دیوار پر لکھا نوشتہ
مخالف قوتوں نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے انھیں اقتدار سے ہٹانے کافیصلہ کرلیا
اپریل 2016ء میں جب اچانک پاناما پیپرزکا انکشاف ہوا اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے اِس ملک کے تقریباً 480افراد کے نام منظرعام پر آگئے تو میاں صاحب کو جن کا اپنا نام براہ راست اِس فہرست میں شامل نہیں تھا، البتہ اُن کے بچوں کا نام ضرور شامل تھا، مخالف قوتوں نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے انھیں اقتدار سے ہٹانے کافیصلہ کرلیا۔ خان صاحب جو پچھلے دو سال سے اِس کار خیر کی انجام دہی کے لیے بڑی تگ ودوکررہے تھے اورکسی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پارہے تھے خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے۔
پیپلز پارٹی بھی جس نے دھرنے کے دنوں میں جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کی حکومت کوگرنے نہیں دیا تھا اب اِس سنہری موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اِس معرکے کو سر کرنے کے لیے مسئلہ اب سے اِس تحریک کی سپہ سالاری کا تھا۔ خان صاحب اِس کی قیادت کا کریڈٹ کسی اورکو دینا نہیں چاہتے تھے، جب کہ پیپلزپارٹی بھی کسی اورکی قیادت میں کام کرنے کو تیار نہ تھی۔ ایسی صورت میں بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ دوسری جانب حکومت بھی جوڈیشل انکواری کے لیے ٹی آر اوز کے ایشو کو الجھا کر ٹائم گین کرنا چاہتی تھی اور وہ کسی حد تک اپنے اِس مقصد میں کامیاب بھی ہوچکی تھی، مگر 2نومبر 2016ء کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی عمران خان کی دھمکی کے بعد ساری صورتحال یکسر بدل گئی۔ معاملہ سڑکوں پر سے نکل کر سپریم کورٹ پہنچ گیااور تقریباً آٹھ مہینوں کی ڈرامائی کشمکش کے بعد میاں صاحب کا کام تمام ہوگیا۔
پاناما کیس میں میاں صاحب کے بچوں کے علاوہ جن دوسرے پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے مسلم لیگ (ن) اُن سب کی تحقیقات ایک ساتھ کروانے کا مطالبہ کر رہی تھی جب کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سب سے پہلے وقت کے حکمراں کے حیثیت سے میاں صاحب کو تختہ مشق بنانا چاہتی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ صرف میاں صاحب ہی کی تحقیقات میں اتنا وقت گزر جائے گا کہ اگلے انتخابات سر پر آ پہنچیں گے اور یوں دوسروں کی تحقیقات کا معاملہ ازخود رفع دفع ہوجائے گا۔ ستاروں کی گردش اور کچھ فرشتوں کی مہر بانی سے ہوا بھی کچھ یوں ہی۔2018ء کے الیکشن اب قریب آچکے ہیں اور ایک مقررہ ٹائم فریم کے مطابق میاں صاحب کے خلاف فیصلے بھی آنے والے ہیں۔ مسلم لیگ کے لوگوں کو پاناما کیس کی آڑ میں جن کارروائیوں کا خدشہ اور احتمال تھا وہ بہرحال پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
میاں صاحب کے علاوہ پاناما پیپرز میں نامزد افراد میں سے کسی اورکے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں اور سارے کے سارے ازخود معصوم اور بے گناہ قرار پا گئے۔اِس ملک میں ہمیشہ ہوتا بھی یہی آیا ہے۔جس کسی اکیلے شخص کو نشانہ بنانا مقصود ہو بس وہی ایک شخص سب سے بڑا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔آج کل زرداری صاحب اِن عتابی کارروائیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاست میں آج کل سندھ کارڈ کا استعمال بھی نہیں ہو رہا۔ ورنہ اُن کے ساتھیوں کی جانب سے سندھی وزیراعظم اور پنجابی وزیراعظم کے درمیان فرق اور تفریق گنوانا روزکا معمول ہواکرتا تھا۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اورسرکڑاہی میں کی مصداق آج کل وہ بڑے مزے میں ہیں۔اُن کے تمام گناہ صرف نظر کردیے گئے ہیں اور وہ سیاسی میدان میںکھل کر اپنے کرشمے بھی خوب دکھا رہے ہیں۔ جتنی پیش گوئیاں خان صاحب کے مرشدوں کی درست ثابت نہیں ہوئی اُتنی تو زرداری صاحب کی اپنی پیش گوئیاں درست اور صحیح ثابت ہورہی ہیں۔
میاں صاحب کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ جیل جانا چاہتے ہیں یا مقتدر اور بالادست قوتوں سے کوئی سمجھوتہ۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا۔ اپریل کے مہینے میں ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔ اُن کی حمایت میں تیزوتند اور تلخ و ترش باتیں کرنے والے ساتھی بھی آج کل کچھ خاموش ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے سب نے دیوار پر لکھا نوشتہ پڑھ لیا ہے۔خود میاں صاحب بھی اداروں سے سمجھوتے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے نئے سربراہ کی حیثیت سے شہباز شریف بھی بڑے بھائی کو بچانے کی کوششوں میں تو ضرور لگے ہوئے ہوں گے۔
ہو سکتا ہے کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ لیکن اِس سمجھوتے کو میاں صاحب کی مخالف سیاسی قوتیں قبول کرنے پرشاید تیار نہ ہوں۔ انھوں نے ابھی سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ہمارے یہاں کسی کو مجرم اور کسی کو محرم قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ معروضی حالات و واقعات کے مطابق طے کرلیاجاتا ہے۔عدالتی احتساب ہویا نیب کا احتساب سب ایک مخصوص زاویے اور سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ستر سال سے اِسی سوچ کی حکمرانی ہے۔ہم نے آج تک کسی کا صاف اور شفاف احتساب ہوتے نہیں دیکھا۔
ایس ایس پی راؤ انوار کے کیس میں جس طرح پچھلے دنوں انصاف کے زریں اصولوں کو پورا کیا گیا، وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ عدالتی احکامات کے دھجیاں بکھیرنے والے اِس شخص کو اُس کی پیشی پر جس سلوک سے نوازا گیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اُسے نہ صرف توہین عدالت کے الزام سے بری کر دیا گیا بلکہ اُس غریب شخص کے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے سارے منجمد اکاؤنٹس بھی فوراً سے پیشتر اُس کی کسی درخواست کے بناء ہی کھول دیے گئے۔
جب کہ توقع کی جا رہی تھی کہ اُسے بھی ایسے ہی جملوں سے نوازا جائے کہ تم جن کے لیے کام کرتے ہو وہی تمہارے بچوں کو پالیں گے۔ اب وہ شخص ایک ماہ کے ریمانڈ پر اپنے ہی محکمے کے سپرد کردیا گیا ہے۔ جہاں وہ پولیس کی بے رحمانہ چھترول کی تاب نہ لاکر سب کچھ اگل دے گا۔ قوم یہ قیاس آرائی کرنے میں حق بجانب ہے کہ راؤ انوار کے خلاف کوئی جرم یقینا ثابت نہیں ہوگا اورثبوتوں کی عدم دستیابی کے سبب وہ جلد یا بدیر باعزت طور پر رہا ہوجائے گا۔ ہمارے نظام انصاف کو نڈر اور دلیر بھی ہونا ہوگا۔
تبھی جاکے طاقتور ملزمان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کمزور اور مجبورطبقے کے لیے تو سسٹم بہت دلیر اور بہادر ہوجائے اور کسی طاقتور اور بالادست طبقے کے آگے ڈھیر ہو جائے۔ اگر اِس کمزوری پر قابو نہیں پایا گیا تو سوالات تو اُٹھیں گے ہی۔ دبئی میں کسی فرم کا اقامہ رکھنے اور اُسے ظاہر نہ کرنے کے جرم میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ آج خود بعض قانون دانوں کی رائے میں کمزور فیصلہ ہے۔ اب شیخ رشید پر بھی ایسا ہی کیس ہے، دیکھیں اس پر کیا فیصلہ آتا ہے۔ پاناما کیس میں اقامے پر دیا جانے والا فیصلہ آیندہ کے کئی فیصلوں کے لیے اب ایک مثال بن چکا ہے۔یہ معزز ججوں کے کہنے کے مطابق یقینا بیسیوں سال یاد رکھا جانے والا فیصلہ بن چکا ہے۔ اس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔ آئندہ ایسے کئی فیصلے اِس فیصلے کو سامنے رکھ کرکرنا ہوں گے۔ یہی اِس فیصلے کی خصوصیت بھی ہے اور خوبصورتی بھی۔
پیپلز پارٹی بھی جس نے دھرنے کے دنوں میں جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کی حکومت کوگرنے نہیں دیا تھا اب اِس سنہری موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اِس معرکے کو سر کرنے کے لیے مسئلہ اب سے اِس تحریک کی سپہ سالاری کا تھا۔ خان صاحب اِس کی قیادت کا کریڈٹ کسی اورکو دینا نہیں چاہتے تھے، جب کہ پیپلزپارٹی بھی کسی اورکی قیادت میں کام کرنے کو تیار نہ تھی۔ ایسی صورت میں بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ دوسری جانب حکومت بھی جوڈیشل انکواری کے لیے ٹی آر اوز کے ایشو کو الجھا کر ٹائم گین کرنا چاہتی تھی اور وہ کسی حد تک اپنے اِس مقصد میں کامیاب بھی ہوچکی تھی، مگر 2نومبر 2016ء کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی عمران خان کی دھمکی کے بعد ساری صورتحال یکسر بدل گئی۔ معاملہ سڑکوں پر سے نکل کر سپریم کورٹ پہنچ گیااور تقریباً آٹھ مہینوں کی ڈرامائی کشمکش کے بعد میاں صاحب کا کام تمام ہوگیا۔
پاناما کیس میں میاں صاحب کے بچوں کے علاوہ جن دوسرے پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے مسلم لیگ (ن) اُن سب کی تحقیقات ایک ساتھ کروانے کا مطالبہ کر رہی تھی جب کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سب سے پہلے وقت کے حکمراں کے حیثیت سے میاں صاحب کو تختہ مشق بنانا چاہتی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ صرف میاں صاحب ہی کی تحقیقات میں اتنا وقت گزر جائے گا کہ اگلے انتخابات سر پر آ پہنچیں گے اور یوں دوسروں کی تحقیقات کا معاملہ ازخود رفع دفع ہوجائے گا۔ ستاروں کی گردش اور کچھ فرشتوں کی مہر بانی سے ہوا بھی کچھ یوں ہی۔2018ء کے الیکشن اب قریب آچکے ہیں اور ایک مقررہ ٹائم فریم کے مطابق میاں صاحب کے خلاف فیصلے بھی آنے والے ہیں۔ مسلم لیگ کے لوگوں کو پاناما کیس کی آڑ میں جن کارروائیوں کا خدشہ اور احتمال تھا وہ بہرحال پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
میاں صاحب کے علاوہ پاناما پیپرز میں نامزد افراد میں سے کسی اورکے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں اور سارے کے سارے ازخود معصوم اور بے گناہ قرار پا گئے۔اِس ملک میں ہمیشہ ہوتا بھی یہی آیا ہے۔جس کسی اکیلے شخص کو نشانہ بنانا مقصود ہو بس وہی ایک شخص سب سے بڑا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔آج کل زرداری صاحب اِن عتابی کارروائیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاست میں آج کل سندھ کارڈ کا استعمال بھی نہیں ہو رہا۔ ورنہ اُن کے ساتھیوں کی جانب سے سندھی وزیراعظم اور پنجابی وزیراعظم کے درمیان فرق اور تفریق گنوانا روزکا معمول ہواکرتا تھا۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اورسرکڑاہی میں کی مصداق آج کل وہ بڑے مزے میں ہیں۔اُن کے تمام گناہ صرف نظر کردیے گئے ہیں اور وہ سیاسی میدان میںکھل کر اپنے کرشمے بھی خوب دکھا رہے ہیں۔ جتنی پیش گوئیاں خان صاحب کے مرشدوں کی درست ثابت نہیں ہوئی اُتنی تو زرداری صاحب کی اپنی پیش گوئیاں درست اور صحیح ثابت ہورہی ہیں۔
میاں صاحب کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ جیل جانا چاہتے ہیں یا مقتدر اور بالادست قوتوں سے کوئی سمجھوتہ۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا۔ اپریل کے مہینے میں ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔ اُن کی حمایت میں تیزوتند اور تلخ و ترش باتیں کرنے والے ساتھی بھی آج کل کچھ خاموش ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے سب نے دیوار پر لکھا نوشتہ پڑھ لیا ہے۔خود میاں صاحب بھی اداروں سے سمجھوتے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے نئے سربراہ کی حیثیت سے شہباز شریف بھی بڑے بھائی کو بچانے کی کوششوں میں تو ضرور لگے ہوئے ہوں گے۔
ہو سکتا ہے کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ لیکن اِس سمجھوتے کو میاں صاحب کی مخالف سیاسی قوتیں قبول کرنے پرشاید تیار نہ ہوں۔ انھوں نے ابھی سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ہمارے یہاں کسی کو مجرم اور کسی کو محرم قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ معروضی حالات و واقعات کے مطابق طے کرلیاجاتا ہے۔عدالتی احتساب ہویا نیب کا احتساب سب ایک مخصوص زاویے اور سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ستر سال سے اِسی سوچ کی حکمرانی ہے۔ہم نے آج تک کسی کا صاف اور شفاف احتساب ہوتے نہیں دیکھا۔
ایس ایس پی راؤ انوار کے کیس میں جس طرح پچھلے دنوں انصاف کے زریں اصولوں کو پورا کیا گیا، وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ عدالتی احکامات کے دھجیاں بکھیرنے والے اِس شخص کو اُس کی پیشی پر جس سلوک سے نوازا گیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اُسے نہ صرف توہین عدالت کے الزام سے بری کر دیا گیا بلکہ اُس غریب شخص کے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے سارے منجمد اکاؤنٹس بھی فوراً سے پیشتر اُس کی کسی درخواست کے بناء ہی کھول دیے گئے۔
جب کہ توقع کی جا رہی تھی کہ اُسے بھی ایسے ہی جملوں سے نوازا جائے کہ تم جن کے لیے کام کرتے ہو وہی تمہارے بچوں کو پالیں گے۔ اب وہ شخص ایک ماہ کے ریمانڈ پر اپنے ہی محکمے کے سپرد کردیا گیا ہے۔ جہاں وہ پولیس کی بے رحمانہ چھترول کی تاب نہ لاکر سب کچھ اگل دے گا۔ قوم یہ قیاس آرائی کرنے میں حق بجانب ہے کہ راؤ انوار کے خلاف کوئی جرم یقینا ثابت نہیں ہوگا اورثبوتوں کی عدم دستیابی کے سبب وہ جلد یا بدیر باعزت طور پر رہا ہوجائے گا۔ ہمارے نظام انصاف کو نڈر اور دلیر بھی ہونا ہوگا۔
تبھی جاکے طاقتور ملزمان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کمزور اور مجبورطبقے کے لیے تو سسٹم بہت دلیر اور بہادر ہوجائے اور کسی طاقتور اور بالادست طبقے کے آگے ڈھیر ہو جائے۔ اگر اِس کمزوری پر قابو نہیں پایا گیا تو سوالات تو اُٹھیں گے ہی۔ دبئی میں کسی فرم کا اقامہ رکھنے اور اُسے ظاہر نہ کرنے کے جرم میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ آج خود بعض قانون دانوں کی رائے میں کمزور فیصلہ ہے۔ اب شیخ رشید پر بھی ایسا ہی کیس ہے، دیکھیں اس پر کیا فیصلہ آتا ہے۔ پاناما کیس میں اقامے پر دیا جانے والا فیصلہ آیندہ کے کئی فیصلوں کے لیے اب ایک مثال بن چکا ہے۔یہ معزز ججوں کے کہنے کے مطابق یقینا بیسیوں سال یاد رکھا جانے والا فیصلہ بن چکا ہے۔ اس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔ آئندہ ایسے کئی فیصلے اِس فیصلے کو سامنے رکھ کرکرنا ہوں گے۔ یہی اِس فیصلے کی خصوصیت بھی ہے اور خوبصورتی بھی۔