امیدوار ایک حلقے میں صادق وامین ہےدوسرے میں نہیں

کاغذات کی چھان بین کاعمل مضحکہ خیز بن کررہ گیا،ریٹرننگ آفیسرزتربیت یافتہ نہیں


مظہر عباس April 08, 2013
کاغذات کی چھان بین کاعمل مضحکہ خیز بن کررہ گیا،ریٹرننگ آفیسرزتربیت یافتہ نہیں۔ فوٹو فائل

ریٹرننگ افسروں کی مناسب تربیت نہ ہونے اور شاید امیدواروں سے غیرمتعلقہ اور اصل موضوعات سے ہٹ کر پوچھے گئے سوالات نے کاغذات کی چھان بین کے عمل کو مضحکہ خیز اور توہین آمیز بناکر رکھ دیا ہے۔

نتیجتاً ایسے امیدوا ر بھی کلیئر ہوگئے ہیں جن پر مخالفین اور میڈیا برسوں سے کرپشن کے الزامات لگا رہے تھے۔ صورتحال اتنی تکلیف دہ ہوگئی کہ آخرکار لاہورہائیکورٹ نے مداخلت کرکے ریٹرننگ آفیسرز کو امیدواروں سے غیرمتعلقہ سوالات پوچھنے سے روکا۔ لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب تک کی صورتحال کو دیکھاجائے تو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 70فیصد امیدوار جو سابق حکومت اور اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں، آئین کی شق نمبرز62 اور63 پر پورا اترتے قرار دیے جاچکے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ کیا واقعی وہ لوگ اتنے ''صاف'' ہیں یا پھر سارے عمل میں کہیں نقص ہے۔

عمران خان، نوازشریف، شہبازشریف، مخدوم امین فہیم حتیٰ کہ شیخ رشید بھی، خفیہ شادی کی کلیئرنس کے بغیر ہی کلیئر قرار دے دیے گئے۔ اسی طرح سرکردہ لیڈروں کے حواری مردوخواتین بھی کلیئر کردیے گئے۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعتوںکے رہنما جو جلسوں، اخباری بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے تھے لیکن کاغذات کی چھان بین کے موقع پر کسی نے کسی کیخلاف ثبوت کے ساتھ اعتراضات داخل نہیں کیے۔ لہٰذا انھوں نے ایک دوسرے کر کلیئر کرادیا۔

گذشتہ روز جب عمران سے پوچھا گیاکہ انھوں نے شریف برادران یا پیپلزپارٹی کے کسی رہنما کے خلاف اعتراض کیوں نہیں اٹھایا، حالانکہ آپ کی سیاست کا سارا دارومدار ان لوگوں پر کرپشن کے الزامات پر تھا، عمران کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ ان کے قانونی مشیروں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ کیونکہ اس طرح انتخابی عمل طویل ہو سکتاتھا اور معاملہ عدالتوں میں جا سکتاتھا۔ عمران کے جواب سے آپ اس کے الیکشن قوانین کے بارے میں علم کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اگر انھیں الیکشن قوانین کا کچھ علم ہوتا تو وہ یہ جواب نہ دیتے۔ اسی طرح ن لیگ کے رہنمائوں نے عمران خان کے خلاف کوئی اعتراض اٹھایا نہ پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے ن لیگ کی قیاد ت کے خلاف کوئی اعتراض داخل کیا۔

لگتاہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف میڈیا میں ہی کھیلنا پسند کرتے ہیں یا ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں یا پھر وہ سب ایک دوسرے کو بچانا چاہتے ہیں۔ اگر آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کا مقصد اسلامی اقدار اور قوانین سے آگاہی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوںکے بہترین امیدواروں کا چنائو تھا تو پھر اس مقصد میں ریٹرننگ آفیسرز مکمل طورپر ناکام رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی سرکردہ لیڈر سے کوئی چکرانے والا سوال نہیں کیاگیا لیکن تیسرے درجے کی قیادت کے لیے یہ سہولت نہ تھی۔ یہ کیسا معیار ہے کہ ایک امیدوار ایک حلقے سے تو آرٹیکل62 اور63 کے تحت نااہل ہے لیکن دوسرے حلقے میں وہ کلیئر قرار دیا گیاہے۔ اگر وہ منتخب ہوجاتا ہے تو پارلیمنٹ میں بیٹھے گا۔

اگر ایک امیدوار ایک حلقے میں صادق اورامین نہیں ہے تو وہ دوسرے حلقے میں صادق اورامین ہے۔ آپ جنرل(ر) پرویزمشرف کی مثال لے لیں۔ ان کے کاغذات نامزدگی آرٹیکل62 اور63 کے تحت 3حلقوں سے تو نامنظور ہوگئے لیکن اسی آرٹیکل کے تحت ایک حلقے سے منظور کر لیے گئے۔ ریٹرننگ آفیسرز نے امیدواروں سے جو سوالات پوچھے، انھیں دیکھا جائے تو پتا چلتاہے کہ اس ذمے داری کے لیے ان کی مناسب تربیت ہی نہیں کی گئی۔ تربیت دینے کاکام الیکشن کمیشن کاتھا۔ امیدواروں کے مالی وسائل، کمائی، ذرائع آمدن اور ٹیکسز سے متعلق مناسب چھان بین کی گئی نہ ہی اس حوالے سے ان سے اچھی طرح سوال جواب ہوئے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل اور اس کے چیئرمین کا چنائو سیاسی بنیادوں پر کیا جاتاہے، ججز کو شریعت کورٹ میں میرٹ یا پسند کے بغیر نہیں بلکہ کھڈے لائن لگانے کے لیے بھیجا جاتاہے، ہم ایک مثالی معاشرے کے قیام کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ امیدواروں کے کردار کو پرکھنے کا معیار اتنا گھٹیا تھاکہ ریٹرننگ آفیسرز خود ہی نشانہ تضحیک بن کر رہ گئے۔ کسی سے یہ سوال نہیں پوچھا گیاکہ وہ راتوں رات اتنا امیر کیسے بن گیا۔ ریٹرننگ آفیسروں کی مزید کمزوریاں اگلے ہفتے اس وقت نمایاں ہوں گی جب ہائیکورٹس کے ججز پر مشتمل الیکشن ٹریبونلز کاغذات نامزدگی کی منظوری یا نامنظوری کے خلاف اپیلوں کی سماعت کریں گے۔

اگلا مرحلہ بڑا سنجیدہ ہوگا۔ اس میں فیصلے میرٹ پر ہوں گے نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ مستقبل کے حوالے سے اس عمل میں تصحیح کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بحث ایسی نہیں ہونی چاہیے جس سے قوم تقسیم ہو بلکہ اس پر بحث قومی دلائل سے کی جانی چاہیے۔ آخر ہم سب چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگ پہنچیں جو صاف ہوں اور قانون سازی کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ اس مقصد کے لیے سوالات کا معیار بلند ہونا چاہیے اور ان میں امیدوا ر کی آئین، قانون، بشمول اسلامی قوانین سے آگاہی شامل ہو۔

امیدوار کا مالیاتی ریکارڈ، ذرائع آمدن اور عام رویہ صاف ہونا چاہیے۔ آخر میں ہمیں کچھ معاملات ووٹرز پر بھی چھوڑ دینے چاہئیں کیونکہ کسی امیدوار یا جماعت کو منتخب یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار انھی کے پاس ہے۔ ایسا اختیار میڈیا، ریٹرننگ آفیسرز اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو 272 لوگ منتخب کرکے قومی اسمبلی میں بھیج دیے جاتے لیکن جمہوریت میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت میں عوام کی مرضی چلتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں