نیٹوو افغان فورسز کی بہیمانہ کارروائی
شگال کے سیکیورٹی کمانڈرسیدرحمان کے مطابق مرنیوالوں میں 10بچے اورایک خاتون شامل ہیں۔
افغانستان کے مشرقی علاقے میں نیٹواورافغان فورسزکے مشترکہ فضائی حملے میں 10افغان بچے اور اور8 طالبان مارے گئے ۔ یہ سانحہ پاکستانی سرحدکے قریب صوبہ کنڑکے ضلع شگال میں ہفتہ کورات گئے بچوں کو نشانہ بناتے ہوئے پیش آیا ، کرزئی نے شدید احتجاج کیا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ آپریشن میں شریک ایک افغان اہلکار نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ نیٹوکوکیا پتہ نہیں تھا کہ جہاںوہ بمباری کررہے ہیں وہاں گھروں میں خواتین اوربچے موجودہیں، چنانچہ اس حملے کے خلاف افغان صدراورعوام میںبہت زیادہ غم وغصہ پایا جاتا ہے، نیٹو کی طرف سے یہ بہیمانہ کارروائی سلالہ چیک پوسٹ طرز کی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، امریکا اور نیٹو فورسز اگر علاقے سے نکلنے کا کوئی پروگرام رکھتی ہیں تو وہ امن اور خطے میںکشیدگی کے خاتمے پر توجہ دیں، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ نیٹو فورسز کمانڈر اپنے کسی ظالمانہ اقدام اور حملہ کو تسلیم کرتے ہوئے معذرت کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہوتے۔
شگال کے سیکیورٹی کمانڈرسیدرحمان کے مطابق مرنیوالوں میں 10بچے اورایک خاتون شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس وحشیانہ حملہ پر امریکا سمیت نیٹو فورسز کے حکام کو آن لائن لینا چاہیے اور بیگناہ کمسن بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں کا فوری نوٹس ہوئے عالمی برادری کو خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ادھر زابل میں نیٹو قافلہ پر کار بم حملہ میں ایک سفارتکار کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سفارتکار کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے۔ بلا شبہ ہلاکتوں کے حوالے سے یہی عمومی اپیل کی جاسکتی ہے کہ خطے کو انسانی شکار گاہ نہ بنایا جائے ۔
یوں بھی کئی حوالوں سے پاک افغان سرحدی علاقہ میں غیر ملکی فورسز کے جارحانہ اور ٹارگٹڈ فضائی حملوں کا مقصد خطے میں بالادستی اور طالبان کو سرنڈر کرانا ہے جب کہ انھیں انخلا سے پہلے ''محفوظ راستے'' تلاش کرنے چاہئیں۔ گزشتہ روز پاک افغان طورخم سرحد کشیدگی کے باعث ایک گھنٹے تک ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند رہی،افغان حکام کی معذرت اور یقین دہانی کے بعد پاکستانی حکام نے طورخم سرحد کھول دی۔ سرکاری حکام کے مطابق اتوار کوپاکستانی حکام نے احتجاج کے طور پر طورخم بارڈرکو ایک گھنٹے تک ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے نیٹو سپلائی سمیت پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت 2 طرفہ تجارت بھی بند رہی۔اس سرحد پر بھی ہمیشہ دو طرفہ تصادم،کشیدگی اور پاکستانی مزدوروں کے سفری دستاویزات پھاڑ کر پھینکنے اور لڑائی کو ہوا دینے کے اکثر واقعات ریکارڈ پر ہیں ۔
پاکستانی ونگ کمانڈر کرنل مشتاق نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز معمول کے مطابق سرحد پر افغان شہریوں کی سفری دستاویزات چیک کر رہی تھیں کہ اس دوران ایک افغان شہری نے سیکیورٹی اہلکار سے تلخ کلامی کی اور افغان بارڈر فورس کے اہلکار نے پاکستانی اہلکار پر رائفل تان لی اور اپنے شہری کی حمایت میں جارحیت کی جس کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی الرٹ ہوگئیں اور بارڈر کو احتجاج کے طور پر بند کردیا۔اس دوران دونوں جانب فورسز ہائی الرٹ ہوگئیں اور حالات ایک گھنٹے تک کشیدہ رہے تا ہم افغان کمشنر نثار نے طورخم میں پاکستانی حکام سے اس واقعے پر معذرت کرلی۔
جس کے بعد حکام نے سرحد کو آمدورفت کے لیے کھول دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقے میں صورتحال نارمل بنائی جائے ۔افغان حکام رویے تبدیل کریں۔ حکام کے لیے یہ رپورٹ قابل غور ہے کہ علاقے کے عوام جاری اس جنگ، ڈرون حملوں اور کشیدگی سے نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم ہے حالانکہ امید تو یہ تھی کہ پاک افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کے بعد حالات نارمل ہوجائیں گے ، ایسا نہ ہوسکا۔جنوری 2009میں قبائلی علاقہ جات کے 9دوست اپنے رشتے داروں کے ہمراہ امریکی ڈرون حملوں میں جاں بحق ہوگئے تھے۔
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے کئی گھرانے ہیں جن کے پیارے طور خم سمیت قبائلی علاقوں کے طول و عرض میں جنگی تباہ کاریوں کی نذر ہوچکے ہیں ، اور زیادہ تر خواتین اور بچے گولیوں اور میزائلوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ لندن کے ایک ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2004 سے اب تک ڈرون حملوں میں197بچوں اور 884 عام شہریوں سمیت3581 افراد جاںبحق ہوئے۔عالمی برادری جواب دے کہ ان ہلاکتوں کا ازالہ کس طرح ممکن ہے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ آپریشن میں شریک ایک افغان اہلکار نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ نیٹوکوکیا پتہ نہیں تھا کہ جہاںوہ بمباری کررہے ہیں وہاں گھروں میں خواتین اوربچے موجودہیں، چنانچہ اس حملے کے خلاف افغان صدراورعوام میںبہت زیادہ غم وغصہ پایا جاتا ہے، نیٹو کی طرف سے یہ بہیمانہ کارروائی سلالہ چیک پوسٹ طرز کی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، امریکا اور نیٹو فورسز اگر علاقے سے نکلنے کا کوئی پروگرام رکھتی ہیں تو وہ امن اور خطے میںکشیدگی کے خاتمے پر توجہ دیں، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ نیٹو فورسز کمانڈر اپنے کسی ظالمانہ اقدام اور حملہ کو تسلیم کرتے ہوئے معذرت کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہوتے۔
شگال کے سیکیورٹی کمانڈرسیدرحمان کے مطابق مرنیوالوں میں 10بچے اورایک خاتون شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس وحشیانہ حملہ پر امریکا سمیت نیٹو فورسز کے حکام کو آن لائن لینا چاہیے اور بیگناہ کمسن بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں کا فوری نوٹس ہوئے عالمی برادری کو خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ادھر زابل میں نیٹو قافلہ پر کار بم حملہ میں ایک سفارتکار کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سفارتکار کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے۔ بلا شبہ ہلاکتوں کے حوالے سے یہی عمومی اپیل کی جاسکتی ہے کہ خطے کو انسانی شکار گاہ نہ بنایا جائے ۔
یوں بھی کئی حوالوں سے پاک افغان سرحدی علاقہ میں غیر ملکی فورسز کے جارحانہ اور ٹارگٹڈ فضائی حملوں کا مقصد خطے میں بالادستی اور طالبان کو سرنڈر کرانا ہے جب کہ انھیں انخلا سے پہلے ''محفوظ راستے'' تلاش کرنے چاہئیں۔ گزشتہ روز پاک افغان طورخم سرحد کشیدگی کے باعث ایک گھنٹے تک ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند رہی،افغان حکام کی معذرت اور یقین دہانی کے بعد پاکستانی حکام نے طورخم سرحد کھول دی۔ سرکاری حکام کے مطابق اتوار کوپاکستانی حکام نے احتجاج کے طور پر طورخم بارڈرکو ایک گھنٹے تک ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے نیٹو سپلائی سمیت پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت 2 طرفہ تجارت بھی بند رہی۔اس سرحد پر بھی ہمیشہ دو طرفہ تصادم،کشیدگی اور پاکستانی مزدوروں کے سفری دستاویزات پھاڑ کر پھینکنے اور لڑائی کو ہوا دینے کے اکثر واقعات ریکارڈ پر ہیں ۔
پاکستانی ونگ کمانڈر کرنل مشتاق نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز معمول کے مطابق سرحد پر افغان شہریوں کی سفری دستاویزات چیک کر رہی تھیں کہ اس دوران ایک افغان شہری نے سیکیورٹی اہلکار سے تلخ کلامی کی اور افغان بارڈر فورس کے اہلکار نے پاکستانی اہلکار پر رائفل تان لی اور اپنے شہری کی حمایت میں جارحیت کی جس کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی الرٹ ہوگئیں اور بارڈر کو احتجاج کے طور پر بند کردیا۔اس دوران دونوں جانب فورسز ہائی الرٹ ہوگئیں اور حالات ایک گھنٹے تک کشیدہ رہے تا ہم افغان کمشنر نثار نے طورخم میں پاکستانی حکام سے اس واقعے پر معذرت کرلی۔
جس کے بعد حکام نے سرحد کو آمدورفت کے لیے کھول دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقے میں صورتحال نارمل بنائی جائے ۔افغان حکام رویے تبدیل کریں۔ حکام کے لیے یہ رپورٹ قابل غور ہے کہ علاقے کے عوام جاری اس جنگ، ڈرون حملوں اور کشیدگی سے نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم ہے حالانکہ امید تو یہ تھی کہ پاک افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کے بعد حالات نارمل ہوجائیں گے ، ایسا نہ ہوسکا۔جنوری 2009میں قبائلی علاقہ جات کے 9دوست اپنے رشتے داروں کے ہمراہ امریکی ڈرون حملوں میں جاں بحق ہوگئے تھے۔
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے کئی گھرانے ہیں جن کے پیارے طور خم سمیت قبائلی علاقوں کے طول و عرض میں جنگی تباہ کاریوں کی نذر ہوچکے ہیں ، اور زیادہ تر خواتین اور بچے گولیوں اور میزائلوں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ لندن کے ایک ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2004 سے اب تک ڈرون حملوں میں197بچوں اور 884 عام شہریوں سمیت3581 افراد جاںبحق ہوئے۔عالمی برادری جواب دے کہ ان ہلاکتوں کا ازالہ کس طرح ممکن ہے ۔