یہ بہت بڑی خبر ہے

پاک بھارت تعلقات کی پیچیدہ اور بگڑتی ہوئی صورتحال میں اوم پرکاش شا کاپاکستانی دورہ انتہائی اہم اورمفید کہا جا سکتا ہے۔


توقیر چغتائی March 29, 2018

یوم پاکستان کی تقریب ہمیشہ کی طرح بھرپور جذبے کے ساتھ منائی گئی مگر اس دفعہ اس تقریب کے رنگ پچھلی بہت ساری تقریبات سے مختلف تھے۔

ترکی،اردن اور متحدہ عرب امارات کے فوجی دستوں اور سری لنکا کے صدر کی تقریب میں شمولیت بھی کوئی نئی خبر نہیں تھی کہ اس سے قبل بھی دوست ممالک کی اعلیٰ شخصیات ایسی تقریبات میں شرکت کرتی رہی ہیں، لیکن بھارتی وفد کے ساتھ ملٹری اتاشی کی اس تقریب میں شمولیت کا یہ پہلا موقع تھا۔ بظاہر اس خبر کو کوئی اہمیت دی گئی اور نہ ہی اخبارات میں اس کا زیادہ چرچا ہوا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خطرناک ماحول میںاسے کسی خوشگوار جھونکے سے کم نہیںسمجھنا چاہیے۔

77 سال کے دوران پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کام کرنے والے کم اور نفرتوں کو ہوا دینے والے دھڑے زیادہ تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ادارے یا فرد نے اگر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت یا قیام امن کے لیے دو قدم آگے بڑھائے تو نامساعد حالات کی وجہ سے اسے مزید چار قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔

دو خطرناک جنگوں، شدت پسندی اور سرحدی کشیدگی کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے باوجود لکیر کے دونوں جانب بسنے والوں کے درمیان کئی ایسی ثقافتی، سماجی، لسانی اور علاقائی اقدار مشترک ہیں جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے لیے ہمیشہ بے تاب رکھتی ہیں، لیکن ویزے کی بندش اس خواہش کے سامنے سب سے بڑی دیوار ثابت ہوتی ہے۔

ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت لگ بھگ پچیس سال قبل ''پاکستان انڈیا پیپلز فورم'' کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا مقصد فرد سے فرد کا رابطہ، ویزے میں نرمی، سماجی، ثقافتی اور ادبی وفود کا تبادلہ، باہمی تجارت، ڈاک اور ٹیلی فون کی سہولیات میں اضافہ اور دوسرے اہم مسائل کو مدنظر رکھا گیا تھا، لیکن پاکستان اور بھارت کے کئی شہروں میں مختلف پروگرام منعقد کروانے، سیکڑوں افراد کی شرکت اور کئی دوسرے متنازعہ امور پر بات کرنے کے باوجود حالات جوں کے توں رہے، جنھیں دیکھتے ہوئے قیام امن اور جنگ سے نفرت کرنے والے دھڑے مایوس تو ہوئے مگر کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد پھر میدان عمل میں نکل آئے۔

بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال میں بھارت نے اپنے پرانے حلیف روس سے بے رخی اختیار کرتے ہوئے امریکا سے تجارتی، معاشی اور سیاسی تعلقات بڑھانے کا اعلان کیا تو اس خطے کا سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔ اس تبدیلی اور کشیدگی کی وجہ سی پیک کا منصوبہ بھی تھا جس کی مخالفت میں بھارتی حکومت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکی دی اور سرحدی جھڑپوں میں اضافے کے ساتھ ویزے کی بندش کا مزید سخت فیصلہ کیا۔

ویزے کی یہ بندش ماضی کے مقابلے میں زیادہ سخت اس لیے بھی کہی جا سکتی ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستانی شہریوں کو بھارت کے کسی شہر میں جانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یورپ اور امریکا میں رہنے والے پاکستانی نژاد شہریوں کو بھی ویزا دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔

بھارت کی وزارت ترقی، انسانی وسائل اور تعلیم کے تحت چلنے والی ''قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان'' نے دہلی میں اس ہفتے ایک ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس میں دوسرے ممالک کے مندوبین کے علاوہ ڈنمارک میں مقیم اردو زبان کے معروف ادیب و شاعر اور مترجم نصر ملک کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی مگر مندوبین کی انتہائی کوشش اور کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالے کی بہترین تیاری کے باوجود ڈنمارک میں قائم بھارتی سفارت خانے نے انھیں اس کانفرنس کے لیے ویزا دینے سے انکار کردیا۔

''پاک انڈیا پیپلز فورم'' کی طرح ''سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس'' بھی ایک ایسی تنظیم ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں اس تنظیم کے مرکزی عہدیدار اور سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے پچھلے سال اس تنظیم کے تحت بھارت میں منعقدہ ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان گفتگو کے عمل کو مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوشش انتہائی تباہ کن ہوگی۔

اسی تنظیم کے صدر اوم پرکاش شا پچھلے ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کے خطاب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سلسلے میں کئی سوالات سامنے آئے لیکن ان کا مرکز ی موضوع مسئلہ کشمیر، اس کا حل اور مقبوضہ کشمیر میں جاری پر تشدد کارروائیاں ہی تھا۔ کراچی میں ''عوامی ورکرز پارٹی'' اور ''سوسائٹی فار سیکولر پاکستان'' کے تعاون سے منعقدہ ایک تقریب میں اوم پرکاش شا نے شرکا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جو موقف اختیار کیا ۔

اس کا لب لباب یہ تھا کہ دونوں ممالک کا میڈیا بعض مسائل کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے جب تک کشمیریوں کو بھی اس کا فریق نہیں بنایا جاتا تب تک کوئی پیشرفت ممکن نہیں۔ وہ یہ بات کہنے میں بھی حق بجانب تھے کہ پاک بھارت کے مسائل اگر جنگ سے ختم ہوتے تو دو بڑی جنگوں کے بعد کوئی بھی مسئلہ باقی نہ رہتا۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ مسائل بات چیت سے بھی حل نہیں ہورہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم میدان جنگ میں کود پڑیں۔ اگر بات چیت ناکام ہوتی ہے اور اس کے ثمرات نہیں ملتے تو ہمیں مزید بات چیت کرنا چاہیے۔

مسٹر شا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے اٹھنے والے جلوس نما جنازوں اور پرتشدد کارروائیوں کی طرف مبذول کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ تشدد تو ہر جگہ ہو رہا ہے جو قطعاً درست نہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی قابل مذمت ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی پیچیدہ اور بگڑتی ہوئی صورت حال میں اوم پرکاش شا کا پاکستانی دورہ انتہائی اہم اور مفید کہا جا سکتا ہے، مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے کسی اہم اور مرکزی تقریب میں بھارت کے تین اہم سرکاری اہلکاروں کو مدعو کرکے قیام امن کی گیند بھارتی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے اس کا کیا جواب آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں