کراچی سے حق تلفی کیوں

اسلام آباد میں ہائیکورٹ ہے مگر دوکروڑ کی آبادی والا شہر کمشنر کی سطح کی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے


Adnan Ashraf Advocate March 28, 2018
اسلام آباد میں ہائیکورٹ اور اسلام آباد پولیس کا آئی جی ہے مگر دوکروڑ کی آبادی والا شہر کمشنر کی سطح کی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و کاروباری شہر ہے جو وفاق کو 70 فیصد اور سندھ کو 90 فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اسلام آباد میں ہائیکورٹ اور اسلام آباد پولیس کا آئی جی ہے مگر دوکروڑ کی آبادی والا شہر کمشنر کی سطح کی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے۔

اس شہر کے سیاسی اور سماجی حلقے اکثر و بیشتر اسے ایڈمنسٹریٹیو یونٹ اور خصوصی این ایف سی مالیاتی ایوارڈ دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں مہاجرین کی کثیر تعداد آباد ہوئی جنھوں نے اس شہر اور ملک کی ترقی و استحکام میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا لیکن ماضی قریب میں دیگر سیاسی و سماجی ظلم و ناانصافیوں کے علاوہ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس قوم کو گمراہ کرتے ہوئے انھیں اپنی تہذیب و تمدن، علم و ادب، ثقافت و اقدار، فہم و فراست اور فکر و آگہی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دور کیا گیا جوکہ ایک تہذیب یافتہ قوم اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کے لیے اعلیٰ ترین افکار تھے۔

جن کی وجہ سے عروس البلاد اور روشنی کا شہر کہلانے والے اس شہر کی چمک ماند پڑتی گئی اور تیزی سے رو بہ زوال ہوا۔ شہری نمائندہ اور حکومت سندھ کی عدم توجہ، بداعمالیوں اور استحصالی رویے کی وجہ سے آج یہ شہر داستان عبرت بنا ہوا ہے جو لوگ اس شہر کو دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے اس پر فخر کرتے تھے وہ آج اس پر ترس کھاتے ہیں یہاں آنے میں خطرہ اور عدم تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ آج 9 سال بعد بڑی تگ و دو اور جانفشانی کے بعد PSL فائنل کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو آدھے شہر کو سیکیورٹی کے نام پر درہم برہم کرنا پڑا صرف اسٹیڈیم اور اس کے اطراف میں وقتی لیپا پوتی پر اربوں روپے کے اخراجات آئے ہیں باقی شہر کھنڈرات کا سماں پیش کر رہا ہے۔

کہیں اڑتی ریت و گڑھوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے تو کہیں گٹروں کے پانی کے تالابوں کا سلسلہ ہے پینے کا پانی مفقود ہے۔ ٹینکر مافیا کا راج ہے بجلی ناپید ہے جنریٹروں کا شور اور دھواں ماحولیات کو چیلنج کر رہا ہے ان کی درآمدات اور پٹرول پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے۔ تعلیم، صحت و انصاف کے بنیادی اداروں کی حالت اور کارکردگی بھی محتاج بیان نہیں ہے۔ ہر شخص و ادارہ عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار اور اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہے۔ اب چیف جسٹس نے بھی کراچی کے کچرے کو ایک ہفتے کے اندر ٹھکانے لگانے کے احکامات صادر فرمائے ہیں اس کا بھی کوئی نتیجہ نکلنے کے امکانات نظر نہیں آئے۔ کیونکہ عشروں پر محیط شہری مسائل اور کچروں کے ڈھیروں کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی اور جنگی نوعیت کے اقدامات، اضافی مشنری اور عملہ اور خطیر بجٹ اور خلوص نیت کی ضرورت ہے۔ جس میں کراچی کی شہری حکومت، نمایندے اور حکومت سندھ بری طرح ناکام ہے جو اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کو ایک دوسرے کے کاندھوں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دے رہے ہیں۔

کراچی شہرکا ہمدرد، مسیحا اور وارث ہونے کا دعویٰ تو ہر کوئی بڑھ چڑھ کر کرتا ہے لیکن اس کو گود لینے کے لیے کوئی تیار نہیں صرف بیانات داغنے پوائنٹ اسکورنگ اور مفادات حاصل کرنے کی جنگ جاری ہے۔ مرے پر سو درے کے مترادف مسائل میں گھرے اس شہر کے باسیوں پر مزید ظلم و زیادتی اور امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ حال ہی میں حکومت سندھ نے Sindh Sale Tax on Services (Ammended) Bill 2018 کے تحت اربن ایریاز میں کرائے کی جائیداد پر 3 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے جو پہلے ہی حکومت سندھ کو ٹیکسز کی مد میں 90 فیصد سے زائد ادا کر رہے ہیں اور جائیداد کی خرید و فروخت پر بھی 5 قسم کے ٹیکسز ادا کر رہے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف اس امتیازی بل میں ٹیکس وصولی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنانے کے لیے اس ٹیکس کا اطلاق مالکان کے بجائے کرایہ داروں پر کیا گیا ہے۔ حکومت کی ذمے داری تو شہریوں کو رہائش فراہم کرنا ہوتی ہے۔ خود پی پی پی حکومت کا نعرہ بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا ہے پھر مکان سے محروم غریب کرایہ دار سے کرایہ پر ٹیکس کی وصولی کیا آئین اور خود پی پی پی کے منشورکی کھلی خلاف ورزی اور ظلم نہیں ہے؟ اس کا اطلاق بھی Retrespective یعنی 2015ء سے کیا گیا ہے البتہ ہوسٹل اور بورڈنگ ہاؤس کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

حکومت سندھ نے ایک اور ترمیمی بل Sindh Universities of Institution Law (Ammended) Bill 2018 کے تحت جامعات کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اپوزیشن کی شدید مخالفت مسودہ کی کاپیاں پھاڑ دینے، واک آؤٹ کر جانے اور کورم پورا نہ ہونے کے باوجود یہ بل پاس کرالیا گیا۔ جو حکومت اسکولوں کے تعلیمی معاملات، تعطیلات، امتحانات تک صحیح طور پر نہیں چلا سکتی ہے، جس کی بھرتیوں، تعیناتیوں اور ترقیوں اور تنزلیوں کے خلاف ہزاروں مقدمات عدالتوں میں موجود ہوں۔ خود اس کی اپنی کمیٹیاں محکمہ تعلیم میں کرپشن و بداعمالیوں کی رپورٹیں پیش کر رہی ہوں مرتکب حکام اعتراف جرم بھی کر رہے ہوں۔ تعلیمی امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے یورپی یونین اور ورلڈ بینک ان پر اعتراضات کرتے اور فنڈز روکنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہوں اس سے یونیورسٹیز کے معاملات میں کسی مثبت و اچھی کارکردگی کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟ جب کہ مسلمہ اصول ہے کہ دنیا بھر میں جامعات اپنی پالیسیوں کا تعین خود کرتی ہیں لیکن اس ترمیم کے ذریعے اس کا اختیار حکومت سندھ کو دے دیا گیا ہے۔

وائس چانسلرکی تقرری کے سلسلے میں پروفیسر کے ساتھ ایڈمنسٹریٹر کا اضافہ کرکے غیر اکیڈمک، سیاسی اور من پسند افراد کے لیے راستہ ہموار کردیا گیا ہے۔ وی سی کو عہدے سے فارغ کرنے کا اختیار وزیر اعلیٰ کو دے کر خوش آمد، دباؤ اور مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی تقرریوں کا اختیار براہ راست حکومت سندھ کو دینے سے سندھ کی جامعات کا حال بھی سندھ کے سرکاری اسکولوں جیسا ہوجائے گا۔

اس ترمیمی بل پر اساتذہ اور طلبا سراپا احتجاج ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے جامعات کی خود مختار حیثیت کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے، جامعات کی خود مختاری کا خاتمہ دراصل تعلیم وتحقیق اور اظہار رائے پر قدغن لگانا ہے، جامعات کے مقتدر سینڈیکٹ اور دیگر اداروں کو حکومت کے تابع کرنے اور ان کے من پسند فیصلوں کو مسلط کرنے کی سازش ہے۔ یونیورسٹی اساتذہ کے وفد سے ملاقات میں جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمن نے بل کو تعلیم دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تعلیم کا رہا سہا معیار بھی ختم ہو جائے گا سندھ اسمبلی میں وڈیروں کی جانب سے اکثریت کی بنیاد پر یہ فیصلہ سندھ میں میرٹ و صلاحیت کے قتل کے مترادف اور تعلیم میں وڈیرہ شاہی لانے کی کوشش ہے۔ بل کا اصل مقصد جامعات کے وسائل اراضی اور تعلیمی نظام اور داخلوں، اساتذہ اور عملے کی تقرریوں پر قبضہ کرنا ہے۔

کراچی پاکستان کی شہ رگ اور معاشی ہب ہے جس کے شہری گوناگوں مسائل کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں، ان کے مسائل و مشکلات کو کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔ پاکستان کی بقا و سلامتی، فلاح و بہبود، ترقی و خوشحالی اور عظیم تر پاکستان کے تصور کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مخالفت کو دشمنی بنائے اور پوائنٹ اسکورننگ کی سیاست اورگروہی و سیاسی مفادات کے حصول کے بجائے فہم و فراست، احساس و ادراک، اور عزم و ہمت کو بروئے کار لاتے ہوئے بر بنائے معنوی وعملی بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے حکمران، سیاستدان، دانشور اور اکابرین، اپنی جدوجہد اور اعلیٰ ترین حب الوطنی کا کردار ادا کریں ورنہ جلد یا بدیر تباہی و بربادی سب کا مقدر بنے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں