ہمارے نظام کی خرابیاں
دنیا بھر میں قانون کی سربلندی، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حصول کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کا نمبر 153واں ہے
دنیا بھر میں قانون کی سربلندی، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حصول کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کا نمبر 153واں ہے، بنگلہ دیش 132 ویں، بھارت93، سری لنکا86، سعودی عرب 58،عرب امارات 37ویں نمبر پر ہے۔
جب کہ تمام یورپی و امریکی ممالک اس فہرست میں بہترین پوزیشن پرہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی بھی سیاسی لیڈر انھیں انصاف کی جلد فراہمی کا ''لالچ'' دیتا ہے تو لاچار عوام اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں میں سے درجنوں ایسی جماعتیں ہیں جن کا نام ہی ''انصاف '' پر رکھا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ''تحریک انصاف'' ہے۔
جس کے ایک نعرے پر عوام کا سونامی اس جماعت کے پیچھے ہو لیا تھا۔ اور آج یہ جماعت پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔ ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی لیڈر شپ نے صرف نعرے لگائے لیکن انصاف کی فراہمی پر توجہ دی نہ انتظامیہ کو درست کیا ، جس کی وجہ سے ہر طرف انتشار پھیل گیا۔انتظامیہ نے عوام کا کام کرنے کے بجائے اسے تنگ کرنا شروع کردیا ہے ، یہی وہ ابتر حالات ہیں، جن کی بدولت عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کو آگے بڑھنا پڑا۔ آج وہ عوام کے بنیادی حقوق کو سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں اور ان کے مسئلے حل کر رہے ہیں تو انھیں عوام کی جانب سے خوب پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس پر ہماری سیاسی حکومتوں نے خاصاشور مچایامگر بقول چیف جسٹس ان کو اس کی پرواہ نہیں اور ویسے بھی جو عوامی سہولتوں پر حکومتی عدم توجہ کی بات کرے اُسے ہمارے سیاستدان کہاں پسند کرتے ہیں۔بقول شاعر
یہ کیسی سیاست ہے مرے ملک پہ حاوی
انسان کو انساں سے جدا دیکھ رہا ہوں
حقیقت میں آج کا پاکستان جتنے طبقات میں تقسیم ہوچکا ہے، شاید ہی تاریخ میں کبھی ہوا ہو، ایک طبقہ قانون کی سربلندی کے لیے آواز اُٹھا رہا ہے، انصاف کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے اور عمل دخل کو ختم کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے ، دوسرا طبقہ محسوس کر رہا ہے کہ ملک میں تعلیم نہیں' میڈیکل کالج مذبحہ خانے ہیں اور لوگوں کو صاف پانی نہیں مل رہا، صحت کی سہولیات نہیں مل رہی،نوکری نہیں ہے، کسان فصل کھڑی فصل کو آگ لگا رہا ہے، جعلی دودھ کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں، آلو کی چپس کی جگہ پلاسٹک کی چپس آ چکی ہے۔ تیسرا طبقہ کہتا ہے کہ ملک میں دوبڑی جماعتیں جڑ سے ہی ختم کر دی جائیں اور کسی ایک نئی جماعت کو ملک سونپ دیا جائے۔ چوتھا طبقہ کہتا ہے کہ یوتھیے ملک کو تباہ کردیں گے، لہٰذاجن جماعتوں کے ذریعے ٹوٹے پھوٹے اداروں کے ساتھ ملک چل رہا ہے اسی کو غنیمت جانیے اور جیسے چل رہا ہے چلتے رہنا چاہیے۔
پانچواں طبقہ ملک میں فوجی حکومت کا حامی ہے، وہ مشرف دور کے قصیدے پڑھتا نہیں تھکتا۔ چھٹے طبقے نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے، یہ وہ چند مٹھی بھر لوگ ہیں جو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ان کے علاوہ ایک اور طبقہ بھی ہے جو ان سب پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمت کا تعین کرتا ہے۔ان تمام طبقات کے ہوتے ہوئے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کوئی ایک ایسا طبقہ بھی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ ہم وطن عزیز میں فلاں ترقی یافتہ ملک جیسا سسٹم رائج کرنا چاہتے ہیں،کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو کسی قوم کو بطور رول ماڈل کے طور پر پیش کرے کہ ہمیں ان جیسا بننا ہے۔
دنیا میں قانون کی حکمرانی میں امریکا پہلے دس نمبروں پر آتا ہے، پوری دنیا میں امریکا واحد ملک ہے جہاں سے لوگ دوسرے ملکوں میں نقل مکانی نہیں کرتے،امریکی شہری اپنی شہریت نہیں بدلتے، کیوں کہ وہاں قانون، انصاف اور ترقی کے مساوی مواقع ملتے ہیں، یورپ کے ہرملک کو دیکھ لیں وہاں کے سسٹم کو دیکھ لیں، اُن کی ترقی کرنے کے مواقعوں کو دیکھ لیںاُن کی ترقی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں امپورٹ ہونے والی اشیاء کا 60فیصد یورپ سے آتا ہے۔اگر سول حکومتیں اپنا کام کر رہی ہوتیں تو چیف جسٹس کو کیا ضرورت تھی کہ وہ بچوں ،خواتین پر تشدد،زیاتی، جرگہ کی جانب سے ونی کرنے، ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی، لینڈ مافیا کے اراضیوں پر قبضوں،یوٹیلیٹی اسٹورز پرناقص اشیاء کی فروخت، ناقص ادویات دل کا (اسٹنٹ)سرجیکل سامان، اس کی ہوشربا قیمتوں، اسپتالوں کی ناقص کارکردگی و سہولیات کی عدم فراہمی،اسکول کالجز کے طلباء کی فیسوں میں اضافوں وغیرہ پر ازخود نوٹسز لیتی ۔
اور رہی بات چیف جسٹس صاحب کے حالیہ اقدامات اور فیصلوں کی تو یقینا یہ ایک خوش آیند اقدام ہے،یہ ہماری سول حکومت اور انتظامیہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیں، انھیں اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ ایک شخصیت یا ادارہ سارے کام نہیں کر سکتا ، اگر ہم واقعی ملک کی حالت بدلنا چاہتے ہیں انتظامیہ کو سیاست سے الگ کردیں، یہ ملک بدل جائے گا،پھر نہ وزیر اعلیٰ کو نوٹس لینے کی ضرورت پڑے گی اور نہ چیف جسٹس کو ۔چیف جسٹس صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ قانون کی سربلندی کے لیے رول آف لا کے لیے اور سسٹم کی بہتری کے لیے ہمارے ادارے ٹھیک کر دیں یہی وقت کی ضرورت ہے!!!