عام انتخابات اور سازگار ماحول

بعض امیدواروں سے بیویوں کی تعداد پوچھنے کے سوالات نے مضحکہ خیز صورتحال پیدا کر دی۔


Editorial April 08, 2013
عام انتخابات کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت ریٹرننگ افسروں کے بعض سوالات پر سیاسی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI: صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاؤس کراچی میں گورنر' نگراں وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کے دوران کہا کہ ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کا رویہ غیرمناسب ہے۔

امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر ریٹرننگ افسروں کی جانب سے کیے گئے بعض سوالات پر سیاسی حلقوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسر غیر ضروری اور غیر متعلقہ سوالات کر کے امیدواروں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔

عام انتخابات کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت ریٹرننگ افسروں کے بعض سوالات پر سیاسی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 5 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت عالیہ نے پنجاب بھر کے ریٹرننگ افسروں کو امیدواروں سے غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ریٹرننگ افسر امیدواروں سے اسلامی شعائر اور نجی زندگی سے متعلق سوال نہیں کر سکیں گے۔ وہ امیدوار کی طرف سے کاغذات نامزدگی میں دی گئی معلومات' نیب' ایف بی آر' اسٹیٹ بینک اور نادرا کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق سوالات کر سکتے ہیں۔

بعض امیدواروں سے بیویوں کی تعداد پوچھنے کے سوالات نے مضحکہ خیز صورتحال پیدا کر دی۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بھی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریٹرننگ افسر عدلیہ کے نمایندے ہیں۔ ان کی ایک غلطی سے عدلیہ جیسے عظیم ادارے کی بدنامی ہو سکتی ہے اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی آئینی ذمے داری انتہائی محتاط انداز میں نبھائیں تاکہ عوامی اعتماد بحال رہے۔

لاہورہائیکورٹ نے ریٹرننگ افسروںکوامیدواروںسے غیر ضروری سوالات پوچھنے سے روک کر صائب فیصلہ کیا ۔ ریٹرننگ افسروں کا کام انتخابات کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے جس کی جانب چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اس وقت نگراں حکومتوں کی سب سے بڑی ذمے داری ملک میں عام انتخابات کے عمل کو شفاف ، غیر جانبدار اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا انتخابی عمل کی راہ میں رکاوٹ بننے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔

اسی تناظر میں وہاں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کیا جا رہا ہے جس کے دوران متعدد افراد گرفتار اور بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے۔ کراچی میں امن کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف وسیع پیمانے پر بلاامتیاز آپریشن کیا جائے۔ صوبوں میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنا نگراں حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ صدر مملکت نے بھی اس جانب توجہ دلاتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ نگراں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں سیکیورٹی اور دیگر متعلقہ اداروں سے مل کر مربوط سیکیورٹی پلان تشکیل دیں اور انتخابات کے موقع پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائیں۔

بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کی وارداتوں نے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ دہشت گرد سیکیورٹی اداروں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے ملکی نظام کو تباہ کرنے کے لیے اب توانائی کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے خیبر پختون خوا میں گرڈ اسٹیشن کو نشانہ بنا کر عوامی مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ اب انھوں نے اوچ پاور ہاؤس جانے والی گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی ہے جس کے باعث اوچ پاور ہاؤس سے 525 میگاواٹ بجلی کی فراہمی بند ہو گئی ہے جب کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ سے بھی بڑھ گیا ہے۔

دہشت گردی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال نگراں حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اگر دہشت گردوں نے اسی طرح توانائی اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تو ملک جو پہلے ہی توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے مزید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ توانائی کی تنصیبات کے قیام پر ایک طویل عرصہ لگتا اور بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے تمام اہم قومی تنصیبات کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اداوں کو جامع پلان تیار کرنا ہو گا۔

روایتی تساہل اور غفلت سے بہت بڑا قومی نقصان ہو سکتا ہے خاص طور پر جب انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں تو ایسی صورت میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں تیز کر کے حکومتی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ عوامی مدد کے بغیر کوئی بھی حکومت قومی پالیسیوں کو کامیابی کی منزل پر نہیں پہنچا سکتی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کریں اور نگراں حکومت کی جانب اپنا دست تعاون بڑھائیں کیونکہ انتخابی عمل میں سیاسی جماعتوں ہی نے شریک ہونا ہے۔

اگر دہشت گرد ان کے قائدین یا امیدواروں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں تو اس سے سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔ سندھ پولیس میں مزید بھرتیوں سے امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف مزید بھرتیوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، پولیس کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے علاوہ انٹیلی جنس کا نظام گراس روٹ لیول پر منظم کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کے سرپرست خواہ وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ان کو قانون کے شکنجے میں لانا ہو گا۔ جب تک دہشت گردوں کے سرپرست آزاد ہیں چند ایک مجرموں کو پکڑنے سے معاملات درست نہ ہوں گے۔

مجرموں کے پاس اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے اور ان کی مالی معاونت کون کر رہا ہے ان تمام راستوں کو مسدود کرنا ہو گا۔ موجودہ صورت حال میں جابجا کھلی اسلحے کی دکانیں بھی دہشت گردوں کی معاون بن چکی ہیں۔عوام کو اسلحے کے لائسنس کی فراہمی فوری طور پر بند کی جانی چاہیے،عوام کے پاس ہتھیاروں کا کیا کام۔یہاں صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ اور راکٹ لانچر تک موجود ہیں۔ جب تک پورے ملک کو اسلحے سے پاک نہیں کیا جاتا' دہشت گردوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ انتخابات کا پرامن انعقاد نہایت ضروری ہے کیونکہ انتخابی عمل کے نتائج ہی سے ملک کی قسمت اور اس کے نظام کی روانی کا فیصلہ ہونا ہے۔ امید ہے کہ حکومت جرائم پیشہ عناصر اور دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے مربوط سیکیورٹی پلان تشکیل دیتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں