پانی کا بحران اور پاکستان
کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے تھے کہ آیندہ جنگیں پانی پر ہوںگی۔
عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا میں جو دنیا چھوڑ کے جا رہا ہوں ، اس کے تین مسائل ہیں ۔ پہلا پانی دوسرا دنیاکو خوراک کی فراہمی اور تیسرا گلوبل وارمنگ ، اس کے علاوہ جو مسائل ہیں ، وہ ثانوی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو انسان ان مسائل کو نہیں دیکھے گا دنیا کو محفوظ رکھنے میںاس کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔
کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے تھے کہ آیندہ جنگیں پانی پر ہوںگی یہ جس نے بھی کہا تھا، وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے لاکھوں سال سے موجود کرہ ارض کے فطری نظاموں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ سائنس دانوں اورماہرین ماحولیات کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس کے ذمے دار بھی کرہ ارض کے باسی ہیں ۔
موسمیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں اور صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشرز کی شکل میں موجود ہیں، اس کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا ، ندی نالے ،آبشار ، جھیلیں ہیں وہ تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کی حکومتیں اس حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہونے کے ساتھ اپنے صاف پانی کے ذخیروںکومحفوظ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔
عالمی اقتصادی فورم کے جائزوں کے مطابق کرہ ارض پر موجودصاف پانی میںسے 70فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتاہے ، 16فیصد توانائی اور صنعتوںجب کہ صرف 14فیصد صاف پانی گھریلو مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ عالمی فورم کے مطابق اگر ہم نے پانی استعمال کرنے کے موجودہ طریقہ کارکوتبدیل نہیںکیا تو پانی کی عالمی ضرورت میں2030 تک 40 فیصدکمی کا سامنا ہوسکتا ہے جب کہ دنیاکے بہت سے ممالک تیزی سے زیر زمین پانی بھی نکال رہے ہیں۔
صورتحال مزید سنگین اس لیے بھی ہوجاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے 70فیصد سے زائد دریاایسے ہیں جن کا پانی سمندر میںنہیں گرتا کیونکہ ان کے پانی کارخ مختلف سمتوں میں انسانی استعمال کے لیے موڑ دیاگیا ہے۔
فورم کے مطابق اگریہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو 2030تک پانی کی کمی میںہونے والے اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر استعمال ہونے والے اجناس کی مقدار میں30 فیصدکمی واقع ہوسکتی ہے۔اندازہ یہ بھی لگایاگیا ہے کہ 2025 تک دنیا کے ایک ارب اسی کروڑ افراد ایسے علاقوںمیں رہائش پذیر ہوںگے جہاںپانی کی کمی ہوگی جب کہ دوتہائی آبادی ایسے علاقوں میںموجود ہوگی جہاںصاف میسرنہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے 780ملین افرادصاف پانی سے محروم ہیں۔
پانی کی قلت کامسئلہ پاکستان میں بھی ہرگزرتے دن کے ساتھ سنگین ترہوتا چلا جا رہا ہے۔ بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ پانی ہمارے ملک میں سیاست زدہ ہوگیا ہے۔کوئی حکومت کوئی ادارہ پانی کے حوالے سے دلیرانہ فیصلہ لینے سے قاصر ہے ۔ ملک کے معروف آبی ماہر اور پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے سربراہ سردارطارق کہتے ہیںکہ اس وقت ہمارا سب سے بڑامسئلہ پانی ہے، سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہماری بقا کیسے ہوگی جب کہ ہمارے دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ پانی کے حوالے سے ہماری موجودہ صورتحال برقرار رہے۔
ہمارا 85 فیصد پانی انڈین کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ ہندوستان نے ڈیم بنانا شروع کردیے ہیں جب کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس کو اس بات کی اجازت نہیں ہے اور وہ افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے ۔ ہندوستان کا ہمیشہ یہ موقف ہوتا ہے کہ پاکستان اپنا پانی ضایع کرتا ہے ۔
سردار طارق کہتے ہیںکہ پاکستان میں پانی کا بحران سنگین صورتحال کوجنم دے سکتا ہے ہمارے دریاؤں میں پانی کم ہوچکا ہے ، رواں سال پانی اوربھی کم دستیاب ہوگا ، اگریہی صورتحال جاری رہی تو قومی سلامتی کے ساتھ ہماری فوڈ سیکیورٹی کوبھی شدید خطرات لاحق ہو جائیںگے ۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کی واٹر پالیسی موجود نہ ہو لیکن ہم70سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی واٹر پالیسی کااعلان نہیں کرسکے ۔
انھوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان کاکوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں صاف پانی میسر ہو جب کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے گلیشرز پگھل رہے ہیں ، بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زراعت بھی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی ۔ انھوںنے بتایاکہ 2010,11,14 کے سیلابوں میں ہم نے112 بلین ڈالرکا پانی ضایع کیا ایک ملین ایکٹر فٹ پانی ایک ارب ڈالر کے برابر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے ۔ ہمیں جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں اپنے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے معروف ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے پاس 750ملین ایکٹر فٹ پانی ہے جس میں سے اس نے 287 ملین ایکٹر فٹ پانی کو محفوظ کرلیا ہے جب کہ پاکستان کے پاس تقریبا 140ملین ایکٹر فٹ پانی ہے۔
سرکاری اعداد وشمارکے مطابق 12.6ملین ایکٹر فٹ پانی ہم نے محفوظ کیا ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتا ،اس طرح ہم 7فیصد پانی کومحفوظ کرپائے ہیں، دوسری جانب ہندوستان نے اپنے 30 فیصد پانی کونہ صرف محفوظ کرلیا ہے بلکہ وہ مزید500 ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے 50 فیصد پانی کو محفوظ کرے گا ۔
ڈاکٹر پرویز امیرکہتے ہیں کہ رواں سال پورے ملک کو38 فیصد پانی کم ملے گا ۔ انھوں نے بتایاکہ ہمارا90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے ہمیں وہیں سے اپنے لیے پانی حاصل کرنا ہوگا، جس کے لیے ضروری ہے ہم اپنی گندم اورگنے کی فصلوں پر نظرثانی کریں۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں پانی کی قلت اوراس حوالے کیے جانے والے فیصلے بہت دور نظرآتے ہیں ۔ رواںسال پانی کی قلت میںمزید اضافہ ہوگا اور ہم سب اداروں سمیت ایک دوسرے کومورد الزام ٹہرا رہے ہوںگے۔پاکستان میں اگر حقیقی معنوں میںسیاسی استحکام ہوتا تواس کے کم ازکم دوشعبوں میںغیر معمولی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے۔ سب سے پہلا فائدہ معیشت کوہوتا ۔ اس کی تیز رفتار ترقی سے روزگارپیدا ہوتا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا ۔
حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا جس سے تعلیم ، صحت سمیت سماجی اور اقتصادی شعبوں میںبھی ترقی ہوتی اور ملک اگر عدم استحکام کا شکار نہ ہوتا تو اس کا دوسرا سب سے بڑافائدہ ماحول کو پہنچتا، لوگوں کو بجلی اورگیس کی بنیادی سہولت میسرآتی اور ابندھن کے لیے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ۔ معاشی ترقی سے متبادل توانائی کے شعبے میں پیش رفت ہوتی ۔ اس سے فضائی اورآبی آلودگی میں بڑی کمی واقع ہوتی ۔
پیداواری عمل میں جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی متعارف ہوتی اور اس سے قدرتی ماحول کوتحفظ حاصل ہوتا ، تعلیم عام ہوتی اور لوگوں میں جنگلی حیات کے بارے میں مثبت رویے پیدا ہونے سے بہت سے انواع معدومی کے خطرات سے دوچار نہ ہوتیں ۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے باعث پانی جیسے بنیادی مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملتی ۔ الغرض، یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ پانی کے سنگین مسئلے ، قدرتی ماحول میں بہتری اور پائیدار معاشی ترقی سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم پائیدارجمہوری نظام کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام لانے میںکامیاب نہیں ہوسکے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں ان مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے تھے کہ آیندہ جنگیں پانی پر ہوںگی یہ جس نے بھی کہا تھا، وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے لاکھوں سال سے موجود کرہ ارض کے فطری نظاموں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ سائنس دانوں اورماہرین ماحولیات کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس کے ذمے دار بھی کرہ ارض کے باسی ہیں ۔
موسمیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں اور صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشرز کی شکل میں موجود ہیں، اس کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا ، ندی نالے ،آبشار ، جھیلیں ہیں وہ تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کی حکومتیں اس حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہونے کے ساتھ اپنے صاف پانی کے ذخیروںکومحفوظ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔
عالمی اقتصادی فورم کے جائزوں کے مطابق کرہ ارض پر موجودصاف پانی میںسے 70فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتاہے ، 16فیصد توانائی اور صنعتوںجب کہ صرف 14فیصد صاف پانی گھریلو مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ عالمی فورم کے مطابق اگر ہم نے پانی استعمال کرنے کے موجودہ طریقہ کارکوتبدیل نہیںکیا تو پانی کی عالمی ضرورت میں2030 تک 40 فیصدکمی کا سامنا ہوسکتا ہے جب کہ دنیاکے بہت سے ممالک تیزی سے زیر زمین پانی بھی نکال رہے ہیں۔
صورتحال مزید سنگین اس لیے بھی ہوجاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے 70فیصد سے زائد دریاایسے ہیں جن کا پانی سمندر میںنہیں گرتا کیونکہ ان کے پانی کارخ مختلف سمتوں میں انسانی استعمال کے لیے موڑ دیاگیا ہے۔
فورم کے مطابق اگریہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو 2030تک پانی کی کمی میںہونے والے اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر استعمال ہونے والے اجناس کی مقدار میں30 فیصدکمی واقع ہوسکتی ہے۔اندازہ یہ بھی لگایاگیا ہے کہ 2025 تک دنیا کے ایک ارب اسی کروڑ افراد ایسے علاقوںمیں رہائش پذیر ہوںگے جہاںپانی کی کمی ہوگی جب کہ دوتہائی آبادی ایسے علاقوں میںموجود ہوگی جہاںصاف میسرنہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے 780ملین افرادصاف پانی سے محروم ہیں۔
پانی کی قلت کامسئلہ پاکستان میں بھی ہرگزرتے دن کے ساتھ سنگین ترہوتا چلا جا رہا ہے۔ بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ پانی ہمارے ملک میں سیاست زدہ ہوگیا ہے۔کوئی حکومت کوئی ادارہ پانی کے حوالے سے دلیرانہ فیصلہ لینے سے قاصر ہے ۔ ملک کے معروف آبی ماہر اور پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے سربراہ سردارطارق کہتے ہیںکہ اس وقت ہمارا سب سے بڑامسئلہ پانی ہے، سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہماری بقا کیسے ہوگی جب کہ ہمارے دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ پانی کے حوالے سے ہماری موجودہ صورتحال برقرار رہے۔
ہمارا 85 فیصد پانی انڈین کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ ہندوستان نے ڈیم بنانا شروع کردیے ہیں جب کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس کو اس بات کی اجازت نہیں ہے اور وہ افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے ۔ ہندوستان کا ہمیشہ یہ موقف ہوتا ہے کہ پاکستان اپنا پانی ضایع کرتا ہے ۔
سردار طارق کہتے ہیںکہ پاکستان میں پانی کا بحران سنگین صورتحال کوجنم دے سکتا ہے ہمارے دریاؤں میں پانی کم ہوچکا ہے ، رواں سال پانی اوربھی کم دستیاب ہوگا ، اگریہی صورتحال جاری رہی تو قومی سلامتی کے ساتھ ہماری فوڈ سیکیورٹی کوبھی شدید خطرات لاحق ہو جائیںگے ۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کی واٹر پالیسی موجود نہ ہو لیکن ہم70سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی واٹر پالیسی کااعلان نہیں کرسکے ۔
انھوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان کاکوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں صاف پانی میسر ہو جب کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے گلیشرز پگھل رہے ہیں ، بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زراعت بھی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی ۔ انھوںنے بتایاکہ 2010,11,14 کے سیلابوں میں ہم نے112 بلین ڈالرکا پانی ضایع کیا ایک ملین ایکٹر فٹ پانی ایک ارب ڈالر کے برابر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے ۔ ہمیں جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں اپنے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے معروف ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے پاس 750ملین ایکٹر فٹ پانی ہے جس میں سے اس نے 287 ملین ایکٹر فٹ پانی کو محفوظ کرلیا ہے جب کہ پاکستان کے پاس تقریبا 140ملین ایکٹر فٹ پانی ہے۔
سرکاری اعداد وشمارکے مطابق 12.6ملین ایکٹر فٹ پانی ہم نے محفوظ کیا ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتا ،اس طرح ہم 7فیصد پانی کومحفوظ کرپائے ہیں، دوسری جانب ہندوستان نے اپنے 30 فیصد پانی کونہ صرف محفوظ کرلیا ہے بلکہ وہ مزید500 ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے 50 فیصد پانی کو محفوظ کرے گا ۔
ڈاکٹر پرویز امیرکہتے ہیں کہ رواں سال پورے ملک کو38 فیصد پانی کم ملے گا ۔ انھوں نے بتایاکہ ہمارا90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے ہمیں وہیں سے اپنے لیے پانی حاصل کرنا ہوگا، جس کے لیے ضروری ہے ہم اپنی گندم اورگنے کی فصلوں پر نظرثانی کریں۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں پانی کی قلت اوراس حوالے کیے جانے والے فیصلے بہت دور نظرآتے ہیں ۔ رواںسال پانی کی قلت میںمزید اضافہ ہوگا اور ہم سب اداروں سمیت ایک دوسرے کومورد الزام ٹہرا رہے ہوںگے۔پاکستان میں اگر حقیقی معنوں میںسیاسی استحکام ہوتا تواس کے کم ازکم دوشعبوں میںغیر معمولی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے۔ سب سے پہلا فائدہ معیشت کوہوتا ۔ اس کی تیز رفتار ترقی سے روزگارپیدا ہوتا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا ۔
حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا جس سے تعلیم ، صحت سمیت سماجی اور اقتصادی شعبوں میںبھی ترقی ہوتی اور ملک اگر عدم استحکام کا شکار نہ ہوتا تو اس کا دوسرا سب سے بڑافائدہ ماحول کو پہنچتا، لوگوں کو بجلی اورگیس کی بنیادی سہولت میسرآتی اور ابندھن کے لیے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ۔ معاشی ترقی سے متبادل توانائی کے شعبے میں پیش رفت ہوتی ۔ اس سے فضائی اورآبی آلودگی میں بڑی کمی واقع ہوتی ۔
پیداواری عمل میں جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی متعارف ہوتی اور اس سے قدرتی ماحول کوتحفظ حاصل ہوتا ، تعلیم عام ہوتی اور لوگوں میں جنگلی حیات کے بارے میں مثبت رویے پیدا ہونے سے بہت سے انواع معدومی کے خطرات سے دوچار نہ ہوتیں ۔ سیاسی اور معاشی استحکام کے باعث پانی جیسے بنیادی مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملتی ۔ الغرض، یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ پانی کے سنگین مسئلے ، قدرتی ماحول میں بہتری اور پائیدار معاشی ترقی سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم پائیدارجمہوری نظام کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام لانے میںکامیاب نہیں ہوسکے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں ان مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔