کیا نواز شریف نے بہت دیر کر دی

وہ لڑائی کو اس نہج پر لے گئے ہیں جہاں وہ اب چاہیں بھی تو ان سے مفاہمت نہیں ہو سکتی۔


مزمل سہروردی March 26, 2018
[email protected]

شہباز شریف کے صدر بنتے ہی نواز شریف نے یکدم مفاہمت کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ وہ قومی اداروں کو ڈائیلاگ کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ قومی ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے، ان سے مذاکرات کریں۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن نواز شریف ایک اور یو ٹرن کی تیاری کر رہے ہیں۔کیا وہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ اس ایشو پر بات کرنے سے پہلے ہمیں ٹائمنگ کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نوا شریف اور مریم نواز قومی اداروں سے لڑائی اس انتہا پر لے گئے ہیں جہاں اب مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہت دیر کی مہر باں آتے آتے۔

وہ لڑائی کو اس نہج پر لے گئے ہیں جہاں وہ اب چاہیں بھی تو ان سے مفاہمت نہیں ہو سکتی کیونکہ مفاہمت کرنے والوں کی اپنی ساکھ تباہ ہو جائے گی۔ سو جوتے اور سو پیاز والی بات ہو جائے گی۔گزشتہ چھ ماہ میں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے اداروں کو اس قدر ٹارگٹ کیا ہے کہ بیچارے بے زباں ادارے زچ ہو گئے ہیں۔ اداروں کے اندر بھی غصہ ہے جس کا وہ اظہار نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کی خاموشی سب کچھ بیان کر رہی ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف جو نااہلی کے فورا بعد نظریاتی ہو گئے تھے۔ مجھے کیوں نکالا کو لے کر جی ٹی روڈ پر آگئے تھے۔ ووٹ کو عزت دو جیسے انقلابی نعرے کو لے کر میدان میں آگئے تھے۔ بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے۔ تالیاں بج رہی تھیں۔ مریم نواز کی بھی بہترین لانچنگ ہو گئی تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ محاذ آرائی نے نواز شریف کے ووٹ بینک کو نہ صرف مستحکم کر دیا ہے بلکہ اس میں قابل قدر اضافہ کر دیا ہے۔

ہر جگہ پذیرآئی مل رہی ہے۔ ایسے میں اب مفاہمت کیسی۔ ڈائیلاگ کی کیوں ضرورت۔ نواز شریف جو چاہتے تھے انھیں مل رہاہے۔ پھر مفاہمت کی ضرورت کیوں۔ ٹارگٹ ایک ہی تھا کہ اداروں پر اتنا پریشر ڈالو کے وہ نواز شریف کو راستہ دینے اور مفاہمت پر تیار ہو جائیں۔ اسی لیے ایک طرف اداروں پر چڑھائی کی جا رہی تھی دوسری طرف نواز شریف کی واپسی کے لیے راستہ بنایاجا رہا تھا۔

نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے نئی قانون سازی کر دی گئی۔ یہ اس لڑائی کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ نواز شریف اور ان کے تھنک ٹینک کا خیال تھا کہ اداروں کو اتنا انڈر پریشر کر لیا گیا ہے کہ اب وہ اس قانون سازی کو نہیں چھیڑیں گے۔ اگر یہ قانون سازی قائم رہ گئی تو اگلا قدم بڑھایا جائے گا۔ اسی لیے مریم نواز نے لڑائی کا درجہ حرارت بڑھا دیا۔

جلسہ پر جلسہ، ٹوئٹ پر ٹوئٹ۔ کنونشن پر کنونشن۔ مقصد ایک ہی تھا کہ عدلیہ اس قانون کو ختم نہ کرے۔نواز شریف کی صدارت پکی ہو جائے۔ تاہم لڑائی کو انتہا پر لیجانے کے باوجودکچھ حاصل نہ ہوا۔عدلیہ نے قانون ختم کر دیا۔ نواز شریف کی صدارت ختم ہو گئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی شہباز شریف کو صدربنانا پڑ گیا۔ یہ اس لڑائی کی بڑی شکست ہوئی۔

اسی طرح یہ بھی خیال تھا کہ جب لڑائی بڑھے گی۔ اقامہ کو ایشو بنایا جائے گا۔ عوامی پذیرائی میں اضافہ ہو گا۔ تو نیب کورٹ پر بھی دباؤ آئے گا۔ نواز شریف اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ روز عدالت میں جا ہی اس لیے رہے تھے کہ عدالت کو دباؤ میں لایا جائے۔ ایک ماحول بنا دیا جائے گاکہ نواز شریف جیل جانے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ بے تاب ہے۔

جیل نواز شریف کو اور مقبول کر دے گی۔ مریم کو لیڈر بنا دے گی۔ لیکن یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ بلکہ ریفرنسز کی سماعت جا ری ہے۔ اور اپنے انجام کی طرف گامزن ہے بلکہ ایک رائے بن رہی ہے کہ نواز شریف کو سزا پکی ہے۔ شاید اسی نے مفاہمت کا یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج نے بھی نواز شریف کا بھرم توڑ دیا ہے۔ وہ جیتی ہوئی بازی ہار گئے ہیں۔

سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے نتائج نے واضح کر دیا ہے کہ محاذ آرائی کا نقصان ہی نقصان ہے۔ عوامی رائے بن رہی ہے کہ نواز شریف واپس نہیں آسکتے، وہ مائنس ہو چکے ہیں۔ اب نواز شریف جتنی ضد کریں گے اتنا نقصان بڑھتا جائے گا۔ اس تاثرنے بھی مزاحمتی کیمپ کو کمزور جب کہ مفاہمتی کیمپ کو مضبوط کیا ہے۔ شہباز شریف کے صدر بننے کے بعد ان کی مبینہ ملاقاتوں کی باتیں سامنے آئی ہیں۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ اس میں مفاہمت کی بات ہوئی تا ہم دوسری طرف سے انکار ہو گیا۔ کیونکہ گیم اب ان کے ہاتھ سے بھی نکل چکی ہے۔ ادھر یہ بھی خبریں ہیں کہ mutual legal assistance کے تحت لندن میں حسین نواز سے بھی تفتیش شروع ہو چکی ہے۔ وہ بھی پریشان ہیں۔ اس لیے یہ سوچ بھی غلط ثابت ہو گئی ہے کہ حسین اور حسن نواز لندن میں محفوظ رہیں گے اور پاکستان میں نواز اور مریم اس جنگ کو جیت لیں گے لیکن چھ ماہ بعد پاکستان میں جنگ بھی ہاری جا رہی ہے اور لندن میں بھی تفتیش شروع ہونے کی خبریں ہیں۔

ماروی میمن کے ٹوئٹس کو بھی اسی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسحاق ڈار کو بھی شاید اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ بیرون ملک بھی زیادہ عرصہ تک محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے ماروی میمن بھی اسحاق ڈار کی طرف سے الگ مفاہمت کے پیغام دے رہی ہیں۔ اسحاق ڈار ماضی میں بھی وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔ لیکن وہ ایک ذہین آدمی ہیں، اس کے باوجود انھوں نے نواز شریف کا نہ صرف اعتماد جیت لیا بلکہ رشتہ داری بھی کر لی۔ ورنہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد یہ سب کچھ ممکن نہیں لگتا تھا۔ شاید تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے ۔

نواز شریف کو احساس ہو گیا ہے کہ جو لڑ ائی وہ لڑ رہے ہیں ا س میں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مریم کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں بن سکا۔ سختیاں ان کے حصہ میں ہیں۔ جب کہ ان کے ساتھی مزے لوٹیں گے۔ صرف وہ ٹارگٹ ہیں۔ اور کوئی ان کے ساتھ نہیں۔ جو نئی ٹیم ساتھ آئی تھی وہ ایک نوٹس سے ہی ہتھیار ڈال گئی ہے۔اب ان کی آواز بھی نہیں نکلتی۔ لیکن اب نواز شریف مفاہمت نہیں سرنڈر کر سکتے ہیں۔ مفاہمت تب ہوتی ہے جب دونوں فریق برابر ہوں۔ لیکن نواز شریف ہار رہے ہیں۔ ایسے میں مفاہمت نہیں سرنڈر ہو سکتا ہے۔اور اس بار یہ بھاری سرنڈر ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں