ریٹرننگ افسروں کا الیکشن
الیکشن وقت پر کرائے جائیں تو ہر 5 سال بعد اس کا موقع میسر آتا ہے۔
KARACHI:
فخرو بھائی چیف الیکشن کمشنر بنے تو یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا، کھوسو صاحب نگراں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے، اس پر بھی سب حیرت زدہ رہ گئے۔ پھرکاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل شروع ہوا تو حیرتوں کا ایک طوفان آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ریٹرننگ افسروں نے اپنی ''ذہانت'' سے پورے ملک کو ششدر کر دیا۔ اپنے علاقوں میں پھنے خان انتخابی امیدواروں کا واسطہ پہلی بار ایسے افسروں سے پڑا جنہوں نے اچھوتے سوال پوچھ کر انھیں ناک آؤٹ کر دیا۔ افسران پوری تیاری سے آئے تھے اور ان کے حملے بھی اچانک تھے، اس لیے امیدواروں کی اکثریت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
الیکشن وقت پر کرائے جائیں تو ہر 5 سال بعد اس کا موقع میسر آتا ہے۔ متحرک عدلیہ اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں کاغذات نامزدگی کی پہلی جانچ پڑتال تھی جس کے دوران ایسے ایسے شگُوفے پُھوٹے کہ مدتوں یاد رہیں گے۔ ممکن ہے آیندہ الیکشن تک امیدواروں کی تربیت کا کوئی انتظام ہو جائے یا ریٹرننگ افسروں کو مناسب ٹریننگ مل جائے تو صورت حال میں بہتری آئے' اس دفعہ تو دونوں طرف سے کافی مایوسی رہی۔
کسی امیدوار سے دعائے قنُوت سنی گئی، کسی سے کہا گیا وہ کوئی آیت سنائے، کسی سے بیویوں کی تعداد پوچھی گئی، کسی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو الیکشن نہ لڑنے دے ورنہ اس کا گھر برباد ہوجائے گا، بچے رُل جائیں گے۔ ہمارے چیف رپورٹر خالد قیوم کی اسٹوری جس سے پورے ملک میں نئی بحث کا آغاز ہوا، اس میں ریٹرننگ افسروںکی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی جو تفصیل درج تھی، اسے پڑھ کر توشرم محسوس ہوتی ہے۔ ایک یہی سوال دیکھ لیں کہ آپ پنتیس سال کی نہیں لگتیں سب کو اپنا چہرہ دکھائیں۔
حیرت ہے اس طرح کے سوال پوچھنے والے افسر صادق اور امین امیدوار تلاش کر رہے تھے۔ ریٹرننگ افسروں کی ایک بڑی تعداد تو یوں لگتا تھا کہ کاغذات کی پڑتال کے لیے نہیں بلکہ امیدواروں کی بے عزتی کرنے کے لیے تشریف فرما تھی۔یہ بھی تاثر ابھرا کہ جیسے اسلام اور نظریہ پاکستان کے ٹھیکیدار صرف یہی لوگ ہیں اور انھیں ہی اس کی تعبیر و تشریح کا حق حاصل ہے۔
کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ پرویز مُشرف کے دو حلقوں سے کاغذات مسترد ہو گئے جب کہ چترال کے ایک حلقے سے وہ آرٹیکل 63`62 پر پورے اترے اور ریٹرننگ افسر نے انھیں الیکشن لڑنے کے لیے ''فٹ'' قرار دے دیا۔ مُشرف اور ان جیسے دیگر امیدواروں کے مخالفین حوصلہ نہ ہاریں کیونکہ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل افضل خاں نے اعلان کردیا ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی کسی امیدوار کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو امیدوار جیت کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے، ان میں سے کسی کے بارے میں بھی جب پتہ چلے گا کہ وہ نظریہ پاکستان پر ایمان نہیں رکھتا یا اسے کوئی دعا یاد نہیں، اسے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد سیاستدانوں کی حالت منیر نیازی کے اس شعر جیسی ہو گئی ہے ؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
متعدد سیاسی جماعتوں کے امیدوار پہلے مرحلے میں نااہل قرار پائے ہیں۔ یہاں بھی پیپلز پارٹی بازی لے گئی ہے۔ اس کے نااہل ہونے والے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں عدلیہ پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے چکی ہے، دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سپریم کورٹ میں سزا سے بچ گئے تھے مگر ریٹرننگ آفیسر کے امتحان میں فیل ہوگئے۔ ابھی اپیلوں کا مرحلہ باقی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ نا اہل ہونے والے ان امیدواروں میں سے معقول تعداد اہل قرار پائے گی۔ کوئی بھی امیدوار صرف ایک خبر کی مار ہے، اِدھر خبر چلے گی اُدھر اس کا نوٹس لے لیا جائے گا اور پھر قصہ تمام ہو جائے گا۔
امیدواروں کی نا اہلی کا معاملہ اب ٹریبونلز کے سپرد ہوچکا ہے۔ اپیلیں دائر ہوں گی، ان پر فیصلہ آئے گا اور امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس سارے منظر سے پرے ایک اور منظر نامہ بھی تیار ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات ایک ماہ کے لیے مُوخر کر دیے جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف (عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انھیں زیادہ وقت ملے تو پارٹی کی کارکردگی بہتر ہو گی) اور ق لیگ بھی اس مطالبے کی حمایت کرنے والی ہیں جب کہ پیپلزپارٹی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ اس مطالبے کی حمایت کر دی جائے۔
اس مطالبے یا تجویز کو پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ کاغذات نامزدگی اور اپیلوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد امیدواروں کو صرف 22دن انتخابی مہم کے لیے ملیں گے۔ (ن) لیگ کے سوا کوئی پارٹی اس پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ وہ اتنی تھوڑی مدت میں اپنی انتخابی مہم کو کامیابی میں ڈھال سکیں۔ (ن) لیگ البتہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کا ردھم بن چکا ہے اور اسے کامیاب مہم کے لیے اتنا عرصہ کافی ہو گا۔ (ن) لیگ کے سوا دیگر اہم سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے التواء کی حمایت کر دی تو پھر شاید الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا پڑے۔
پیپلز پارٹی نے البتہ اس مطالبے کی حمایت کی تو اس کا یہ اعلان بے معنی ہو جائے گا کہ الیکشن کے انعقاد میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ خیر یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔یہاں معاہدے اور وعدے توڑ دیے جاتے ہیں، ایک اعلان کے خلاف جانا کون سی بڑی بات ہو گی؟
ریٹرننگ افسروں کے حوالے سے صدر زرداری نے بھی اپنے وجود کا احساس دلایا ہے لیکن ان کے کیس میں حرفِ آخر یہی ہے کہ وہ اب بھی مفاہمت کی سیاست پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس موقع پر ان کے لیے بہتر بھی یہی ہو گا کہ وہ کوئی ایکشن لینے سے گریز کریں۔ الیکشن کا انعقاد ''سب'' کے مفاد میں ہے۔ الیکشن وقت پر ہوں یا تھوڑی تاخیر کے ساتھ' نتائج جو بھی نکلیں' کوئی پارٹی دو تہائی اکثریت لے یا ایک بار پھر اتحادی حکومت بنے۔ مستقبل کا نقشہ جو بھی ترتیب پائے' ایک بات طے ہے کہ 2013 کے الیکشن ریٹرننگ افسروں کی تباہ کن پرفارمنس کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔
شاید ان میں سے کچھ لوگ ایوارڈ کے حق دار بھی ٹھہریں۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے بارے میں یہ محض پراپیگنڈا ہے کہ وہ بہت شاطر یا ذہین ہوتے ہیں، ان کی تو ریٹرننگ افسروں نے ہی بولتی بند کر دی، جن پر ریٹرننگ افسر مہربان رہا، وہ خدا کا شکر کرتا ہوا کمرہ عدالت سے باہر نکلا، جسے دعاؤں یا نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر کسدیا گیا، وہ روتا چلاتا ہوا گھر کو چلا گیا۔ قارئین! سیاست دانوں کی اس درگت یا اوقات سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کو ایک ریٹرننگ افسر دو یا تین منٹ کی پوچھ گچھ میں الٹا لٹکا دیتا ہے، وہ طالبان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں پانچ برس تک اسمبلیوں میں بیٹھنے والے قانون سازوں سے یہ پوچھناچاہتا ہوں کہ انھوں نے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسیوں ترامیم تو پاس کرا لیں، کیا انھیں آرٹیکل 62 اور63 میں موجود ابہام کا کوئی پتہ نہیں چلا، اگر انھیں واقعی معلوم نہیں تو پھر نالائقوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے، ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے، درست ہو رہا ہے۔
فخرو بھائی چیف الیکشن کمشنر بنے تو یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا، کھوسو صاحب نگراں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے، اس پر بھی سب حیرت زدہ رہ گئے۔ پھرکاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل شروع ہوا تو حیرتوں کا ایک طوفان آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ریٹرننگ افسروں نے اپنی ''ذہانت'' سے پورے ملک کو ششدر کر دیا۔ اپنے علاقوں میں پھنے خان انتخابی امیدواروں کا واسطہ پہلی بار ایسے افسروں سے پڑا جنہوں نے اچھوتے سوال پوچھ کر انھیں ناک آؤٹ کر دیا۔ افسران پوری تیاری سے آئے تھے اور ان کے حملے بھی اچانک تھے، اس لیے امیدواروں کی اکثریت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
الیکشن وقت پر کرائے جائیں تو ہر 5 سال بعد اس کا موقع میسر آتا ہے۔ متحرک عدلیہ اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں کاغذات نامزدگی کی پہلی جانچ پڑتال تھی جس کے دوران ایسے ایسے شگُوفے پُھوٹے کہ مدتوں یاد رہیں گے۔ ممکن ہے آیندہ الیکشن تک امیدواروں کی تربیت کا کوئی انتظام ہو جائے یا ریٹرننگ افسروں کو مناسب ٹریننگ مل جائے تو صورت حال میں بہتری آئے' اس دفعہ تو دونوں طرف سے کافی مایوسی رہی۔
کسی امیدوار سے دعائے قنُوت سنی گئی، کسی سے کہا گیا وہ کوئی آیت سنائے، کسی سے بیویوں کی تعداد پوچھی گئی، کسی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو الیکشن نہ لڑنے دے ورنہ اس کا گھر برباد ہوجائے گا، بچے رُل جائیں گے۔ ہمارے چیف رپورٹر خالد قیوم کی اسٹوری جس سے پورے ملک میں نئی بحث کا آغاز ہوا، اس میں ریٹرننگ افسروںکی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی جو تفصیل درج تھی، اسے پڑھ کر توشرم محسوس ہوتی ہے۔ ایک یہی سوال دیکھ لیں کہ آپ پنتیس سال کی نہیں لگتیں سب کو اپنا چہرہ دکھائیں۔
حیرت ہے اس طرح کے سوال پوچھنے والے افسر صادق اور امین امیدوار تلاش کر رہے تھے۔ ریٹرننگ افسروں کی ایک بڑی تعداد تو یوں لگتا تھا کہ کاغذات کی پڑتال کے لیے نہیں بلکہ امیدواروں کی بے عزتی کرنے کے لیے تشریف فرما تھی۔یہ بھی تاثر ابھرا کہ جیسے اسلام اور نظریہ پاکستان کے ٹھیکیدار صرف یہی لوگ ہیں اور انھیں ہی اس کی تعبیر و تشریح کا حق حاصل ہے۔
کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ پرویز مُشرف کے دو حلقوں سے کاغذات مسترد ہو گئے جب کہ چترال کے ایک حلقے سے وہ آرٹیکل 63`62 پر پورے اترے اور ریٹرننگ افسر نے انھیں الیکشن لڑنے کے لیے ''فٹ'' قرار دے دیا۔ مُشرف اور ان جیسے دیگر امیدواروں کے مخالفین حوصلہ نہ ہاریں کیونکہ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل افضل خاں نے اعلان کردیا ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی کسی امیدوار کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو امیدوار جیت کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے، ان میں سے کسی کے بارے میں بھی جب پتہ چلے گا کہ وہ نظریہ پاکستان پر ایمان نہیں رکھتا یا اسے کوئی دعا یاد نہیں، اسے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد سیاستدانوں کی حالت منیر نیازی کے اس شعر جیسی ہو گئی ہے ؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
متعدد سیاسی جماعتوں کے امیدوار پہلے مرحلے میں نااہل قرار پائے ہیں۔ یہاں بھی پیپلز پارٹی بازی لے گئی ہے۔ اس کے نااہل ہونے والے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں عدلیہ پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے چکی ہے، دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سپریم کورٹ میں سزا سے بچ گئے تھے مگر ریٹرننگ آفیسر کے امتحان میں فیل ہوگئے۔ ابھی اپیلوں کا مرحلہ باقی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ نا اہل ہونے والے ان امیدواروں میں سے معقول تعداد اہل قرار پائے گی۔ کوئی بھی امیدوار صرف ایک خبر کی مار ہے، اِدھر خبر چلے گی اُدھر اس کا نوٹس لے لیا جائے گا اور پھر قصہ تمام ہو جائے گا۔
امیدواروں کی نا اہلی کا معاملہ اب ٹریبونلز کے سپرد ہوچکا ہے۔ اپیلیں دائر ہوں گی، ان پر فیصلہ آئے گا اور امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس سارے منظر سے پرے ایک اور منظر نامہ بھی تیار ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات ایک ماہ کے لیے مُوخر کر دیے جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف (عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انھیں زیادہ وقت ملے تو پارٹی کی کارکردگی بہتر ہو گی) اور ق لیگ بھی اس مطالبے کی حمایت کرنے والی ہیں جب کہ پیپلزپارٹی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ اس مطالبے کی حمایت کر دی جائے۔
اس مطالبے یا تجویز کو پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ کاغذات نامزدگی اور اپیلوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد امیدواروں کو صرف 22دن انتخابی مہم کے لیے ملیں گے۔ (ن) لیگ کے سوا کوئی پارٹی اس پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ وہ اتنی تھوڑی مدت میں اپنی انتخابی مہم کو کامیابی میں ڈھال سکیں۔ (ن) لیگ البتہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کا ردھم بن چکا ہے اور اسے کامیاب مہم کے لیے اتنا عرصہ کافی ہو گا۔ (ن) لیگ کے سوا دیگر اہم سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے التواء کی حمایت کر دی تو پھر شاید الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا پڑے۔
پیپلز پارٹی نے البتہ اس مطالبے کی حمایت کی تو اس کا یہ اعلان بے معنی ہو جائے گا کہ الیکشن کے انعقاد میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ خیر یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔یہاں معاہدے اور وعدے توڑ دیے جاتے ہیں، ایک اعلان کے خلاف جانا کون سی بڑی بات ہو گی؟
ریٹرننگ افسروں کے حوالے سے صدر زرداری نے بھی اپنے وجود کا احساس دلایا ہے لیکن ان کے کیس میں حرفِ آخر یہی ہے کہ وہ اب بھی مفاہمت کی سیاست پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس موقع پر ان کے لیے بہتر بھی یہی ہو گا کہ وہ کوئی ایکشن لینے سے گریز کریں۔ الیکشن کا انعقاد ''سب'' کے مفاد میں ہے۔ الیکشن وقت پر ہوں یا تھوڑی تاخیر کے ساتھ' نتائج جو بھی نکلیں' کوئی پارٹی دو تہائی اکثریت لے یا ایک بار پھر اتحادی حکومت بنے۔ مستقبل کا نقشہ جو بھی ترتیب پائے' ایک بات طے ہے کہ 2013 کے الیکشن ریٹرننگ افسروں کی تباہ کن پرفارمنس کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے۔
شاید ان میں سے کچھ لوگ ایوارڈ کے حق دار بھی ٹھہریں۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے بارے میں یہ محض پراپیگنڈا ہے کہ وہ بہت شاطر یا ذہین ہوتے ہیں، ان کی تو ریٹرننگ افسروں نے ہی بولتی بند کر دی، جن پر ریٹرننگ افسر مہربان رہا، وہ خدا کا شکر کرتا ہوا کمرہ عدالت سے باہر نکلا، جسے دعاؤں یا نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر کسدیا گیا، وہ روتا چلاتا ہوا گھر کو چلا گیا۔ قارئین! سیاست دانوں کی اس درگت یا اوقات سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کو ایک ریٹرننگ افسر دو یا تین منٹ کی پوچھ گچھ میں الٹا لٹکا دیتا ہے، وہ طالبان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ میں پانچ برس تک اسمبلیوں میں بیٹھنے والے قانون سازوں سے یہ پوچھناچاہتا ہوں کہ انھوں نے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسیوں ترامیم تو پاس کرا لیں، کیا انھیں آرٹیکل 62 اور63 میں موجود ابہام کا کوئی پتہ نہیں چلا، اگر انھیں واقعی معلوم نہیں تو پھر نالائقوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے، ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے، درست ہو رہا ہے۔