جالب کا یوم پیدائش اور انصاف
یہ کیسا انصاف ہے حبیب جالب تمام زندگی ظلم کے خلاف لڑتے رہے۔
NEW DELHI:
آج جب میں کالم لکھنے بیٹھا ہوں، 24 مارچ 2018 کا دن ہے۔ صبح کے ساڑھے دس بجے ہیں۔ آج سے ٹھیک 90 سال پہلے اسی دن 24 مارچ 1928 کی صبح ساڑھے آٹھ بجے مشرقی پنجاب (انڈیا) کے ضلع ہوشیار پور کی تحصیل دسوہہ کے گاؤں میانی افغاناں میں حبیب جالب پیدا ہوئے تھے۔ وہ عیدالفطر کا دن تھا۔ ہمارے والد صوفی عنایت اﷲ نے اپنے بیٹے حبیب جالب کی پیدائش کا حال قلم بند کیا ہے۔ والد صاحب کی کتاب ''ارمغان صوفی'' میں یہ واقعہ درج ہے۔ انھی کی زبانی سنیے۔ (ارمغان صوفی صفحہ522-23-24)
''میرا بیٹا حبیب احمد جالب 24 مارچ 1928 مطابق یکم شوال 1346 ہجری بروز ہفتہ صبح ساڑھے آٹھ بجے عیدالفطر کے دن پیدا ہوا۔ ماہ صیام اپنی تمام تر رونقوں سمیت رخصت ہوچکا تھا۔ عید کا چاند نظر آنے کا اعلان ہمارے گاؤں کے ماسٹر محمد دین نے نقارے پر چوٹ لگاکر کردیا تھا۔
روزے دار عید سعید کی خوشی میں سرشار نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت بلند کررہے تھے۔ گولے چل رہے تھے کیونکہ صبح عید تھی۔ اہل اسلام عید کی خوشی میں چاند رات جاگ کر گزارتے ہیں۔ لوگ خرید و فروخت میں مصروف رہتے ہیں۔ سکھی سہیلیاں اپنے عید کے جوڑوں کو گوٹا کناری لگاتی ہیں، ہاتھوں میں مہندی لگائی جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اللہ کے نیک و صالح بندے چاند رات عبادت و ریاضت میں بھی گزارتے ہیں۔
ایک چاند رات ہم نے بھی جاگ کر گزاری تھی۔ تمام رات حبیب کی ماں رابعہ بصری تکلیف میں مبتلا رہی حتیٰ کہ صبح کے چھ بج گئے۔ میاں کرار خان (گاؤں کے نمبر دار) کے دیوان خانے سے بار بار نماز عید کے جلوس کی روانگی کا اعلان ہورہا تھا۔ آہستہ آہستہ گاؤں کے لوگ میاں کرار خان کے دیوان خانے کے باہر جمع ہورہے تھے۔ جلوس کی تیاریاں ہورہی تھیں۔
میاں کرار خان بار بار لوگوں سے میرے بارے میں پوچھ رہے تھے، لوگ بار بار مجھے بلانے کے لیے گھر کے چکر بھی لگارہے تھے مگر میری مجبوری تھی، میں ایسی نازک حالت میں اہلیہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ حتیٰ کہ نمازِ عید کا جلوس میاں کے دیوان خانے سے روانہ ہوگیا۔ میں گھر کے صحن میں بیٹھا، پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے، کا منتظر تھا۔ رابعہ بصری کی نابینا ماں کوٹھری میں اپنی بیٹی کے پاس موجود تھی، اڑوس پڑوس کی عورتیں بھی اندر موجود تھیں۔
اسی اثنا میں کسی نے کوٹھری سے باہر آکر مجھے مبارکباد دیتے ہوئے بتایاکہ بفضلِ تعالیٰ بیٹا پیدا ہوا ہے، زچہ بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔ یہ سب کچھ سن کے میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور گھر سے نکل کر تیزی سے عید گاہ کی طرف بھاگا۔ نمازِ عید کا جلوس پولیس چوکی تک پہنچ چکا تھا کہ میں نے جلوس کو جالیا۔
میرے جلوس میں شامل ہونے اور بیٹے کی پیدائش کی خبر سن کر تمام لوگ بہت خوش ہوئے۔ میں نے نماز عید ادا کیا اور بارگاہ ایزدی میں سجدۂ شکر ادا کیا۔ یہ وہ مبارک عید تھی کہ جب خدا کی رحمت سے میرے گھر شیر دل بیٹے حبیب احمد نے جنم لیا، جسے دنیا حبیب جالب کے نام سے جانتی ہے۔ یہ چاند رات کا چاند جو مانندِ آفتاب دنیا میں طلوع ہوا کبھی نہ غروب ہونے کے لیے۔
یہ ایک سہانی صبح عید تھی کہ جب حبیب جالب پیدا ہوا، یہ نوید صبح بن کر دنیا میں آنے والا، یہ روشنیوں کا دلدادہ یہ اجالوں کا متوالا، یہ اندھیروں کا دشمن، تاریکیوں سے متنفر، اس کی پیدائش صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوئی کہ جب رات کی سیاہیوں کا سینہ چیرتے ہوئے انوار و تجلیات کا سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
حبیب جالب کی پیدائش اس زمانے میں ہوئی کہ جب ہندو مسلم اتحاد اپنے عروج پر تھا اور پورا ہندوستان انگریز کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا ہوا تھا، اور آزادی کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ اس فضا میں حبیب جالب کی پیدائش ہوئی۔'' یہ ہمارے والد رقم طراز تھے۔
یہ کیسا انصاف ہے حبیب جالب تمام زندگی ظلم کے خلاف لڑتے رہے۔ آج ان کا یوم پیدائش ہے اور پاکستان میں آج بھی غیر یقینی حالات چل رہے ہیں۔ پاناما لیکس میں تقریباً ساڑھے چار سو لوگوں کے نام ہیں۔ ان ناموں کا کیا بنا؟ اس ملک کو لوٹنے والے بڑے بڑے نامی گرامی اپنے انجام سے بے خوف آزاد گھوم رہے ہیں۔ بلوچستان سے کروڑوں روپے نکلے تھے ان کا کیا ہوا؟ یہ پاناما لیکس والے ساڑھے چار سو ملزمان کب عدالت کے کٹہرے میں لائے جائیں؟
ظلم تو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ظالموں کے ہاتھ رک نہیں رہے۔ مظلوم آج بھی ڈر خوف کے سایوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ کہ غریب بلک رہا ہے، دولت والے غرارہے ہیں۔
آج انصاف کے لیے، جمہوریت کے لیے، آزادی کے لیے اپنا گھر بار، سکھ چین، بال بچے قربان کردینے والے کا یوم پیدائش ہے۔ اس لیے بڑی شدت سے مجھے اپنے وطن کو لوٹنے والے یاد آرہے ہیں۔ میری نظروں کے سامنے تمام ظالم چہرے آرہے ہیں، ان تمام ظالم چہروں کے کروفر جاری و ساری ہیں۔ سیاست ان کے لیے محض کھیل ہے۔ غریب بھوکے سورہے ہیں اور یہ ظالم اپنے اپنے کھیل تماشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر یہ کھیل تماشے کب بند ہوںگے؟
اب تو کھل کھلا کے ظالم باہر نکل آئے ہیں اور مظلوموں کا منہ چڑارہے ہیں، قہقہے لگارہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ''اے کیڑے مکوڑو! اپنی اوقات میں رہو، یہی تمہارا نصیب ہے'' آج حبیب جالب کا یوم پیدائش ہے، تو میرا دل بہت دکھی ہے۔ ساٹھ سال پہلے حبیب جالب نے کہا تھا:
جب شباب پر آکر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں کون مسکراتا ہے
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
غریب آج بھی گندا پانی پی رہا ہے، بھوک ہے، بیماری ہے، دوا نہیں، روٹی، کپڑا، مکان نہیں۔ اور دولت مند اپنا علاج معالجہ لندن، امریکا میں کرواتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیا انصاف ہے۔ آج حبیب جالب کا یوم پیدائش ہے۔ جالب کہہ کر گیا ہے ''میں ضرور آؤںگا اک عہدِ حسیں کی صورت'' اور ہم جانتے ہیں کہ تم اپنے قول کے پکے ہو۔ تم ضرور آؤگے اک عہدِ حسیں کی صورت۔