس پر تعمیرات کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری و ساری ہے۔
یہی نہیں بلکہ کورنگی کریک کی جانب ساحل پر دو دریا ، سی ویو کے مقام پر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں کبھی سمندر تھا ہی نہیں ۔ بڑے بڑے رہائشی و کمرشل منصوبوں کی بھرمار دیکھ کر یوں تو لگتا ہے کہ ہم نے تعمیراتی سطح پر بڑی ترقی کرلی ہے لیکن ان تعمیراتی انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ جو ماحولیاتی و شہری تباہیاں برپا ہورہی ہیں ان کی جانب نہ تو ان اداروں نے اور نہ ہی محکمہ پلاننگ و ڈویلپمنٹ کی جانب سے کبھی توجہ دی گئی ہے ۔
پی ٹی کی جانب سے سمندری آلودگی کو ختم کرنے کے لیے 1996میںایک ماتحت ادارہ میرین پلوشن کنٹرول ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا جوکہ کے پی ٹی کے ماتحت بندرگاہ کی حدود میں زمینی و آبی آلودگی اور فضلاتی مواد کی روک تھام اور صفائی کا ذمے دار ہے جیسے: سمندر میں گرنے والے تیل کی صفائی ، بحری جہازوں کا معائنہ ، بندرگاہ کی نگرانی ، بندرگاہ کی صفائی ، تیل کی تنصیبات کے علاقے میں ماحولیاتی آڈٹ، پانی کے معیار کی نگرانی ،تیل /پانی کے ناؤ کی فٹنس ،آئل بوم کے ذریعے آئل ٹینکرز کی بحالی ، ساحل پر فضلات کورفع کرنے کی نگرانی ،مینگرو درختوں کی بحالی ، جہازوں سے کیچڑ /کوڑا کرکٹ ہٹانے کا طریقہ کار یا عمل وغیرہ۔
بظاہراس ادارے کی جانب سے دن میںایک یا دو مرتبہ پورے بندر گاہ کا چکر لگاکر ساحل کی آبی و زمینی نگرانی کی جاتی ہے اوراس کی رپورٹ بنائی جاتی ہے جو کہ ایک مقرر کردہ آلودگی سے متعلق پروفارما کو پُر کرکے کی جاتی ہے۔ریکارڈ کی خانہ پوری کے حساب سے تو یہ ذمے داری ادا کی جارہی ہے لیکن یہاں موجود انتہائی آلودگی کچھ اور ہی داستان بتاتی ہے۔
اسی طرح 2009میں پورٹ قاسم اتھارٹی نے بندرگاہ کو آلودگی سے پاک بنانے کے ایک عملدرآمدی ایگریمنٹ پر دستخط کیے، جس کے تحت خطرات و نقصانات سے تحفظ کے اُصولوں پر ایک کول ، سیمنٹ اور کلنکر ٹرمینل تعمیر کیا گیا ۔ لیکن عملی طور پر اس طرف کی صورتحال بھی یہ ہے کہ دنیا کے بڑے میگروز جنگلات کی حیثیت کے حامل اس انڈس ڈیلٹا میں اب 4نایاب نسل کے مینگروزکے جنگلات برائے نام رہ گئے ہیں اور متذکرہ بالا پرندے ، میمل ، جانور اور مچھلیاںختم ہوچکی ہیں جوکہ سمندر کو قدرتی طور پر آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کی صلاحیت کے حامل تھے ۔
2003میں پورٹ قاسم پر ایک تباہ کن منظر تب نظر آیا جب بندر گاہ پر کھڑے ایک یونانی رجسٹرڈ آئل ٹینکر ''تسمان اسپرٹ'' سے تیل کا رساؤ شروع ہوا اور اُس پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی دنوں تک یہ عمل جاری رہا اورساحل ِ سمندر پر کتنے ہی آبی جانور و پرندے مرگئے اور کتنے ہی انسان بے حال ہوگئے ، سانس ، پیٹ و چمڑی کی کئی اقسام کی بیماریاں پھیل گئیں۔
جب کہ 20مئی 2017کو سینڈ اسپٹ (Sandspit)بیچ پر اور ستمبر 2017میں کلفٹن کے ساحل پر بھی پانی میں تیل پھیلا ہوا پایا گیا لیکن کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی اور اسے اداراتی طور پردبا کر Mythبنادیا گیا لیکن اس کے خطرات تو بہرحال تفریح کے لیے آنیوالوں اور ساحل کے قریب رہنے والوں کو لاحق ہوتے رہے۔ ساتھ ہی شہر بھر کا یومیہ 480ملین گیلن نکاسی ِ آب کا آلودہ پانی ، کراچی بھر کے کارخانوں سے نکلنے والے کیمیکلز اور دوسرا شہری و انڈسٹریل فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے ۔جس کی مقدار سالانہ 6.4ملین ٹن ہے جس میں 60فیصد پولی تھین (Polythene) شاپنگ بیگ یعنی پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں۔
اس سے متعلق 2016میںنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینوگرافی( NIO)اور دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کی گئی اسٹڈی کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ولیج ، ساحل ایوینیو 2اور دو دریا بیچ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں اوریہاں کا ساحلی پانی تابکار ی آلودگی کا حامل ہے کیونکہ یہاں کورنگی کریک اور گذری کریک و چھنہ کریک کا گھریلو و صنعتی فضلہ براہ راست بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں خارج کیا جارہا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ ابراہیم حیدری پر واقع ماہی گیروں کی ایک غیر سرکاری چھوٹی بندرگاہ بھی اس ماحولیاتی آلودگی کے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے ۔ یہاں کشتیوں اور لانچوں کے ذریعے مچھلی پکڑنے اورساحل پر ہی فروخت کرنے کا کاروبار ہوتا ہے خصوصاً چھوٹی مچھلی (جس کے پکڑنے پر پابندی عائد ہے) پکڑ کر مرغیوں کی فیڈ بنانے کے لیے کارخانوں کو بیچی جاتی ہے ۔ یہیں پر مچھلی کو ڈبوں میں پیک کرنے کا ایک کارخانہ بھی ہے۔
اس بندرگاہ اور وہاں موجود کارخانوں کا فضلہ بھی واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان بھر کے نکاسی ِ آب و سیم کے پانی اور پنجاب کے کارخانوں کا پانی بھی ایل بی اوڈی کے ذریعے بدین کے مقام سے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں براہ راست ڈالا جارہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو کسی ادارے نے اس طرف توجہ دی اور نہ ہی ساحلی پٹی پر برپا ہونے والی ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثراقدامات کیے گئے ۔ آج بھی یہ سلسلہ جوں کا توں جاری و ساری ہے۔
موجودہ صورتحال تو اس قدر بھیانک ہے کہ لیاری سے کیٹی بندرتک پوری ساحلی پٹی خصوصاً کھارادر ، کیماڑی ، کلفٹن ، سی ویو اور دو دریا کے ساحل تو سمندر کے نیلے و شفاف پانی کے بجائے گٹر کے کالے پانی کا تالاب محسوس ہوتے ہیں ۔ جہاں وفاقی حکومت اور دیگر انتظامی ادارے اس تباہی کے ذمے دار ہیں وہیں سندھ کی صوبائی حکومت اور کراچی کے بلدیاتی ادارے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
یوں تو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ریکارڈ پر 4ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہیں لیکن وہ بڑے عرصے سے ناکارہ ہیں ۔ کراچی کا کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے لیے چائنیز کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا ہے ۔ شہر بھرکا کوڑا کرکٹ ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں پھینکنے کی بھی اطلاعات ہیں اور آلودگی کی وجہ سے تمام ساحلی پٹی میں سانس و چمڑی کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور اُن میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس طرح ان تمام اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ماحولیات کے تحفظ کے اُمور میں برتی گئی شدید لاپرواہیوں کی وجہ سے اس ساری ساحلی پٹی خصوصاً کراچی اور اُس میں بسنے والے 2کروڑ شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
عرصہ دراز سے سول سوسائٹی اس بات پر واویلا کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی و ماحولیاتی سرگرمیاں بھی کرتی رہی ہے جیسے مینگروز و دیگر ساحلی ماحول دوست درخت لگانے کی مہم چلانا ۔ ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کی جانب سے مینگروز کے تحفظ کے لیے کمیونٹی ، مقامی اسکولی بچوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز جیسے پورٹ قاسم اور محکمہ جنگلات کی شراکت سے سماجی ، ماحولیاتی اور معاشی آگاہی مہم و اقدامات کیے گئے ۔ لیکن ساحلی پٹی پر پھیلی تباہی کے آگے یہ اقدامات و آگاہی مہم کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ان چھوٹے اقدامات کرنے سے سول سوسائٹی ، عوام اور دیگر اداروں کی ذمے داری ختم ہوتی ہے بلکہ اہلیان ِ کراچی کوساحل ِ سمندر کے حقیقی وارث ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس بڑے پیمانے پر پھیلی تباہی کی روک تھام کے لیے تمام مقامی، صوبائی اور وفاقی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہوگاخصوصاً کے پی ٹی اور پورٹ قاسم پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ سمندر سے براہ ِ راست منافع کمانے والے اداروں کے طور پر سمندر کے آبی وزمینی ساحلی ماحولیات کا تحفظ بھی ان ہی کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں مثلاً : مینگروز کے جنگلات کو بڑھایا جائے ،جہازوں سے غیر محفوظ طریقے سے سامان کا اُتار و چڑھاؤ، سمندر میں تیل کے گرنے کی روک تھام کے لیے سخت پالیسی بنانا، بندرگاہ کی مکمل حدود میں پانی کی صفائی کو یقینی بنانا، سمندر میں جانے والے نکاسی ِ آب،کارخانوں سے فضلے کو صاف کرنے والے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعداد وغیرہ بڑھانے اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نگرانی کے عمل کو سخت کرنا ، اور مقامی ، صوبائی اور وفاقی اداروں خصوصاً نجی کارخانوں کو ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا پابند بنانے کے اقدامات وغیرہ ۔ اسی طرح حکومت ِ سندھ کے ماتحت بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور عسکری ادارے کے ماتحت ڈیفنس اتھارٹی پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بے ہنگم و بے ترتیب ماحول دشمن منصوبے بنانے سے گریز کریں ۔
یہ اور ان جیسے تمام اقدامات کے انتظام کے لیے ہم اہلیان ِ کراچی کو ہی کوششیں کرنی ہوں گی کیونکہ ہمیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو یہیں رہنا ہے ۔ یہاں کی فضا ہماری ہی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی رہے گی ۔ اس لیے ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم کراچی کے خوبصورت ماضی کو لوٹانے کے لیے کوششیں کریں کیونکہ وہ کراچی جس کے راستوں کو انگریز کے دور میں روزانہ شام کو دھویا جاتا اورخوشبوؤںسے مہکایا جاتا تھا وہ کراچی آج گندگی ، بدبو اور آلودگی کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے ۔