پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

 ’’ورلڈ واٹر ڈے ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔


 ’’ورلڈ واٹر ڈے ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

پانی اللہ تعالیٰ کی وہ انمول نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔

کرہ ارض پر مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت رواں دواں ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان زرعی و معدنی نعمتوں کے ساتھ ساتھ بہترین آبی وسائل سے بھی مالا ہے مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں زیر زمین آبی ذخائر کم ہورہے ہیںاور اس حوالے سے ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں۔

پاکستان پانچ دریاؤں اور ایک سمندر کی حامل سرزمین ہے مگر اس کے باوجود ان ممالک میں شامل ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بحران کی ایک وجہ تو حکومتی ناقص پالیسیاں ہیں جبکہ دوسری وجہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے جو شروع دن سے ہی اس پاک سرزمین کو بنجر کرنے کا خواہاں ہے۔

اس ساری صورتحال میں ''ورلڈ واٹر ڈے'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی رہنماؤں اور آبی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا ارشد (مشیر برائے وزیراعلیٰ پنجاب)

پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ پانی ہم ضائع کرتے ہیں شرعی و دینوی لحاظ سے اس کا حساب دینا ہوگا۔ بھارت ، پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ عالمی سازش کے تحت بھارت پنجاب میں آنے والے دریاؤں کے کناروں پر ڈیم و بجلی کے منصوبے لگا کر ہمارا پانی روک رہا ہے جو ہماری زراعت کو تباہ اور نہری نظام کو خراب کرنے کی کوشش ہے لہٰذا ہمیں بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پانی کے مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور ہمیں پانی ذخیرہ کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی نیت صاف ہے اور وہ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کر رہے ہیں۔

2017-18ء کے بجٹ میں عوامی توقعات کے مطابق پانی کے منصوبوں کیلئے 70 ارب روپے مختص کیے گئے، صاف پانی اتھارٹی بنائی گئی ، اسمبلی میں قانون سازی بھی ہوئی لیکن جب اس میں بے ضابطگیوں کا خدشہ ہوا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے اینٹی کرپشن کو بلا تفریق تحقیقات کا کہا اور اس کمپنی کے سی ای او سمیت دیگر ذمہ داران پر مقدمہ بھی درج کرایا گیا۔اس وقت 2018-19ء کے بجٹ کی تیاری ہورہی ہے اور اس حوالے سے تمام اراکین اسمبلی سے تجاویز مانگی گئی ہیں تاکہ ان کے علاقوں کے مسائل کے حوالے سے بجٹ تیار کیا جاسکے۔

آئندہ بجٹ میں پانی کے منصوبوں کے حوالے سے 150 ارب روپے سے زائد کا بجٹ رکھا جائے گا۔ واٹر سپلائی اور سیوریج کا علیحدہ سسٹم بنایا جارہا ہے جس میں تجربہ کار لوگوں کو رکھا جائے گا۔ پانی کو محفوظ کرنے اور صاف پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی و ضلعی حکومتوں کو بھی اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔ مقامی حکومتوں کے پاس میونسپل کارپوریشن کی سطح پر پانی کے ذخائر موجود ہیں جبکہ اب پانی کے حوالے سے نئی سکیمیں بنائی جارہی ہیں جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔

شاہ کوٹ سے ننکانہ کے درمیان ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جہاں سے لوگوں کو مفت کنیکشن دیے جائیں گے لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نہری پانی استعمال کررہے ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ اس ٹیوب ویل کے ذریعے آنے والے پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہوتا ہے۔ ہم نے اس پانی کا ٹیسٹ کرایا تو وہ بالکل شفاف ہے لہٰذا لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے بھی کام ہورہا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ ہدایت کی ہے کہ نئی واٹر سپلائی سکیم کے بجائے پرانی سکیموں کو بحال کیا جائے اور جہاں خرابی ہے اسے دور کیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف حکومتی اقدامات سے معاملات درست نہیں ہوسکتے لہٰذا معاشرے کے ہر افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایل ڈی اے کی میٹنگ میں سروس سٹیشنوں کی بات ہوئی اور کہا گیا کہ انہیں بند کر دیا جائے کیونکہ وہاں بہت زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ میں نے تجویز دی کہ اس پانی کو ری سائیکل کرنے کا سسٹم بنایا جائے جس کے بعد اب اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ پھر یہ تجویز سامنے آئی کہ جو سروس سٹیشن یہ سسٹم لگائے گا اس کو بل میں رعایت دی جائے گی۔

اگر ایسے اقدامات ہوں گے تو پھر عام آدمی کو بھی احساس ہوگا کہ پانی کا ضیاع روکنا ہے۔ 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی قیادت میں جو منشور دیا اس میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ ترجیحات میں شامل تھا۔ آج الحمداللہ یہ دونوں مسائل ختم ہوچکے ہیں لہٰذا اب 2018ء کے بجٹ میں تعلیم صحت و بنیادی سہولیات کو ترجیح دی جائے گی۔ 2017-18ء کے ہیلتھ بجٹ میں ہم نے.5 15فیصد اضافہ کیا جو 262 ارب روپے ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی قابل ڈاکٹرز اچھی تنخواہوں پر بھرتی کیے جارہے ہیں جس سے معاملات میں بہتری آئی ہے۔

صحت کا تعلق پانی سے ہے لہٰذا حکومت صحت پر بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ منتخب نمائندوں، سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ڈاکٹرز و دیگر سٹیک ہولڈرز کو اپنی کارکردگی مزید بہتر کرنا ہوگی اور عوام کو ان کی توقعات کے مطابق سہولیات دینا ہوں گی۔ لوگوں کو مسائل کے حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے جو تعلیم سے ممکن ہے۔ پنجاب حکومت اس طرف بھی توجہ دے رہی ہے۔

تعلیم کا حالیہ بجٹ 356 ارب روپے ہے جبکہ اب 25 ہزار ایجوکیٹرز بھرتی کیے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی چار مراحل میں بھرتیاں ہوچکی ہیں، انہیں میرٹ پر بھرتی کیا جاتا ہے اور اس کا فیصلہ این ٹی ایس ٹیسٹ کے رزلٹ اور انٹرویوپر ہوتا ہے۔ مسائل زیادہ ہیں مگر ماضی کی نسبت بہت بہتری آئی ہے، صاف پانی کی فراہمی اور پانی کے نئے ذخائر کو منشور میں شامل کیا جائے گا۔

راحیلہ خادم حسین (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن))

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پانی کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ ہم پانی کے معیار پر بات کررہے ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے پہلے پانی محفوظ کرنے کی بات ہونی چاہیے۔ پانی کے ذخائر کی بات کریں تو ہمارے پاس صرف30 دن تک کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ امریکا کے پاس 900 دن کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کو 70 برس بیت چکے ہیں مگر ہم آج بھی یہی بات کررہے ہیں کہ پانی کو ذخیرہ کیسے کیا جائے۔ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر پاکستان میں موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈیم نہیں بن سکے۔

بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا، اس نے 500 سے زائد ڈیم بنائے ہیں لیکن جب ہم کالا باغ ڈیم یا کسی دوسرے ڈیم کی بات کرتے ہیں تو بعض عناصر صوبائیت کو ہوا دیتے ہیں جس سے ملک کا نقصان ہورہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ آرٹیکل 140 بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے، پانی بھی ہمارا بنیادی حق ہے لیکن ہمیں نہیں مل رہا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب ملک میں جمہوریت نہیں رہتی اور منتخب نمائندؤں کو الجھا دیا جاتا ہے توپالیسیاں نہیں بن پاتی جن کے باعث مسائل حل نہیں ہوتے لہٰذا اگر ایسی ہی صورتحال رہے گی تو پھر بے شمار مسائل کا سامنا رہے گا۔

پانی کو محفوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نئے ڈیم بنائے جائیں۔ کینال اور بیراج کی حالات ابتر ہے ، انہیں بہتر کرنا ہوگا۔ لوگ صاف پانی ضائع کرتے ہیں، گاڑی دھونے کیلئے پانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے لہٰذا لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کا ضیاع روکا جاسکے۔ بچن میں بڑے کہتے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب پانی خرید کر پینا پڑے گا، اب ہم واقعی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جب پانی خرید کر پینا پڑ رہا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اس وقت بھی لوگوں میں پانی کے حوالے سے آگاہی تھی کہ پانی بچانا ہے۔ اگر ہم نے پانی ذخیرہ نہ کیا اور لوگوں کو آگاہی نہ دی تو پھر 2025ء میں پاکستان میں پانی کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان زرعی ملک ہے لہٰذا جب یہاں زیر زمین پانی ختم ہوجائے گا تو ہماری زراعت کا نقصان ہوگا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ 2002ء میں پانی کے حوالے سے پالیسی بنائی گئی مگر افسوس ہے کہ آج تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں بہتر کام ہوا ہے، بلوچستان کی پالیسی بھی بہتر ہے جبکہ فاٹا نے بھی اس حوالے سے کام شروع کردیا ہے۔

پنجاب کا صاف پانی منصوبہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکا، اس حوالے سے ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ اقدامات کرنے سے ہی معاملات بہتر ہوتے ہیں۔ ہم نے صاف پانی پراجیکٹ کی صورت میں سب سے پہلے کام شروع کیا، گزشتہ بجٹ سے پہلے بھی اسمبلی میں پانی کے مسائل کے حوالے سے بات ہوئی لہٰذا حکومت کو اس مسئلے کا ادراک ہے اور اس پر کام بھی ہورہا ہے۔ پنجاب زرعی صوبہ ہے لہٰذا ہماری زیادہ توجہ اس طرف ہے کہ زرعی شعبے کو پانی فراہم کیا جائے تاکہ اجناس کو مستقبل میں کوئی نقصان اٹھانا نہ پڑے۔

میرے نزدیک پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے واٹر ایمرجنسی نافذ کرکے خصوصی ٹاسک فورس کے ذریعے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ پانی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہماری بقاء کا مسئلہ ہے، اگر اسے سنجیدہ نہ لیا گیا تو پھر ہماری بھارت کے ساتھ جنگ ہوسکتی ہے لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اپنی آنے والی نسلوں کو پانی فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ جنگ کی طرف نہ جائیں۔

میلینیم ڈویلپمنٹ گولز میں ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے زمینی حقائق دیکھے بغیر معاہدہ کر لیا اب ایسا ہی سٹینڈرڈ ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ ابھی تک اراکین پارلیمنٹ کو بھی SDG's کے حوالے سے درست علم نہیں ہے تاہم ماضی کی نسبت بہتری آئی ہے۔ میرے نزدیک عالمی گولز پر معاہدہ کرتے وقت زمینی حقائق کو مد نظر رکنا چاہیے اور کسی بھی معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔

پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید ( پرنسپل کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ پنجاب )

پانی کے حوالے سے جنوبی افریقہ کابڑا شہر پانی کی قلت کا شکار ہے اور یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اگلے ایک سال تک وہاں زمینی پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔ پانی کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ پانی ان قدرتی وسائل میں شامل ہے جنہیں دوبارہ نہیں بنایا جاسکتا۔ بارشوں کے باعث جو پانی زیر زمین ذخیرہ ہوا، اس نے ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے لہٰذا ہمیں احتیاط کے ساتھ پانی استعمال کرنا چاہیے اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدلیوںکی وجہ سے پاکستانی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کے باعث پانی کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ گلیشیئرز کا پانی ہر سال سیلاب کی صورت میں ہمارے لیے عذاب بن جاتا ہے جوکراچی تک جاتا ہے، جنوبی پنجاب کے بعض علاقے بھی ا س کی لپیٹ میں آجاتے ہیں لہٰذااگر اس پانی کو بہت حکمت عملی اختیار کرکے ذخیرہ کر لیا جائے تو یہ پانی ہمارے لیے باعث رحمت ہوگا اور اس طرح پانی کی قلت سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح دن بہ دن کم ہورہی ہے جبکہ نہری پانی بھی آلودہ ہے جس کی وجہ سیوریج کا پانی و کچڑا نہروں میں پھینکنا ہے لہٰذا اس حوالے سے آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتی اقدامات قابل تعریف ہیں مگر صنعت، حکومت اور تعلیمی اداروں کے درمیان رابطہ نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںریسرچر اپنی تحقیق حکومت تک پہنچاتا ہے اور پھر حکومت اسے متعلقہ اداروں سے لنک کرتی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی ایسا ہوجائے اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی تحقیقات سے فائدہ اٹھایا جائے تو نہ صرف پانی کے مسائل حل ہوں گے بلکہ دیگر معاملات بہتر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

پانی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے چند اقدامات انتہائی ضروری ہیں ۔ اس حوالے سے نئے ڈیم بننے چاہئیں۔ قابل تجدید انرجی کے وسائل پر کام کرنا چاہیے۔ صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگنے چاہئیں لیکن ان کی دیکھ بھال ہونی چاہیے۔ محکمہ ماحولیات، واسا و اس طرح کے بیشتر محکموں میں ٹیکنیکل لوگوں کو تعینات کرنا چاہیے، اس کے علاوہ ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ٹیکنیکل تعلیم یافتہ ہونے چاہئیں نہ کہ بیوروکریٹس کو سربراہ بنا دیا جائے۔ بہتر کارکردگی کیلئے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ٹیکنیکل شعبوں کے طلبہ کو ان شعبوں میں ملازمت دی جائے کیونکہ وہ تکنیکی چیزوں کو بہتر سمجھتے ہیں۔

جامعہ پنجاب میں 70 ہزار روپے کی لاگت سے rain water harvesting کا پائلٹ پراجیکٹ لگایا گیا ہے جو بارش کے پانی کو ذخیرہ کرتا ہے اور اسے قابل استعمال بناتا ہے۔اگر سرکاری عمارتوں ، کمرشل و گھریلو تعمیرات میں یہ سسٹم بنایا جائے تو صاف پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اور ری سائیکل شدہ پانی باغبانی، گاڑی دھونے و اس طرح کے دیگر کاموں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ایل ڈی اے کو چاہیے کہ قانون سازی کرے اور اس سسٹم کے بغیر کوئی نقشہ پاس نہ کیا جائے۔

فراقت علی (آبی ماہر)

پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے مگر افسوس ہے کہ اسے بنیادی حق نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی یہ سیاسی ترجیحات میں شامل رہا جس کے باعث ہمیں مسائل درپیش ہیں۔صحت کا براہ راست تعلق پانی کے ساتھ ہے۔ 24سے 34 ایسی عام بیماریاں ہیں جن کا تعلق صرف پانی سے ہے اور مضر صحت پانی پینے سے یہ بیماریاں پھیلتی ہیں۔بیماریوں کے اخراجات کی وجہ سے غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس حوالے سے بھی سہولیات زیادہ نہیں ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب کے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے 2 کھرب روپے درکار ہوں گے۔سالانہ جی ڈی پی کا 0.5 فیصد پانی و سینی ٹیشن پر خرچ کیا جاتا ہے جو ناکافی ہے۔ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مطابق پاکستان نے 2015ء تک 92فیصد لوگوں کو پانی فراہم کرنا تھا۔ اس حوالے سے جو رپورٹ پاکستان سے گئی اس کے مطابق 94 فیصد لوگوں کو پانی فراہم کر دیا گیا ہے۔

لوگوں کو پانی تو مل گیا مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ معیاری اور صحت کے لیے موزوںہے؟ سٹینڈرڈ ڈویلپمنٹ گولز کا ہدف 6(1) پانی کے حوالے سے ہے جس میں لوگوں کی پانی تک رسائی، 24 گھنٹے سپلائی اور ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی شامل ہیں۔ اہم یہ ہے پانی کا معیار بہتر بنایا جائے کیونکہ لوگوں کو فراہم کیے جانے والے پانی کا 8سے 10 پینے کے قابل ہے جبکہ 90سے 92 فیصد پانی مضر صحت ہے۔ اس لیے حکومت کو پانی کا معیار بہتر بنانے کیلئے اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کا ہے جبکہ اب الیکشن بھی قریب ہیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ صاف پانی کے حوالے سے دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب حکومت کی کارکردگی بہتر ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے 3 ارب روپے کی لاگت سے جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع کیلئے پانی کے منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔

اس کے علاوہ خادم اعلیٰ آب صحت پروگرام ہے جو پانی کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کیلئے ہے۔ 2015ء میں rain water harvesting کا ڈرافٹ پنجاب کیلئے بنا تھا مگر وہ فائلوں کی نذر ہوگیا اور ابھی تک ایکٹ کی منظور نہیں ہوئی۔ 2030ء تک ہمارے پاس پانی نہیں ہوگا، اس کا ادراک کرتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر فنڈز جاری کرے تاکہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کام ہوسکے۔

شاہنواز خان (آبی ماہر)

ہر سال 22مارچ کواقوام متحدہ کے زیر اہتمام پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پانی کی اہمیت اجاگر کرنا اور پانی کی کمی کے شکار ممالک پر زور دینا ہے کہ وہ اس حوالے سے لائحہ عمل تیار کریں۔ 2015ء میں جب ملینیم ڈویلپمنٹ گولز مکمل ہوئے تو دنیا نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے نام سے کچھ اہداف طے کیے جن کی ڈیڈ لائن 2030ء ہے اور پاکستان نے بھی دنیا کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم یہ اہداف حاصل کرلیں گے۔

اسٹینڈرڈ ڈویلپمنٹ گولز کے ہدف 6کے مطابق حکومت کو 2030ء تک تمام لوگوں کوصاف پانی و سیوریج کی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس حوالے سے اب ہمیں طے کرنا ہے کہ کیا حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ دنیا کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ مسائل پر قابو پانے کیلئے دنیا ہمیں وسائل بھی فراہم کررہی ہے اور مختلف عالمی ادارے ہمارے ساتھ تعاون کرر ہے ہیں لہٰذا ہمیں تندہی کے ساتھ اس پر کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک موجودہ صورتحال میں واٹر ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان کے پاس 5600 کیوبک فٹ زمینی پانی فی کس سالانہ موجود تھا جو کہ کم ہوکر 1017 کیوبک فٹ فی کس سالانہ رہ گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے 70 برسوں میں کتنا پانی استعمال کیا۔ اب اہم یہ ہے کہ جو پانی موجود ہے بہتر حکمت عملی کے ذریعے اسے بچا لیا جائے تاکہ پانی کی قلت سے بچا جا سکے۔ اس کے لیے حکومتوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق 89فیصد واٹر سپلائی سکیمیں ناقص پائی گئی ہیں اور ان کا پانی مضر صحت ہے۔ ہر 3 میںسے ایک سکول ایسا ہے جہاں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے جبکہ پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 39 ہزار بچے ہر سال ہلاک ہورہے ہیں جن کی بنیادی وجہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہیں۔ بعض اضلاع سے یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ حکومت نے صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن پلانٹس تو لگادیے مگر ان کا فلٹر وقت پر تبدیل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ پانی مضر صحت ہوجاتا ہے۔

پانی کا معیار چیک کرنے کیلئے لوگوں کے پاس سہولت موجودنہیں ہے۔ اس کے لیے موبائل وین چلانی چاہئے جو مختلف علاقوں کے لوگوں کو ان کے گھر کا پانی چیک کردے تاکہ مضر صحت پانی سے بچا جاسکے۔ مظفرگڑھ کے فلٹریشن پلانٹس کا پانی ٹیسٹ کیا گیا تو 100فیصد فلٹریشن پلانٹس کا پانی مضر صحت تھا۔صاف پانی کمپنی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

اس کمپنی کی ناکامی کی وجہ سے پانی کے منصوبوں پر عمل نہیں ہوسکا اور نہ ہی ڈسٹرکٹ کونسل نے پانی کے منصوبوں کیلئے بجٹ رکھا اور پھر صورتحال یہ ہوئی کہ پورا برس پانی کے حوالے سے ضلعی سطح پر کام نہیں ہوسکا ہوا۔ موجودہ حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس بجٹ میں صاف پانی و سیوریج کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔