پاکستان کرکٹ پھر جیت گئی
ہمیں اپنا مثبت تاثر اجاگر کرنے کا اچھا موقع ملا جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
''ایک منٹ ذرا اور رکیے گا'' رینجرز کے جوان نے جب یہ کہا تو مجھے لگا کہ شاید انھیں مزید تلاشی لینا ہے لیکن پھر جب ان کے ہاتھ میں گلدستہ دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی، انھوں نے مجھے اور دیگر میڈیا کے نمائندوںکوگلدستے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''ویلکم ٹو نیشنل اسٹیڈیم کراچی''، یہ سن کر دل خوش ہو گیا۔
آخرکار 9 سال بعد کراچی میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ لوٹ آئی،ظاہر ہے اب حالات ماضی جیسے نہیں رہے،اسی لیے مین بلڈنگ میں داخلے تک کئی بار تلاشی کے عمل سے گذرنا پڑا،اسٹیڈیم کے اندر کی سیکیورٹی رینجرز نے سنبھالی ہوئی تھی، شائقین کی بھی تلاشی کئی بار ہوئی،اس وجہ سے ہر اسٹینڈ کے باہر طویل قطاریں لگ گئیں، سخت گرمی کی وجہ سے سب کو پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مسجد میں نماز کے بعد ایک صاحب سجدے میں گئے تو پھر نہ اٹھے، پتا لگا کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا،پی سی بی نے جو پارکنگ اسٹیکرز دیے تھے قانون نافذ کرنے والے ادارے انھیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئے اس وجہ سے صحافیوںکو بھی کافی دور تک پیدل چلنے کے بعد اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت مل سکی، اس دوران گرمی سے ایک رپورٹر کی طبعیت بھی خراب ہو گئی۔
پانچ بجے اسٹیڈیم کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر زیادہ تر شائقین اس وقت تک باہر ہی تھے ،لہذا وقت بڑھا کر 7 بجے کر دیا گیا، اس وقت تک اسٹیڈیم مکمل بھر چکا تھا،گوکہ تلاشی کا عمل پریشان کن تھا مگر یہ سب کچھ اب ضروری ہو چکا، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں میچز کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں، لارڈز میں بھی مسلح اہلکار تعینات ہوتے ہیں جبکہ میلبورن میں تو اسٹیڈیم کے قریب پارکنگ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
فوج، رینجرز ، پولیس تمام سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کے سبب اب ملک کے حالات بہتر ہو چکے اور لاہور کے بعد کراچی میں بھی مقابلوں کا انعقادکیا جا رہا ہے،یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے، بس انتظامات ایسے کریں جس سے عوام کو کم سے کم مشکلات ہوں، اس وقت میں میڈیا باکس میں موجود اور مجھے پاکستان زندہ باد و دیگر فلک شگاف نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
کراچی والے بڑے مقابلوں کو ترسے ہوئے تھے اب انھیں موقع ملا تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے،اسٹیڈیم شائقین سے مکمل بھرا ہوا ہے، گوکہ بہت سے لوگوں کو ٹکٹیں نہیں مل سکیں لیکن جو آئے وہ مقابلے سے مکمل لطف اندوز ہوئے،قومی پرچم تھامے،چہروں پر پینٹ کرائے نوجوان، بچے، خواتین، بزرگ ہر کوئی اسٹیڈیم آیا ہوا تھا۔
وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ ،گورنر سمیت تمام اعلیٰ شخصیات بھی میچ سے لطف اندوزہونے آئیں،کراچی کی رونقیں لوٹ آئیں، اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی،9 سال میں بڑی تبدیلیاں آ چکیں، نیشنل اسٹیڈیم کھنڈر بن چکا تھا، اب فائنل کیلیے اس کی تزئین وآرائش ہوئی،گوکہ اب حالت بہتر ہو چکی مگر بغیر چھت کے اسٹیڈیم سے اچھا تاثر نہ گیا۔
ویسٹ انڈیز سے میچز میں بھی اب چند ہی دن باقی رہ گئے لہذا اس میں بھی شائقین کے سروں پر چھت نہیں ہو گی،یہاں گوکہ2 پریس باکسز ہیں لیکن اب میڈیا کافی بڑھ چکا، ٹی وی چینلز کی بھر مار ہے، اس لیے دونوں باکسز مکمل بھرے ہوئے تھے، سابق کپتان وسیم اکرم اپنی ٹیم ملتان سلطانز کے پی ایس ایل سے باہر ہونے کے بعد اب پھر کمنٹری کی جانب لوٹ آئے ہیں، وہ میڈیا باکس میں آئے تو کراچی میں کرکٹ کی واپسی پر خوشی کااظہار کیا۔
غیرملکی کمنٹیٹرز بھی میچ کیلیے آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ لوگ سیلفیز بھی بنواتے رہے،اختتامی تقریب میں گلوکاروں کی پرفارمنس تو معمول کی بات تھی لیکن جب ڈیرن سیمی، حسن علی اورفلیچر اسٹیج پر آ کر ڈانس کرنے لگے تو شائقین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، انھوں نے زوردار تالیوں سے کرکٹرز کو کھیل سے قبل ہی داد دی، تقریب کے بعد نجم سیٹھی میڈیا باکس میں آئے تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔
انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '' میں نے کراچی میں فائنل کرانے کا وعدہ پورا کر دیا، اب تیار ہو جائیں ویسٹ انڈیزکی ٹیم بھی آ رہی ہے''۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ شاید اس سیریز میں عوام کا جوش وخروش پی ایس ایل جیسا نہ ہو،پی سی بی سے کیریبیئن بورڈ نے سیریز کیلیے اضافی رقم لی ہے جس سے کھلاڑیوں کو بھی الگ سے ادائیگی ہو گی، اسی وجہ سے امید ہے کہ کئی معروف کرکٹرز آ جائیں گے، البتہ ڈیرن سیمی کے نہ ہونے سے فرق پڑے گا بلاشبہ وہ پاکستانیوں کے دل میں گھر کر چکے، شائقین انھیں قومی ہیرو کی طرح چاہتے ہیں۔
سیمی بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ سب سے اچھی طرح پیش آئیں، پھر سوشل میڈیا میں کبھی پشتو تو کبھی اردو میں گفتگو، پاکستانی لباس پہنے تصاویر، پاکستان زندہ باد کے نعرے ان کی یہ ادائیں شائقین کو بھاگئی ہیں، پشاور زلمی کی جان اس وقت ڈیرن سیمی ہی ہیں، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہد آفریدی کے جانے سے ٹیم کی فین فالوئنگ پر اثر پڑا، اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے، ابھی میچ کا ذکر کرتے ہیں۔
اسلام آباد یونائٹیڈ نے شاندار کھیل پیش کر کے فتح سمیٹی، پشاور زلمی کی بیٹنگ زیادہ نہ چل سکی، پھر جب لیوک رونکی نے لاٹھی چارج کیا تو فتح اسلام آباد کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دی ، مگر پھر آصف علی کے مسلسل تین چھکوں نے کامیابی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، میچ میں اس اتار چڑھاؤ نے شائقین کے پیسے وصول کرا دیے اور وہ اسٹیڈیم سے خوش خوش واپس جائیں گے۔
زلمی کے کامران اکمل سے شائقین کو بڑی امیدیں تھیں مگر آج وہ ان پر پورا نہ اتر سکے،وہ پی ایس ایل کے نمایاں بیٹسمین ثابت ہوئے لیکن قومی کوچ مکی آرتھر انھیں منتخب کرنے کے موڈ میں نہیں، ویسے لوگ بھی ایونٹ میں کامران کے چھکے چوکے دیکھ کر یہی سوچ رہے ہوں گے کہ انھیں ٹیم میں آ جانا چاہیے مگر حقیقت یہی ہے کہ ان کی فیلڈنگ اس معیار کی نہیں اور آرتھر اس حوالے سے بالکل حقیقت پسندانہ بات کر رہے ہیں۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، شائقین کا جوش وخروش ،اسٹیڈیم میں رش، ہزاروں لوگوں کا والہانہ انداز سے خوشیاں منانا یہ سب کچھ طویل عرصے بعد کراچی میں دیکھنے کو ملا، فائنل اسلام آباد یونائٹیڈ نے بعد میںجیتا پاکستان کرکٹ میچ سے قبل ہی جیت چکی تھی،دنیا کے کئی ممالک میں یہ میچ لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا، سب نے دیکھا ہو گا کہ پاکستانی کرکٹ سے محبت کرنے والے امن پسند لوگ ہیں، ہمیں اپنا مثبت تاثر اجاگر کرنے کا اچھا موقع ملا جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا،اس کیلیے ہر پاکستانی مبارکباد کا مستحق ہے۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔(
آخرکار 9 سال بعد کراچی میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ لوٹ آئی،ظاہر ہے اب حالات ماضی جیسے نہیں رہے،اسی لیے مین بلڈنگ میں داخلے تک کئی بار تلاشی کے عمل سے گذرنا پڑا،اسٹیڈیم کے اندر کی سیکیورٹی رینجرز نے سنبھالی ہوئی تھی، شائقین کی بھی تلاشی کئی بار ہوئی،اس وجہ سے ہر اسٹینڈ کے باہر طویل قطاریں لگ گئیں، سخت گرمی کی وجہ سے سب کو پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مسجد میں نماز کے بعد ایک صاحب سجدے میں گئے تو پھر نہ اٹھے، پتا لگا کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا،پی سی بی نے جو پارکنگ اسٹیکرز دیے تھے قانون نافذ کرنے والے ادارے انھیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئے اس وجہ سے صحافیوںکو بھی کافی دور تک پیدل چلنے کے بعد اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت مل سکی، اس دوران گرمی سے ایک رپورٹر کی طبعیت بھی خراب ہو گئی۔
پانچ بجے اسٹیڈیم کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر زیادہ تر شائقین اس وقت تک باہر ہی تھے ،لہذا وقت بڑھا کر 7 بجے کر دیا گیا، اس وقت تک اسٹیڈیم مکمل بھر چکا تھا،گوکہ تلاشی کا عمل پریشان کن تھا مگر یہ سب کچھ اب ضروری ہو چکا، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں میچز کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں، لارڈز میں بھی مسلح اہلکار تعینات ہوتے ہیں جبکہ میلبورن میں تو اسٹیڈیم کے قریب پارکنگ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
فوج، رینجرز ، پولیس تمام سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کے سبب اب ملک کے حالات بہتر ہو چکے اور لاہور کے بعد کراچی میں بھی مقابلوں کا انعقادکیا جا رہا ہے،یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے، بس انتظامات ایسے کریں جس سے عوام کو کم سے کم مشکلات ہوں، اس وقت میں میڈیا باکس میں موجود اور مجھے پاکستان زندہ باد و دیگر فلک شگاف نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
کراچی والے بڑے مقابلوں کو ترسے ہوئے تھے اب انھیں موقع ملا تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے،اسٹیڈیم شائقین سے مکمل بھرا ہوا ہے، گوکہ بہت سے لوگوں کو ٹکٹیں نہیں مل سکیں لیکن جو آئے وہ مقابلے سے مکمل لطف اندوز ہوئے،قومی پرچم تھامے،چہروں پر پینٹ کرائے نوجوان، بچے، خواتین، بزرگ ہر کوئی اسٹیڈیم آیا ہوا تھا۔
وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ ،گورنر سمیت تمام اعلیٰ شخصیات بھی میچ سے لطف اندوزہونے آئیں،کراچی کی رونقیں لوٹ آئیں، اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی،9 سال میں بڑی تبدیلیاں آ چکیں، نیشنل اسٹیڈیم کھنڈر بن چکا تھا، اب فائنل کیلیے اس کی تزئین وآرائش ہوئی،گوکہ اب حالت بہتر ہو چکی مگر بغیر چھت کے اسٹیڈیم سے اچھا تاثر نہ گیا۔
ویسٹ انڈیز سے میچز میں بھی اب چند ہی دن باقی رہ گئے لہذا اس میں بھی شائقین کے سروں پر چھت نہیں ہو گی،یہاں گوکہ2 پریس باکسز ہیں لیکن اب میڈیا کافی بڑھ چکا، ٹی وی چینلز کی بھر مار ہے، اس لیے دونوں باکسز مکمل بھرے ہوئے تھے، سابق کپتان وسیم اکرم اپنی ٹیم ملتان سلطانز کے پی ایس ایل سے باہر ہونے کے بعد اب پھر کمنٹری کی جانب لوٹ آئے ہیں، وہ میڈیا باکس میں آئے تو کراچی میں کرکٹ کی واپسی پر خوشی کااظہار کیا۔
غیرملکی کمنٹیٹرز بھی میچ کیلیے آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ لوگ سیلفیز بھی بنواتے رہے،اختتامی تقریب میں گلوکاروں کی پرفارمنس تو معمول کی بات تھی لیکن جب ڈیرن سیمی، حسن علی اورفلیچر اسٹیج پر آ کر ڈانس کرنے لگے تو شائقین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، انھوں نے زوردار تالیوں سے کرکٹرز کو کھیل سے قبل ہی داد دی، تقریب کے بعد نجم سیٹھی میڈیا باکس میں آئے تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔
انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '' میں نے کراچی میں فائنل کرانے کا وعدہ پورا کر دیا، اب تیار ہو جائیں ویسٹ انڈیزکی ٹیم بھی آ رہی ہے''۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ شاید اس سیریز میں عوام کا جوش وخروش پی ایس ایل جیسا نہ ہو،پی سی بی سے کیریبیئن بورڈ نے سیریز کیلیے اضافی رقم لی ہے جس سے کھلاڑیوں کو بھی الگ سے ادائیگی ہو گی، اسی وجہ سے امید ہے کہ کئی معروف کرکٹرز آ جائیں گے، البتہ ڈیرن سیمی کے نہ ہونے سے فرق پڑے گا بلاشبہ وہ پاکستانیوں کے دل میں گھر کر چکے، شائقین انھیں قومی ہیرو کی طرح چاہتے ہیں۔
سیمی بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ سب سے اچھی طرح پیش آئیں، پھر سوشل میڈیا میں کبھی پشتو تو کبھی اردو میں گفتگو، پاکستانی لباس پہنے تصاویر، پاکستان زندہ باد کے نعرے ان کی یہ ادائیں شائقین کو بھاگئی ہیں، پشاور زلمی کی جان اس وقت ڈیرن سیمی ہی ہیں، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہد آفریدی کے جانے سے ٹیم کی فین فالوئنگ پر اثر پڑا، اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے، ابھی میچ کا ذکر کرتے ہیں۔
اسلام آباد یونائٹیڈ نے شاندار کھیل پیش کر کے فتح سمیٹی، پشاور زلمی کی بیٹنگ زیادہ نہ چل سکی، پھر جب لیوک رونکی نے لاٹھی چارج کیا تو فتح اسلام آباد کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دی ، مگر پھر آصف علی کے مسلسل تین چھکوں نے کامیابی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، میچ میں اس اتار چڑھاؤ نے شائقین کے پیسے وصول کرا دیے اور وہ اسٹیڈیم سے خوش خوش واپس جائیں گے۔
زلمی کے کامران اکمل سے شائقین کو بڑی امیدیں تھیں مگر آج وہ ان پر پورا نہ اتر سکے،وہ پی ایس ایل کے نمایاں بیٹسمین ثابت ہوئے لیکن قومی کوچ مکی آرتھر انھیں منتخب کرنے کے موڈ میں نہیں، ویسے لوگ بھی ایونٹ میں کامران کے چھکے چوکے دیکھ کر یہی سوچ رہے ہوں گے کہ انھیں ٹیم میں آ جانا چاہیے مگر حقیقت یہی ہے کہ ان کی فیلڈنگ اس معیار کی نہیں اور آرتھر اس حوالے سے بالکل حقیقت پسندانہ بات کر رہے ہیں۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، شائقین کا جوش وخروش ،اسٹیڈیم میں رش، ہزاروں لوگوں کا والہانہ انداز سے خوشیاں منانا یہ سب کچھ طویل عرصے بعد کراچی میں دیکھنے کو ملا، فائنل اسلام آباد یونائٹیڈ نے بعد میںجیتا پاکستان کرکٹ میچ سے قبل ہی جیت چکی تھی،دنیا کے کئی ممالک میں یہ میچ لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا، سب نے دیکھا ہو گا کہ پاکستانی کرکٹ سے محبت کرنے والے امن پسند لوگ ہیں، ہمیں اپنا مثبت تاثر اجاگر کرنے کا اچھا موقع ملا جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا،اس کیلیے ہر پاکستانی مبارکباد کا مستحق ہے۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔(