کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا

دس پندرہ سال پہلے تک غریب جیسے تیسے زندگی کی گاڑی دھکیل تو رہا تھا۔

ISLAMABAD:
سال 2013 کے انتخابات 11 مئی 2013 کے دن ہوں گے۔ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ 65 سال سے پاکستان کے غریب عوام بہت برے حالوں زندگی گزار رہے ہیں، صدیوں سے جو جہاں پڑا ہے، وہیں پڑا ہے، اور وہیں پڑا پڑا مرکھپ جاتا ہے۔''نہ کوئی نام لیوا، نہ کوئی پانی دیوا''۔ 65 سال سے کیسے کیسے اور کتنے بڑے دھوکے باز ظالم لٹیرے حکمران آئے اور لوٹ مار کرکے یہ جا وہ جا۔ نہ کسی نے انھیں پکڑا۔ نہ کسی نے روکا، نہ ٹوکا بلکہ لٹیروں کو بحفاظت باہر نکال دیا اور نئے نئے حکمران تخت پر بیٹھتے رہے۔ غریب اپنے جھونپڑیوں میں پڑا رہا۔ اور اہل زر نئی نئی عمارتیں، کوٹھیاں، حویلیاں بناتے رہے۔ رات کے بعد نئی رات آتی رہی اور یہ گھر سحر کا آج بھی منتظر ہے۔

سحر نے تو کیا آنا تھا، ظالموں نے ظلم کے نئے نئے طریقے ضرور ایجاد کرلیے، پہلے تو صرف روٹی کپڑا مکان، تعلیم، دوا تک ہی معاملہ تھا۔ مگر اب تو ان بے درد بے رحم، خونی درندہ صفت حکمران ٹولے نے غریب عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، غریب کا سانس لینا بھی ظالم لٹیروں کو اچھا نہیں لگتا۔ اور غریب ٹھیلے والے، رکشے والے، فیکٹریوں کے مزدور ملازم بوڑھے، نوجوان، عورتیں، مرد، راہ گیر، اسکولوں کے بچے، ریموٹ بموں سے مارے جارہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، ڈاکٹر، وکیل، علماء مارے جارہے ہیں، کم تنخواہ پانے والوں کے فلیٹ بم دھماکوں سے اڑائے جارہے ہیں۔ مذہب کی آڑ میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔

دس پندرہ سال پہلے تک غریب جیسے تیسے زندگی کی گاڑی دھکیل تو رہا تھا۔ اب 65 سالوں کی لوٹ مار کے بعد خزانے خالی کرکے، ظالم لٹیرے، ہم غریبوں سے ہمارا ٹھکانہ بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ ہمارے وطن ہمارے ملک پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ہم غریب، جن کا سب کچھ پاکستان ہی ہے، جن کا مرنا جینا وطن کی مٹی کے ساتھ ہے، 65برسوں کی تذلیل کے بعد اب ہمیں بے وطن کرنے والی حرکتیں کی جارہی ہیں۔

یہ سارے پچھلے رونے دھونے اور سنگین ترین موجودہ حالات اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ 11 مئی 2013 الیکشن والے دن، بے خوف ہوکر ووٹ ڈالنے کے لیے سب کو گھروں سے نکل کر اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچنا ہوگا۔ یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ اس الیکشن میں ووٹ ضرور ڈالنا ہے۔ یہ ہم غریب عوام کی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ویسے ہی ہمیں دھماکے کرکے، گولیاں مار کے مارا تو جا ہی رہا ہے۔ تو اب موت سے کیا ڈرنا۔ اب تو ہم گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں ہیں۔

موت تو ہم غریبوں کے سروں پر کھڑی ہے۔ تو چلتے پھرتے کام کرتے، ووٹ ڈالتے، موت آجائے، تو آجائے، مگر ملک کا خاتمہ کرنے والوں کا رستہ تو روکنا ہے اور یہ ووٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہم پر قیامتیں تو گزر گئیں، اب اور کون سی نئی قیامت رہ گئی ہے، جسے گزرنا ہے۔ پاکستان کی غیرت کے رکھوالے یہ ''نہیں'' ، ''ہم'' ہیں اور ہمیں ہی کشکول توڑ کر آدھی کھاکر گزارا کرنا ہے۔ ''ان'' ظالموں نے ہمارے پیارے پیارے شہروں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، ''ان'' وحشیوں نے ہمارے رستے، گلیاں، شاہراہیں ویران کردی ہیں، ''ان'' لٹیروں نے ہمارے بازار، دکانیں بند کرادیے ہیں ''ان'' ملک دشمنوں نے فیکٹریاں کارخانے کے چلتے پہیے روک دیے ہیں۔ دھیان رکھنا، ووٹ دیتے وقت ''ان'' کا بڑا دھیان رکھنا۔

اور اپنا ووٹ آباد شہروں، گلزار رستوں، ہنستی گلیوں، رواں دواں شاہراہوں، لدی پھندی دکانوں اور چلتے پہیوں والے کارخانوں، فیکٹریوں کو دینا۔ ووٹ اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کو دینا۔ ووٹ ہرے بھرے کھیتوں میں ہل چلاتے، بیج بوتے، پانی لگاتے، فصلوں کی حفاظت کرتے، ہاری کسانوں کو خوش حالی کو دینا، ووٹ سڑکوں پر رلتے ان بچوں کو دینا جو اسکول جانے سے محروم ہیں اور جرائم کی دنیاؤں میں تباہ ہورہے ہیں۔ خدارا ! ووٹ بہت سوچ سمجھ کر ڈالنا اور ووٹ ضرور ڈالنا، صرف ایک دن اپنے وطن کے نام۔ اور ووٹ ڈال کر بھی سو مت جانا، بقول امید فاضلی:

بند بناکر سو مت جانا
دریا آخر دریا ہے


دیکھ رہے ہو! کیسے کیسے پھنکارتی لہروں والے دریاؤں کا کیا حشر ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن بے رحمانہ کاغذات کی جانچ پڑتال کررہا ہے، یہ دریا جھوٹی، جعلی ڈگریاں استعمال کرکے، اسمبلیوں میں آئے اور پانچ سال لوٹ مار میں حصے دار بنے رہے۔ ان ''دریاؤں'' نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کا یہ حشر بھی ہوسکتا ہے، یہ بندوقوں والے، زمینوں والے ، شوگر ملوں والے، ذاتی عدالتوں والے، ذاتی جیلوں والے، ذاتی مسلح محافظوں والے، اونچے مزاج والے، ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ سر عام ان کی یوں تذلیل کی جائے گی اور عدالتوں سے فیصلوں کے فوراً بعد انھیں ہتھکڑیاں لگاکر جیل بھیج دیا جائے گا۔

بظاہر جو سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ ہماری فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سے ملاقات کی اور انھیں پھر فوج کی تمام تر خدمات پیش کردی ہیں کہ جب جہاں ضرورت پڑے، ہم حاضر ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کو مکمل منصفانہ الیکشن کے لیے قانونی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ رہی بات آئین کی دفعات 62 اور 63 کی تو یہ دفعات جنھیں جنرل ضیاء الحق نے آئین کا حصہ بنایا تھا اور جن کے استعمال پر بڑا واویلا مچا ، ان دفعات کی طرف، پانچ سال میں پارلیمنٹیرینز کا دھیان ہی نہیں گیا، ارکان اسمبلی تو مست ہوکر سوتے رہے، یا لیپ ٹاپ پر انڈین اداکاراؤں کے نیم عریاں ڈانس دیکھتے رہے اور دفعات 63-62 آئین میں موجود رہیں۔

اس سلسلے میں بڑا کام ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے نے کردیا۔ جہاں پانچ دن تک ڈاکٹر صاحب آئین کی دفعات 62 اور 63 کا ذکر کرتے رہے اور پورے ملک کو ان دفعات سے آگاہ کردیا۔ اب آئین پر عمل درآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اپنے فرائض انجام دے رہا ہے، تو شور مچ رہا ہے کہ عوامی نمایندوں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ ان کی تذلیل کی جارہی ہے۔ عوام میں ان کا امیج خراب کیا جارہا ہے، ان کو مذاق بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ بھئی! یہ سب کچھ درست مان بھی لیا جائے، تو اس میں قصور وار یہی ممبران اسمبلی ہی ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ یہ آئین کی دفعات 62 اور 63 کو درست کرلیتے، ان میں ترمیم کرلیتے۔

اور میں سوچ رہا ہوں کہ اشرافیہ کی تذلیل، رسوائی پر بڑا شور ہورہا ہے۔ بڑا واویلا مچایا جارہا ہے اور 65 برسوں سے جو تذلیل رسوائی اور نہ جانے کیا کیا۔ اس ملک کے غریبوں کے ساتھ کیا جارہا ہے اور کرنے والے بھی ''یہی'' لوگ ہیں، اس بارے میں بھی ''ذرا سوچیے''۔ سیاستدانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے، اس میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، یہ سب ہوسکتا تھا، مگر نہیں ہوتا تھا اور اب ہورہا ہے۔ عوام کا بہرحال اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ عوامی غیض و غضب!!! اچھا ہوگا کہ ''یہ لوگ'' سنبھل جائیں۔ جالب کے چند مصرعے اور پھر اجازت:
صدیوں سے گھیراؤ میں ہم تھے' ہمیں بچانے کوئی نہ آیا

کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا' ہر ظالم نے شور مچایا
پھر ہم نے زنجیریں پہنیں' ہر سو پھیلا چپ کا سایا
پھر توڑیں گے ہم زنجیریں' ہر لب کو آزاد کریں گے
جان پہ اپنی کھیل کے پھر ہم شہر وفا آباد کریں گے
آخر کب تک چند گھرانے' لوگوں پر بیداد کریں گے
Load Next Story