ذرا اس پہلو پر بھی غور فرمالیں
ابتدائی بیس برسوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں معاشی نمو کی شرح بھارت سے بہت آگے تھی۔
اس وقت ڈالر کو پر لگ چکے ہیں۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگر معاشی حکمت عملیوں کو ہنگامی بنیادوں پر درست کرنے کی کوشش نہیں کی، تو اس سال کے اختتام تک ڈالر ڈیڑھ سو روپے تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
ایسی صورتحال میں اپنی صنعت کو سہارا دینے کے بجائے پاکستان کو چین کی تجارتی مصنوعات کو ٹیکس اور ڈیوٹیز کی مزید چھوٹ دے کر پہلے سے بگڑے ہوئے تجارتی توازن کو مزید بگاڑ کا شکار کرنے کا باعث بن رہا ہے جو ملکی صنعت کو مزید تباہ کرنے اور ملک کو مکمل طور پر صارف معاشرے میں تبدیل کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والی نوآبادیات کے سامنے کئی بڑے چیلنجز تھے۔ جن میں سب سے اہم صنعتکاری کے ذریعہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانا۔ تعلیم کو قومی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے قومی ترقی کے لیے ماہرین اور ہنرمند (Skilled) افرادی قوت تیار کرنا۔ جدید قوانین کی تیاری اور انفرااسٹرکچر کی بہتری بھی بڑے چیلنج کی شکل میں درپیش تھے۔ ان اقدامات کا مقصد صنعتی ترقی کے ذریعہ معیشت کو مستحکم کرنا تھا۔
اس سلسلے میں پہل جاپان اور بھارت نے کی۔ انھوں نے اپنی معاشی پالیسیاں ازسرنو مرتب کیں۔ خاص طور پر بھارت نے جاگیرداری کے خاتمے، زرعی اور صنعتی اصلاحات کے ذریعے ترقی دوست پالیسیوں کا آغاز کیا جس کے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔
پاکستان میں بھی صنعتی ترقی کو اولیت دی گئی اور 1950 کے عشرے میں PIDC جیسے ادارے قائم کیے گئے، جن کا مقصد صنعتکاروں کو صنعتکاری کے بارے میں فنی آگہی، تعاون اور مدد فراہم کرنا تھا۔ حکومتی سرپرستی، تعاون اور مدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی ریاستوں مہاراشٹر اور گجرات سے ہجرت کرکے آنے والے سرمایہ کاروں نے کراچی اور کوٹری میں صنعت کاری کی اور ملک کی دگرگوں معیشت کو سہارا دیا۔ جلد ہی اس عمل میں مقامی صنعتکار اور سرمایہ کار بھی شریک ہوگئے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس وقت تقسیم ہند ہوئی، برٹش انڈیا میں کل 921 صنعتی یونٹ کام کر رہے تھے، ان میں سے صرف 34 ان علاقوں میں تھے، جو پاکستان کے حصے میں آئے۔
یوں پاکستان کے لیے صنعتکاری ایک اہم ترین چیلنج تھا۔ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاسی اتھل پتھل شروع ہوگئی۔ لیکن بنگال سے تعلق رکھنے والی مڈل کلاس قیادت اور ہجرت کرکے آنے والی بیوروکریسی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ ملک کا معاشرتی استحکام چونکہ معاشی ترقی سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے صنعتکاری کے عمل کا تیز کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ایوب خان جیسا آمر بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ صنعتی ترقی کے عمل کو آگے بڑھائے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔
ابتدائی بیس برسوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں معاشی نمو کی شرح بھارت سے بہت آگے تھی۔ پاکستانی کرنسی کی قدر بھارتی کرنسی کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اسی مناسب سے پاکستان کا GDP بھارت سے خاصا بہتر تھا، مگر 1965 کی جنگ اور 1967 سے 1971 کے دوران ہونے والے سیاسی انتشار کی وجہ سے صنعتی ترقی کا عمل رک گیا۔ لیکن دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان کے فیوڈل سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کے فیوڈل مائنڈسیٹ رکھنے والے منصوبہ سازوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں صنعتکاری ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہوگئی۔
پاکستان کی صنعتکاری کے عمل میں آنے والی رکاوٹوں اور اس کے نتیجے میں معاشی نمو کی رفتار میں آنے والی کمی کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے جو قبائلی اور جاگیرداری معاشرت کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں، جمہوریت اور جمہوری اقدار ہمیشہ زد پذیر (Fragile) رہتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں مراعات یافتہ طبقات کے ساتھ قدامت پرست قوتیں بھی سماجی ٹرانسفارمیشن میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
اقتدار اعلیٰ پر عام طور پر ایسے طبقات حاوی آجاتے ہیں، جن کے پیداواری رشتے غیر صنعتی معیشت سے جڑے ہوتے ہیں، اس لیے وہ صنعتی معاشرت سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ پاکستان اس کی ایک مثال ہے، جہاں 1971 کے بعد ریاست پر صنعت مخالف قوتیں حاوی آنا شروع ہوگئیں۔ اب چونکہ ریاست کی مداخلت اور مناسب سرپرستی کے بغیر حقیقی صنعتی ترقی ممکن نہیں ہوتی، اس لیے ہمارے جیسے معاشرے صنعتکاری کے تمام تر لوازمات رکھنے کے باوجود صارف معاشرہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنرل ضیا کے دور سے آج تک کسی بھی حکومت (منتخب اور غیر منتخب) نے سنجیدگی کے ساتھ صنعتکاری کے عمل کو درست سمت میں فروغ دینے کی کوشش نہیں کی۔ درست سمت سے مراد وہ منصوبہ بندی اور اقدامات ہیں، جو ترجیحی بنیادوں پر لیے جانے چاہیے تھے۔
مثال کے طور پر صنعتی قوانین اور ٹیکس نظام میں وقت اور حالات کی مناسبت سے ضروری اصلاحات اور تبدیلیاں۔ توانائی کے مسئلہ کا دوررس اور پائیدار حل تلاش کرنا۔ انفرااسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ امن و امان کی صورتحال (Law & Order Situation) کو بہتر بنانا شامل ہوتا ہے۔ مگر حکمرانوں نے اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں صنعتکاری روبہ زوال ہونے لگی اور نتیجتاً معیشت کا انحصار غیر پیداواری ذرایع پر بڑھ گیا۔
پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک رہا ہے، جب کہ ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات بھارت سمیت دیگر ممالک کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہوا کرتی تھیں۔ لیکن حکومتوں کی جانب سے نہ زرعی شعبہ کی سرپرستی کی گئی اور نہ ہی صنعتی شعبہ کو تعاون اور مدد فراہم کی گئی۔ یہاں سرپرستی، تعاون اور مدد سے مراد کاشتکاروں کو اچھے incentive دے کر اچھی فصل اور اچھی مصنوعات کی تیاری کی جانب راغب کرنا، جب کہ صنعتکاروں کو فنی اور دیگر مراعات کا مہیا کیا جانا ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کی کمزور زرعی پالیسی کے باعث کپاس کی پیداوار گرتی چلی گئی۔
دوسری طرف اسی غیر ذمے داری کے نتیجے میں ٹیکسٹائل کی صنعت بھی زوال کا شکار ہوگئی۔ آج توانائی کے بحران، انفرااسٹرکچر کی فرسودگی اور صنعتی قوانین کی غیر فعالیت کی وجہ سے یہ صنعت تقریباً قریب المرگ ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش، ویت نام اور تائیوان، جو کپاس پیدا نہیں کرتے، عالمی مارکیٹ میں اپنی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس مصنوعات کو برآمد کرکے خطیر زرمبادلہ کمارہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 2016-17 کے دوران پاکستان کو ٹیکسٹائل مصنوعات سے 20 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی، جب کہ بنگلہ دیش نے اسی سال 35 ارب ڈالر کمائے۔
شکر (Sugar) ہماری دوسری بڑی صنعت ہے۔ قیام پاکستان کے وقت صرف ایک شوگر مل مردان میں تھی۔ آج 106 شوگرملیں ہیں۔ لیکن مناسب ریاستی پالیسی کے فقدان اور شوگر انڈسٹری پر بااثر سیاسی شخصیات کے کنٹرول کے باعث ملک اکثروبیشتر چینی کے بحران کا شکار رہتا ہے۔ ایک طرف ملک میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہیں، تو دوسری طرف اس کی اسمگلنگ کے نتیجے میں حکومت کو خاطر خواہ زرمبادلہ نہیں مل پارہا تھا۔
البتہ چند روز قبل ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق امسال فروری میں شکر کی برآمد سے 52 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔ جب کہ گزشتہ برس اسی مہینے میں شکر کی برآمدات سے 8.8 ملین ڈالرکی آمدنی ہوئی تھی۔ یہ ایک نیک شگون ہے، بشرطیکہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے۔
پاکستان کو یورپی یونین نے 2014 میں GSP-Plus کا جو درجہ دیا تھا، اس کو جنوری 2018 میں سخت تنبیہہ کے ساتھ جاری رکھا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر طے شدہ شرائط کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا، تو جنوری 2020 میں اس سرٹیفکیشن کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
GSP-Plus کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے ممالک میں ڈیوٹی سے 12.5 فیصد کی چھوٹ مل رہی ہے، جس کا فائدہ ریاست کے علاوہ صنعتکاروں اور محنت کشوں کو بھی مل سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ مگر ناقص منصوبہ بندی اور غیر ذمے دارانہ حکمت عملیوں کے باعث اس سرٹیفکیشن کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا جارہا۔ عرض صرف اتنی ہے کہ دوسرے ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی۔