پرپل ڈے
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مرگی کی تشخیص کے لیے بھی نئے ٹیسٹ دریافت کیے گئے ہیں۔
KARACHI:
دنیا میں 50 ملین افراد مرگی سے متاثر ہیںجن میں20 لاکھ مریض پاکستان میں ہیں۔ مرگی ایک بہت عام دائمی اعصابی مرض ہے جس پر قابو پانے کے لیے طویل عرصے تک علاج اور ادویات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مرگی کا مرض پیدائشی بھی ہوتا ہے۔
تیز بخار کی وجہ سے دماغ میں ہونے والا انفیکشن بھی مرگی کے مرض کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی بچوں میں مرگی کی اہم وجہ ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کا دماغ سکڑتا ہے اور بعض لوگوں کو دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ مسلسل کام ، بے خوابی، ڈپریشن، غصہ اور نشہ کرنے اور الکحل اور ڈرگز کا زیادہ استعمال بھی مرگی کا باعث بنتا ہے ۔
ضعیف الاعتقاد لوگ مرگی کے دوروں میں مبتلا اپنے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لانے کی بجائے عاملوں کے پاس لے کر جاتے ہیںجو ان کا مرض مزیدبگاڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات مریض موت کے منہ میںچلا جاتا ہے ۔ مرگی یعنی Epilepsy بنیادی طورپر ایک دماغی مرض ہے جو دماغ کے خلیوں میں دوڑنے والی برقی رو میں خلل کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اسے آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ شارٹ سرکٹ ہوگیا ہو۔
اس مرض میں کبھی آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں، آدمی گم صم ہوجاتا ہے، دورے پڑتے ہیں اور کبھی بازو ہلنے لگتا ہے، اس سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر اس وقت تشخیص کیا جاسکتا ہے جب دورہ پڑے۔ مرگی کو بنیادی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جنھیں جزلائزڈ اور فوکل کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مرگی کی علامات ایک جیسی نہیںہوتیں ۔ کبھی دورے پڑتے ہیں، مریض کبھی خلاء میں گھورنے لگتا ہے، جسم اکڑ جاتا ہے، منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے۔
لوگوں کو عام طور پر ہسٹریا، نفسیاتی اور مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ ان کی تشخیص کے لیے بہت مہارت درکار ہوتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مرگی کی تشخیص کے لیے بھی نئے ٹیسٹ دریافت کیے گئے ہیں جس مریض کو دورہ پڑتا ہے اسے 24 گھنٹے یا بعض اوقات پورا ہفتہ اسپتال میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس دوران اس کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور تشخیص ہونے کے بعد ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
مرگی کا مرض موروثی نہیں ہوتا ۔ 95 فیصد میں مرض موروثی نہیں ہوتا بقایا 5 فیصد میں یہ امکان ہوتا ہے کہ یہ منتقل ہوا ہو، عام طور پر یہ موروثی مرض نہیں ہے ۔ پاکستان میں مرگی کی شرح دیگر ممالک کے مقابلہ میں زیادہ ہونے کی وجہ یہاں انفیکشن زیادہ ہیں ۔ ٹی بی ، ٹائفائیڈ، گردن توڑ بخار اس کی اہم وجوہات ہیںجب کہ سر میں چوٹ ، دماغ کے اندر انفیکشن ، شوگر اور بلڈ پریشر، مختلف نمکیات کے کم یا زیادہ ہونے اور الکوحل کے استعمال سے بھی مرگی کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
یہ مرض ابتدائی عمر، جوانی اور 50 سال کی عمر ہوجانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ بچپن میں انفیکشن یا آکسیجن کی کمی سے بھی یہ ہوتا ہے۔ 50 سال کے بعد مرگی ہونے کی اہم وجہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے۔مرگی کے شدید دورے میں ہاتھ پیر اکڑ جاتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکلنا اور پیشاب بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات بچے خاموش رہتے ہیں جسے دن میں خواب دیکھنا کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ان کے ہاتھ یا پاؤں میں ہلکا سا جھٹکا لگتا ہے۔ پیٹ میں عجیب سا درد ہوتا ہے لیکن مائیں اس پر توجہ نہیں دیتیں ۔ یہ علامات بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
مرگی یا کوئی اور دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کو فوراََ لٹا دینا چاہیے اور اس کے قریب سے خطرناک چیزیں ہٹادینی چاہیے۔ عام طور پر ایک سے دو منٹ میں دورہ ختم ہوجاتا ہے۔ اگر دورے کا دورانیہ بڑھ جائے تو مریض کو فوراََ اسپتال لے کر جانا چاہیے۔ بعض نا سمجھ لوگ مرگی کے مریضوں کو جوتے سنگھاتے، اس کا ناک اور منہ بند کردیتے اور زبان کو بچانے کے لیے زبان پر چیزیں رکھ دیتے ہیں ایسا کرنا خطرناک ہوتا ہے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ دماغ اپنے درد کے علاوہ پورے جسم کا درد محسوس کرتا ہے۔ مرگی میں چونکہ کوئی ٹیومر نظر نہیں آتا اس لیے دماغ کے متاثرہ حصے کو چیک کرنے کے لیے لوکل انستھیزیا دے کر جاگتے میں مریض سے باتیں کرتے ہوئے علاج کیا جاتا ہے جس میں دماغ کا متاثرہ حصہ چیک کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کو Stimulation Deep Brain کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے ڈپریشن کے مریضوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
مرگی کے بارے میں ہمارے ہاں یہ تصور بہت غلط اور فرسودہ ہے کہ یہ قابل علاج مرض نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب یہ بیماری عمر بھر کے لیے ہے اس لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کا کیا فائدہ؟ پاکستان کے دیہی علاقوں میں مرگی کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دیہات میں صرف 2 فیصد خواتین نے اسے مرض سمجھا اور 4.5 فیصد لوگ مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے، جب کہ شہروں میں مرگی کے 22 فیصد مریض مرگی کے علاج کے لیے ڈاکٹرکے پاس جاتے ہیں۔
سارا مسئلہ دراصل مریض کی سوچ کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مرگی کی صورت میں فوراََ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بیس لاکھ افراد کا مرگی کے مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ مرگی کے مریضوں کی اکثریت قابل علاج لیکن بدقسمتی سے علاج سے محروم ہے۔
چند سال قبل میرے پاس 19 سال کی ایک حاملہ بچی لائی گئی جو دورے پڑنے کی وجہ سے بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ناتجربہ کار ڈاکٹروں نے دوروں کو مرگی قراردیا تو اس کے سسرال والے اسے منحوس کہنے لگے اور انھوں نے اسقاط حمل کرادیا کہ اس کا اثر بچے پر بھی پڑے گا اوروہ بھی منحوس ہوگا اور پھر اس حالت میں طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر اسے اس کے میکے چھوڑ آئے۔ اس بچی کو مرگی کے دورے نہیں پڑتے تھے بلکہ حمل میں بھی بعض اوقات دورے پڑتے ہیں۔ وہ بچی بعد میں میرے پاس آکر بہت روئی، میں نے اسے تسلی دی۔ اب وہ بچی ہمارے پروگراموں میں بھی آتی ہے۔ ایک لڑکے کے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا تھا اور دوروں کے بعد اس کے سسرال والوں نے اپنی بیٹی کے لیے خلع کا کیس کردیا تھا۔
جب مرض کے خاتمے کے لیے دوائیاں بے اثر ہوجائیں تو سرجری کرنی ضروری ہوتی ہے۔ سرجری کرنے سے پہلے مریض کا ایک خاص قسم کا MIR کرنے کے بعد آپریشن کیا جاتا ہے ۔ سرجن اچھا اور ماہر ہوتو سرجری سو فیصد کامیاب ہوتی ہے۔ میرے پاس سرجری کے لیے امریکا سے بھی مریض آتے ہیں۔ امریکا سے ایک مریض بچہ سرجری کے لیے لایا گیا۔ ڈرگز لینے کے باعث اسے عجیب و غریب دورے پڑتے تھے۔ لوگ اسے نفسیاتی مریض کہتے تھے۔ سرجری کے بعد وہ صحت یاب ہوکر پاکستان سے امریکا گیا۔
مرگی (Epilepsy) ایک قابل علاج مرض ہے اور اس مرض میں مبتلا کئی لڑکیا ں خوشگوار گھریلو زندگی گذار رہی ہیں۔ البتہ شادی سے پہلے لڑکے یا لڑکی کے والدین کو اس مرض کے بارے میں ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ بعض لوگ خاص کر لڑکیوں کے والدین رشتہ طے کرنے سے پہلے یہ چیز چھپاتے ہیں جس کا ان کی ازدواجی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
مرگی کے مریضوں کو مناسب تعلیم اور معاون گروپ ، امتیازی سلوک کے بغیر مسلسل کام کے مواقعے اور ملازمتیں فراہم کرنا، عوام میں بیداری کو فروغ دینا اور غلط فہمیوں کا خاتمہ اور مرگی کے مریضوں کے لیے ادویات میں سبسڈی کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر علاج میں تاخیر اور تشخیص کے بعد بھی فوری علاج نہ ہونے کی صورت میں مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
وائرل حملوں سے نمٹنے کے لیے سرکاری اسپتالوں میں تشخیصی آلات (diagnostic kits) موجود نہیں ہیں جب تک کہ پبلک سیکٹر میں تیزی سے ترقی نہیں ہوتی پاکستان میں صحت کی فراہمی کے شعبے میں بہتری پیدا نہیں کی جاسکتی ۔