پہلا ٹارگٹ

میں حیرت سے اس نوجوان کو دیکھ رہاتھا،وہ دیوار سے اٹھا اور ساحلی پٹی پر بیقراری سے چکر لگانے لگا۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

میرے ایک عزیز کینیڈا سے آئے ہوئے تھے ،دو دن سے وہ سی ویو چلنے کی ضد کررہے تھے، میں دو دن تو انھیں ٹالتارہا لیکن وہ تیسرے دن کوئی چار بجے گاڑی لے کر میرے گھر پہنچ گئے، پھر تو مجھے ان کے ساتھ سی ویو جانا ہی پڑا، دن بھر کا تھکا ماندہ سورج مغربی افق پر ایک زرد گولے کی طرح نظر آرہاتھا، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، مارچ کی ٹھنڈی دھوپ سے فضاء میں ایک خنکی کی سی کیفیت تھی جب ہم سی ویو پہنچے تو شام کے سائے آہستہ آہستہ پھیلتے جارہے تھے، ارشد ہمارے عزیز نے اپنی گاڑی سی ویو کی دیوار کے قریب کھڑی کردی، سمندر کی موجیں ساحل سے ٹکرارہی تھیں، ساحل پر گھوڑے اونٹ بچوں، بڑوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھائے دوڑ لگارہے تھے، نوجوان مرد اور خواتین پانی میں دور دور تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے مستیاں کررہے تھے، ارشد نے گاڑی سے پیپسی کی بوتل نکالی، ایک گلاس میری طرف بڑھایا، دوسرے گلاس کی پیپسی وہ آہستہ آہستہ پینے لگا، میری نظر اچانک قریب ہی دیوار پر بیٹھے ایک نوجوان پر پڑی، جس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

میں حیرت سے اس نوجوان کو دیکھ رہاتھا،وہ دیوار سے اٹھا اور ساحلی پٹی پر بیقراری سے چکر لگانے لگا۔ میں اس کے قریب جاکر اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن وہ تیزی سے کبھی ایک طرف نکل جاتا تھا کبھی دوسری طرف، مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ کسی وجہ سے وہ بہت بے چین اور مضرب ہے، وہ اچانک میرے قریب دیوار پر بیٹھ گیا اور زور سے کچھ دعائیں پڑھنے لگا۔ وہ اپنے اضطراب پر قابو پانے کے لیے قرآنی آیتیں پڑھ رہا تھا۔ میرا تجسس بڑھتا گیا ۔آخر میں اس کے قریب گیا۔کیا بات ہے دوست تم بہت پریشان نظر آرہے ہو، میرے سوال پر وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا،مجھے ایسا لگا کہ وہ یہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہتاہے، میں نے دو تین بار اس سے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔

میں نے اس سے اس کا نام پوچھا وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا، اس نے اپنا نام عدنان بتایا، میرے اصرار پر اس نے بتایاکہ اسے گھبراہٹ ہورہی ہے۔اسے گھبراہٹ پریشانی دور کرنے کی جتنی دعائیں یاد تھیں وہ سب پڑھ ڈالیں، میری جیب میں ہمیشہ ڈپریشن کی گولیاں پڑی رہتی ہیں، میں نے اصرار کرکے ایک گولی عدنان کو کھلائی، کچھ دیر بعد وہ مجھے کچھ پرسکون نظر آیا، رات کے سائے پھیلتے جارہے تھے،دوران گفتگو نوجوان نے بتایا کہ وہ گجرانوالہ کارہنے والا ہے، جہاں اس کے آبائواجداد چوہدری نذر حسین کی زمینوں پر نسلوں سے کام کرتے آرہے تھے، چوہدری کے مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرتے، اس کی ناک کا کیڑا ہی مرگیاتھا، وہ اس بے ہودہ زندگی سے فرار حاصل کرنا چاہتاتھا، سو وہ دس سال پہلے گجرانوالہ سے کراچی آگیا، کراچی میں کئی راتیں فٹ پاتھوں اور ریلوے اسٹیشن پر گزارنے کے بعد جب ان کی ملاقات قلی اﷲ رکھا سے ہوئی تو اﷲ رکھا نے اس کے حال پر رحم کھاکر اسے ایک تولیہ فیکٹری میں کام دلادیا۔ تولیہ فیکٹری میں کام کے دوران اس کی ملاقات کلثوم سے ہوئی، کلثوم بھی اسی فیکٹری میں کام کرتی تھی، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے پھر انھوںنے شادی کا فیصلہ کیا، شادی سے پہلے عدنان نے ملیر ندی کے کنارے ایک جھونپڑی ڈال دی، اس جھونپڑی میں رہتے ہوئے اسے دس سال ہورہے تھے، یہاں اس کے پانچ بچے ہوئے تھے وہ اب اس زندگی سے ہر قیمت پر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتاتھا۔ اس کی پہلی خواہش یہ تھی کہ وہ چٹائیوں کی جھونپڑی کی جگہ دو کمروں کا مکان بنالے جس پر سیمنٹ کی چادریں ہوں تاکہ وہ بارشوں اور ندی کی طغیانی سے بچ جائے۔


اپنے روٹین کے مطابق وہ سبزی کا ٹھیلا لیے بستی کی ایک مسجد کے قریب سے گزررہاتھا کہ مسجد سے نمازی نماز عصر کے بعد نکل رہے تھے،نمازیوں کے ساتھ عدنان کا ایک دیرینہ دوست بھی باہر نکلا۔گجرانوالہ میں اس کے پڑوس میں رہنے والا وہاب اسے دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا، اگرچہ وہاب نے ڈارھی رکھ لی تھی لیکن عدنان نے اسے فوری پہچان لیا، دونوں دوست10سال بعد مل رہے تھے، وہاب نے اسے بتایاکہ وہ ایک اچھا قاری بن گیاہے اب وہ اپنے حلقہ احباب میں قاری وہاب کے نام سے جانا جاتاہے، قاری اور عدنان ٹھیلہ ایک دکان کے پاس کھڑا کرکے مسجد میں چلے گئے، مسجد میں ایک گھنٹے تک دونوں ایک دوسرے کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے رہے، قاری وہاب نے عدنان کو بتایاکہ اگر وہ اس کے ساتھ رہ کر دینی خدمت انجام دے گا تو اسے دو طرح کا فائدہ ہوگا ایک یہ کہ وہ ایک دو کمرے کا مکان بنالے گا، دوسرے یہ کہ دین کی خدمت کے عوض اس کی آخرت سنور جائے گی، قاری وہاب نے اپنی پیش کش کو اس طرح پرکشش بناکر پیش کی کہ عدنان جو اپنی زندگی کی روٹین اور چٹائیوں کی جھونپڑی سے سخت بیزار آگیاتھا قاری وہاب کی پیش کش کو تذبذب کے ساتھ قبول کرلیا۔

اگلی ملاقات میں قاری وہاب نے ایک فرقے کو دین کا دشمن بتاکر اسے تباہ کرنے کو اس طرح دینی خدمت بناکر پیش کیا کہ سادہ لوح عدنان اس کی باتوں میں آگیا، اگلی پانچ چھ ملاقاتوں کے دوران قاری وہاب نے عدنان کو تفصیل سے بتایاکہ اسے کیا کرنا ہے، عدنان پہلے تو بہت گھبرایا لیکن اپنی دنیا اور دین کے سنورنے کے خیال نے اسے قاری وہاب کے مشن پر عمل کرنے کے لیے تیار کرلیا، قاری وہاب نے ایک ماہ کی طویل نشستوں کے بعد عدنان کے دماغ میں مخالف فرقے کے خلاف اتنی نفرت بھردی تھی کہ اب عدنان ان کی جان لینے کے لیے بالکل تیار تھا، قاری وہاب نے عدنان کو ایک موٹر سائیکل بھی دلادی تھی اور دس ہزار روپے بطور ایڈوانس بھی دیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اسے وہ مسجد بھی دکھلادی تھی جسے ٹارگٹ کرنا تھا، قاری وہاب نے بتایاتھا کہ اگر عدنان نے کامیابی سے اپنا مشن پورا کرلیا تو اسے دو لاکھ روپے دیے جائیںگے اور اسی کے علاقے میں اسے پرچون کی ایک دکان بھی کھلوادی جائے گی،اس کے علاوہ ہر ٹارگٹ کے لیے مقررہ رقم بھی اسے ملتی رہے گی، اگر اس نے اپنے چار چھ ٹارگٹ کامیابی سے پورے کرلیے تو اسے علاقے کا انچارج بھی بنادیاجائے گا، قاری وہاب نے عدنان کے پہلے ٹارگٹ پر عمل کرنے کی تاریخ15طے کردی تھی۔

15تاریخ کی رات اس نے بہت بے چینی سے گزاری، نماز فجر کے بعد وہ گھر سے نکل گیا، وہ سارا دن بیقراری سے مختلف مقامات پر گھومتارہا، پارک پر کافی دیر بیٹھارہا، وہاں بھی اس کی بیقراری کم نہ ہوئی تو وہ سفاری پارک چلاگیا، یہاں اگرچہ اس نے چار پانچ گھنٹے گزارے لیکن وہ سارا وقت سخت اضطراب اور ذہنی ٹینشن میں رہا، اس کے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال ابھررہاتھا کہ مسجد خواہ کسی کی ہو وہ تو اﷲ کا گھر ہوتاہے اور اس میں عبادت کرنے والے اﷲ کے نیک بندے ہوتے ہیں ان کو بم سے اڑانا اس کے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتاتھا، دو پہر کا کھانا ایک ہوٹل میں کھانے کے بعد وہ کلفٹن آگیا تھا، یہاں وہ ایک سایہ دار پیڑ کے نیچے لیٹ گیا، رات بھر جاگنے کی وجہ سے اسے نیند آگئی۔ جب وہ نیند سے جاگا تو سورج آگ کے گولے کی طرح غروب ہونے جارہاتھا۔

یہی اس کی ملاقات ہم سے ہوئی تھی، سی ویو سے جب وہ گھر پہنچا تو مغرب کی اذان ہورہی تھی، اس نے گھر ہی میں نماز پڑھی، قاری وہاب نے اسے یقین دلایاتھا کہ وہ ہر طرح محفوظ رہے گا،لیکن اس کی بیقراری کم نہیں ہورہی تھی کیونکہ یہ اس کا پہلا ٹارگٹ تھا، قاری وہاب نے مسجد کے دروازے کے قریب بلاک بم نصب کردیاتھا، اسے بس اس وقت ریموٹ سے اڑاناتھا، جب نمازی مسجد سے باہر نکل رہے ہوں، عشاء کے بعد وہ موقعے پر پہنچ گیا تھا، اس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا وہ مسجد سے کوئی دو فرلانگ کے فیصلے پر اپنی موٹر سائیکل پر سوارتھا، جیسے ہی نمازی باہر نکلنے لگے اس نے نیم بیداری کی حالت میں ریموٹ کا بٹن دبادیا، ایک زوردار دھماکہ ہوا اور کئی لوگ ٹکڑوں میں بٹ کر ادھر ادھر اڑگئے، ایک سر اس کے قریب آکر گرا یہ ایک 8،9سالہ بچے کا سرتھا اسے دیکھتے ہی عدنان خوف اور غم سے گر کر بے ہوش ہوگیا، وہاں سے فوری فرارکے بجائے وہ بے ہوش پڑاتھا، دوسرے دن اخبارات میں پکڑے جانے والے دہشت گرد کی تصویر چھپی تھی جب میری نظر عدنان کی تصویر پر پڑی تو حیرت سے میں گنگ تھا، عدنان پولیس کے لاک اپ میں بیٹھ کر سوچ رہاتھا کہ وہ دین اور دنیا دونوں سے گیا وہ دل ہی دل میں قاری وہاب کو کوس رہاتھا اور اس کی نظروں میں اپنی بیوی بچے گھوم رہے تھے اور ایک ہی سوال اس کے ذہن میں گردش کررہاتھا، ان کا کیا ہوگا...؟ اس کی آنکھوں کے سامنے پھانسی کا پھندا جھول رہاتھا۔
Load Next Story