اس نے اپنی بیٹی کو بیچ دیا

یہ واقعہ کیا سوالات اٹھا رہا ہے۔ پہلا سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ایک لڑکی کو کس طرح سودے میں دیا جاسکتا ہے؟

muhammad.anis@expressnews.tv

جب قوم کرکٹ کے نشے میں چوکے چھکے دیکھ رہی تھی، ایک ماں اپنی بیٹی کی عزت کا سودا کر رہی تھی۔ جب کرپشن کے ڈھول پر ٹی وی کی اسکرین ناچ رہی ہوتی ہے تب ایک باپ غربت سے تنگ آکر اپنے چار بچوں کو قتل کردیتا ہے۔ جب موٹی موٹی باتوں میں لوگ وزیروں کی خفیہ شادیوں کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں اسی وقت ایک ماں اپنے تین بچوں کو قتل کردیتی ہے۔ پرائم ٹائم، براہ راست سیاستدانوں کے جلسے، ایک جیسا شور مچاتے رہتے ہیں اور اس کی ناک کے نیچے غریب ترستا رہ جاتا ہے۔

آئیے اپنے موجودہ معاشرے کی ایک دردناک کہانی بتاتا ہوں۔ پھر آپ سوچیں کہ ایسے ماحول میں ہم کون سا جشن مناتے ہیں۔ پھر فیصلہ کیجیے گا کہ جب ایک ماں اتنی مجبور ہوجائے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو دوسروں کے حوالے کرے اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر دی جائیں۔ خبر کے مطابق پنجاب میں پیر محل تھانے کی حدود میں محلہ غریب آباد ہے۔ وسیم اور ندا ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔

کوئی کہتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان پیار کا رشتہ تھا، جب کہ کوئی یہ کہتا ہے کہ انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا تھا۔ اور یہ بات ندا کے بھائی بلال کو معلوم ہوگئی۔ وسیم نے بلال سے درخواست کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائے لیکن بلال نے یہ بات اپنے بھائی رمضان کو بتادی۔ پولیس کی معلومات کے مطابق رمضان اور شہزاد نے وسیم کی ماں نذیراں بی بی اور بڑے بھائی سلیم کو بلایا، اور کہا کہ تمھارے بیٹے نے ہماری عزت کو خاک میں ملا دیا ہے، اس کے خلاف ہم پولیس میں جائیں گے۔

وسیم کے گھر والوں نے منت سماجت کی کہ معاملے کو آپس میں ہی افہام و تفہیم کے ذریعہ ختم کردیا جائے، لیکن رمضان اور اس کے گھر والوں نے ایک شرط رکھ دی کہ معاملہ صرف اس صورت میں ختم ہوگا کہ جب وسیم کے گھر والے اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت دیں گے۔ بہت کوشش کے باوجود بات نہ بن پائی۔ سرکاری کاغذ یعنی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق وسیم کے گھر والے اس بات پر مان گئے کہ وہ اپنی بیٹی کو رمضان کے حوالے کردیں گے اور 21 مارچ کو جب ہم سب کرکٹ کا جشن منا رہے تھے، وسیم کی بہن کو رمضان کے حوالے کردیا گیا۔

میں تو سمجھ رہا تھا کہ دنیا ہل جائے گی، جگہ جگہ بات ہونا شروع ہوجائے گی، ٹی وی چینل پر ماروی میمن کے ٹویٹ کے علاوہ بھی بات ہوگی۔ لیکن نہ تو زمین پھٹی اور نہ ہی ٹویٹر کے ٹرینڈ میں اس معصوم لڑکی کا ذکر آیا جس کو سمجھوتہ کرنے کے لیے پیش کردیا گیا۔ کوئی تو ذکر کردیتا کہ یہاں کسی کا دل دھڑکتا ہے۔ ایک لڑکی کو جیتے جی مار دیا گیا۔ وہ کون غیرت و حمیت سے محروم لوگ ہیں جو اس طرح کی پیشکش کرتے ہیں، اور سوچیں اس ماں اور گھر والوں نے کیسے یہ سمجھوتہ کیا ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر سوچیں اس لڑکی کے متعلق۔

اب کہانی کا ایک اور پہلو بھی دیکھیں، جب رمضان نے اس لڑکی سے زیادتی کرلی تو وہ راضی ہوگیا کہ اب ہمارے خاندان میں صلح ہوگئی اور اس کے لیے ''اب'' کچہری چلتے ہیں۔ ایک سرکاری اسٹیمپ پیپر پر پنچایت کے اراکین کی موجودگی میں اسٹیمپ پیپر بھی تیار ہوگیا۔ کوئی شرم ہوتی ہے۔ اس میں لکھا گیا کہ اب کیونکہ ہم نے ایک معصوم لڑکی کی بے حرمتی کرلی ہے اب دونوں خاندان مل جل کر رہیں گے۔

یہ واقعہ کیا سوالات اٹھا رہا ہے۔ پہلا سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ایک لڑکی کو کس طرح سودے میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس طرح کی پنچایت اور فیصلے اجازت دیتے ہیں۔ کیا قانون کی کتابیں صرف ٹی وی میں خبر آنے کے بعد کھولی جاتی ہیں۔ اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں ظلم کی ان داستانوں پر کیوں کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

آہ! ہمارے معاشرے کو دیمک کھا رہی ہے۔ اگر بات صرف اتنی سی ہے کہ کہیں معاملہ پولیس میں نہ جائے اس لیے لوگ اپنی بیٹی کو حوالے کردیتے ہیں، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارے یہاں قانون کے رکھوالوں سے لوگ ڈرتے ہیں یا پھر اعتبار نہیں کرتے۔ ان ہی دنوں میں دوسرا واقعہ دیکھیں۔


پنجاب کا علاقہ سرائے عالمگیر جہاں ایک ظالم باپ نے ظلم کی کہانی رقم کی۔ لیکن یہ بھی ضرور دیکھیے گا کہ کیوں کی؟ ایوب کے پانچ بچے تھے۔ بڑا بچہ 16 سال کا تھا اور معذور تھا، جب کہ 12 سال کی بیٹی آمنہ، 10 سال کی نادیہ اور 7 سال کی عشاء کے بعد ایک بیٹا اور بھی تھا۔ گھر میں مالی حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے۔ مخالفین نے مقدمہ پر مقدمہ کیا ہوا تھا۔ بس کل دولت یہ بچے ہی تھے، لیکن ان بچوں کو پالنے کے لیے اور ان کی بھوک کو مٹانے کے لیے اس معاشرے میں پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہماری ریاست آج تک ہر شہری کو بنیادی سہولت یا کم از کم اس کی روٹی کو یقینی نہیں بناسکی۔ ایوب کی بیوی قریبی دربار میں سلامی دینے گئی تھی، ایک بچہ پڑوس میں کھیلنے گیا تھا۔

ایوب ذہنی طور پر تھک چکا تھا، اس نے چاروں بچوں کو ایک کمرے میں بند کیا اور انھیں کلہاڑی مار کر قتل کردیا۔ ایک ظالم باپ جس نے اپنی کمزوری اور لاچاری کا غصہ اپنے بچوں کی جان لے کر نکالا۔ مگر پیر محل کی اس معصوم لڑکی کی طرح یہ قتل ہونے والے بچے کس کے ہاتھ پر اپنا خون تلاش کریں۔ وہاں ماں اور گھر والوں نے اپنے آپ کو مشکل سے نکالنے کے لیے اپنی بیٹی کو پیش کردیا اور یہاں ایک ظالم باپ نے حالات سے تنگ آکر اپنے ہی بچوں کی جان لے لی۔ وہاں بھی معاملہ نظام سے جڑا ہے اور یہاں بھی۔ ایک غریب آدمی جہاں اس نظام کی گردشوں میں پھنس جاتا ہے وہاں لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں، وہ بھی دیکھ لیجیے۔

ان ہی تین دنوں میں ایک واقعہ اوکاڑہ میں پیش آیا۔ اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 36/4L کے رہائشی محمد یاسین کا اراضی کے معاملے پر تنازعہ چل رہا تھا، اور یہ جھگڑا کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ہی قریبی لوگوں سے تھا۔ اس کی ان مقدمات سے جان نہیں چھوٹ رہی تھی۔

اس نے ایک منصوبہ بنایا اور اپنی 11 سال کی معصوم بیٹی کائنات کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، اور اس کا مقدمہ اپنے مخالفین کے خلاف درج کرادیا۔ جس میں یہ لکھا گیا کہ مخالفین نے اس کے گھر پر حملہ کیا اور اس میں معصوم کائنات قتل ہوگئی۔ پولیس کے مطابق جب انھوں نے اس معاملے کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ قتل باپ نے خود کیا ہے۔ پولیس نے قاتل باپ کو گرفتار کرلیا ہے، اور پولیس کے مطابق باپ نے اپنی بیٹی کے قتل کا جرم قبول کرلیا ہے۔

یہ میں برسوں کی کہانی نہیں بتارہا بلکہ صرف ایک ہفتے میں ہونے والے چند سچے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ میرے پاس اس طرح کے کم از کم 15 کیسز ہیں جو اخبارات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایک بہت ہی قریبی دوست جو سندھ میں اعلیٰ پولیس افسر ہے، اس کے مطابق یہ واقعات صرف اور صرف 2 فیصد ہیں جو رجسٹر ہوتے ہیں یا جن کی رپورٹ میڈیا میں آجاتی ہے۔ ایسے ہزاروں بچوں اور خواتین کے ساتھ واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

والدین یا قریبی گھر والے معاملے کو آپس میں حل کرلیتے ہیں۔ مگر میرا سوال پھر وہی ہے اگر آپ ان واقعات کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہالت کے ساتھ قانونی معاملات کی الجھن انسان کو کس حد تک لے جارہی ہے۔ لیکن ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے۔

آپ ٹی وی دیکھیں تو ایک طرف آپ کو یہ لگے گا کہ ہمارے ملک میں سیاست کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک ماروی میمن ٹویٹ کردیں تو ہم پلک جھپکتے میں ان کی گھریلو زندگی سرعام لے آتے ہیں، لیکن اگر ایک غریب لڑکی کا سودا ہو رہا ہو تو ہماری آنکھیں بند ہوں گی، ایک باپ اپنی بیٹی کو قتل کردے تو شاید یہ ہمارے لیے موضوع نہ ہو، مگر ایان علی کی گردن میں بنا ''ٹیٹو'' ضرور خبر ہوتا ہے۔

میں جاہل شخص یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ شاید زینب کا خون رنگ لائے گا لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میرے اردگرد ہر روز ایک نہیں کئی زینب آجاتی ہیں۔ مگر میں ایک کمزور آدمی بڑے لوگوں کی طرح کسی ''زینب'' کو ٹویٹر پر ٹرینڈ نہیں کرا سکتا، اس لیے کہ وہ خبر نہیں بن سکتی۔
Load Next Story