ڈیرہ اسماعیل خان NA24 پیپلز پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم
اس حلقہ سے پشتو فلموں کی ماضی کی معروف اداکارہ مسرت شاہین نے مولانا فضل الرحمان کے مخالف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا پورا ضلع قومی اسمبلی کی ایک اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی پانچ نشستوں پر مشتمل ہے جوووٹروں کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا حلقہ ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی کل آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے جبکہ یہاں ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے 2002ء کے الیکشن سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک این اے 18 پر مشتمل تھے تاہم 2002ء کے الیکشن میں پورے ملک میں نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اور حلقے بڑھ گئے اور ڈیرہ اسماعیل خان این اے 24 اور ٹانک کو این اے 25 میں تقسیم کر دیا گیا۔
ڈیرہ روائتی طور پر جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان کا حلقہ تصور کیا جاتا ہے 1985 ء سے 2008 ء کے درمیان ملک میں سات الیکشن ہوئے جن میں مولانا فضل الرحمان تین بار کامیاب ہوئے اور تین بارہی انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ گیارہ مئی کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 24 سے 40 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کے ریحان ملک ایڈووکیٹ'پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی'پاکستان تحریک انصاف کے مصطفی خان کنڈی'جماعت اسلامی کے زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ'اور تحریک مساوات کی چیئرپرسن ونامور اداکارہ مسرت شاہین کے علاوہ آزاد حیثیت سے پی پی پی کے سینیٹر وقار احمد بھی اسے حلقہ سے زور آزمائی کاارادہ رکھتے ہیں۔ این اے 24 پر بظاہر مولانا فضل الرحمان کی سیاسی پوزیشن انتہائی مستحکم نظر آرہی ہے اور اس کی وجہ پانچ صوبائی اسمبلیوں میں جے یو آئی کی مقامی دھڑوں سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہے۔
حلقہ پی کے 64 پر پی پی پی کے مظہر جمیل علیزئی'انجینئر امان الحق غزنی خیل، جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمان'آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرانے والے قیوم حسام'نوابزادہ ایزدنواز خان'مسلم لیگ ن کے قیضاد خان میاں خیل'خادم حسین سمیت 51 امیدواروں میںمقابلہ ہے تاہم مظہر جمیل علیزئی'انجینئرامان الحق غزنی خیل'قیوم حسام نوابزادہ ایزدنواز خان'قیضاد خان میاں خیل کاسخت مقابلہ مولانا لطف الرحمان سے ہے۔
حلقہ پی کے 65 پر بھی پی پی پی کے باغی سابق صوبائی وزیر سمیع اللہ علیزئی جن کا الحاق اب جمعیت علماء اسلام سے ہوچکاہے کا مقابلہ سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے چھوٹے بھائی احمد کریم کنڈی سمیت 29 امیدواروں سے ہے تاہم سب سے مضبوط امیدوار سمیع اللہ علیزئی کو تصور کیا جا رہا ہے۔
حلقہ پی کے 66 پر جمعیت علماء اسلام کے مولانا لطف الرحمان اور مسلم لیگ ن کے ثناء اللہ میاں خیل کے مابین سخت مقابلہ ہو گا تاہم کل امیدوار 20 ہیں مولانا لطف الرحمان کی سیاسی پوزیشن سب سے زیادہ مضبوط تصور کی جارہی ہے۔
حلقہ پی کے 67 پر جمعیت علماء اسلام کے الحاق شدہ آزاد امیدورا سردار اسرار اللہ گنڈہ پور کا ن لیگ کے فتح اللہ میاں خیل سے کانٹے دارمقابلہ ہو گا جبکہ اس حلقہ میں تیرہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں۔
حلقہ پی کے 68 پر کل 24 امیدواروں نے اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں مگر کاٹنے دار مقابلہ اے این پی کے مخدوم مرید کاظم اور جے یو آئی کے الحاق شدہ امیدوار جاوید اکبر خان سے ہو گا۔این اے 24 پر مولانا فضل الرحمان کی عددی حیثیت سابقہ ادوار میں بھی دیگر امیدواروں سے بہتر رہی ہے مگر صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بہتر انداز میں بیش بندی نہ کرنے پر ان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے زیر نگرانی 1985 کے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام نے ایم آر ڈی کا حصہ ہونے کے باعث الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے باعث غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کے موجودہ ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی المعروف لٹن خان کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان 1988ء سے اس حلقہ سے نبرد آزما ہیں۔ 1988ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمان نے سابقہ ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی المعروف لٹن خان کو ہرایا۔ 1993ء میں مولانا فضل الرحمان ان سے ہار گئے۔
1997ء میں ن لیگ کے عمر فاروق میاں خیل نے مولانا فضل الرحمان کو شکست دی 2002ء میں مولانا فضل الرحمان نے فیصل کریم کنڈی کو ہرا دیا مگر 2008ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمان خود فیصل کریم کنڈی سے شکست کھا گئے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پانچ نشستیں ہیں جس پر اکثر جمعیت علماء اسلام، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔2008ء کے الیکشن میں پی کے 64 ڈیرہ سٹی ون سے خلیفہ عبدالقیوم جنہیں حال ہی میں جعلی ڈگری کیس میں قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ہے، کامیاب ہوئے تھے۔
پی کے 65ڈیرہ سٹی ٹو سے' پیپلزپارٹی کے سمیع اللہ علیزئی کامیاب ٹھہرے تھے لیکن اگلے عام انتخابات میں وہ جے یو آئی کے حامی بن کر میدان میں آئے ہیں ۔پی کے 66 پر ق لیگ کے ثناء اللہ میاں خیل، پی کے 67 کلاچی سے پیپلز پارٹی شیرپائو جو اب قومی وطن پارٹی میں تبدیل ہو گئی ہے کے امیدوار اسرار اللہ گنڈہ پور ، پی کے 68 پہاڑ پور سے سابق صوبائی وزیر سید مرید کاظم نے کامیابی حاصل کی تھی۔
اس بار مولانا فضل الرحمان کا عوامی حلقوں میں گراف اوپر جا رہا ہے جبکہ اقتدار میں ہونے اور معاملہ فہم نہ ہونے کی وجہ سے فیصل کریم کنڈی کو انتہائی دشواری کا سامنا ہے۔ لین دین اور چہل پہل کی وجہ سے پی پی پی دو واضح دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک دھڑا مالدار امیر ترین سینیٹر وقار احمد کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا دھڑا فیصل کریم کنڈی کا ہمنوا ہے۔
اس حلقہ سے پشتو فلموں کی ماضی کی معروف اداکارہ مسرت شاہین نے مولانا فضل الرحمان کے مخالف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 2002ء میں بھی مسرت شاہین اپنا شوق پورا کر چکی ہیں۔ اس مرتبہ مسرت شاہین نے خصوصی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں بسیرا کر لیا ہے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران سورۃ کوثر اور آیۃ الکرسی سنا کر ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں ان کے جاری کردہ بیانات کے مطابق وہ کبھی بھی مولانا فضل الرحمان کیخلاف الیکشن نہیں لڑتی بلکہ مولانا فضل الرحمان ان کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔
وہ ہمارے عالم ہیں اور میں ان کی قدر کرتی ہوں۔مسرت شاہین کا آبائی شہر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی فلموں میں حصہ لیا اور پشتو فلموں کی ایکٹریس کے طور پر بے پناہ شہرت ملی اور رہی سہی کسر انہوں نے موقع بہ موقع میڈیا میں مولانا فضل الرحمان کے خلاف بیان دیکرپوری کر لی اور اب دوسری دفعہ مولانا فضل الرحمان کے حلقہ سے ان کے خلاف الیکشن لڑنا ان کی شہرت میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔
انہوں نے پشتو فلموں سے تقریباً 15 سال قبل کنارہ کشی اختیار کی اور گمنامی کی زندگی پشاور، اسلام آباد میں گزار رہی تھیں مگر اب دوبارہ ڈیرہ آکر خصوصاً مولانا فضل الرحمان کو ٹارگٹ بنانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مسرت شاہین کی عمر 55 سال سے بھی زائد ہے اور ان کے بقول وہ شہرت نہیں چاہتی بلکہ خدمت خلق پر یقین رکھتی ہیں۔
بعض حلقوں کے مطابق مسرت شاہین کی ساری زندگی پشتو فلموں میں گزری ہے اور یہ ہتھکنڈے سستی شہرست حاصل کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں بہرحال مولانا فضل الرحمان جیسے سنجیدہ سیاستدان تو ایسی باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں تاہم اس وقت سخت ترین مقابلہ مولانا فضل الرحمان کا فیصل کنڈی اور سینیٹر وقار احمد سے اگر دونوں امیدوار مولانا فضل الرحمان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں تو وہ باآسانی جیت سکتے ہیں۔ اگر سینیٹر وقار احمد کا مقابلہ مولانا فضل الرحمان سے ہوتا ہے تو مولانا فضل الرحمان کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی کل آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے جبکہ یہاں ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے 2002ء کے الیکشن سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک این اے 18 پر مشتمل تھے تاہم 2002ء کے الیکشن میں پورے ملک میں نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اور حلقے بڑھ گئے اور ڈیرہ اسماعیل خان این اے 24 اور ٹانک کو این اے 25 میں تقسیم کر دیا گیا۔
ڈیرہ روائتی طور پر جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان کا حلقہ تصور کیا جاتا ہے 1985 ء سے 2008 ء کے درمیان ملک میں سات الیکشن ہوئے جن میں مولانا فضل الرحمان تین بار کامیاب ہوئے اور تین بارہی انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ گیارہ مئی کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 24 سے 40 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن کے ریحان ملک ایڈووکیٹ'پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی'پاکستان تحریک انصاف کے مصطفی خان کنڈی'جماعت اسلامی کے زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ'اور تحریک مساوات کی چیئرپرسن ونامور اداکارہ مسرت شاہین کے علاوہ آزاد حیثیت سے پی پی پی کے سینیٹر وقار احمد بھی اسے حلقہ سے زور آزمائی کاارادہ رکھتے ہیں۔ این اے 24 پر بظاہر مولانا فضل الرحمان کی سیاسی پوزیشن انتہائی مستحکم نظر آرہی ہے اور اس کی وجہ پانچ صوبائی اسمبلیوں میں جے یو آئی کی مقامی دھڑوں سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہے۔
حلقہ پی کے 64 پر پی پی پی کے مظہر جمیل علیزئی'انجینئر امان الحق غزنی خیل، جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمان'آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرانے والے قیوم حسام'نوابزادہ ایزدنواز خان'مسلم لیگ ن کے قیضاد خان میاں خیل'خادم حسین سمیت 51 امیدواروں میںمقابلہ ہے تاہم مظہر جمیل علیزئی'انجینئرامان الحق غزنی خیل'قیوم حسام نوابزادہ ایزدنواز خان'قیضاد خان میاں خیل کاسخت مقابلہ مولانا لطف الرحمان سے ہے۔
حلقہ پی کے 65 پر بھی پی پی پی کے باغی سابق صوبائی وزیر سمیع اللہ علیزئی جن کا الحاق اب جمعیت علماء اسلام سے ہوچکاہے کا مقابلہ سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے چھوٹے بھائی احمد کریم کنڈی سمیت 29 امیدواروں سے ہے تاہم سب سے مضبوط امیدوار سمیع اللہ علیزئی کو تصور کیا جا رہا ہے۔
حلقہ پی کے 66 پر جمعیت علماء اسلام کے مولانا لطف الرحمان اور مسلم لیگ ن کے ثناء اللہ میاں خیل کے مابین سخت مقابلہ ہو گا تاہم کل امیدوار 20 ہیں مولانا لطف الرحمان کی سیاسی پوزیشن سب سے زیادہ مضبوط تصور کی جارہی ہے۔
حلقہ پی کے 67 پر جمعیت علماء اسلام کے الحاق شدہ آزاد امیدورا سردار اسرار اللہ گنڈہ پور کا ن لیگ کے فتح اللہ میاں خیل سے کانٹے دارمقابلہ ہو گا جبکہ اس حلقہ میں تیرہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں۔
حلقہ پی کے 68 پر کل 24 امیدواروں نے اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں مگر کاٹنے دار مقابلہ اے این پی کے مخدوم مرید کاظم اور جے یو آئی کے الحاق شدہ امیدوار جاوید اکبر خان سے ہو گا۔این اے 24 پر مولانا فضل الرحمان کی عددی حیثیت سابقہ ادوار میں بھی دیگر امیدواروں سے بہتر رہی ہے مگر صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بہتر انداز میں بیش بندی نہ کرنے پر ان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے زیر نگرانی 1985 کے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام نے ایم آر ڈی کا حصہ ہونے کے باعث الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے باعث غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کے موجودہ ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی المعروف لٹن خان کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان 1988ء سے اس حلقہ سے نبرد آزما ہیں۔ 1988ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمان نے سابقہ ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی المعروف لٹن خان کو ہرایا۔ 1993ء میں مولانا فضل الرحمان ان سے ہار گئے۔
1997ء میں ن لیگ کے عمر فاروق میاں خیل نے مولانا فضل الرحمان کو شکست دی 2002ء میں مولانا فضل الرحمان نے فیصل کریم کنڈی کو ہرا دیا مگر 2008ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمان خود فیصل کریم کنڈی سے شکست کھا گئے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پانچ نشستیں ہیں جس پر اکثر جمعیت علماء اسلام، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔2008ء کے الیکشن میں پی کے 64 ڈیرہ سٹی ون سے خلیفہ عبدالقیوم جنہیں حال ہی میں جعلی ڈگری کیس میں قید اور جرمانے کی سزا ہوئی ہے، کامیاب ہوئے تھے۔
پی کے 65ڈیرہ سٹی ٹو سے' پیپلزپارٹی کے سمیع اللہ علیزئی کامیاب ٹھہرے تھے لیکن اگلے عام انتخابات میں وہ جے یو آئی کے حامی بن کر میدان میں آئے ہیں ۔پی کے 66 پر ق لیگ کے ثناء اللہ میاں خیل، پی کے 67 کلاچی سے پیپلز پارٹی شیرپائو جو اب قومی وطن پارٹی میں تبدیل ہو گئی ہے کے امیدوار اسرار اللہ گنڈہ پور ، پی کے 68 پہاڑ پور سے سابق صوبائی وزیر سید مرید کاظم نے کامیابی حاصل کی تھی۔
اس بار مولانا فضل الرحمان کا عوامی حلقوں میں گراف اوپر جا رہا ہے جبکہ اقتدار میں ہونے اور معاملہ فہم نہ ہونے کی وجہ سے فیصل کریم کنڈی کو انتہائی دشواری کا سامنا ہے۔ لین دین اور چہل پہل کی وجہ سے پی پی پی دو واضح دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک دھڑا مالدار امیر ترین سینیٹر وقار احمد کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا دھڑا فیصل کریم کنڈی کا ہمنوا ہے۔
اس حلقہ سے پشتو فلموں کی ماضی کی معروف اداکارہ مسرت شاہین نے مولانا فضل الرحمان کے مخالف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 2002ء میں بھی مسرت شاہین اپنا شوق پورا کر چکی ہیں۔ اس مرتبہ مسرت شاہین نے خصوصی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں بسیرا کر لیا ہے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران سورۃ کوثر اور آیۃ الکرسی سنا کر ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں ان کے جاری کردہ بیانات کے مطابق وہ کبھی بھی مولانا فضل الرحمان کیخلاف الیکشن نہیں لڑتی بلکہ مولانا فضل الرحمان ان کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔
وہ ہمارے عالم ہیں اور میں ان کی قدر کرتی ہوں۔مسرت شاہین کا آبائی شہر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی فلموں میں حصہ لیا اور پشتو فلموں کی ایکٹریس کے طور پر بے پناہ شہرت ملی اور رہی سہی کسر انہوں نے موقع بہ موقع میڈیا میں مولانا فضل الرحمان کے خلاف بیان دیکرپوری کر لی اور اب دوسری دفعہ مولانا فضل الرحمان کے حلقہ سے ان کے خلاف الیکشن لڑنا ان کی شہرت میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔
انہوں نے پشتو فلموں سے تقریباً 15 سال قبل کنارہ کشی اختیار کی اور گمنامی کی زندگی پشاور، اسلام آباد میں گزار رہی تھیں مگر اب دوبارہ ڈیرہ آکر خصوصاً مولانا فضل الرحمان کو ٹارگٹ بنانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مسرت شاہین کی عمر 55 سال سے بھی زائد ہے اور ان کے بقول وہ شہرت نہیں چاہتی بلکہ خدمت خلق پر یقین رکھتی ہیں۔
بعض حلقوں کے مطابق مسرت شاہین کی ساری زندگی پشتو فلموں میں گزری ہے اور یہ ہتھکنڈے سستی شہرست حاصل کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں بہرحال مولانا فضل الرحمان جیسے سنجیدہ سیاستدان تو ایسی باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں تاہم اس وقت سخت ترین مقابلہ مولانا فضل الرحمان کا فیصل کنڈی اور سینیٹر وقار احمد سے اگر دونوں امیدوار مولانا فضل الرحمان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں تو وہ باآسانی جیت سکتے ہیں۔ اگر سینیٹر وقار احمد کا مقابلہ مولانا فضل الرحمان سے ہوتا ہے تو مولانا فضل الرحمان کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔