انسان نما بھیڑیئے

زینت امان کبھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور اپنے مداحوں کے خوابوں کی شہزادی ہوا کرتی تھی۔

''آپ جیسا کوئی'' والی زینت امان جو کبھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور اپنے مداحوں کے خوابوں کی شہزادی ہوا کرتی تھی۔

فلمی منظر کے کسی جنگل میں نہیں بلکہ دن دیہاڑے ہندوستان کی فلم نگری ممبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک بھیڑیے کے ہتھے چڑھ گئی اور اگر ہوٹل کا ایک ویٹر بروقت مدد کو نہ پہنچتا، تو شاید وہ اسے چیر پھاڑکر مار ہی ڈالتا۔ تب پتہ چلا کہ بھیڑیے صرف جنگلوں میں نہیں شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ شہری بھیڑیا کوئی اور نہیں زینت امان کا شوہر اداکار سنجے خان تھا جسے اْس نے ٹوٹ کر چاہا تھا اور یہ جانتے ہوئے اْس سے شادی کی تھی کہ وہ پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہے۔

یہ واقعہ کوئی 38 برس قبل پیش آیا تھا، جس کا انکشاف اب بھارت کے مشہورفلمی پرچے ''بلٹز'' نے ایک دوسرے معتبر اخبار ''انڈیا ٹو ڈے'' کے حوالے سے کیا ہے۔ خبرکے مطابق آج کے سپراسٹار ریتھک روشن کے سابقہ سسر نے ماضی کی مقبول ہیروئن کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ سنجے خان کو پسند کرنے کے زینت امان کے فیصلے نے اْس کی زندگی کا رخ ہی بدل ڈالا، وہ اْس وحشی صفت انسان کو فلم ''عبداللہ'' کے سیٹ پر ساتھ کام کرتے ہوئے دل دے بیٹھی، اگرچہ اسے پوری طرح جانتی بھی نہ تھی۔ اخبارکے مطابق زینت لونا والا میں کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھی کہ اسے ممبئی سے سنجے خان کی فون کال وصول ہوئی جس میں اس نے زینت سے کہا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر پہلے ''عبداللہ'' کے ایک گانے کی دوبارہ شوٹنگ مکمل کروائے۔اس نے سنجے کو بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی دوسری فلم کی شوٹنگ کے لیے وقت دے چکی ہے ۔

اتنا سننا تھا کہ نشے میں دھت سنجے غصے میں آپے سے باہر ہوگیا، اس نے زینت کو فحش گالیاں بکیں اور الزام لگایا کہ اس کے اس فلمساز سے ناجائز تعلقات ہیں۔ شوہر کے اس رویے سے دلبرداشتہ زینت اپنی صفائی پیش کرنے گھر پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ سنجے تاج محل میں جاری کسی پارٹی میں شریک ہے۔ اسے چونکہ شوٹنگ کے لیے جلد لونا والا واپس جانا تھا اس لیے سنجے سے بات کرنے وہ ہوٹل پہنچ گئی، اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

سنجے اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا اور پوچھا وہ یہاں کیوں آئی ہے، اس سے قبل کہ وہ اس کے سوال کا جواب دیتی، سنجے نے لپک کر اسے بالوں سے پکڑ لیا اور گھسیٹتا ہوا برابر والے کمرے میں لے گیا جہاں اس نے زینت کو بے تحاشا مارنا شروع کردیا، وہ جب بھی اس کے مکوں اور گھونسوں سے لڑکھڑا کر گرتی سنجے اس پر لاتیں برسانا شروع کردیتا۔ وہاں موجود درجنوں لوگوں نے ماضی کی اس سپر ہیروئن کو اپنے شوہر کے ہاتھوں بد ترین تشدد کا نشانہ بنتے دیکھا مگر ان میں سے کوئی بھی اسے بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ سنجے خان کی اس وحشیانہ حرکت میں اس کی پہلی بیوی زریں نے بھی اس کا پورا ساتھ دیا جو خود بھی زینت کو مارے جا رہی تھی اور مسلسل کہتی جاتی تھی کہ وہ اسی سلوک کی مستحق ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہوٹل کے ایک ویٹر کا جس نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑا اور زینت کو بچا کر باہر لے آیا۔زخموں سے چور زینت کا چہرہ لہو لہان اور آنسوؤں سے تر تھا، اسے علاج کے لیے آٹھ دن اسپتال میں داخل رہنا پڑا لیکن اس نے سنجے کے خلاف پولیس میں رپٹ درج نہیں کرائی کیونکہ وہ اب بھی اسے چاہتی تھی۔


اس کے ڈاکٹر نے اخبار کو بتایا کہ شوہر کے ہاتھوں بری طرح مار کھانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، وہ اس سے پہلے بھی کئی بار زینت کو تشدد کا نشانہ بنا چکا تھا، ایک دفعہ تو انھیں اس کے ایکسرے کرانے پڑ گئے تھے یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں اس کی کوئی ہڈی پسلی نہ ٹوٹ گئی ہو۔ دونوں کی شادی 1978ء میں جیسلمیر میں ہوئی تھی جو بمشکل ایک سال چلی۔ بہت سے لوگوں نے زینت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے کسی کی نہ مانی، وہ کہتی تھی ''تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہو، میں اس سے پیارکرتی ہوں، دیکھنا میں اس کی ساری بری عادتیں چھڑوا کر ایک دن اسے بادشاہ بنا دوں گی'' پتہ نہیں سنجے کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا یا کوئی اور وجہ ہے لیکن آج کل وہ ''میری بہترین غلطیاں'' کے نام سے اپنی سوانح لکھ رہا ہے۔

جس میں شاید وہ تاج محل میں پیش آنے والے واقعے اور اپنی بیٹی سوسن خان کی ریتھک روشن سے علیحدگی کی وجوہ پر بھی روشنی ڈالے گا۔ زینت امان نے مبینہ طور پر ایک انٹرویو میں سنجے سے اپنے نکاح کا اعتراف کیا تھا اور کہا ''ہاں، میری عباس (سنجے کا اصل نام) سے شادی ہوئی تھی، میں اس رشتے کے تقدس پر یقین رکھتی ہوں اور اس کی وفادار بیوی بن کر رہی۔'' اس نے ایک بار یہ بھی کہا کہ میں اس زمانے میں بہت بھولی اور ناسمجھ تھی، مگر میرے اس پاگل پن کا دورانیہ چند ہفتوں سے زیادہ طویل نہیں تھا۔

خیر یہ تو تھا قصہ ایک انسان نما بھیڑیئے کا جو تقریباً چار عشروں کے بعد منظر عام پر آیا ہے، لیکن اس میں حیرانی اور تعجب کی اس لیے کوئی بات نہیں کیونکہ اس ملک میں جہاں کا وہ شہری ہے، اس طرح کے واقعات معمولات زندگی کا حصہ ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے میں نے کولکتہ کی ڈیٹ لائن سے ایجنسی فرانس پریس کی ایک خبر پڑھی تھی جس کے مطابق بھارتی پولیس نے صوبہ مغربی بنگال میں دو افراد کو ذہنی طور پر معذور ایک عورت کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ملزمان اس 27 سالہ عورت کو اغوا کرکے قریبی کھیتوں میں لے گئے اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے سے قبل انھوں نے فولادی راڈ سے حملہ کر کے اسے بری طرح گھائل کر دیا۔ دوسرے دن وہ کھیتوں میں سخت زخمی اور برہنہ حالت میں پڑی پائی گئی۔ اسے اسپتال پہنچایا گیا جہا ں اس کا ہنگامی طور پر آپریشن کرنا پڑا۔ پولیس نے 50 اور54 سال کی عمر کے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ بربریت کے اس واقعے نے بھارت میں ایک قسم کا ہیجان پیدا کردیا اگرچہ وہاں ہر روز ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔

اس بہیمانہ واقعے سے دہلی کی اس طالبہ کی اجتمائی آبرو ریزی کے واقعے کی یاد تازہ ہوگئی، جسے 2012ء میں فولادی سریا مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس واقعے نے پوری دنیا کی توجہ مبذول کرالی اور ملک میں غم وغصے کی لہر چھا گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو اس قسم کے جرائم سے نمٹنے کے لیے اپنے قوانین میں ترمیم بھی کرنا پڑی تھی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور خواتین و بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔

تازہ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق انڈیا میں سالانہ کم ازکم چالیس ہزار ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ میں نے ''بلٹز'' کی خبر کو اہمیت دے کر اسے اپنے کالم کا موضوع بنانے کا فیصلہ 60ء کے عشرے میں پیش آنے والا ایک واقعے یاد آنے پر کیا، آپ بھی سن لیجیے ۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ''فلم فیئر ایوارڈ'' کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے، خطاب کرنے ڈائس پر آئے تو ان کی نظر سامنے بیٹھے ہوئے بلٹزکے ایڈیٹر پر پڑی اور انھوں نے اپنی تقریر ان الفاظ سے شروع کی:''میں روز صبح نیند سے بیدار ہوکر بھگوان سے پرارتھنا کیا کرتا ہوں کہ مجھے اس شخص (بلٹزکے ایڈیٹر) کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بچانا۔'' وہ تو بچ گئے لیکن سنجے خان نہ بچ سکا اور 38 سال بعد سہی، بلٹز نے اسے ذلیل کر کے چھوڑا۔
Load Next Story