ماتحت عدلیہ پر اضافی بوجھ سیکڑوں زیر التوا مقدمات نہیں نمٹائے جا سکے
ججز کو ریٹرننگ واسسٹنٹ ریٹرننگ افسران مقرر کرنا اور سرکاری اسکولوں کے دورے و دیگر عوامل کی وجہ سے عدلیہ پر بوجھ پڑا.
ماتحت عدلیہ پر اضافی بوجھ کے باعث سیکڑوں زیرالتوا مقدمات نہیں نمٹائے جاسکے ، انتخابی عمل کے پایہ تکمیل تک ہزاروں مقدمات التوا کا شکار رہنے کاامکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جوڈیشل پالیسی کے تحت31 مارچ2013تک تمام التوا مقدمات کو نمٹانے کی ہدایت کی تھی، جنوری کے آخری عشرے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ماتحت عدالتوں کے ججز کو کراچی کے تمام سرکاری اسکولوں کا دورہ کرنے اور گوسٹ اسکولوں کی رپورٹ 14فروری تک سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت عالیہ کے حکم پر کراچی کے پانچوں اضلاع کے ججز نے 2500 زائد سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا، اس دوران فاضل عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی سماعت نہ ہوسکی بلکہ مزید مقدمات کا اضافہ ہوگیا، اسی دوران عدالت عالیہ نے16عدالتوں کوانسداد دہشت گردی کی عدالتیں قرار دیکر 16سے زائد فاضل ججز کو دہشت گردی کے مقدمات چلانے کا اختیار دیا، ہر عدالت میں 5سے6دہشت گردی کے مقدمات منتقل کردیے تھے اور روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔
جس کے باعث مقدمات میں اضافہ ہونے کے ساتھ پہلے سے موجود مقدمات مزید التوا کے شکار ہوگئے ، قومی صوبائی حکومت کی5سالہ جمہوری مدت ختم ہونے کے بعد 18مارچ کو صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعدآئندہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمشنر کی استدعا پر عدالت عالیہ نے پانچوں اضلاع کے 66 سے زائد عدالتوں کے ججز کو ریٹرننگ واسسٹنٹ ریٹرننگ افسران مقرر کردیا جو کہ 20روز سے انتخابی عمل میں رات گئے تک مصروف رہتے ہیں۔
ان اضافی بوجھ کے باعث بڑے اہم مقدمات جس میں شامل خاتون جج قتل کیس، نسیمہ لبانو زیادتی کیس، گل جی قتل کیس، مالیاتی اسکینڈل کیس اور دیگر سیکڑوں زیر التوا مقدمات نہیں نمٹائے جاسکے، دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر شاہ زیب قتل کیس جس ایک ہفتے میں نمٹانے کا حکم دیا گیا تھا تاہم کراچی میں بدامنی ، وکلا کی ہڑتال ، سرکاری وکلا کی تبدیلی اور وکیل صفائی کی جانب سے گواہ پر 3روز تک صرف جرح جاری رکھنے و دیگر معاملات کے باعث فاضل جج نے2مرتبہ مزید وقت لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جوڈیشل پالیسی کے تحت31 مارچ2013تک تمام التوا مقدمات کو نمٹانے کی ہدایت کی تھی، جنوری کے آخری عشرے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ماتحت عدالتوں کے ججز کو کراچی کے تمام سرکاری اسکولوں کا دورہ کرنے اور گوسٹ اسکولوں کی رپورٹ 14فروری تک سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت عالیہ کے حکم پر کراچی کے پانچوں اضلاع کے ججز نے 2500 زائد سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا، اس دوران فاضل عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی سماعت نہ ہوسکی بلکہ مزید مقدمات کا اضافہ ہوگیا، اسی دوران عدالت عالیہ نے16عدالتوں کوانسداد دہشت گردی کی عدالتیں قرار دیکر 16سے زائد فاضل ججز کو دہشت گردی کے مقدمات چلانے کا اختیار دیا، ہر عدالت میں 5سے6دہشت گردی کے مقدمات منتقل کردیے تھے اور روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔
جس کے باعث مقدمات میں اضافہ ہونے کے ساتھ پہلے سے موجود مقدمات مزید التوا کے شکار ہوگئے ، قومی صوبائی حکومت کی5سالہ جمہوری مدت ختم ہونے کے بعد 18مارچ کو صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعدآئندہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمشنر کی استدعا پر عدالت عالیہ نے پانچوں اضلاع کے 66 سے زائد عدالتوں کے ججز کو ریٹرننگ واسسٹنٹ ریٹرننگ افسران مقرر کردیا جو کہ 20روز سے انتخابی عمل میں رات گئے تک مصروف رہتے ہیں۔
ان اضافی بوجھ کے باعث بڑے اہم مقدمات جس میں شامل خاتون جج قتل کیس، نسیمہ لبانو زیادتی کیس، گل جی قتل کیس، مالیاتی اسکینڈل کیس اور دیگر سیکڑوں زیر التوا مقدمات نہیں نمٹائے جاسکے، دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر شاہ زیب قتل کیس جس ایک ہفتے میں نمٹانے کا حکم دیا گیا تھا تاہم کراچی میں بدامنی ، وکلا کی ہڑتال ، سرکاری وکلا کی تبدیلی اور وکیل صفائی کی جانب سے گواہ پر 3روز تک صرف جرح جاری رکھنے و دیگر معاملات کے باعث فاضل جج نے2مرتبہ مزید وقت لیا ہے۔