ایل ڈی اے کا نوٹس ’’بم‘‘
یہ سرکاری ادارہ راہبر ہے مگر کبھی راہزن بن بیٹھتا ہے۔
ذرا سوچیے اس وقت انسان پر کیا بیتے گی جب اپنے گھر میں طویل عرصہ رہنے کے بعداسے یہ نوٹس آئے کہ اس کے پلاٹ کی اونرشپ ایل ڈی اے کی طرف سے کینسل کر دی گئی ہے۔
اعتراض یہ لگا کہ کلئیرنس کے جو کاغذات اسے ایل ڈی اے کی طرف سے جاری ہوئے تھے ، وہ تمام ایل ڈی اے ہی نے مسترد کر دئیے ہیں ۔ ایل ڈی اے کا ''خیال'' ہے کہ وہ پلاٹ اس نے کسی پراپرٹی ڈیلر سے دو نمبر طریقے سے حاصل کیا ہے ۔ یا پھر پراپرٹی مافیا نے اسے جعلی کاغذات اور بوگس فائل کے ساتھ بیچا۔
لہذا اس کا گھر یا تو مسمار ہوگا ، یا پھر وہ دوبارہ سے '' کلئیرنس'' کروانے کی خاطر مخصوص رقم جمع کروائے اور اپنے گھر کے مالکانہ حقوق پھر سے حاصل کرے ۔ یہ نوٹس پڑھ کر ہر شخص کو گہرا صدمہ پہنچے گا۔ وہ ایل ڈی اے دفتر حاضری دینے کے بجائے اگلے جہاں بھی پہنچ سکتا ہے۔
یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ، حقیقت ہے ۔ایسے کئی نوٹس لاہور کے ایک پوش علاقے، مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوں کو ملے اور کسی دو چار نہیں بلکہ 1326 سے زائد مکینوں کو مل چکے ۔ مصطفی ٹاؤن لاہور کی وحدت روڈ کے آخری سرے پر واقع آبادی ہے ۔ یہاں کُل 2626 گھر ہیں۔
یہ ایل ڈی اے کی سکیم ہے جس کا آغاز 1976ء میں ہوا تھا ۔ اس میں کل 6 بلاک ہیں اور ایل ڈی اے نے یہاں کے کم و بیش 2000 سے زائد مکانات کو اعتراض لگایا اور کینسل کر دیا ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر گھر ایسے ہیں جنہیں بنے 15 سے 20 سال ہو چلے ۔ اتنے عرصہ بعد ان پر اعتراض لگانا اور پلاٹ کینسل ہونے کے بارے بتانا یقینا ایل ڈی اے کی نااہلی ہے یا پھر اسے ''مال کھلاؤ ، پیٹ بھرو مہم'' کہا جا سکتا ہے ۔
علامہ اقبال ٹاؤن کے بالمقابل ایل ڈی اے نے سینکڑوں ایکڑ رقبے پر ہاؤسنگ سکیم بنا کر مصطفی ٹاؤن آباد کیا ۔ یہ تمام رقبہ پنجاب یونیورسٹی سے خریدا گیا تھا ۔ یہاں باقاعدہ ایل ڈی اے کی سرپرستی میں زمینیں اور مکانات خریدے ، بیچے گئے ، الاٹمنٹ ہوئیں ، ایک عرصہ تک ٹرانسفر بھی ہوتے رہے ، فائلیں کلیئر قرار دی جاتی رہیں۔
ایل ڈی اے کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع ہوتے رہے ، این او سی جاری ہوتے رہے ، گھر بیچنے اور خریدنے والوں کی ایل ڈی اے کے دفاتر میں تصاویر بھی اتریں ، نقشے پاس ہوتے رہے ، کمپلیشن سرٹیفیکیٹ جاری ہوتے رہے ،تمام امور کی مد میں فیس وصول کی جاتی رہی ،باقاعدہ منظوری کے بعد لوگوں نے گھر بنائے۔
اب تک یہ سب کچھ قانونی تھا لیکن آج ساڑھے تین دہائیوں بعد یکدم سے غیر قانونی ہو گیا ۔ ہزاروں الاٹمنٹیں منسوخ ہو گئیں ، اور ایک تنسیخ شدہ (ایکسپائرڈ) بونافائیڈ کمیشن سے رابطہ کرنے کو کہا گیا جس کا پیسے بٹورنا غالباً جائز اور قانونی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کی جارہی ہیں اور مکانات کو قانونی قرار دینے کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جارہے ہیں۔
ایل ڈی کا متاثرین کو کہنا ہے کہ بونافائیڈ کمیشن میں درخواست دیں ۔ اگر ٹرانسفر ''حقیقی'' ہوئی تو پلاٹ بحال کر دئیے جائیں گے، یا پھر اس وقت کے ڈی سی ریٹ کے مطابق قیمت جمع کرانے کی ہدایت کی جائے گی ۔ ایل ڈی اے کہتا ہے کہ ان پلاٹوں کی ایگزمشن کی گئی زمین مصطفی ٹاؤن کے پلاٹوں کے لیے حاصل نہیں کی گئی تھی اس لیے یہ پلاٹ غیر قانونی قرار دیئے گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ فائلیں جعلی اور بوگس تھیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا چالیس سال سے ایل ڈی اے سو رہا تھا ؟ کیا کلئیرنس کے کاغذات جاری کرنے والے افراد نے نشہ کر رکھا تھا ؟ ... اگر یہ پلاٹ غیر قانونی تھے تو ایل ڈی اے نے تب لاکھوں روپے واجبات کی مد میں کیوں وصول کیے اور ان پلاٹوں کو کلئیر کیسے قرار دیا گیا ؟
دس بیس پلاٹوں کی بات ہوتی تو ایل ڈی اے کی منطق مانی جا سکتی تھی ، مگر پورے پورے بلاک پر دو نمبری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایل ڈی اے افسران اس وقت ڈیلروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے ، اور اب اپنی نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈال کر ایک اور کرپشن کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔
میں نے سرکاری اداروں میں واپڈا کے بعد اگر کسی کو عوام کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والا پایا ہے تو وہ ایل ڈی اے ہے ۔ یہ ادارہ خود ہی راہبر بھی ہے اور خود ہی راہزن بھی ... آج ایل ڈی اے کی جانب سے فی مرلہ ریٹ جاری کرکے مکانوں کو پھر سے قانونی قرار دینے کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جارہے ہیں ۔ یعنی اپنی نالائقی کے عوض دوسروں کو عذاب میں ڈالا جارہا ہے ۔ مصطفی ٹاؤن کے ہزاروں خاندان کرب میں مبتلاہیں ۔ وہ رات کو سونے سے پہلے چھت کی جانب دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ اپنی ہی چھت انہیں پرائی پرائی سی لگنے لگی ہے ، نوالہ حلق سے نہیں اترتا ۔ چہروں پر زردی سی آگئی ہے ۔
ٹاؤن کے رہائشی سراپا احتجاج ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے جب گھر / پلاٹ لیا ، تو ایل ڈی اے افسران کے دستخط شدہ تمام کاغذات بطور ثبوت ان کے پاس موجود ہیں ۔ ایل ڈی اے نے تمام امور کی فیس بھی وصول کی ۔ باقاعدہ منظوری کے بعد تب کہیں جا کر انہوں نے گھر بنائے ۔ وہ لوگ شروع دن سے پراپرٹی ٹیکس بھی دے رہے ہیں ۔ لیکن اب ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ متاثرین کا موقف ہے کہ افسران یہ معاملہ آپس میں ہی حل کریں، لوگوں پر ملبہ مت ڈالیں ۔ تمام قصور ایل ڈی اے کا ہے۔
ان افسران کو پکڑا جائے جنہوں نے بغیر چھان بین کے پلاٹ بیچے ، یہ نااہلی ان کی ہے ، مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوںکی نہیں ۔ انہوں نے تو اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی مکان بنانے پر لگائی ۔ ان کے کُل سرمائے کو ایسے نہیں چھینا جا سکتا کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کا بھی مسئلہ ہے ۔ متاثرین نے استفسار کیا ہے کہ وہ سفید پوش لوگ ہیں ، محنت مزدوری کرتے ہیں ، انہیں کہا جارہا ہے کہ بارگینگ کر لو ۔ اگر ایل ڈی اے میں گھپلا ہوا ہے تو اس میں خریدنے والوں کا کیا قصور ہے ، جو ان سے چھت چھینی جا رہی ہے؟
متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان ، ڈی جی نیب اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی چھتوں کو چھیننے سے بچایا جائے۔ ایل ڈی اے کی جانب سے پلاٹوں کے مالکانہ حقوق کینسل کرنے کا حکمنامہ معطل قرار دیا جائے اور ایل ڈی اے افسران کو مصطفی ٹاؤن کے تمام متاثرین کو حتمی این او سی جاری کرنے کی ہدایت کی جائے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ گذشتہ 42 سالوں میں ایل ڈی اے میں آنے والے تمام ڈی جیز اور متعلقہ افسران کو کٹہرے میں لایا جائے اور ان کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں ، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔
اعتراض یہ لگا کہ کلئیرنس کے جو کاغذات اسے ایل ڈی اے کی طرف سے جاری ہوئے تھے ، وہ تمام ایل ڈی اے ہی نے مسترد کر دئیے ہیں ۔ ایل ڈی اے کا ''خیال'' ہے کہ وہ پلاٹ اس نے کسی پراپرٹی ڈیلر سے دو نمبر طریقے سے حاصل کیا ہے ۔ یا پھر پراپرٹی مافیا نے اسے جعلی کاغذات اور بوگس فائل کے ساتھ بیچا۔
لہذا اس کا گھر یا تو مسمار ہوگا ، یا پھر وہ دوبارہ سے '' کلئیرنس'' کروانے کی خاطر مخصوص رقم جمع کروائے اور اپنے گھر کے مالکانہ حقوق پھر سے حاصل کرے ۔ یہ نوٹس پڑھ کر ہر شخص کو گہرا صدمہ پہنچے گا۔ وہ ایل ڈی اے دفتر حاضری دینے کے بجائے اگلے جہاں بھی پہنچ سکتا ہے۔
یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ، حقیقت ہے ۔ایسے کئی نوٹس لاہور کے ایک پوش علاقے، مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوں کو ملے اور کسی دو چار نہیں بلکہ 1326 سے زائد مکینوں کو مل چکے ۔ مصطفی ٹاؤن لاہور کی وحدت روڈ کے آخری سرے پر واقع آبادی ہے ۔ یہاں کُل 2626 گھر ہیں۔
یہ ایل ڈی اے کی سکیم ہے جس کا آغاز 1976ء میں ہوا تھا ۔ اس میں کل 6 بلاک ہیں اور ایل ڈی اے نے یہاں کے کم و بیش 2000 سے زائد مکانات کو اعتراض لگایا اور کینسل کر دیا ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر گھر ایسے ہیں جنہیں بنے 15 سے 20 سال ہو چلے ۔ اتنے عرصہ بعد ان پر اعتراض لگانا اور پلاٹ کینسل ہونے کے بارے بتانا یقینا ایل ڈی اے کی نااہلی ہے یا پھر اسے ''مال کھلاؤ ، پیٹ بھرو مہم'' کہا جا سکتا ہے ۔
علامہ اقبال ٹاؤن کے بالمقابل ایل ڈی اے نے سینکڑوں ایکڑ رقبے پر ہاؤسنگ سکیم بنا کر مصطفی ٹاؤن آباد کیا ۔ یہ تمام رقبہ پنجاب یونیورسٹی سے خریدا گیا تھا ۔ یہاں باقاعدہ ایل ڈی اے کی سرپرستی میں زمینیں اور مکانات خریدے ، بیچے گئے ، الاٹمنٹ ہوئیں ، ایک عرصہ تک ٹرانسفر بھی ہوتے رہے ، فائلیں کلیئر قرار دی جاتی رہیں۔
ایل ڈی اے کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع ہوتے رہے ، این او سی جاری ہوتے رہے ، گھر بیچنے اور خریدنے والوں کی ایل ڈی اے کے دفاتر میں تصاویر بھی اتریں ، نقشے پاس ہوتے رہے ، کمپلیشن سرٹیفیکیٹ جاری ہوتے رہے ،تمام امور کی مد میں فیس وصول کی جاتی رہی ،باقاعدہ منظوری کے بعد لوگوں نے گھر بنائے۔
اب تک یہ سب کچھ قانونی تھا لیکن آج ساڑھے تین دہائیوں بعد یکدم سے غیر قانونی ہو گیا ۔ ہزاروں الاٹمنٹیں منسوخ ہو گئیں ، اور ایک تنسیخ شدہ (ایکسپائرڈ) بونافائیڈ کمیشن سے رابطہ کرنے کو کہا گیا جس کا پیسے بٹورنا غالباً جائز اور قانونی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کی جارہی ہیں اور مکانات کو قانونی قرار دینے کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جارہے ہیں۔
ایل ڈی کا متاثرین کو کہنا ہے کہ بونافائیڈ کمیشن میں درخواست دیں ۔ اگر ٹرانسفر ''حقیقی'' ہوئی تو پلاٹ بحال کر دئیے جائیں گے، یا پھر اس وقت کے ڈی سی ریٹ کے مطابق قیمت جمع کرانے کی ہدایت کی جائے گی ۔ ایل ڈی اے کہتا ہے کہ ان پلاٹوں کی ایگزمشن کی گئی زمین مصطفی ٹاؤن کے پلاٹوں کے لیے حاصل نہیں کی گئی تھی اس لیے یہ پلاٹ غیر قانونی قرار دیئے گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ فائلیں جعلی اور بوگس تھیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا چالیس سال سے ایل ڈی اے سو رہا تھا ؟ کیا کلئیرنس کے کاغذات جاری کرنے والے افراد نے نشہ کر رکھا تھا ؟ ... اگر یہ پلاٹ غیر قانونی تھے تو ایل ڈی اے نے تب لاکھوں روپے واجبات کی مد میں کیوں وصول کیے اور ان پلاٹوں کو کلئیر کیسے قرار دیا گیا ؟
دس بیس پلاٹوں کی بات ہوتی تو ایل ڈی اے کی منطق مانی جا سکتی تھی ، مگر پورے پورے بلاک پر دو نمبری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایل ڈی اے افسران اس وقت ڈیلروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے ، اور اب اپنی نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈال کر ایک اور کرپشن کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔
میں نے سرکاری اداروں میں واپڈا کے بعد اگر کسی کو عوام کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والا پایا ہے تو وہ ایل ڈی اے ہے ۔ یہ ادارہ خود ہی راہبر بھی ہے اور خود ہی راہزن بھی ... آج ایل ڈی اے کی جانب سے فی مرلہ ریٹ جاری کرکے مکانوں کو پھر سے قانونی قرار دینے کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جارہے ہیں ۔ یعنی اپنی نالائقی کے عوض دوسروں کو عذاب میں ڈالا جارہا ہے ۔ مصطفی ٹاؤن کے ہزاروں خاندان کرب میں مبتلاہیں ۔ وہ رات کو سونے سے پہلے چھت کی جانب دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ اپنی ہی چھت انہیں پرائی پرائی سی لگنے لگی ہے ، نوالہ حلق سے نہیں اترتا ۔ چہروں پر زردی سی آگئی ہے ۔
ٹاؤن کے رہائشی سراپا احتجاج ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے جب گھر / پلاٹ لیا ، تو ایل ڈی اے افسران کے دستخط شدہ تمام کاغذات بطور ثبوت ان کے پاس موجود ہیں ۔ ایل ڈی اے نے تمام امور کی فیس بھی وصول کی ۔ باقاعدہ منظوری کے بعد تب کہیں جا کر انہوں نے گھر بنائے ۔ وہ لوگ شروع دن سے پراپرٹی ٹیکس بھی دے رہے ہیں ۔ لیکن اب ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ متاثرین کا موقف ہے کہ افسران یہ معاملہ آپس میں ہی حل کریں، لوگوں پر ملبہ مت ڈالیں ۔ تمام قصور ایل ڈی اے کا ہے۔
ان افسران کو پکڑا جائے جنہوں نے بغیر چھان بین کے پلاٹ بیچے ، یہ نااہلی ان کی ہے ، مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوںکی نہیں ۔ انہوں نے تو اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی مکان بنانے پر لگائی ۔ ان کے کُل سرمائے کو ایسے نہیں چھینا جا سکتا کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کا بھی مسئلہ ہے ۔ متاثرین نے استفسار کیا ہے کہ وہ سفید پوش لوگ ہیں ، محنت مزدوری کرتے ہیں ، انہیں کہا جارہا ہے کہ بارگینگ کر لو ۔ اگر ایل ڈی اے میں گھپلا ہوا ہے تو اس میں خریدنے والوں کا کیا قصور ہے ، جو ان سے چھت چھینی جا رہی ہے؟
متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان ، ڈی جی نیب اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی چھتوں کو چھیننے سے بچایا جائے۔ ایل ڈی اے کی جانب سے پلاٹوں کے مالکانہ حقوق کینسل کرنے کا حکمنامہ معطل قرار دیا جائے اور ایل ڈی اے افسران کو مصطفی ٹاؤن کے تمام متاثرین کو حتمی این او سی جاری کرنے کی ہدایت کی جائے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ گذشتہ 42 سالوں میں ایل ڈی اے میں آنے والے تمام ڈی جیز اور متعلقہ افسران کو کٹہرے میں لایا جائے اور ان کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں ، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔