سوالات

انسانی فکرکوآپ سوالات کرنے سے نہیں روک سکتے۔نازک مگراہم سوالات ہرسنجیدہ آدمی کے ذہن میں ہیں۔


راؤ منظر حیات March 26, 2018
[email protected]

ملکی سیاست جس مشکل بلکہ ادنیٰ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، اس پرقطعاً حیرانی نہیں ہے۔قدرت کا قانون ہے کہ ہرذی روح کے دنیاسے اُٹھنے سے پہلے اس کا اصل چہرہ،کردار یا روپ عام لوگوں پرآشکار کیا جائے گا۔ ہمارے اداروں،ان کے سربراہان اور ملک کے مقتدرطبقے کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔

معاملہ عزت اوربے عزتی کا نہیں ہے کیونکہ عزت کا ہونا یا نہ ہونا، ایک احساس سے بڑھ کرکچھ نہیں ہے۔اگرکوئی انسان عزت کے احساس یا جوہر سے باہرنکل جائے تومعاملہ بے حدآسان ہوجاتاہے۔ پاکستان میں یہ سب کچھ ہورہاہے۔جھوٹ کا سمندر ہے،جس میں پوراملک غوطے کھارہاہے۔جوانجام ہونے والاہے،اس پرکوئی بات نہیں کررہا۔

انسانی فکرکوآپ سوالات کرنے سے نہیں روک سکتے۔نازک مگراہم سوالات ہرسنجیدہ آدمی کے ذہن میں ہیں۔جواب دینے والاکوئی نہیں۔اس درجہ خاموشی ہے کہ خوف آتاہے۔خوشامد تلوار بن کر مقتدرطبقے کے ہاتھ میں جاچکی ہے۔عوام کے لیے تاریخی لوریاں ہیں۔انھیں یقین دلایاجارہاہے کہ تمہیں ہر سہولت اورعیش وآرام،مرنے کے بعدنصیب ہوگا۔

یہ استدلال اب کمزورسے کمزورتر ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ بہرحال انسان سوچتاتوہے کہ ایک طبقہ سیکڑوں کینال کے گھرمیں رہ رہاہے۔اس کے پاس دنیاکی ہرآسائش کیوںموجود ہے۔سوال تواُٹھتاہے کہ عوام کی اکثریت گھر،باعزت روزگار اور بنیادی ضروریات سے محروم کیوں ہے۔یہ تفریق ہرگز ہرگز قدرتی اور فطری نہیں ہے۔

جوملک ترقی کرچکے ہیں ان میں طاقتوراورغریب طبقے میں اتنافرق نہیں ہے جو ہمارے ملک میں ہے۔مگرکیاآپ یہاں کسی سے پوچھ سکتے ہیں کہ صرف تین چاردہائیوں میں پچاس کروڑ کا گھر، دوکروڑکی جیپ اورخطیردولت کہاں سے آئی۔فوراً آپ کوملک دشمن یاکسی این جی او کاایجنٹ ثابت کرکے خاموش کرادیاجائیگا۔ہمارے ملک کااصل سانحہ یہ ہے کہ یہاں جائزسوال بھی پوچھا نہیں جاسکتا۔

میں معاشیات کاطالبعلم نہیں ہوں۔ مگر ہمارے اقتصادی نظام کوجولوگ چلارہے ہیں،ان میںچنداہم ترین لوگوں کوجانتاہوں۔افسوس سے عرض کروںگاکہ ان میں ایک بھی ایساشخص نہیں جو ہماری معیشت کوترقی کے راستے پرڈال سکے۔ مہاتیر محمد تودورکی بات۔اس کی قمیض کے بٹن برابربھی کوئی ایسا ماہر نہیں جوسچ بولے اورجرات مندانہ فیصلے کرسکے۔ مہاتیرمحمد،میڈیکل ڈاکٹرتھا۔اسے اقتصادیات کی الف ب معلوم نہیں تھی۔مگر خلوص تھا، نیت اور جرات تھی، یہی وجہ ہے کہ اس نے ملائشیا کی قسمت بدل دی۔

سوال یہ ہے کہ کیاہم معاشی خودکشی کرچکے ہیں۔ اس کاجواب کون دے گا۔ برسوں سے حکمتِ عملی کے تحت انتشار پھیلایا جارہا ہے۔مگر پارلیمنٹ، عدلیہ یا کسی ادارے نے مقتدرطبقے کی ناجائز دولت پاکستان لانے کے لیے ہمت نہیں کی۔

اس صورتحال نے ایک بے حدخطرناک سازشی تھیوری کوجنم دیاہے۔یہ تھیوری اس درجہ خوفناک ہے کہ سوچتے ہوئے بھی کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں ہوں۔ میری دعاہے کہ غلط ہو۔مگردرج کرنے کی ہمت کررہاہوں۔تھیوری یہ ہے کہ عملًا ملک کے تمام ادارے اورمقتدرطبقہ ایک خاص کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔وہ یہ کہ کسی بھی طاقتورفریق کے ذاتی یا مالی مفادات کو نقصان نہ پہنچاؤ۔

ایک خاص حد تک کام کرو،کہ کوئی بھی فریق اتنانقصان اُٹھالے، جو باآسانی برداشت کرسکے۔مگراس نقصان کاڈھنڈورا اس طرح پیٹاجائے کہ معلوم ہوکہ قیامت آچکی ہے۔ بس ظالم کی گردن کٹنے ہی والی ہے۔مگرآپ صبح اُٹھتے ہیں تواخباری خبروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔مثال دیتاہوں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔دہائیوں سے شورمچاہواہے کہ کرپشن بہت ہورہی ہے۔لُوٹاہوا پیسہ ملک سے باہربینکوں میں محفوظ پڑاہے۔

باہر جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔مگرسوچیے،آج تک کسی بھی ادارے نے اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لیے مضبوط فیصلے کیے۔کیاایک بھی ناجائزڈالر،واپس ملک کے اقتصادی نظام میں ضبط ہوکرآیا۔صاحب،سترسالہ تاریخ دیکھ لیجیے۔آج تک، ہماری کوئی بھی حکومت، کوئی بھی ادارہ اتنی جرأت اورہمت نہیں کرسکاکہ ناجائزدولت کو غیرممالک سے اپنے وطن میں لاسکے۔

باتیں بہت ہیں۔ بحث بہت ہے۔ کیاوجہ ہے کہ ناجائزدولت واپس نہیں لائی گئی۔سازشی تھیوری کے مطابق تمام اداروں میں ایک اَن دیکھی مفاہمت موجودہے کہ کسی بھی صورت میں دوسرے کی دولت کو نقصان نہیں پہنچانا بلکہ پہنچنے بھی نہیں دینا۔یہ اتفاق اب نظر آرہاہے۔وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی بھی ملکی ادارے میں اس سطح کاایماندارقائد،لیڈریاباس موجودنہیں ہے جواپنی ناک سے آگے دیکھ سکتاہو۔

سوال یہ بھی اُٹھتاہے کہ تمام گرداُڑائی ہی اسلیے جارہی ہے کہ ایک دوسرے کی ناجائزدولت کومحفوظ کیا جائے۔سوال یہ بھی ہے کہ یہاں مقتدرطبقے کے پاس جائزپیسہ موجود نہیں ہے۔اس لیے کوئی بھی دوسرے کو اپنی ناجائز دولت واپس لانے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ سازشی تھیوری کے تحت آجکل کی صورتحال ایک کھلی کتاب ہے۔ بہرحال،ہوسکتاہے کہ یہ تھیوری غلط ہو۔ سب کچھ نیک نیتی اورخلوص سے ہورہاہو۔

ستربرس سے ہمیں ایک سبق رٹایاجارہاہے کہ ہماری سلامتی کوشدید خطرہ ہے۔دنیا ہمارے ملک کوختم کرناچاہتی ہے۔روایات اورتاریخی کہانیاں سناسناکر ہمیں عدم تحفظ کاشکاربنادیاگیاہے۔سوال یہ ہے کہ ہر ہمسایہ ملک ہم سے شکوہ کیوں کررہاہے کہ ہم دہشتگردی کوایک ہتھیارکے طورپراستعمال کررہے ہیں۔ اکثر محفلوں میں سنتاہوں کہ کشمیرکے بغیرپاکستان نامکمل ہے۔

درست ہے۔مگرکیاہم نے اپنے ملک اوراپنے کشمیرکواتنابہتراورترقی یافتہ بنالیاہے کہ مقبوضہ کشمیر ہمارے ساتھ ملنے پرفخرمحسوس کرے۔اس پرکوئی بات نہیں کرتا۔ایک ایسابیانیہ مرتب کیاگیاہے جس کے خلاف سوچنے کی قوت کوتقریباًختم کردیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ہماراملک اتنامضبوط ہے کہ ہندوستان سے مقبوضہ کشمیرکوچھین لے۔کارگل سب کے سامنے ہے۔ مگرہم کسی قسم کاسبق نہیں سیکھنا چاہتے۔سوال یہ بھی ہے کہ اگرہم نے یہی وتیرہ رکھا تو کیا دنیاکے طاقتورملک،ہمارے ملک کا ساتھ دیں گے۔یہ بہت بڑاسوال ہے۔جس پردبے لفظوں میں بحث توکی جاتی ہے،مگرپھرخوف کے بادل انسانی ذہن کوگرفت میں لے لیتے ہیں۔

آج تک ہمارے ملک میں امریکا کے متعلق دلیل پربحث کرنے کی اجازت نہیں۔کیاجنرل ضیاء الحق کی گردن پرتلواررکھ کر افغان جہادمیں شامل ہونے کاحکم دیاگیاتھا، ہرگز نہیں۔یہ ایک گروہ کی ناجائز حکومت کوتسلسل اور طوالت دینے کی خاطرکیاگیا تھا۔ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کاایک فیصلہ ہمارے ملک کوبربادکرگیا ہے۔

چلیے،وہ تواس دنیاسے چلاگیا۔مگرسوال یہ ہے کہ آج کی دنیاکیوں نہیں تسلیم کررہی کہ ہم طالبان کے معاملے میں ڈبل گیم نہیں کھیل رہے۔پوری دنیا ہمارے بیانیے کو تسلیم کیوں نہیں کررہی۔کیایہاں کوئی سوال کر سکتا ہے۔ ہرگزنہیں۔یہ سوال آپ کومصیبت میں مبتلاکر سکتا ہے۔

اس وقت ہماراتمام انحصارایک اورطاقت کی طرف ہے۔چین ہمارے لیے ایک نیاآقا بن رہا ہے۔ ہرشہرمیں سیکڑوں نہیں،ہزاروں چینی موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک نئی سماجی تبدیلی آرہی ہے جوکسی بھی لحاظ سے مثبت نہیں۔امریکا نے توخیرہمیں سب سے زیادہ مالی امداددی تھی۔ ہمارے لاکھوں شہریوں کوامریکی شہریت دی تھی۔

ہمیں ڈیم اور ہر طریقے کی ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے۔مگرکیاکوئی سوال کرسکتاہے کہ چین کی بحیثیت تاجر،کیاشہرت ہے۔ان کامقصدصرف ڈالر کمانا ہے۔پاکستان ان کے لیے ایک چراگاہ بنا دیا گیا ہے۔کیاآپ سوال کر سکتے ہیں۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک، جرمنی، سویڈن، ناروے، آسٹریلیا،نیوزی لینڈوغیرہ ہمارے عظیم ملک میں ایک دھیلہ لگانے کے لیے کیوں تیار نہیں۔

کیا ہمیں یہ سوال پوچھنے کاحق نہیں کہ چینی سرمایے میں ہمارا مقتدر طبقہ کیوں ڈبکیاں لگارہاہے۔کسی کوسوال بھی نہیں کرنے دیا جا رہا کہ دنیاکاایک بھی ملک ایسا نہیں جو چین کی بدولت امیراورمہذب ہوا ہو۔ مگر یہاں اگر آپ ایساسوال اُٹھائیںگے توملکی ترقی کے دشمن ہوں گے۔ شائد غداربھی کہلائے جائیں۔ ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ دلیل کی بنیادپرسوال کرنے کاحق ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ اس حق کوہمارے جیسے ماضی میں رہنے والے معاشرے کبھی واپس لینے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں