کچھ اہم موضوعات
فوج پولیس اور سیکیورٹی فورسزکے افسر ملک اور قوم کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر تے ہیں
23مارچ کی تقریب:ہرسال تیئس مارچ کو ایوانِ صدرمیں ایک پروقار تقریب منعّقد ہوتی ہے جس میں تقریباًہر شعبہ ء زندگی میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینے والوںکو صدرِ مملکت اعزازت سے نوازتے ہیں۔
اگر اعزازت کا فیصلہ میر ٹ پر ہوتو یہ تقریب اُن شاندار روایات میں سے ہے جو بڑی قابلِ تحسین ہیں، اس کی سب سے زیادہ ستائش سب سے بلند قامت سفارتکار اٹلی کے سفیر جناب سٹیفانو باربار کرتے رہے۔''کیا شاندار تقریب ہے۔کاش ہمارے ملک میں بھی اس نوعیت کی تقریب منعقدہواکرے''۔
فوج پولیس اور سیکیورٹی فورسزکے وہ افسر جو ملک اور قوم کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دیتے ہیں ان کے میڈل ان کے ورثاء وصول کرتے ہیں۔ اس لیے اِس محفل میں غم واندوہ سے مغلوب مائیںبھی ہوتی ہیںاور دکھ اور کرب میں مبتلاء بیوائیںبھی بوڑھے باپ بھی ہوتے ہیں جو بیٹوں کے کارناموں پر نازاں نظر آتے ہیں اور و ہ معصوم بیٹے بھی، جوباپ کا میڈل وصول کر کے فخر سے گلے میں ڈال کر باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کرتے ہیں ۔شہریوں کی جانیں بچانے کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے پولیس افسران کوبھی اعزازات دیے گئے ۔
محترمہ عاصمہ جہانگیر اور محترم منو بھائی کو بھی تمغوں سے نوازاگیا ۔انٹیلی جینس بیورو کے افسران کو بھی دہشت گردی کے سیکڑوںکیس ٹریس کرنے پر میڈل دیے گئے اور بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کو ستارہء امتیاز سے نوازاگیا۔
دوسال پہلے جب ناچیز کو ستارہء امتیاز دیاگیا تو بتایا گیا کہ ''سروس میںکئی بار انتہائی بگڑے ہوئے حالات درست کر نے کے لیے حکومت نے خود بلاکر انھیں مختلف ذمیّ داریاں سونپیں اور ہر بار( اﷲ کی مدد سے) علاقے امن سے اورادارے بہتری سے ہمکنارہوئے۔ رحیم یار خان ہویا ڈیرہ اسمٰعیل خان ،گوجرانوالہ ہو یا شیخو پورہ، پاسپورٹ کا محکمہ ہو یا موٹر وے پولیس یا نیوٹیک ہر جگہ ایسی نمایا ں بہتری ہوئی جسے عام آدمی نے بھی محسوس کیا اور جسکے اثرات آیندہ کئی سالوں تک قائم رہیں گے''۔
مگر اس بار میں تقریب میں اس لیے موجو د تھا کہ ہمارے پیارے اسامہ احمد شہید کو ایوارڈ مل رہا تھا،اسامہ احمد کو ہم سے جدا ہوئے سولہ مہینے بیت چکے مگر کو ئی پل ایسا نہیں گذر ا جب وہ ہمارے دل میں نہ ہو۔ اسامہ کی تین جگہو ں پر تعینّاتی رہی، تینو ں جگہوں پر اس کے کارناموں کا ذکر کیبنٹ سیکریٹری نے اپنی Citationمیں کیا۔
اسے تیس برس کی عمر میں چترال کاڈپٹی کمشنر لگایاگیا،تو چترال کی ترقّی اس کی ترجیحِ اوّل بن گئی،جس کے لیے اس نے ایسے جذبے اور جنون سے کام کیا کہ چترال کے ہر با سی نے اپنے دل میں اپنے محسن ڈپٹی کمشنر کی تصویرسجالی۔ اسامہ کی والدہ، بیٹے کا نام پکارے جانے پر شاید جذبات پر قابو نہ رکھ سکتیں اس لیے اسامہ کا ایوارڈ اس کے والد ڈاکٹر فیض احمد صاحب نے وصول کیا۔ اسامہ کا دوست فرخ عتیق (ڈپٹی کمشنر کوئٹہ) بھی اس تقریب کے لیے کوئٹہ سے آیا ۔ دوسری طرف باجی (اسامہ کی والدہ )نے اپنے قابلِ فخر اور جان سے عزیزبیٹے پر کتاب لکھ کرہم سب کو حیرت زدہ کر دیاہے۔
''اے میر ے اسامہ''
حادثے کے بعدغم سے نڈھال والدہ بیٹے کی کوئی خبر پڑھنے کا حوصلہ نہ رکھتی تھیں،اتنا حوصلہ انھیں کہاں سے مل گیا کہ ایک سوچالیس صفحات کی کتاب لکھ ڈالی ۔ ماں نے اپنے لائق اورخدمت گزار بیٹے کی جدائی کا غم شیئر بھی کیا تو اپنے بیٹے کے ساتھ ہی کیا۔''اے میرے اسامہ''کے پبلشر پروفیسرسلیم منصور لکھتے ہیں ''یہ کتاب زندگی کے ایک دلگداز اور دل دوزسفر کی رُودادہے۔اس سفر میں مسافر چار ہیں :والدہ بیٹا ،بہو اور پوتی ...تین مسافراس گھاٹی کو پار کر کے آگے نکل گئے ہیں اور ماں پیچھے رہ گئی ہے، والدہ نے جانے والوں سے گفتگو کے لیے خطوط کا سہارا لیا ہے، ایک خط طویل ہے اور دو مختصر ۔ اختصار طوالت پر بھاری ہے اور طویل خط کے مضامین قیامت خیز۔ اس خوفناک حادثے،قیامت خیز تجربے اور رنج والم میں ڈوبی دلی کیفیات کو اسامہ احمد کی والدہ محترمہ جبین چیمہ نے جس حوصلے اور سچائی سے بیان کیا ہے،وہ اردوادب کے تعزیتی لٹریچر میں کئی اعتبار سے انفرادیت کی حامل ر ہیں گی۔
ا س کام کے لیے ناقابلِ تصور حوصلہ ،باریک بین مشاہدہ،مضبوط یادداشت اور اس سے بڑھ کر دکھ کی تیز آنچ کو متوازن لفظوں میں ڈھالنے کا سلیقہ چاہیے تھا۔اس تحریر میں یہ تمام رنگ بڑے توازن سے جھلک دکھاتے اور قاری کے دل کو جھنجھوڑتے ہیں ۔تحریر کے ساغر میںجب کرب کا پیمانہ چھلکنے لگتا ہے،تو مصنفہ کا دینی شعور اسے ایک ایسے سانچے میں پلٹ دیتا ہے کہ اس فانی زندگی پر ،ابدی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا پیغام حاوی ہو جاتاہے''۔ اسامہ احمد شہید کے بے شماردوستوں اورچاہنے والوں نے پو چھا ہے کتاب کہاں سے ملے گی؟ اُن کی سہولت کے لیے پبلشر کا رابطہ نمبر درج کر رہا ہوں۔04235252210
گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر سہیل ٹیپو کی المناک موت
ایک طویل وقفے کے بعد ایک روز شام کو کال آئی ''میں ٹیپو بول رہا ہوں'' میں نے گلہ بھی کیا اور کچھ ناراضگی کا اظہار بھی کہ ''اتناعرصہ ہو گیاہے تم نے رابطہ نہیں کیا''۔ اُدھر سے انتہائی مودّب لہجے میں آواز آئی ''سر آپ کا گلہ بجاہے،میں کچھ پریشانیوںمیں رہا ہوںمگر اب حالات ٹھیک ہو گئے ہیں ۔آج ابھی تھوڑی دیر پہلے چیف منسٹر صاحب نے مجھے بلاکر میری پوسٹنگ کردی ہے اور ڈی سی گوجرانوالہ لگادیاہے،سب سے پہلے میں آپ کو ہی فون کر رہا ہوں''۔ میں نے مبارکباد اور کامیابی کی دعائیں دیں۔سہیل احمد ٹیپو سے میرا برسوں پرانا تعّلق تھا،میں ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ڈی آئی جی تھا جب میرے دوست اکرم طاہر (سابق انکم ٹیکس کمشنر )نے مجھے کہا تھا'' میرا بھانجا ٹیپو ڈی آئی خان میں انڈر ٹریننگ اے سی کے طور پر آرہا ہے اس کا خیال رکھنا''۔
سہیل بڑا ہنس مکھ ،سادہ اطوار، صاف ستھرے ذہن کا نوجوان تھا، ڈی آئی خا ن میں اُس کا کا فی وقت میرے ساتھ گزرتا تھا ۔گو مل تھنکر زفورم بنایا گیا توسہیل اس میں بڑا متحرکّ رہا ۔ڈی آئی خان جیسی دور دراز جگہ پر ایک قومی سطح کا مشاعرہ منعقد کیا گیا تو اسے کامیاب بنا نے میں بھی زیرِتربیت اے سی ٹیپو نے اہم کردار ادا کیا ۔مجھے یاد ہے جب میر ا وہاںسے تبادلہ ہو گیا تو سہیل نے کئی بار فون پر بڑی پریشانی میںکہا کہ آپ کے جانے کے بعدہم ینگ آفیسر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے سروں سے سائبان ہٹ گیا ہے۔وہ میرے پاس ایبٹ آباد بھی آتارہا۔
افسروںمیں(شادی کے بعد)والدین کا اتنا خدمت گزار بیٹا میں نے نہیں دیکھا،سہیل ہر جگہ والدین کو اپنے پاس رکھتا اور ان کی خدمت اور دلجوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔ گوجر انوالہ میں بھی چند مہینوں میں اس نے ایک ایماندار اور خوش اطوارافسرکے طور پر بہت اچھی شہرت کمائی، دو مہینے پہلے جب میں گاؤںگیا تو اپنے ماموں کے ساتھ مجھے ملنے آیا،بہت خوش تھا،اس کی کسی بات سے پریشانی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔
گوجرانوالہ میں بھی اُس نے والد ین کو اپنے پاس ہی رکھا ہوا تھا ،چند روز پہلے اس نے والدین سے کہا تھا کہ وہ گوجرانوالہ نہیں رہنا چاہتا، وہ ڈیپریشن کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے ماموں اکرم طاہروہاں پہنچے،کمشنر سے ملے تو اس نے چھٹی دے دی،ٹیپو لاہور جاکرچیف سیکریٹری سے ملا تو انھوں نے بھی پندرہ روز کے لیے چھٹی دے دی تھی۔ٹیپو نے اپنے ماموں کے ساتھ جن پریشرز کا ذکر کیاوہ کوئی غیر معمولی نوعیت کے نہیں تھے ۔کہ وہ اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے پر تیار ہو جاتا، چیف سیکریٹری سے ملاقات کے چوبیس گھنٹے بعداُس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا،کاش اُس کے سینئر افسران چھٹی دیکر فارغ کرنے کے بجائے اسے اپنے پاس بٹھا تے اور اپنے چھوٹے بھائی یا بیٹے کی طرح اس کا دکھ اور پریشانی سمجھنے کی کوشش کرتے،اسے سینے سے لگاتے اورحوصلہ دیتے ۔
اس کے اتنے کولیگ اہم عہدوں پر تھے، وہ اسے مایوسی کی دلدل سے کیوںنہ نکال سکے؟کوئی اسے اس ہولناک اقدام سے کیوں نہ روک سکا؟وہ تودن میں پانچ بار اس خدائے ذوالجلال کے سامنے سربسجود ہوتا تھا جس نے مایوسی کو کفر قراردیا ہے کہ مایوس انسان اُس قاد رِ مطلق کی طاقتوں کو چیلنج کرتا ہے جوہر ناممکن کو ممکن بناسکتاہے۔جو گداگر کو شہنشاہ بنادیتاہے اور لاعلاج مریض کو شفابخش دیتاہے،کاش کوئی مجھے ہی سہیل کی پریشانی اور ڈپریشن کی اطلاع دیتا تو میں اسے دربار ِالٰہی میں خانہ کعبہ لے کر جاتااُسے آقائے دوجہاںﷺ کے روضہء مبارک پر لے جاتا جہاں سے مجھے یقین ہے کہ ہمارے پیارے ٹیپوکے دل پر چھایا ہوا مایوسی اور پریشانی کا غبار دھل جاتااور اسے سکون مل جاتا۔خدائے رحیم و کریم سے التجاہے کہ اپنے والدین کی بے پناہ خدمت کرنے والے اور رزقِ حلال کھانے والے اپنے اس عاجز بندے کی خطاؤں اورغلطیوںکو معاف فرماویں۔
میاں نواز شریف سے سنگدلانہ سلوک
ملک کے سابق وزیراعظم اور سب سے بڑی پارٹی کے قائد کی اہلیہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں جنکے معالج ان کے کسی بھی آپریشن سے پہلے ان کے شوہر کو اعتماد میں لیناچاہتے ہیں ،مریضہ خود بھی اپنے شوہر اور بیٹی سے ملنے کی متمنّی ہیںدنیا کے کسی بھی مہذّب معاشرے کی کوئی بھی عدالت الزام الٰہیہ شوہر کو اہلیہ سے اور بیٹی کو اپنی کینسر زدہ ماں سے ملنے کی فوراًاجازت دے دیتی ۔ اگر آئین میں درج انسانی حقوق کا ہی خیال کیا جاتاتوبھی کوئی جج بسترِعلات پر پڑی مریضہ سے اس کے شوہر اور بیٹی کو ملنے سے نہ روکتا۔
مگر ارضِ پاکستان کی ایک عدالت نے (جو عدالتِ عظمٰی کی زیر نِگرا نی کام کر رہی ہے )بیٹی کووالدہ اور شوہر کو بیمار اہلیہ سے ملنے کی اجازت دینے سے انکار کردیاہے۔ کیا اس سے انصاف کا بول بالا ہو اہے ؟حضور نہیں! ہرگز نہیں! پوری قوم نے نوازشریف کے مخالفوں نے بھی اسے سراسرزیادتی اور سنگدلی قراردیا ہے ۔
ایک عام شہری بھی کہہ رہا ہے کہ عدالتِ عظمٰی میں ایک سنگین جرم کے مرتکب اینکر، چیف جسٹس صاحب کے فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کرنے والے ایک سینئروکیل ،اور کراچی کے ایک بدنام اور بے گناہ انسانوں کے قاتل ایس پی کے ساتھ تو انتہائی نرمی اور شفقت کا برتاؤ ہو رہا ہے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے سابق وزیراعظم کے ساتھ بدسلوکی اور سنگدلی روا رکھی جارہی ہے،
چیف جسٹس صاحب!کچہریوںکے بجائے اسپتالوں کے دوروں اور تقریروں سے نہیں ،آپ کو اپنے فیصلوں اور عمل سے عدلیہ کی ساکھ اور نیک نامی بحال کرناہوگی۔