ایک سیاسی کارکن کی وفات کا سانحہ

یہ وہ زمانہ تھا جب ہر مسلمان ایک سیاسی کارکن تھا اور ان میں جو سیاسی شعور سے بہرہ مند تھے وہ سیاسی کہلاتے تھے۔


Abdul Qadir Hassan April 08, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: ملتان کے سیاسی کارکن تاج محمد لنگاہ سے میرا بس سرسری سا تعارف تھا لیکن میں انھیں ایک مستند، جید اور کہنہ مشق سیاسی کارکن سمجھتا تھا جنہوں نے پوری زندگی سیاست کی خدمت میں بسر کر دی۔ ایک صحافی اور سیاستدان بالمشافہ نہ بھی ملیں تو ہمیشہ ایک دوسرے سے متعارف رہتے ہیں اور خبروں کے راستوں پر قدم قدم ٹاکرا ہوتا ہے۔

سیاست کی خدمت میں طویل عرصہ گزار دینے پر میں نے ایک بار ان کی کسی بات پر ان کی تعریف میں ایک کالم لکھا۔ مضافات میں آباد یہ کارکن اس پر بہت خوش ہوا، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے تعریف نہیں کی، آپ کی سیاسی جدوجہد کا اعتراف کیا ہے۔ قحط کے اس زمانے میں آپ جیسے کسی سیاسی کارکن کا وجود غنیمت ہے۔ پاکستان میں پہلے پہل سیاسی کارکن تحریک پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ہر مسلمان ایک سیاسی کارکن تھا اور ان میں جو سیاسی شعور سے بہرہ مند تھے وہ سیاسی کہلاتے تھے۔

کچھ کارکن تو کسی نہ کسی چکر میں حکومت میں آ گئے لیکن میں نے تحریک پاکستان کے ایسے کارکن بھی دیکھے اور بڑی تعداد میں دیکھے جو صرف اس بات پر عمر بھر خوش رہے کہ ان کی سیاسی جدوجہد کامیاب رہی ہے، پاکستان بن گیا ہے جس میں پاکستانی حکمران ہیں اور یہ کارکن اس کے آزاد شہری ہیں۔ ان لوگوں نے زندگی غربت مگر پاکستان کے نشے میں گزار دی، حرف شکایت زبان پر نہ لائے ،کبھی حسد نہ کیا اور نہ ہی کسی ساتھی کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کی۔ یہ شریف اور شائستہ لوگ تھے، پوری زندگی اسی شرافت اور شائستگی میں گزار دی، کسی صلے کی پروا نہ کی۔

میں نے ایسے بہت سے سیاسی کارکنوں کی زیارت کی اور ان سے رابطہ بھی رہا۔ جن کارکنوں کی جیب میں صرف چائے کا بل ہوتا تھا اور وہ مال روڈ پر ایک ریستوران میں بیٹھا کرتے تھے۔ کئی ایک اپنے دوست وکیلوں کے دفتروں میں بیٹھتے۔خواجہ رفیق شہید جن کا لوہاری دروازے میں ایک پریس تھا، وہ قریب کے ریستوران میں باقاعدگی کے ساتھ گپ شپ کرتے تھے، مسلم لیگ کے سردار ظفر اللہ بھی آجاتے اور ان کے ساتھ پیسہ اخبار سے حکیم اللہ دتہ بھی جو مسلم لیگ کے کارکن عہدہ دار تھے۔ بے شمار نام ہیں اور ان کے ساتھ یادیں وابستہ ہیں۔

سردیوں میں نواب اکبر بگٹی بھی لاہور آ جاتے تو یہی ریستوران ان کی بیٹھک بن جاتی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ یہ سیاسی کارکنوں کی گویا آخری کھیپ تھی جو گلی کوچوں میں سیاست کرتی تھی اور اس میں مست رہتی تھی، ان کے لیڈر اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹتے تھے لیکن پھر بھی یہ وہ لوگ تھے جو حکمران ہو کر بھی کارکنوں کا نہ صرف احترام کرتے بلکہ ان سے ڈرتے بھی تھے۔ میاں ممتاز دولتانہ نے بھٹو دور میں برطانیہ میں سفارت قبول کر لی۔ وہ مسلم لیگ کے صدر تھے، اس لیے انھوں نے کونسل کا اجلاس بلایا اور اس سے اپنے اس اقدام کی منظوری لینے کی کوشش کی جو نہ مل سکی لیکن مجھے یاد ہے کہ انھوں نے اپنے لیگیوں سے کہا کہ میں تو ہر صورت میں جا رہا ہوں، آپ اجازت دیں یا نہ دیں۔ میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کارکنوں کا تعاون درکار رہتا تھا چنانچہ ممتاز دولتانہ جیسے لیڈر نے بھی اپنی کونسل سے اجازت لینے کی کوشش کی تھی، مسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کا یہ دور ختم ہوا تو نئے کارکن پیدا ہوئے جو بھٹو صاحب کی سیاست کی پیداوار تھے۔

بھٹو صاحب نے بھی کارکنوں کی عزت کی پالیسی اپنائی۔ انھیں وزارتیں تک دیں،پہلے اس کی مثال موجود نہیں تھی دیگر مراعات بھی دیں، کارکنوں کے احترام کی یہ روایت جاری رہی۔ بے نظیر کے دور میں ایک الیکشن میں ضلع سرگودھا کے ایک زمیندارکو ٹکٹ دیا گیا، اس کے علاقے کے کارکنوں نے بے نظیر کو لکھا کہ ہم نے فلاں دن اس کے خالی پلاٹ پر جلسہ کرنا چاہا تو اس نے اس کی اجازت نہ دی مگر اب آپ اسے ٹکٹ دے رہی ہیں، اس پر بے نظیر نے یہ ٹکٹ منسوخ کر دی۔ بھٹو دور میں سیاسی کارکنوں نے ایک بار پھر عروج دیکھا لیکن سیاست کی یہ گرمئی بازار زیادہ دیر نہ چل سکی، بس سسکتی رہی اور اب بھی بھٹو دے نعرے وج رہے ہیں لیکن نئے خوشحال لوگوں نے ان کارکنوں کی بساط الٹ دی ہے اور وہ سیاست سے دور ہو گئے۔ وہ کارکن جو بس کارکن تھے، بھٹو کے جیالے کہلاتے تھے، بے لوث اور پر جوش۔

سیاسی کارکنوں کا ذکر ایک کارکن جناب لنگاہ کی وفات کے ذکر سے شروع ہوا اور میں یہ بتانا تو بھول گیا کہ اس علاقے کا ایک نامور سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان بھی اپنے آپ کو سیاسی کارکن کہتے تھے اور جب مولانا مودودی نے میاں طفیل محمد کی امارت کی تقریب میں تقریر کی تو کہا کہ میاں طفیل محمد جماعت کے ایک بہت اچھے کارکن ہیں۔ آج آپ کسی لیڈر کو کارکن کہیں تو شاید وہ ناراض ہو جائے۔ لنگاہ صاحب اپنی جماعت کے سربراہ تھے اور اس پر بہت خوش تھے، ان کے سامنے جنوبی صوبے کی ایک بڑی مہم موجود تھی جس میں انھیں اپنا سیاسی کردار ادا کرنا تھا۔ 72 برس کی عمر میں انھوں نے جنوبی پنجاب کی سیاست کی۔ بہت خدمت کی اور اس علاقے کی خدمت کو اپنا تعارف بنا لیا۔

آخری دم تک وہ اپنی اس سیاسی پالیسی پر قائم رہے اور کسی مرکزی سیاسی مقام کی پروا نہ کی مگر اس کے باوجود وہ ایک بہت ہی معروف سیاسی رہنما تھے اور اس علاقے کے سیاستدان ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے تھے۔ یوں تو یہ ایک سیاسی کارکن کی موت ہے لیکن کیا یہ سیاسی کارکن ہونے کی روایت کی موت نہیں ہے۔ اللہ لنگاہ صاحب کو غریق رحمت کرے۔ اندھیرا ہو گیا ہے اور اس قدر ذہنی کوفت بھی کہ اب کالم پر نظرثانی کا موقع نہیں رہا، اس لیے بحوالہ قارئین کرام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں