انتخابی منشور کیسے بنایا جائے
ایک زمانہ تھا، جب سیاسی جماعتیں انتخاباتی منشور کی تیاری میں خصوصی دلچسپی لیا کرتی تھیں۔
گو کہ سیاسی منظرنامہ خاصا مبہم اور غیر واضح ہے۔ سیاست کے افق پر شکوک وشبہات کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، لیکن جس طرح اوندھے سیدھے انداز میں سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے، شاید عام انتخابات بھی اسی طرح وقت متعینہ پر ہوجانے کا بھی امکان ہے، چونکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اب فکری، نظریاتی اور سیاسی فرق مفقود ہوچکا ہے، اس لیے ان کے منشور بھی محض نمائشی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
ایک زمانہ تھا، جب سیاسی جماعتیں انتخاباتی منشور کی تیاری میں خصوصی دلچسپی لیا کرتی تھیں اور اس کی بنیاد پر نہ صرف انتخاب لڑا کرتی تھیں، بلکہ کامیاب ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کیا کرتی تھیں۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت (1971-77) نے کیا تھا، مگر فی زمانہ سیاسی جماعتوں کا زیادہ تر انحصار Electables اور پروپیگنڈے پر ہوگیا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کی توجہ نظریات اور منشور جیسے اہم معاملات کے بجائے Electables اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے پر مرکوز ہوچکی ہے۔
یہی کچھ معاملہ آیندہ انتخابات میں بھی نظر آرہا ہے، اگر قومی دھارے کی صرف تین جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں، تو انیس بیس کے سوا ان کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں رہا ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے، تو یہ جماعت ووٹ کے تقدس، عدالتی نظام میں اصلاحات، تعمیراتی ترقیاتی منصوبوں بالخصوص میٹروبس، اورنج ٹرین اورسڑکوں کی تعمیر اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ترجیحی انتخابی ایجنڈا بناتی نظر آرہی ہے۔
تحریک انصاف جن نعروں کے ساتھ انتخابات میں اترنے کی تیاریاں کر رہی ہے، ان میں کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ اور خیبرپختونخوا میں کارکردگی ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے پلے عوام کو دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایک بار پھر ماضی کے نعروں، روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی تجدید کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، مگر کوئی بھی جماعت عوام کو درپیش اصل مسائل کا احاطہ کرتی نظر نہیں آرہی۔
عوام کو درپیش اصل مسائل کیا ہیں؟ انھیں سمجھنا اور جاننا ہر ذی شعور کے لیے ضروری ہے۔ پہلی بات جو ہمیں ذہنوں میں رکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ کنکریٹ اور لوہے سے تعمیرکی گئی بلند وبالاعمارتیں اور چمکتی سیاہ سڑکیں ملک ومعاشرے کی ضرورت تو ہوتی ہیں، لیکن اصل ترقی نہیں ہوتیں۔
ترقی دراصل انسانی ترقی (Human Development) ہوتی ہے۔ انسانی ترقی سے مراد تعلیم، صحت، مناسب رہائش (Decent living) اور روزگار تک ہر شہری کی بلا امتیاز رسائی اور یوٹیلٹیز (یعنی بجلی، گیس، پانی) کی فراہمی کے بعد انفرااسٹرکچر کی بہتری ہے۔
لیکن پاکستان حکمران اشرافیہ کی غلط منصوبہ بندیوں اور پالیسیوں کے سبب مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی گرداب میں پھنس چکا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسائل بحرانی شکل اختیار کرتے ہوئے انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ اختیار کی عدم مرکزیت اور اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی ترجیحی ترقیاتی کاموں میں عدم شرکت ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہر علاقے، تحصیل اور ضلع کی اپنی الگ ضروریات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی ترجیحات اس یونین کونسل یا تحصیل کے شہریوں کی بھی ترجیحات ہوں۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ منصوبے نچلی سطح پر عوامی خواہشات کے مطابق تشکیل پائیں۔ ان کی فنڈنگ کے لیے نچلی سطح سے اوپری سطح کی جانب روابط کیے جائیں، تو عوام کی دلچسپی ان منصوبوں میں پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت چند سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اول، نیشنل ایکشن پلان (NAP) میں طے کردہ نکات پر کس حد تک عمل ہوا اور اس منصوبے کو سرد خانے کی نذر کیوں کردیا گیا ہے؟ دوئم، National Counter Terrorism Authrity (NACTA)کی غیر فعالیت کے پس پشت وہ کون سے عوامل ہیں، جو اس پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟ کیونکہ ان اقدامات کے بغیر ملک سے مذہبی شدت پسندی کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن سب سے پہلے ریاست کے قومی بیانیہ پر نظرثانی اور اس میں مناسب ترمیم کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر دہشتگردی کے خاتمے کے تمام دعوے محض اشک شوئی سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
اب جہاں تک تمام بچوںکی تعلیم تک رسائی کا معاملہ ہے، تو اٹھارویں ترمیم میں شق 25A شامل کی گئی تھی، جس کی رو سے 31 دسمبر 2015ء تک 5 سے 11 برس عمرکے تمام بچوں کو اسکولوں میں داخل ہونا تھا۔ مگر آج مارچ 2018ء میں بھی 60 فیصد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے ملک کی 80 فیصد آبادی معیاری عصری تعلیم سے محروم ہے۔
خواندگی کی شرح کی بہتری کی اسی وقت توقع کی جاسکتی ہے جب پہلی سے بارہویں جماعت تک یکساں نصاب تعلیم ہو اور ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے تمام ادارے (پہلی سے بارہویں تک) سرکار کی زیر سرپرستی یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم کردہ ہوں۔
دوسرا اہم مسئلہ حفظان صحت کا ہے۔ سرکاری اسپتالوں اور شفاخانوں کی تعداد میں ستر برسوں کے دوران انتہائی معمولی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں جانے پر مجبور ہے۔ جہاں ان کی کھال کھینچی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں صحت کے معاملات کو ترجیحی اہمیت دے۔ اس حوالے سے دوسرا بڑا مسئلہ ادویات کی من مانی قیمتیں اور ان کا پست معیار ہے۔ جس پر توجہ دینا ہر متوقع حکومت کی اولین ذمے داری ہونا چاہیے۔
سوشل سیکیورٹی تیسرا اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ شہری محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ملازمت پیشہ سفید کالر طبقہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد دس کروڑسے تجاوز کرجاتی ہے، مگر ان کے سماجی تحفظ کا کوئی واضح اور مربوط نظام نہیں ہے۔
ٹھیکیداری نظام نے محنت کشوں کے روزگار کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔ پھر انھیں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جارہی، مگر اس زیادتی کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی واضح مکینزم موجود نہیں ہے۔ کام کے مقام (Work Place) پر وہ سہولیات بھی مہیا نہیں کی جارہیں، جو ILO کنونشنز کا حصہ ہیں۔
چوتھا اہم مسئلہ مناسب رہائش (Decent Living) ہے۔ آج کل نجی بلڈرز بڑے بڑے اور انتہائی مہنگے رہائشی منصوبے حکومتی آشیرواد سے پیش کررہے ہیں، مگر ملک کی 80 فیصد غریب آبادی کے لیے سستی رہائش (Low Cost Housing) کی کوئی اسکیم گزشتہ تین دہائیوں سے سامنے نہیں آئی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کے کم آمدنی والے طبقات کے لیے سستی رہائش کے منصوبے پیش کرے، جہاں تمام شہری سہولیات مہیا ہوں۔ مناسب سستی رہائشی اسکیموں کی عدم موجودگی کے باعث آبادی کا ایک بڑا حصہ کچی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ کم قیمت مناسب رہائشی منصوبوں کے ذریعے کچی آبادیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
ان سہولیات تک عوام کی رسائی اسی وقت ممکن ہے، جب ملک میںاچھی حکمرانی (Good Governance) قائم ہو۔ اچھی حکمرانی کا انحصار، شراکتی جمہوریت، اقتدار و اختیار کی ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک منتقلی، شفافیت، میرٹ اور جوابدہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں عوام کو درپیش مسائل کو شامل کریں گی اور کامیاب ہونے کی صورت میں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گی۔