الیکشن تو ہو گا
چیئر مین سینیٹ کی کوئی عزت نہیں ان کو ووٹ خرید کر لایا گیا ہے
پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکا سے واپسی پر جاتی عمرہ میں اپنے سیاسی پیر خانے میں حاضری کے بعد یہ بیان داغا ہے کہ چیئر مین سینیٹ کی کوئی عزت نہیںان کو ووٹ خرید کر لایا گیا ہے، اس لیے چیئر مین سینیٹ کو تبدیل کر کے متفقہ چیئر مین لایا جائے۔
وزیر اعظم پاکستان جن کے مطابق ان کے وزیر اعظم اب بھی میاںنواز شریف ہیں اور وہ پاکستان کے عوام کے دلوں کے وزیراعظم ہیں کا یہ نیا بیانیہ امریکا سے واپسی پر ان کی جانب سے دیا گیا ہے۔
باخبر ذرایع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ 'نجی' دورہ نجی ہی رہا اور امریکی حکومت کے کارپردازوں نے ان کے سیاسی پیر خانے کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔اب ہمارے سابق وزیر اعظم کا بیانیہ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور انھوں نے اب تما م اداروں سے بات کر نے کا عندیہ دیا ہے جب کہ ان کے نامزد وزیر اعظم نے چیئر مین سینیٹ کے بارے میں انتہائی سخت لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ۔
وزیر اعظم پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے، اس کی جانب سے ملک کے کسی ادارے کے سربراہ کے بارے میں اس طرح کی بیان بازی دانشمندی نہیں کہلا سکتی۔ انھوں نے سینیٹ الیکشن میں اپنی جماعت کی ناکامی کا غصہ نکالا ہے اور وہ اس میں بہت آگے چلے گئے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو خود ان کا انتخاب بھی کچھ ایسے ہی عمل کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوا ہے جب ان کی پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ پر شاہدخاقان کا انتخاب عمل میں آیا اور ایک نااہل وزیر اعظم کی جگہ پر وہ منتخب ہوئے ہیں۔
صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ جب سے میاں صاحب کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہے ان کی پارٹی کوان سے الگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو کہ شروع میں تو ناکام نظر آرہی تھیں لیکن جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں آہستہ آہستہ نواز لیگ کے بعض ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبریں آرہی ہیں اور اب تک کئی ارکان پارٹی چھوڑ بھی چکے ہیں ، اس بات کو دیکھا جائے تو نواز لیگ کے فرنٹ کے لیڈروں میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے میاں نواز شریف کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سب کچھ اچھا نہیں ہے، بس انتظار ہو رہا ہے کہ الیکشن کا طبل بج جائے کیونکہ ابھی تک عام انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے اس صورتحال میں نواز لیگ کے ارکان یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اقتدار کے دوران ہی پارٹی کو خیر آباد کہہ دیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ نگران حکومت بن جائے تو وہ اپنے نئے گھونسلے میںجا بیٹھیں جس کا انتخاب وہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
میاں صاحب کے خلاف نیب کی کیسوں کا فیصلہ بھی الیکشن سے قبل آنے کی توقع ہے جس کی وجہ سے بھی پارٹی گو مگو کی کیفیت میں ہے، اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ یہ فیصلہ میاں صاحب کے خلاف ہی آئے گا اور ان کو جیل بھیج دیا جائے گا جہاں سے وہ آیندہ انتخابی مہم چلائیں گے اس بات کااظہار وزیر اعظم پاکستان نے بھی کیا ہے وہ بھی میاں صاحب کے مستقبل بارے میں خدشات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے دیرینہ رفیق کار اور دکھ سکھ کے قریبی ساتھی چوہدری نثار جو میاں صاحب سے غیر اعلانیہ طور پر الگ ہو چکے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاںنواز شریف سزا کے بعد پارٹی کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوں گے وہ غلطی پر ہیں ۔
چوہدری نثار جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ان کے فوج سے خاندانی تعلقات ہیں اور وہ بالواسطہ فوج کی بات کرتے ہیں، ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے اور ہمارا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک بار پہلے بھی قدم بڑھایا تھا مگر جب انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی ان کی پشت پر نہ تھا جس کا از راہ مذاق وہ آج بھی گلہ کرتے ہیں اس لیے نواز لیگ کی اس بات کو بھی اہمیت دینی ہو گی کہ اگر نواز شریف کو سزا ہو جاتی ہے تو میاں شہباز شریف کس طرح نواز لیگ کی انتخابی مہم کو کامیابی میں تبدیل کریں گے۔
میاں شہباز شریف کو پنجاب میں برتری حاصل ہے لیکن اگر پورے پنجاب کی بات کی جائے تو یہ بات نواز لیگ کے خلاف جائے گی کیونکہ جس طرح شہباز شریف نے لاہور میں کام کیا ہے، صوبے کے دوسرے شہروں میں نہیں ہوا جس کا جواب الیکشن میں دینا مشکل ہو جائے گا۔اسحاق ڈار صاحب لندن میں ہیں وہ پاکستان کی معیشت اور اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے بھی پریشان ہیںاور گلہ کررہے ہیں کہ پارٹی کے عہدیدار ان کا فون بھی نہیں سنتے۔ وہ معیشت کی ابتری کے حوالے سے اپنے پرلگائے گئے الزامات کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ۔ نواز لیگ مشکلات میں پھنس چکی ہے، میاں نواز شریف کی طرف سے تمام اداروں سے گفتگو کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کے تازہ ترین بیان کو شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے اور معاملات اسی طرف جا رہے ہیں جس کا نواز شریف کو ادراک ہے۔
انھوں نے اپنے تمام کارڈز کھیل لیے ہیں لیکن ان کو اپنی جیت میں تبدیل نہیں کر پائے، اب آخری پتا معلامات کو افہام و تفہیم اور مل جل کر حل کرنے سے متعلق ہے جس کو پذیرائی ملنا مشکل ہے کیونکہ جو فیصلے کیے جا چکے ہیں اب ان پر عمل درآمد کا وقت قریب ہے اس لیے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ ان فیصلوں میں ترمیم ہو۔ مقدر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان جن کے مطابق ان کے وزیر اعظم اب بھی میاںنواز شریف ہیں اور وہ پاکستان کے عوام کے دلوں کے وزیراعظم ہیں کا یہ نیا بیانیہ امریکا سے واپسی پر ان کی جانب سے دیا گیا ہے۔
باخبر ذرایع بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ 'نجی' دورہ نجی ہی رہا اور امریکی حکومت کے کارپردازوں نے ان کے سیاسی پیر خانے کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔اب ہمارے سابق وزیر اعظم کا بیانیہ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور انھوں نے اب تما م اداروں سے بات کر نے کا عندیہ دیا ہے جب کہ ان کے نامزد وزیر اعظم نے چیئر مین سینیٹ کے بارے میں انتہائی سخت لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ۔
وزیر اعظم پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے، اس کی جانب سے ملک کے کسی ادارے کے سربراہ کے بارے میں اس طرح کی بیان بازی دانشمندی نہیں کہلا سکتی۔ انھوں نے سینیٹ الیکشن میں اپنی جماعت کی ناکامی کا غصہ نکالا ہے اور وہ اس میں بہت آگے چلے گئے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو خود ان کا انتخاب بھی کچھ ایسے ہی عمل کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوا ہے جب ان کی پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ پر شاہدخاقان کا انتخاب عمل میں آیا اور ایک نااہل وزیر اعظم کی جگہ پر وہ منتخب ہوئے ہیں۔
صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ جب سے میاں صاحب کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہے ان کی پارٹی کوان سے الگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو کہ شروع میں تو ناکام نظر آرہی تھیں لیکن جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں آہستہ آہستہ نواز لیگ کے بعض ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبریں آرہی ہیں اور اب تک کئی ارکان پارٹی چھوڑ بھی چکے ہیں ، اس بات کو دیکھا جائے تو نواز لیگ کے فرنٹ کے لیڈروں میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے میاں نواز شریف کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سب کچھ اچھا نہیں ہے، بس انتظار ہو رہا ہے کہ الیکشن کا طبل بج جائے کیونکہ ابھی تک عام انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے اس صورتحال میں نواز لیگ کے ارکان یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اقتدار کے دوران ہی پارٹی کو خیر آباد کہہ دیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ نگران حکومت بن جائے تو وہ اپنے نئے گھونسلے میںجا بیٹھیں جس کا انتخاب وہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
میاں صاحب کے خلاف نیب کی کیسوں کا فیصلہ بھی الیکشن سے قبل آنے کی توقع ہے جس کی وجہ سے بھی پارٹی گو مگو کی کیفیت میں ہے، اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ یہ فیصلہ میاں صاحب کے خلاف ہی آئے گا اور ان کو جیل بھیج دیا جائے گا جہاں سے وہ آیندہ انتخابی مہم چلائیں گے اس بات کااظہار وزیر اعظم پاکستان نے بھی کیا ہے وہ بھی میاں صاحب کے مستقبل بارے میں خدشات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے دیرینہ رفیق کار اور دکھ سکھ کے قریبی ساتھی چوہدری نثار جو میاں صاحب سے غیر اعلانیہ طور پر الگ ہو چکے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاںنواز شریف سزا کے بعد پارٹی کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوں گے وہ غلطی پر ہیں ۔
چوہدری نثار جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ان کے فوج سے خاندانی تعلقات ہیں اور وہ بالواسطہ فوج کی بات کرتے ہیں، ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے اور ہمارا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک بار پہلے بھی قدم بڑھایا تھا مگر جب انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی ان کی پشت پر نہ تھا جس کا از راہ مذاق وہ آج بھی گلہ کرتے ہیں اس لیے نواز لیگ کی اس بات کو بھی اہمیت دینی ہو گی کہ اگر نواز شریف کو سزا ہو جاتی ہے تو میاں شہباز شریف کس طرح نواز لیگ کی انتخابی مہم کو کامیابی میں تبدیل کریں گے۔
میاں شہباز شریف کو پنجاب میں برتری حاصل ہے لیکن اگر پورے پنجاب کی بات کی جائے تو یہ بات نواز لیگ کے خلاف جائے گی کیونکہ جس طرح شہباز شریف نے لاہور میں کام کیا ہے، صوبے کے دوسرے شہروں میں نہیں ہوا جس کا جواب الیکشن میں دینا مشکل ہو جائے گا۔اسحاق ڈار صاحب لندن میں ہیں وہ پاکستان کی معیشت اور اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے بھی پریشان ہیںاور گلہ کررہے ہیں کہ پارٹی کے عہدیدار ان کا فون بھی نہیں سنتے۔ وہ معیشت کی ابتری کے حوالے سے اپنے پرلگائے گئے الزامات کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ۔ نواز لیگ مشکلات میں پھنس چکی ہے، میاں نواز شریف کی طرف سے تمام اداروں سے گفتگو کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کے تازہ ترین بیان کو شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے اور معاملات اسی طرف جا رہے ہیں جس کا نواز شریف کو ادراک ہے۔
انھوں نے اپنے تمام کارڈز کھیل لیے ہیں لیکن ان کو اپنی جیت میں تبدیل نہیں کر پائے، اب آخری پتا معلامات کو افہام و تفہیم اور مل جل کر حل کرنے سے متعلق ہے جس کو پذیرائی ملنا مشکل ہے کیونکہ جو فیصلے کیے جا چکے ہیں اب ان پر عمل درآمد کا وقت قریب ہے اس لیے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ ان فیصلوں میں ترمیم ہو۔ مقدر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔