تالیاں نہیں عمل بھی…
الیکشن کمیشن کیا اپنا وہ آئینی کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جو اسے ملکی آئین نے دیا ہے
الیکشن کمیشن کے دعوؤں، اقدامات اور بیانات پر عوامی حلقوں کی جانب سے ستائشی صدائیں عام ہیں، سپریم کورٹ جس طرح سے شفاف الیکشن کے لیے کمربستہ ہے، کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف جو ناکے لگا رکھے ہیں عوامی حلقے اس پر بھی خوشیوں کے ڈھول پیٹنے میں مشغول ہیں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن محض ''کمیشن'' کے فرائض ادا کرتا ہی نظر آتا ہے اور ماضی کی عدلیہ خاموش تماشائی۔
سابقہ الیکشن کمیشنوں کی تماشائی والے کردار سے سیاسی ٹولے نے جس طرح سے فوائد سمیٹے اب وہ بمع سود قوم کے سامنے آشکار ہورہے ہیں، ان اداروں کی چشم پوشی کی بنا پر جو نام لکھنے کی صفت سے عاری تھا وہ وزیر تعلیم بنتا رہا، جو دو جمع دو کے عمل سے خالی تھا وہ اس ملک کا وزیر خزانہ بنا، جو خود جعل سازی کی سیڑھیاں چڑھ کر اسمبلی پہنچا اسے قانون کی رکھوالی کی سیاسی نوکری دی گئی۔ امید باندھی جاسکتی ہے کہ ''گل محمد نہ جنبد'' والا عمل شاید ان دو آئینی اداروں کی قانونی جنبش سے کچھ تھم سا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کیا اپنا وہ آئینی کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جو اسے ملکی آئین نے دیا ہے، اس کا فیصلہ گیارہ مئی کو ہوگا۔ زبانی بیانات اور دعوے ہمارے سرکاری اداروں کی خوراک رہے ہیں، سو صرف زبانی جمع تفریق پر خوش ہونا اور اندازے قائم کرنا کچھ خاص عقل مندی نہیں۔ الیکشن کمیشن کو نہ صرف حاصل اختیارات کا بے رحمی سے استعمال کرنا ہوگا بلکہ اپنے احکامات پر عمل درآمد بھی کروانا ہوگا۔ دوسری جانب عدلیہ عام انتخابات کو یقینی اور شفاف بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ چھلنی کا عمل جس طرح سے اپنانے اور لاگو کرنے کی کوشش ہورہی ہے باعث اطمینان بھی ہے اور ملکی سیاسی تاریخ میں ایک خوش گوار تبدیلی کا آغاز بھی۔ ایک لمحے کے لیے یہ فرض کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ الیکشن کمیشن جن دعووں کے ساتھ بنا تھا اور جو دعوے الیکشن کمیشن کررہا ہے وہ پورے کرلیتا ہے۔
تو کیا قصہ یہیں پر ختم ہوجاتا ہے؟ کیا شفاف انتخابات کے انعقاد کے بعد ملک کے ایوانوں کے تمام معاملات صراط مستقیم پر چلنے شروع ہوجائیں گے؟ کیا ایک عوامی اور آئینی و قانو نی لحاظ سے معیاری حکومت عوام کو نصیب ہوسکے گی؟ کیا چھلنی کاری کے فرائض صرف الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر ہی عائد ہوتے ہیں؟ اس ملک کے ہر شہری کو اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی اوقات کے مطابق چھلنی کا فرض ادا کرنا ہوگا، امیدواروں کو کڑے امتحان سے گزار کر انتخاب لڑنے کے لیے اجازت دی جاتی ہے، اس کے بعد کا فرض عوام اور عوام نامی ہجوم میں شامل ہر شہری کا ہے کہ وہ انتخابی اکھاڑے میں موجود امیدواروں میں صرف اور صرف قومی مفاد کے حامل شخص کو ووٹ دے کر حکومتی ایوانوں میں پہنچائیں۔ انصاف کا ایک ترازو اگر الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے ہاتھ میں ہے تو دوسرا ترازو آئین پاکستان نے عوام کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔
یہ نکتہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ ہر ذمے داری، ہر قومی فرض الیکشن کمیشن اکیلے نبھانے سے قاصر ہے۔ صرف یہ سمجھ لینا کہ قانون کے نفاذ اور عمل داری کو یقینیبنایا جائے گا اور اس کے بعد ملکی حالات سدھر جائیں گے یہ سوچ سوائے خوش فہمی کے کچھ اور نہیں دے سکتی۔ ملک کے عوام کو ملک کے ہر آئینی اور سرکاری ادارے کو اپنے فرائض آئین کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے عین مطابق ادا کرنے ہوں گے۔ چھلنی کے عمل سے گزر کر آنے والوں کے آگے اگر افسر شاہی بچھ جاتی ہے، انتخابات کے شفاف عمل کے بعد اگر عوام پھر خواب غفلت کے مزے میں کھوگئے، چھلنی کے عمل سے گزرنے والے اگر پھر سے کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ کے راستوں پر چل پڑتے ہیں۔
اگر مگر کی گردان میں اوپر کے سطور میں جن خدشا ت کا اظہار کیا گیا ہے اگر گیارہ مئی کے بعد صورت حال یہی رہی تو مو جودہ ''مشق'' کی افادیت کا فائدہ؟ موجودہ شور و غوغا کو کس خانے میں فٹ کیا جاسکے گا؟ الیکشن سے وابستہ قومی خوش فہمیاں کیسے حقیقت کا روپ دھار سکیں گی؟ دل خوش کن نعروں کے شور میں کچھ وقت نکال کر بحیثیت محب وطن شہری ضرور ان نکات پر غور و فکر کرنے کی زحمت کیجیے۔ جذباتیت سے ہٹ کر ہمیں ملکی مستقبل اور حکومت کے بارے میں فیصلے کرنے ہوں گے، وہ فیصلے جن سے ملک اور اس ملک کی عوام کے آنے والے دن روشن ہوسکیں۔
ملکی سطح پر خوش گوار اور عوامی امنگوں کی ترجمان تبدیلی ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے، ہر شہری کی خواہش ہے کہ اسے روزگار ملے، ہر شہری کی خواہش ہے کہ قوم کا پیسہ قوم پر خرچ ہو اور ایمان داری سے خرچ ہو، ملک سے رشوت اور سفارش کلچر کا خاتمہ ہو۔
ملک میں امن کے راج کا خواب ہر شہری نے آنکھوں میں سہانے سپنے کی طرح سجا رکھا ہے۔ لیکن؟ یہ خواب صرف خواب دیکھنے اور خواہش کرنے سے نہ پورے ہوسکتے ہیں نہ حاصل کیے جاسکتے ہیں، اگر عام شہری اپنے لیے مسائل کا حل چاہتے ہیں اس کے لیے انھیں تالیوں سے آگے بڑھ کر عمل کی راہ اپنانی ہوگی۔ ہر باشعور پاکستانی کو چھلنی کا کام کرنا ہوگا، اپنا ووٹ برادری اور عزیز داری کے پلڑے میں نہیں ملک کے مفاد کے بیلٹ بکس میں ڈالنا ہوگا۔ 62، 63 کا اطلاق صرف الیکشن کمیشن کا کام ہی نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ سیاسی عمل کے اس نازک مرحلے پر ان دو شقوں پر عمل کریں۔ صالح قیادت چاہیے تو پھر خود بھی صالح پن کا ثبوت ہر شہری اور ہر ووٹر کو دینا ہوگا۔