گھٹتے اسکول وجوہات کیا ہیں
یہ ایسے ادارے تھے جن پر دونوں فریق، یعنی میں اور میرے اہل خانہ متفق ہوسکتے تھے۔
میرے گھر پہلے بیٹے کی ولادت نے میری دنیا ہی بدل ڈالی۔ایسا لگا جیسے میں پہلی دفعہ ماں بنی ہوں۔ میری دو بڑی بیٹیوں نے مجھے ممتا کے احساس سے سرشار کردیا تھا، لیکن بیٹے کی ولادت پر مبارکباد کا سلسلہ ہی مختلف تھا۔ اکلوتے بیٹے کے آتے ہی گھر میں اس کے مستقبل کی باتیں ہونے لگیں۔ میری بیٹیاں کراچی کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں، لیکن بیٹے کے لیے ان سے بھی بہتر تعلیمی ادارے کی فکر خاندان بھر کو تھی۔ دل میں کہیں یہ خیال ہچکولے لیتا رہا کہ جس مالک حقیقی نے طویل عرصے بعد اولاد نرینہ کی نعمت عطا کی ہے میرا بیٹا اسی رب کی راہ میں وقف ہو اور دینی تعلیم حاصل کرے۔ میں اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانا چاہتی تھی۔
اپنی تمام تر تعلیم اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود یہ میری زندگی کا نیا پہلو تھا کہ ہم ''اَپر مڈل کلاس'' کے لو گ صوم و صلوٰۃ کا خیال رکھتے ہیں اور زکوٰۃ اور حج کے احکامات پر بھی عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنی اولاد کو دینی مدرسے میں تعلیم دلانے سے خائف ہیں۔ میری اتنی مخالفت تو بیٹیوں کو شہر کے ''جدیدیت پسند'' اسکولوں میں داخل کرانے پر بھی نہیں ہوئی جتنی بیٹے کے دینی مدرسے میں داخلے کی خواہش پہ کی گئی۔ دور پرے کی خالہ ہوں یا رشتے کے چچا، سب ہی نے دینی مدارس کی شان میں وہ ''قصیدہ گوئی'' کی کہ میں نے کان پکڑلیے۔ زندگی میں ہارنا سیکھا ہی نہیں، اس لیے قدم پیچھے نہیں ہٹائے، تاہم غور کرنا شروع کردیا کہ دینی مدارس کے حوالے سے منفی سوچ کیوں پائی جاتی ہے؟ اور وہ کون سے ادارے ہیں جو میرے بیٹے کی صحیح دینی اور دنیاوی تربیت کرسکیں، اسکول، مدارس، سرکاری اسکول، نیم سرکاری اسکول، بڑے نام والا انگریزی میڈیم اسکول، کوئی چھوٹا انگریزی میڈیم اسکول، انگریزی تعلیم بمعہ دینی تعلیم دینے والا ادارہ، حفظ القرآن بمعہ عربی جمع انگریزی اسکول۔۔۔۔۔ غرض یہ کہ ساڑھے تین سال کے عرصے میں سارے شہر کی خاک چھان لی۔
میری تلاش آخر ایسے تعلیمی اداروں پر ختم ہوئی جنھیں عُرف عام میں ''حفظ قرآن بمعہ عربی بمعہ انگریزی میڈیم اسکول'' کہا جانا چاہیے۔ یہ ایسے ادارے تھے جن پر دونوں فریق، یعنی میں اور میرے اہل خانہ متفق ہوسکتے تھے، کیوں کہ اس اسکول میں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام تھا۔ لیکن ان کی فیسیں ہوش اُڑا دینے والی تھیں۔ اس زمرے میں آنے والے اول درجے کے اسکول کی (اس وقت تک) ماہانہ فیس 9 ہزار روپے تھی، دو ماہ کی ایک ساتھ ادائیگی کی شرط اور داخلہ فیس پینتالیس ہزار روپے تھی، جب کہ اس نوعیت کے دوسرے اور تیسرے درجے کے اسکولوں کی ماہانہ فیس چار سے ساڑھے چار ہزار روپے، دو ماہ کی یکجا ادائیگی، اور داخلہ فیس اور دیگر مدوں میں کُل ملاکر تیس ہزار روپے ادا کرنا تھے۔ چناں چہ میرا انتخاب دوسرے نمبر پر آنے والا ایک اسکول ٹھہرا۔
یہی وہ وقت تھا جب دل میں یہ سوال پیوست ہوگیا کہ دینی تعلیم کے لیے عام مدارس سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے خواہش مند جو لوگ ایک ساتھ حفظ قرآن اور عربی اور انگریزی تعلیم دینے والے اسکولوں کی فیس کا بار نہیں اُٹھا سکتے، وہ کیا کرتے ہیں؟
ان سوالات پر غور نے تحقیق کا راستہ دکھایا اور نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ایک طرف دینی مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تو بڑھی ہے مگر ان میں پڑھنے والے روز بہ روز گھٹتے جارہے ہیں۔ کم آمدنی والا طبقہ اور افلاس کا شکار خاندان بھی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں، لیکن انھیں سرکاری اسکول اپنی بدحالی کے باعث ان کے اس خواب کو تعبیر دینے سے قاصر ہیں اور نجی اسکولوں کی فیس ادا کرنا ان کے بس میں نہیں، لہٰذا ان کی منزل دینی مدارس ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں پانچ مکاتب فکر کے دینی مدارس قائم ہیں، جن میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس العربیہ'' کے زیراہتمام، بریلوی مکتبۂ فکر کے ''تنظیم المدارس اہلسنت، پاکستان''، اہلحدیث مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس السلفیہ'' اور شیعہ مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس الشیعہ'' کے زیرانتظام چل رہے ہیں، جب کہ ''رابطہ المدارس الاسلامیہ'' کے زیراہتمام قائم مدارس میں بھی لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
یہ تو ہوئی دینی مدارس کی بات، اب ذکر ہوجائے سرکاری اسکولوں کا۔ اگر صرف سندھ خصوصاً کراچی میں سرکاری اسکولوں اور ان میں پڑھنے والوں کے حوالے سے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کراچی میں 3600 سرکاری اسکول قائم ہیں، جن میں لڑکوں کے لیے 1098، لڑکیوں کے لیے 884 اور مخلوط تعلیمی ادارے 1651 ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 20 ہزار سے زاید دینی مدارس طلبا کو دینی تعلیم دے رہے ہیں، جن میں سے صرف سندھ میں مختلف مکاتب فکر کے تقریباً 6 ہزار مدارس قائم ہیں۔ یہ وہ مدارس ہیں جو حکومتی ریکارڈ میں موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت ملک میں 189 مدارس قائم تھے۔ 2002 تک یہ تعداد 13 ہزار تک جاپہنچی۔ اور اب، غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ملک میں 40 ہزار کے قریب مدارس کام کر رہے ہیں۔ اگر صرف کراچی کی بات کی جائے تو 2003 میں پولیس کی جانب سے کرائے جانے والے سروے کے مطابق شہر میں مختلف مکاتب فکر کے 869 مدارس قائم ہیں۔ اور اب 2013 ہے، تو آپ خود اندازہ لگالیجیے کہ ان مدارس کی تعداد کہاں تک پہنچ چکی ہوگی!
حکومت کے ایوانوں میں چاہے جمہوریت کا سورج طلوع ہو، یا آمریت کی رات مسلط ہو، پاکستان میں دہرے معیار تعلیم جیسا اہم ترین مسئلہ اہل اقتدار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس مسئلے پر اسمبلیوں کی نشستوں پر براجمان مرد و خواتین لب کشائی کی زحمت کرتے ہیں۔ وجہ فقط اتنی ہے کہ حکمراں طبقے کے رکن افراد اور سرکاری ایوانوں میں پہنچنے والوں کے پاس انگریزی میڈیم اسکولوں کی بھاری فیس دینے کے لیے رقم موجود ہے، اور رہا دین و آخرت کا مسئلہ، تو مولوی صاحب گھر آکر ان کے بچوں کو صرف ہزار روپے کے عوض قرآن مجید پڑھا دیتے ہیں، تو وہ اس بکھیڑے میں کیوں پڑیں کہ اسکول میں دینی تعلیم ہونی چاہیے یا نہیں۔ یہ ہے وہ تلخ حقیقت جو اس سارے مسئلے کی بنیاد ہے۔
سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چنانچہ غربت کا شکار والدین کے لیے اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھانا وقت کا ضیاع ہے۔ دوسری طرف مدارس کی مفت تعلیم اور وہاں کھانے کی سہولت ان کے لیے کشش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں سرکاری اسکولوں میں 5 لاکھ 42 ہزار 6 سو طلبا زیرتعلیم ہیں، جب کہ شہر کے صرف ایک مکتبہ فکر کے مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں طلبا و طالبات کی تعلیم پر خاطرخواہ توجہ نہ دینے کے باعث مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ماضی میں بیشتر سرکاری تعلیمی ادارے نہ صرف اچھی تعلیم بلکہ تربیت کا ذریعہ بھی تھے۔ ہمارے ہاں اپنے علم اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر نام کمانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان ہی اسکولوں کی پڑھی ہوئی ہے۔ مگر حکمرانوں کی توجہ سے محروم ہوکر یہ اسکول تعلیم کے بجائے اپنے طلبا میں ناکامی اور احساس کمتری بانٹ رہے ہیں۔
خدارا ہمارے حکمراں سوچیں کہ ملک کے مستقبل کے معماروں کے ساتھ وہ کیسا خوف ناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ مدارس پر الزامات تو لگائے جاتے ہیں، مگر کسی ایسے یکساں نظام تعلیم کے بارے میں نہیں سوچا جاتا جو طلبا کو دنیاوی اور دینی دونوں طرح کی تعلیم فراہم کرے۔ آخر ہمارے یہاں تعلیم کے معاملے میں مختلف معیار کیوں ہیں؟ کیا قوم میں پائی جانے والی تقسیم کا ایک بنیادی سبب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنی نسل نو کو مختلف اقسام اور معیار کے تعلیمی اداروں میں بانٹ دیتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بس یہی ہے کہ طبقاتی نظام تعلیم دولت کی بنیاد پر اعلیٰ کہلانے والے طبقے کے مفاد میں ہے۔ اس طرح ان کے بچوں کی راہ میں کسی غریب زادے کی صلاحیت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی اور بڑے اسکولوں کا کاروبار بھی اس نظام کے اندھیرے میں چمک سکتا ہے، جو اسی طبقے کے افراد کی ملکیت ہیں۔
اپنی تمام تر تعلیم اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود یہ میری زندگی کا نیا پہلو تھا کہ ہم ''اَپر مڈل کلاس'' کے لو گ صوم و صلوٰۃ کا خیال رکھتے ہیں اور زکوٰۃ اور حج کے احکامات پر بھی عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنی اولاد کو دینی مدرسے میں تعلیم دلانے سے خائف ہیں۔ میری اتنی مخالفت تو بیٹیوں کو شہر کے ''جدیدیت پسند'' اسکولوں میں داخل کرانے پر بھی نہیں ہوئی جتنی بیٹے کے دینی مدرسے میں داخلے کی خواہش پہ کی گئی۔ دور پرے کی خالہ ہوں یا رشتے کے چچا، سب ہی نے دینی مدارس کی شان میں وہ ''قصیدہ گوئی'' کی کہ میں نے کان پکڑلیے۔ زندگی میں ہارنا سیکھا ہی نہیں، اس لیے قدم پیچھے نہیں ہٹائے، تاہم غور کرنا شروع کردیا کہ دینی مدارس کے حوالے سے منفی سوچ کیوں پائی جاتی ہے؟ اور وہ کون سے ادارے ہیں جو میرے بیٹے کی صحیح دینی اور دنیاوی تربیت کرسکیں، اسکول، مدارس، سرکاری اسکول، نیم سرکاری اسکول، بڑے نام والا انگریزی میڈیم اسکول، کوئی چھوٹا انگریزی میڈیم اسکول، انگریزی تعلیم بمعہ دینی تعلیم دینے والا ادارہ، حفظ القرآن بمعہ عربی جمع انگریزی اسکول۔۔۔۔۔ غرض یہ کہ ساڑھے تین سال کے عرصے میں سارے شہر کی خاک چھان لی۔
میری تلاش آخر ایسے تعلیمی اداروں پر ختم ہوئی جنھیں عُرف عام میں ''حفظ قرآن بمعہ عربی بمعہ انگریزی میڈیم اسکول'' کہا جانا چاہیے۔ یہ ایسے ادارے تھے جن پر دونوں فریق، یعنی میں اور میرے اہل خانہ متفق ہوسکتے تھے، کیوں کہ اس اسکول میں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام تھا۔ لیکن ان کی فیسیں ہوش اُڑا دینے والی تھیں۔ اس زمرے میں آنے والے اول درجے کے اسکول کی (اس وقت تک) ماہانہ فیس 9 ہزار روپے تھی، دو ماہ کی ایک ساتھ ادائیگی کی شرط اور داخلہ فیس پینتالیس ہزار روپے تھی، جب کہ اس نوعیت کے دوسرے اور تیسرے درجے کے اسکولوں کی ماہانہ فیس چار سے ساڑھے چار ہزار روپے، دو ماہ کی یکجا ادائیگی، اور داخلہ فیس اور دیگر مدوں میں کُل ملاکر تیس ہزار روپے ادا کرنا تھے۔ چناں چہ میرا انتخاب دوسرے نمبر پر آنے والا ایک اسکول ٹھہرا۔
یہی وہ وقت تھا جب دل میں یہ سوال پیوست ہوگیا کہ دینی تعلیم کے لیے عام مدارس سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے خواہش مند جو لوگ ایک ساتھ حفظ قرآن اور عربی اور انگریزی تعلیم دینے والے اسکولوں کی فیس کا بار نہیں اُٹھا سکتے، وہ کیا کرتے ہیں؟
ان سوالات پر غور نے تحقیق کا راستہ دکھایا اور نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ایک طرف دینی مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تو بڑھی ہے مگر ان میں پڑھنے والے روز بہ روز گھٹتے جارہے ہیں۔ کم آمدنی والا طبقہ اور افلاس کا شکار خاندان بھی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں، لیکن انھیں سرکاری اسکول اپنی بدحالی کے باعث ان کے اس خواب کو تعبیر دینے سے قاصر ہیں اور نجی اسکولوں کی فیس ادا کرنا ان کے بس میں نہیں، لہٰذا ان کی منزل دینی مدارس ہوتے ہیں۔
ملک بھر میں پانچ مکاتب فکر کے دینی مدارس قائم ہیں، جن میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس العربیہ'' کے زیراہتمام، بریلوی مکتبۂ فکر کے ''تنظیم المدارس اہلسنت، پاکستان''، اہلحدیث مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس السلفیہ'' اور شیعہ مکتبۂ فکر کے مدارس ''وفاق المدارس الشیعہ'' کے زیرانتظام چل رہے ہیں، جب کہ ''رابطہ المدارس الاسلامیہ'' کے زیراہتمام قائم مدارس میں بھی لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
یہ تو ہوئی دینی مدارس کی بات، اب ذکر ہوجائے سرکاری اسکولوں کا۔ اگر صرف سندھ خصوصاً کراچی میں سرکاری اسکولوں اور ان میں پڑھنے والوں کے حوالے سے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کراچی میں 3600 سرکاری اسکول قائم ہیں، جن میں لڑکوں کے لیے 1098، لڑکیوں کے لیے 884 اور مخلوط تعلیمی ادارے 1651 ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 20 ہزار سے زاید دینی مدارس طلبا کو دینی تعلیم دے رہے ہیں، جن میں سے صرف سندھ میں مختلف مکاتب فکر کے تقریباً 6 ہزار مدارس قائم ہیں۔ یہ وہ مدارس ہیں جو حکومتی ریکارڈ میں موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت ملک میں 189 مدارس قائم تھے۔ 2002 تک یہ تعداد 13 ہزار تک جاپہنچی۔ اور اب، غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ملک میں 40 ہزار کے قریب مدارس کام کر رہے ہیں۔ اگر صرف کراچی کی بات کی جائے تو 2003 میں پولیس کی جانب سے کرائے جانے والے سروے کے مطابق شہر میں مختلف مکاتب فکر کے 869 مدارس قائم ہیں۔ اور اب 2013 ہے، تو آپ خود اندازہ لگالیجیے کہ ان مدارس کی تعداد کہاں تک پہنچ چکی ہوگی!
حکومت کے ایوانوں میں چاہے جمہوریت کا سورج طلوع ہو، یا آمریت کی رات مسلط ہو، پاکستان میں دہرے معیار تعلیم جیسا اہم ترین مسئلہ اہل اقتدار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس مسئلے پر اسمبلیوں کی نشستوں پر براجمان مرد و خواتین لب کشائی کی زحمت کرتے ہیں۔ وجہ فقط اتنی ہے کہ حکمراں طبقے کے رکن افراد اور سرکاری ایوانوں میں پہنچنے والوں کے پاس انگریزی میڈیم اسکولوں کی بھاری فیس دینے کے لیے رقم موجود ہے، اور رہا دین و آخرت کا مسئلہ، تو مولوی صاحب گھر آکر ان کے بچوں کو صرف ہزار روپے کے عوض قرآن مجید پڑھا دیتے ہیں، تو وہ اس بکھیڑے میں کیوں پڑیں کہ اسکول میں دینی تعلیم ہونی چاہیے یا نہیں۔ یہ ہے وہ تلخ حقیقت جو اس سارے مسئلے کی بنیاد ہے۔
سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چنانچہ غربت کا شکار والدین کے لیے اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھانا وقت کا ضیاع ہے۔ دوسری طرف مدارس کی مفت تعلیم اور وہاں کھانے کی سہولت ان کے لیے کشش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں سرکاری اسکولوں میں 5 لاکھ 42 ہزار 6 سو طلبا زیرتعلیم ہیں، جب کہ شہر کے صرف ایک مکتبہ فکر کے مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں طلبا و طالبات کی تعلیم پر خاطرخواہ توجہ نہ دینے کے باعث مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ماضی میں بیشتر سرکاری تعلیمی ادارے نہ صرف اچھی تعلیم بلکہ تربیت کا ذریعہ بھی تھے۔ ہمارے ہاں اپنے علم اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر نام کمانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان ہی اسکولوں کی پڑھی ہوئی ہے۔ مگر حکمرانوں کی توجہ سے محروم ہوکر یہ اسکول تعلیم کے بجائے اپنے طلبا میں ناکامی اور احساس کمتری بانٹ رہے ہیں۔
خدارا ہمارے حکمراں سوچیں کہ ملک کے مستقبل کے معماروں کے ساتھ وہ کیسا خوف ناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ مدارس پر الزامات تو لگائے جاتے ہیں، مگر کسی ایسے یکساں نظام تعلیم کے بارے میں نہیں سوچا جاتا جو طلبا کو دنیاوی اور دینی دونوں طرح کی تعلیم فراہم کرے۔ آخر ہمارے یہاں تعلیم کے معاملے میں مختلف معیار کیوں ہیں؟ کیا قوم میں پائی جانے والی تقسیم کا ایک بنیادی سبب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنی نسل نو کو مختلف اقسام اور معیار کے تعلیمی اداروں میں بانٹ دیتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بس یہی ہے کہ طبقاتی نظام تعلیم دولت کی بنیاد پر اعلیٰ کہلانے والے طبقے کے مفاد میں ہے۔ اس طرح ان کے بچوں کی راہ میں کسی غریب زادے کی صلاحیت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی اور بڑے اسکولوں کا کاروبار بھی اس نظام کے اندھیرے میں چمک سکتا ہے، جو اسی طبقے کے افراد کی ملکیت ہیں۔