دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی…
کیا بے فکری کے دن تھے، نہ پڑھائی کا بوجھ سر پر ہوتا، نہ ہی والدین کا دباؤ تھا کہ اس ادارے میں ہی ایڈمیشن ہونا چاہیے۔
جمعہ کی رات سلمیٰ کا فون آیا ان کہ بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے، ایک ہلکی پھلکی سی تقریب گھر میں رکھی ہے جس میں ہم سب بہن بھائی بھی شریک ہوں گے۔ خوشی کی خبر تھی، کیونکہ اماں جی کے خاندان میں تو ڈاکٹروں کی لمبی قطار تھی، میرے ابا بھی ڈاکٹر تھے مگر ہماری نسل میں ٹیچرز کی بھرمار تھی، اس لیے اگلی نسل میں عمارہ نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ وہ میڈیکل کالج سے اپنی تعلیم مکمل کرکے اب ہاؤس جاب کررہی ہے۔
اس دن ہم سب بہن بھائی اکٹھے ہوئے اور بچوں کو چھوڑ کر ہم سب بہن بھائی یادوں کے سفر پر نکل گئے۔ یادوں کی پٹاری سے ایک کے بعد ایک واقعات نکل رہے تھے اور قل قل کرتے قہقہے بتارہے تھے کہ بچے ہماری باتوں کو کتنا انجوائے کررہے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی خالہ کی فیملی اور ہماری فیملی مل کر نانا کے گھر گاؤں چلے جاتے اور مل کر شرارتیں کرتے، مل جل کر کھیلتے اور پورا سال انتظارکرتے چھٹیوں کا۔
کیا بے فکری کے دن تھے، نہ پڑھائی کا بوجھ سر پر ہوتا، نہ ہی والدین کا دباؤ تھا کہ اس ادارے میں ہی ایڈمیشن ہونا چاہیے۔ اب تو بچے سارا سال میرٹ بنانے کے چکر میں مصروف رہتے ہیں۔ حسان نے کالج میں ایڈمیشن کے لیے پورا سال ایک چھٹی نہیں کی، سگی بہن کی شادی میں بھی مہمانوں کی طرح شرکت کی، کیونکہ ایک ایک لحمہ قیمتی تھا، عید کے دن بھی کلاس لینے گئے، ایڈمیشن ہوگیا تو سکون کا سانس بھی لینے نہ پائے تھے کہ پھر اسائنمنٹ، پروجیکٹ اور دیگر کاموں میں مصروف ہوگئے، اب ان کی مہربانی کہ اس تقریب میں رونق افروز تھے۔
ادھر عائشہ (ہماری کزن) ایک قصہ سنارہی تھیں، جس میں ہمارے بڑے کزن ملوث تھے، ہنس ہنس کے برا حال تھا، کافی لمبے عرصہ کے بعد ایسی شفاف ہنسی مقدر بنی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ خالہ کے گھر میں ایک خاتون آتی تھیں، جو کہ نانی کے نام سے مشہور تھیں، ان کی ایک لڑکی جو اتراہٹ میں مشہور تھی خالہ زاد وغیرہ سے اس کی لڑائی رہتی تھی، لڑکیوں سے بھی ایک نہ بنتی، تمام لڑکوں لڑکیوں نے مل کر اس کی طرف سے اخبار میں ضرورت رشتہ کا اشتہار دے دیا، ایڈریس بھی لکھوا دیا اور زور اس بات پر دیا کہ لڑکی خودمختار ہے۔
اب رشتوں کا تانتا بندھ گیا۔ نانی بڑی پریشان۔ بالآخر یہ عقدہ کھلا کہ ان کی لڑکی نے یہ اشتہار دیا ہے پھر تو اﷲ دے اور بندہ لے۔ کزنز کی یہ حرکت غلط تھی مگر اس وقت وہ بھی اتنے سمجھدار اور بڑے نہ تھے، ہم تو خیر اس وقت کسی گنتی میں نہ تھے مگر اس بات کو انجوائے بڑا کیا۔ اس وقت ان کی اماں کے ہاتھوں ان کی پٹائی دیکھ کر آج بھی ہنسی آتی ہے۔ خیر کا پہلو یہ بھی نکلا کہ ان ہی رشتوں میں سے ایک جگہ ان کی شادی بھی ہوگئی اور آج کل تو وہ گوروں کے دیس میں ہیں۔
ہم جب بھی خالہ کے گھر رہنے جاتے تو باقی دوسرے کزنز کو بھی فون کردیتے، پھر جو دھماچوکڑی مچتی کہ الامان۔ خالو ہمارے ذرا سخت مزاج کے تھے، وہ سب پر کڑی نظر رکھتے اور خالہ ہم سب کی پکی سہیلی۔ ایک مرتبہ لائٹ گئی ہوئی تھی، ریڈیو لگا ہوا تھا، گانے چل رہے تھے، یک دم خالو آگئے، جھٹ سے چینل بدلا تو وہاں سے بڑا ہی برا گانا آرہا تھا کیوں بیٹھے ہو چپ میرا دلہا لے کے آؤ۔
اس گانے کے الفاظ سن کر خالو کو لگا کہ لڑکیاں بر مانگ رہی ہیں، پھر جو انھوں نے بے بھاؤ کی سنائیں اور ہم سب کا یہ حال کہ ہنسی روکے نہ رکے، اور جس نے یہ گانا لگایا تھا اس کا یہ حال کے منظر سے کیسے غائب ہو۔ پھر تو اس کی چڑ ہی بنالی کہ ہاں تمہارا دلہا کب آرہا ہے۔
کیا وقت تھا، کیسی آپس کی محبتیں تھیں، اب تو سب ختم ہوگیا ہے، حسد کینہ بغض نے دلوں میں پرورش پالی ہے۔ رشتے ناتے سب ختم، اب صرف مفاد کے رشتے رہ گئے ہیں۔ جدھر دیکھو نفسانفسی ہے، ملنا جلنا بھی اپنے اسٹیٹس کے لوگوں سے ہی ہوتا ہے، غریب رشتے داروں کو کون منہ لگانا پسند کرتا ہے۔ پہلے یہ حال تھا کہ شادی کے موقع پر دور دراز کی بہنوں کے نیک بھی لگتے تھے۔
یہ زمانہ کوئی بہت زیادہ پرانا نہیں، بیس پچیس سال پہلے کا ہی ہے، مگر لگتا ہے کہ زمانہ قدیم کے کوئی قصے کہانیاں ہیں۔ ہفتوں پہلے قریبی رشتے دار شادیوں میں آکر رہتے تھے، سب کام اپنے ہاتھوں سر انجام پاتے، کہیں چاول کی بوریاں صاف ہورہی ہیں، تو کہیں کچھ لوگ کچن سنبھالے ہوئے ہیں، ہماری اور ہماری جیسی ایک دو بہنوں کی ذمے داریاں دسترخوان لگانا ہوتا، مگر ہمارا کام کسی گنتی میں نہ آتا بلکہ الٹا ڈانٹ پڑتی کہ کتنی نکمی لڑکیاں ہیں، ساری داد باجیاں اور آپیاں لے جاتیں۔
ہماری چھوٹی خالہ جن کو سب چھوٹی باجی کہتے تھے، ان کی شادی ہونے والی تھی، رشتہ بڑا اچھا تھا، کشمیری بٹ، اسٹیل مل میں افسر، ساری خوبیاں موجود، مگر بھائی جان کی تمنا کہ ہونے والی دلہن کو دیکھوں گا۔ منگنی ہوچکی تھی، کبھی کسی کی خوشامد تو کبھی کسی کی التجا۔ آخرکار ہمیں ترس آگیا اور مخبری کردی کہ باجی اسلام آباد فلاں ٹرین سے جارہی ہیں، مقررہ وقت اسٹیشن پہنچ جائیں، کپڑوں کا رنگ بھی بتادیا۔ موصوف پہنچ گئے اور لگے گلابی کپڑوں والیوں کو دیکھنے۔
ایک پیاری سی لڑکی نظر آئی تو اتفاق سے ہماری دوسری کزن کی جاننے والی نکل آئی، وہ ان سے باتیں کرنے لگیں۔ موصوف نے دیکھا تو سمجھے یہ ہی مطلوبہ خاتون ہیں، وہ خود بھی اسلام آباد جارہی تھیں، مگر ڈراپ سین یہ ہوا کہ ایک صاحب گود میں بچہ لیے آگئے اور اسی لڑکی کو بچہ دے کر کہنے لگے بیگم یہ بہت تنگ کررہا ہے اب تم سنبھالو۔
یہ سن کر باجی کے ہونے والے کی جو ہوئی سو ہوئی، باجی صاحبہ نے، جو اپنے ہونے والے کو دیکھ کر اخبار منہ کے آگے رکھ کر بیٹھی تھیں، ان کی حرکتیں دیکھ کر غصہ سے کھولنے لگیں اور ارادہ کرلیا کہ یہ منگنی ہی توڑ دیں گی، مگر سب نے سمجھایا کہ وہ یہ حرکتیں آپ کو دیکھنے کے لیے تو کررہے تھے۔ خیر ان کی شادی ہوگئی، اب تو خیر ان کے بچے بھی بڑے ہوگئے۔ سلمیٰ کی دعوت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔ مگر اب پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکا ہے۔