رمضان معیشت بمقابلہ رمضان افراتفری
رمضان میں ناجائز منافع خوری خصوصاً کھانے پینے کی اشیا میں ناجائز اضافے کے خلاف لوگوں کو خود متحد ہونا پڑے گا۔
BEIRUT:
جی نہیں! ہمارے ملک میں رمضان صرف عبادتوں، منافقتوں، نیکیوں، دکھاووں اور کہیں حلال کہیں کرپشن کے رزق حرام سے برپا کی کی جانے والی بھاری بھرکم افطار پارٹیوں کا ہی مہینہ نہیں، رمضان کی معیشت ملک کی مجموعی معیشت کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔
آپ کہیں سے بھی شمار کرلیجیے۔ مثلاً گلی محلے کی چھوٹی موٹی پرچون کی دکانوں سے لے کر بڑے بڑے سپر اسٹورز تک، سڑکوں، فٹ پاتھوں پہ پکوڑے و سموسے تلنے والوں سے لے کر فائیو اسٹار افطار بوفے تک، سفید چنے، لال شربت سے لے کر مصالحے کے پیکٹوں اور کوکنگ آئل کی پیٹ بوتلوں تک، پھلوں سے لے کر چکن، بیف اور مٹن تک، ٹیلر ماسٹر صاحبان سے لے کر ڈیزائنر برانڈز تک اور نجانے کہاں کہاں تک آپ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رمضان میں سیکڑوں ارب روپوں کا کاروبار ہوتے دیکھیں گے۔
اس سطح، اس قسم اور اس پیمانے کا یہ کاروبار آپ کو سال کے باقی 11 مہینوں میں نظر نہیں آئے گا۔ اور آپ روزمرہ کی ان کاروباری سرگرمیوں سے آگے کا جائزہ لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ زرمبادلہ سے لدے بیرون ملک سے پاکستان میں رمضان اور عید کی چھٹیاں گزارنے آنے والے پاکستانی اور اندرون ملک ماہانہ تنخواہوں کے ساتھ رمضان اور عید بونس پانے والے ملازمت پیشہ لوگ سب ہی رمضان معیشت میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔
جائیدادوں اور نئی گاڑیوں کی خریداری سے لے کر بچوں کے جوتوں اور شلوار سوٹوں تک آپ کو یہ زرمبادلہ، رمضان اور عید بونس ملکی معیشت میں شامل ہوتے نظر آئیں گے۔ رمضان معیشت فلاحی اداروں کو بھی چندوں، زکوٰۃ اور فطرانے سے مالا مال کردیتی ہے۔
گوکہ پاکستان کی قومی معیشت نہ ہی ایک جدید دستاویزی (ڈاکومینٹڈ) معیشت ہے اور نہ ہی یہاں بڑے پیمانے پہ براہ راست ٹیکس دینے کا کلچر ہے، مگر یہ رمضان معیشت کا دیوہیکل حجم ہے کہ اس میں اتنے بڑے پیمانے پہ کاروباری سرگرمیاں عمل میں آتی ہیں کہ قومی خزانے کو کسی نہ کسی طرح وسیع فائدہ پہنچا ہی جاتی ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ جہاں رمضان معیشت سے قومی معیشت کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں اسے روایتی رمضان افراتفری سے بہت سے نقصانات بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔
روایتی رمضان افراتفری دراصل بہت سے عوامل کے ملغوبے سے ہمارے ہاں ہر رمضان برپا ہوتی ہے۔ آپ آفسز کی مثال لے لیجیے جہاں اوقات کار کے گھنٹے کے ساتھ ساتھ استعداد کار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے، خصوصاً بہت سے سرکاری دفتروں میں جہاں بہت سے افسر و ماتحت آفس پہنچتے ہی چھٹی کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ دفتروں اور دوسرے بہت سے اداروں میں کارکردگی کی اس وسیع پیمانے پہ کمی سے قومی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے شہروں خصوصاً بڑے شہروں کی شاہراہوں پہ سہ پہر سے جو ٹریفک جام شروع ہوتا ہے وہ افطار کے بعد کے ایک دو گھنٹے چھوڑ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ہر روز اس ٹریفک جام میں کروڑوں کا ایندھن اور لاکھوں انسانی پیداواری گھنٹے ضایع ہوتے ہیں جن کی روز کی مالیت ہی اربوں روپے کے برابر جا پہنچتی ہے۔ رمضان کے دوران ہی شاپنگ کے علاقوں اور مذہبی تقریبات وغیرہ کے لیے بجلی چوری میں بڑے پیمانے پہ اضافہ بھی ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف بجلی کمپنیوں کو بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ بجلی چوری میں عظیم اضافے سے لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ لامحالہ ہوتا ہے۔
رمضان معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں گداگر اور جرائم پیشہ افراد شہروں پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس بڑی تعداد میں گداگروں اور جرائم پیشہ لوگوں کی بڑے شہروں پہ یلغار سے جہاں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوجاتی ہے وہیں رمضان افراتفری میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔جب کہ کئی شہروں جیسے کہ لاوارث کراچی میں پولیس مارکیٹوں، سڑکوں پہ ایک طرف تجاوزات قائم کرواتی نظر آتی ہے تو دوسری طرح سڑک کے بڑے حصے پہ کار پارکنگ۔ ان ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ لاٹس سے رمضان افراتفری میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے۔
ان سرگرمیوں سے صرف لاوارث شہر کراچی میں تعینات غیر مقامی پولیس اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام شہری اداروں کے کرپٹ عناصر ہی اربوں روپے بھتے و رشوت کے ضمن میں وصول کرنے کے معاملے میں مشہور ہیں۔ غیر سرکاری بھتہ خور عناصر بھی مختلف شہروں بشمول تباہ حال کراچی کی ایک ایک مارکیٹ سے لاکھوں کروڑوں کا بھتہ وصول کرتے رہے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ملک ایڈہاک بنیادوں پہ چلایا جاتا ہے۔ ہمارے جینیاتی طور پہ کرپٹ اور نااہل حکمران طبقے کی گڈ گورننس نوٹس لے لیا سے شروع ہوکر معطل کردیا پہ ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہر سال رمضان افراتفری میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے جو رمضان معیشت کے فوائد کو گہنا کر رکھ دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور شہری ادارے ہر سال رمضان سے کافی پہلے ہی رمضان افراتفری سے نمٹنے کے پلان بنا لیا کریں جن پہ پھر رمضان میں سختی سے عمل ہو۔
اس ضمن میں کچھ بنیادی اقدامات تو غالباً ہر سال ہی لینے ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ رمضان کے لیے کام کی کوالٹی اور مقدار اور عوامی خدمت کے ٹارگٹس پہ مشتمل کارکردگی کے پلان پہلے ہی سے سرکاری محکموں میں دے دیے جائیں۔ جن محکموں میں ان پلانز پہ اطمینان بخش طور پہ عمل درآمد نہ ہو پائے وہاں کے اعلیٰ افسران اور ان کے قریب ترین ماتحتوں کو ملازمت سے برخاستگی سے لے کر گریڈز میں تنزلی تک کی سزائیں دی جائیں۔
ایک بار ایسا ہوگا تو آیندہ ہمیں بہت پرفارمنس دیکھنے کو ملے گی۔ بالکل اسی طرح بڑے شہروں میں رمضان ٹریفک مینجمنٹ پلان پہلے ہی سے تیار کیے جائیں۔ رمضان کے دوران تیز رفتاری، غلط سمت سے آنے، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے اور غلط پارکنگ کرنے پہ جرمانوں میں کم ازکم پانچ سے دس گنا اضافہ کردیا جائے۔ رمضان ٹریفک مینجمنٹ پلان پر سختی سے عملدرآمد کے لیے رینجرز جیسے اداروں سے بھی مدد لی جائے۔
لوگوں پہ رینجرز کی موجودگی میں بھاری جرمانے ہوں گے تو لوگ قانون کی خلاف ورزیوں سے باز رہیں گے۔ بڑے شہروں مثلاً پاکستان کے دل لاہور اور لاوارث کراچی کے باہر عارضی جیل کیمپ قائم کیے جائیں جہاں ایک مہینے یعنی پورے رمضان کے لیے گداگروں کو بھجوادیا جائے جہاں ان سے محنت والے کام کروا کر انھیں معاوضہ دیا جائے۔
اگلی بار یہ رمضان میں بڑے شہروں پہ حملہ آور ہونے کے بجائے اپنے ہی علاقوں میں محنت مزدوری کو فوقیت دیں گے۔ رمضان معیشت کے اربوں روپے مختلف بھتہ گروپوں کو دکانداروں، اسٹال، ریڑھی، چھابڑی والوں کی طرف سے بھتے کی ادائیگی کی صورت میں ضایع ہوجاتے ہیں۔
جب کہ انھی دکانداروں وغیرہ میں سے اکثر حکومت کو ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان دکانداروں اور اسٹال ہولڈرز وغیرہ جو خاص رمضان کی شاپنگ والے علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں ان کے سائز اور جگہ کے حساب سے ان پر رمضان ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ اربوں روپوں کے اس کاروبار سے کچھ براہ راست ٹیکس بھی قومی خزانے میں جمع ہوسکے۔ اس کے عوض حکومتوں کو ان لوگوں کو سرکاری اور غیر سرکاری بھتہ خوروں سے مکمل تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
رمضان میں ناجائز منافع خوری خصوصاً کھانے پینے کی اشیا میں ناجائز اضافے کے خلاف لوگوں کو خود متحد ہونا پڑے گا۔ سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرکے رمضان معیشت کے اربوں روپے ناجائز منافع خوری کی نذر ہونے سے بچا سکتے ہیں کیونکہ عوامی بائیکاٹ ہی قیمتوں کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری حکومتیں اور خود ہم شہری آنے والے رمضان کی معیشت کو روایتی رمضان افراتفری سے بچانے کے لیے ابھی سے پلاننگ کرلیں۔
جی نہیں! ہمارے ملک میں رمضان صرف عبادتوں، منافقتوں، نیکیوں، دکھاووں اور کہیں حلال کہیں کرپشن کے رزق حرام سے برپا کی کی جانے والی بھاری بھرکم افطار پارٹیوں کا ہی مہینہ نہیں، رمضان کی معیشت ملک کی مجموعی معیشت کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔
آپ کہیں سے بھی شمار کرلیجیے۔ مثلاً گلی محلے کی چھوٹی موٹی پرچون کی دکانوں سے لے کر بڑے بڑے سپر اسٹورز تک، سڑکوں، فٹ پاتھوں پہ پکوڑے و سموسے تلنے والوں سے لے کر فائیو اسٹار افطار بوفے تک، سفید چنے، لال شربت سے لے کر مصالحے کے پیکٹوں اور کوکنگ آئل کی پیٹ بوتلوں تک، پھلوں سے لے کر چکن، بیف اور مٹن تک، ٹیلر ماسٹر صاحبان سے لے کر ڈیزائنر برانڈز تک اور نجانے کہاں کہاں تک آپ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رمضان میں سیکڑوں ارب روپوں کا کاروبار ہوتے دیکھیں گے۔
اس سطح، اس قسم اور اس پیمانے کا یہ کاروبار آپ کو سال کے باقی 11 مہینوں میں نظر نہیں آئے گا۔ اور آپ روزمرہ کی ان کاروباری سرگرمیوں سے آگے کا جائزہ لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ زرمبادلہ سے لدے بیرون ملک سے پاکستان میں رمضان اور عید کی چھٹیاں گزارنے آنے والے پاکستانی اور اندرون ملک ماہانہ تنخواہوں کے ساتھ رمضان اور عید بونس پانے والے ملازمت پیشہ لوگ سب ہی رمضان معیشت میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔
جائیدادوں اور نئی گاڑیوں کی خریداری سے لے کر بچوں کے جوتوں اور شلوار سوٹوں تک آپ کو یہ زرمبادلہ، رمضان اور عید بونس ملکی معیشت میں شامل ہوتے نظر آئیں گے۔ رمضان معیشت فلاحی اداروں کو بھی چندوں، زکوٰۃ اور فطرانے سے مالا مال کردیتی ہے۔
گوکہ پاکستان کی قومی معیشت نہ ہی ایک جدید دستاویزی (ڈاکومینٹڈ) معیشت ہے اور نہ ہی یہاں بڑے پیمانے پہ براہ راست ٹیکس دینے کا کلچر ہے، مگر یہ رمضان معیشت کا دیوہیکل حجم ہے کہ اس میں اتنے بڑے پیمانے پہ کاروباری سرگرمیاں عمل میں آتی ہیں کہ قومی خزانے کو کسی نہ کسی طرح وسیع فائدہ پہنچا ہی جاتی ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ جہاں رمضان معیشت سے قومی معیشت کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں اسے روایتی رمضان افراتفری سے بہت سے نقصانات بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔
روایتی رمضان افراتفری دراصل بہت سے عوامل کے ملغوبے سے ہمارے ہاں ہر رمضان برپا ہوتی ہے۔ آپ آفسز کی مثال لے لیجیے جہاں اوقات کار کے گھنٹے کے ساتھ ساتھ استعداد کار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے، خصوصاً بہت سے سرکاری دفتروں میں جہاں بہت سے افسر و ماتحت آفس پہنچتے ہی چھٹی کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ دفتروں اور دوسرے بہت سے اداروں میں کارکردگی کی اس وسیع پیمانے پہ کمی سے قومی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے شہروں خصوصاً بڑے شہروں کی شاہراہوں پہ سہ پہر سے جو ٹریفک جام شروع ہوتا ہے وہ افطار کے بعد کے ایک دو گھنٹے چھوڑ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ہر روز اس ٹریفک جام میں کروڑوں کا ایندھن اور لاکھوں انسانی پیداواری گھنٹے ضایع ہوتے ہیں جن کی روز کی مالیت ہی اربوں روپے کے برابر جا پہنچتی ہے۔ رمضان کے دوران ہی شاپنگ کے علاقوں اور مذہبی تقریبات وغیرہ کے لیے بجلی چوری میں بڑے پیمانے پہ اضافہ بھی ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف بجلی کمپنیوں کو بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ بجلی چوری میں عظیم اضافے سے لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ لامحالہ ہوتا ہے۔
رمضان معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں گداگر اور جرائم پیشہ افراد شہروں پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس بڑی تعداد میں گداگروں اور جرائم پیشہ لوگوں کی بڑے شہروں پہ یلغار سے جہاں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوجاتی ہے وہیں رمضان افراتفری میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔جب کہ کئی شہروں جیسے کہ لاوارث کراچی میں پولیس مارکیٹوں، سڑکوں پہ ایک طرف تجاوزات قائم کرواتی نظر آتی ہے تو دوسری طرح سڑک کے بڑے حصے پہ کار پارکنگ۔ ان ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ لاٹس سے رمضان افراتفری میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے۔
ان سرگرمیوں سے صرف لاوارث شہر کراچی میں تعینات غیر مقامی پولیس اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام شہری اداروں کے کرپٹ عناصر ہی اربوں روپے بھتے و رشوت کے ضمن میں وصول کرنے کے معاملے میں مشہور ہیں۔ غیر سرکاری بھتہ خور عناصر بھی مختلف شہروں بشمول تباہ حال کراچی کی ایک ایک مارکیٹ سے لاکھوں کروڑوں کا بھتہ وصول کرتے رہے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ملک ایڈہاک بنیادوں پہ چلایا جاتا ہے۔ ہمارے جینیاتی طور پہ کرپٹ اور نااہل حکمران طبقے کی گڈ گورننس نوٹس لے لیا سے شروع ہوکر معطل کردیا پہ ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہر سال رمضان افراتفری میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے جو رمضان معیشت کے فوائد کو گہنا کر رکھ دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور شہری ادارے ہر سال رمضان سے کافی پہلے ہی رمضان افراتفری سے نمٹنے کے پلان بنا لیا کریں جن پہ پھر رمضان میں سختی سے عمل ہو۔
اس ضمن میں کچھ بنیادی اقدامات تو غالباً ہر سال ہی لینے ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ رمضان کے لیے کام کی کوالٹی اور مقدار اور عوامی خدمت کے ٹارگٹس پہ مشتمل کارکردگی کے پلان پہلے ہی سے سرکاری محکموں میں دے دیے جائیں۔ جن محکموں میں ان پلانز پہ اطمینان بخش طور پہ عمل درآمد نہ ہو پائے وہاں کے اعلیٰ افسران اور ان کے قریب ترین ماتحتوں کو ملازمت سے برخاستگی سے لے کر گریڈز میں تنزلی تک کی سزائیں دی جائیں۔
ایک بار ایسا ہوگا تو آیندہ ہمیں بہت پرفارمنس دیکھنے کو ملے گی۔ بالکل اسی طرح بڑے شہروں میں رمضان ٹریفک مینجمنٹ پلان پہلے ہی سے تیار کیے جائیں۔ رمضان کے دوران تیز رفتاری، غلط سمت سے آنے، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے اور غلط پارکنگ کرنے پہ جرمانوں میں کم ازکم پانچ سے دس گنا اضافہ کردیا جائے۔ رمضان ٹریفک مینجمنٹ پلان پر سختی سے عملدرآمد کے لیے رینجرز جیسے اداروں سے بھی مدد لی جائے۔
لوگوں پہ رینجرز کی موجودگی میں بھاری جرمانے ہوں گے تو لوگ قانون کی خلاف ورزیوں سے باز رہیں گے۔ بڑے شہروں مثلاً پاکستان کے دل لاہور اور لاوارث کراچی کے باہر عارضی جیل کیمپ قائم کیے جائیں جہاں ایک مہینے یعنی پورے رمضان کے لیے گداگروں کو بھجوادیا جائے جہاں ان سے محنت والے کام کروا کر انھیں معاوضہ دیا جائے۔
اگلی بار یہ رمضان میں بڑے شہروں پہ حملہ آور ہونے کے بجائے اپنے ہی علاقوں میں محنت مزدوری کو فوقیت دیں گے۔ رمضان معیشت کے اربوں روپے مختلف بھتہ گروپوں کو دکانداروں، اسٹال، ریڑھی، چھابڑی والوں کی طرف سے بھتے کی ادائیگی کی صورت میں ضایع ہوجاتے ہیں۔
جب کہ انھی دکانداروں وغیرہ میں سے اکثر حکومت کو ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان دکانداروں اور اسٹال ہولڈرز وغیرہ جو خاص رمضان کی شاپنگ والے علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں ان کے سائز اور جگہ کے حساب سے ان پر رمضان ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ اربوں روپوں کے اس کاروبار سے کچھ براہ راست ٹیکس بھی قومی خزانے میں جمع ہوسکے۔ اس کے عوض حکومتوں کو ان لوگوں کو سرکاری اور غیر سرکاری بھتہ خوروں سے مکمل تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
رمضان میں ناجائز منافع خوری خصوصاً کھانے پینے کی اشیا میں ناجائز اضافے کے خلاف لوگوں کو خود متحد ہونا پڑے گا۔ سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرکے رمضان معیشت کے اربوں روپے ناجائز منافع خوری کی نذر ہونے سے بچا سکتے ہیں کیونکہ عوامی بائیکاٹ ہی قیمتوں کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری حکومتیں اور خود ہم شہری آنے والے رمضان کی معیشت کو روایتی رمضان افراتفری سے بچانے کے لیے ابھی سے پلاننگ کرلیں۔