اپنے حقوق کا احساس
ایک مل مالک اپنی ملز کی پروڈکٹ سو فیصد منافع پر فروخت کرتا ہے اور سال بھر میں ایک اور مل کھڑی کرلیتا ہے۔
پاکستان کے 20 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب انسان غربت و افلاس کی چکی میں اس لیے پس رہے ہیں کہ انھیں اپنے حقوق کا احساس نہیں، جب تک کسی کو اپنے حقوق کا احساس نہیں ہوتا وہ اپنے حقوق کے لیے نہ جدوجہد کرسکتا ہے نہ لڑ سکتا ہے۔ غربت اور افلاس کیسے پیدا ہوتے ہیں اس کا ادراک ضروری ہے۔
معاشرے میں پیدا ہونے والا ہر انسان ایک ہی طرح سے پیدا ہوتا ہے اور جب وہ پیدا ہوتا ہے خواہ کسی گھرانے، کسی مذہب، کسی ملک میں پیدا ہو، وہ انسان کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ ہے جو پیدائش کے بعد اسے مختلف خانوں میں بانٹ دیتا ہے، انھی خانوں میں ایک خانہ غربت کا ہے، ایک خانہ امارت کا ہے۔
جو بچہ کسی غریب گھرانے میں پیدا ہوتا ہے وہ غریب ہوتا ہے۔ یہ تقسیم خدا کی نہیں بلکہ انسانوں کی بنائی گئی تقسیم ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے 7 ارب انسانوںمیں سے 80 فیصد سے زیادہ انسان غریب ہیں اور صدیوں سے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پسماندہ ملکوں کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب سے وہ حقائق ہمارے سامنے آئیں گے جو غربت اور امارت کا سبب بنے ہوئے ہیں، ہم جس بدبخت ظالمانہ غیر منصفانہ نظام میں زندہ ہیں اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے، اس ظالمانہ نظام کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام ایک فطری اور دنیا کے لیے ناگزیر نظام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سو میں سے 90 انسانوں کا غریب ہونا اور غربت کی چکی میں پسنا فطری ہے، کیا دس فیصد انسانوں کا امیر ہونا فطری ہے؟
فطری بات تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر انسان خوشحال ہونا اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہی شخص امیر اور خوشحال ہوتا ہے جسے ناجائز ذرایع سے دولت حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور یہ ذرایع دنیا کے غریب طبقات کو حاصل نہیں ہوتے بلکہ یا تو آبائی دولت مندوں کو حاصل ہوتے ہیں یا ایسے شاطر لوگوں کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں جو غلط صحیح، جائز ناجائز میں تمیز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ایک مل مالک اپنی ملز کی پروڈکٹ سو فیصد منافع پر فروخت کرتا ہے اور سال بھر میں ایک اور مل کھڑی کرلیتا ہے۔ لیکن اسی ملز میں کام کرنے والے پانچ ہزار مزدور دن بھر محنت کرکے اتنی اجرت بھی حاصل نہیں کرتے کہ پیٹ بھر کھا سکیں، کیونکہ ان کی اجرت فکس ہے، انھیں ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کے کوئی مواقع حاصل نہیں، یہ مزدور زندگی بھر غربت کے بھنور ہی میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں، ان کی آنے والی نسلیں بھی غریب پیدا ہوتی ہیں اور غریب مر جاتی ہیں، نہ اس کے پہننے کے لیے کپڑے ڈھنگ کے ہوتے ہیں نہ رہنے کے لیے گھر ڈھنگ کا۔
اس کے مقابلے میں ہاتھ پیر ہلائے بغیر ایک مل مالک کروڑوں روپے کما لیتا ہے، اس کے پاس نئے ماڈل کی چار چار گاڑیاں ہوتی ہیں۔ بنگلے ہوتے ہیں، نوکر چاکر ہوتے ہیں، لگژری زندگی ہوتی ہے، اس کی وجہ ناجائز اور غیر معمولی منافع اور حرام کی کمائی کے مواقع ہیں، یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کی ایک معمولی سی جھلک، اگر اندر جھانکیں تو کرپشن ہی کرپشن۔
سرمایہ دارانہ نظام کس قدر غیر منصفانہ اور جابرانہ ہے اس کی ہم نے ایک جھلک دکھائی ہے اگر اس کی پوری تصویر دکھائیں تو انسان اس شاطرانہ غیر منصفانہ نظام کے چیتھڑے اڑانے پر تیار ہوجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان صدیوں سے اس جابرانہ قاہرانہ غیر منصفانہ نظام کو کیوں برداشت کر رہا ہے، اس کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتا؟
جن شاطروں نے یہ وحشیانہ نظام ایجاد کیا تھا ان کو یہ معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن اس نظام کے ستائے ہوئے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جب یہ اٹھ کھڑے ہوں گے تو ان کے قہر سے پناہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس خوف کی وجہ ان شاطروں نے ایک ایسا حفاظتی نظام ایجاد کیا جو ان لٹیروں کی ڈھال بن گیا، اس نظام کا نام انھوں نے قانون اور انصاف کا نظام رکھا۔ اور قانون اور انصاف پر عملدرآمد کے لیے ایک ریاستی مشینری بنائی۔
معاشروں میں امن و امان کو بحال رکھنے کے لیے قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے انصاف کی بھی اور ریاستی مشینری کی بھی، لیکن اول تو عوامی دولت کے یہ لٹیرے سارے فراڈ کے کام بڑی ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ قانون کی گرفت میں نہ آسکیں، لیکن ان کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ وہ قانون کا منہ بند کردیتے ہیں۔ قانون انصاف اور ریاستی مشینری میں عوام کی محنت کی کمائی سے اپنی تنخواہیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان کا اطلاق عموماً غریب طبقات پر ہی ہوتا ہے اور دولت مند طبقات عموماً قانون کی گرفت سے بچے رہتے ہیں۔ چونکہ قانون کا پورا نظام کرپٹ ہوتا ہے اس لیے وہ لوگ اس سے بچے رہتے ہیں جن کے پاس قانون کو خریدنے کے لیے دولت کے انبار ہوتے ہیں۔ غریب جو قانون کو خرید نہیں سکتا قانون کی چکی میں پستا رہتا ہے۔
پاناما لیکس نے دنیا کے انھی لٹیروں کو بے نقاب کیا ہے جو عوام کے اربوں روپے کھا کر نواب بنے عیش کی زندگی گزار رہے تھے۔ پاناما لیکس نہ سرمایہ داروں کی تنظیم ہے نہ جاگیرداروں کی بلکہ دنیا کے ان صحافیوں کی تنظیم ہے جو لٹیرے طبقات کے خلاف ہیں۔ اس لیکس نے دنیا بھر کے لٹیرے طبقات کو بے نقاب کردیا ہے۔ اور ساری دنیا پاناما لیکس کے منکشف لٹیروں کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہی ہے لیکن لٹیرے طبقات دولت کے بے بہا استعمال اور سادہ لوح عوام کو استعمال کرکے اس احتساب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور فراڈ جمہوریت کے پیچھے چھپ کر اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام صدیوں سے اس طبقاتی ظلم کی چکی میں کیوں پس رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کو اس حقیقت کا احساس نہیں کہ وہ غلام نہیں آقا ہیں اور غریب نہیں بلکہ تونگر ہیں معاشرے اور ملک میں جو اربوں کی دولت ہے اس کے مالک وہی ہیں جو شاطر ان کی دولت پر قبضہ کرکے عیش عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ دولت ان کی نہیں۔ نہ ان کی محنت سے پیدا ہوتی ہے یہ قومی دولت غریب کی محنت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے حقیقی مالک غریب عوام ہی ہیں۔
ایک تو غریب عوام کو دبا کر رکھنے کے لیے سرمایہ داروں نے قانون انصاف کا نامنصفانہ نظام تشکیل دیا دوسرے انھیں نفسیاتی طور پر غربت کا مستقل اسیر بنانے کے لیے تقدیر اور قسمت کا فلسفہ گھڑ کر غریب عوام کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور ظالموں کے خلاف بغاوت سے روکنے کی ماہرانہ کوشش کی جب تک غریب طبقات کو ان سازشوں اور اپنے حقوق کا احساس نہیں ہوگا وہ غربت کی کھائی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔