کیا بھارت میں وفاقی سیاسی پارٹی کا قیام ممکن ہے
پارٹی کا وفاقی ڈھانچہ سونیا گاندھی اور ممتا بینرجی کا مرہون منت ہے۔
PESHAWAR:
جب کانگریس کی سابقہ صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کی اجازت نہیں دیں گی بلکہ اپوزیشن پارٹیاں اس متعصب پارٹی کے خلاف مشترکہ ایکشن لیں گی تاکہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکے،تو اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کو اقتدار کی دوسری باری نہیں لینے دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کے پاس لوک سبھا میں اتنے اراکین نہیں کہ وہ تنہا بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک سکے ۔
ادھر مودی دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے پر امید ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے تین ضمنی انتخابات میں بی جے پی کامیاب نہیں ہو سکی ،اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے لچکدار بازو پھیلا رہی ہے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں ابھی تھوڑا وقت باقی ہے، اس دوران کرناٹک کے ریاستی انتخابات ہوںگیتاہم مودی کی طاقت اور کمزوری کا ٹیسٹ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابی معرکوں سے ہو گا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے ان پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے جو بی جے پی مخالف ہیں تا کہ 2019ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف انتخابی اتحاد تشکیل دیا جا سکے۔ جہاں تک کانگریس کے تعاون کا ذکر ہے تو ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ وہ ہر روز سونیا گاندھی کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔
حتیٰ کہ وہ ریاستیں بھی جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں وفاقی سیاسی پارٹی کے قیام میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اگر آپ یاد کریں تو جنتا پارٹی نے بھی وفاقی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ اس کے چوٹی کے لیڈر جن میں مرار جی ڈیسائی اور چرن سنگھ شامل تھے وہ باہم جھگڑتے رہے تھے۔ جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کے اتحادی منقسم ہو گئے تو جنتا حکومت اقلیتی پارٹی کی شکل اختیار کر گئی۔
پارٹی کا وفاقی ڈھانچہ سونیا گاندھی اور ممتا بینرجی کا مرہون منت ہے اور اب یہ سوال پیدا ہوا کہ لیڈروں میں سے کون وزیراعظم کی زیادہ حمایت حاصل کرے گا۔ جب یہ سوال حل ہو جائے تو پارٹی کا وفاقی ڈھانچہ برقرار رہ سکتا ہے۔
آج ملک کو جس سوال کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا بھارت اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکے گا جو اس کے بانیوں نے آزادی کے وقت اس کے لیے طے کیا تھا کہ یہاں اجتماعیت کی حکمرانی چاہیے۔ لیکن بی جے پی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے پر کمر بستہ ہے۔ وہ ملک میں ہندو نواز حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس بی جے پی کی سرپرست ہے جس کا ماٹو ہی ''ہندو توا'' ہے۔ اگر وہ باہمی طور پر اکٹھے رہنا سیکھ سکیں تو ان کے باہمی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔
سیکولر ازم اس سلسلے میں کارآمد ہو سکتا ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے مودی کے ہندو توا کے فلسفے کو شکست دی جا سکتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے ''یک جہتی اور رنگارنگی'' کا نعرہ دیا تھا۔ بھارت کی یکجہتی ہی اس کی علیحدگی پسندی کے خطرے کو شکست دے سکتی ہے۔ بی جے پی مہاتما گاندھی کے فلسفے کو شکست نہیں دے سکتی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو میں اس کی بہتری کے لیے دعا گو ہوں۔ اصل میں وہ ہندو اکثریت کے آپس میں عدم اعتماد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا لیکن یہ عدم اعتماد ہی بنیادی وجہ تھی جس کی بنیاد پر تقسیم کے بعد لوگوں کو اپنا گھر بار ترک کرنا پڑا اور دونوں اطراف میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاکت کا شکار ہوئے، جب کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مزید دور ہوتے چلے گئے۔ آر ایس ایس تقسیم کے نظریے کی اور زیادہ شدت کے ساتھ پیروی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ عناصر مہاتما گاندھی کا نظریہ باطل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اگرچہ انھوں نے گاندھی کو بے وقت قتل کر دیا لیکن اس کے باوجود جو لوگ ان کی عزت کرتے تھے انھوں نے اپنا لائحہ عمل جاری رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاتما گاندھی کا نظریہ بہت اچھا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا موقف تھا کہ اگر اس نظریے کو تا دیر قائم رکھا گیا تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
مہاتما گاندھی شام کے وقت عبادت کی تقریب منعقد کرتے تھے۔ ایک موقع پر میں بھی اس تقریب میں شامل تھا جب پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میں قرآن کی تلاوت نہیں سننا چاہتا۔ واضح رہے کہ گاندھی جی کی عبادت کے دوران گیتا، قرآن اور بائبل تینوں پڑھی جاتی تھیں۔
گاندھی جی نے کہا جب تک اعتراض کرنے والا اپنا اعتراض واپس نہیں لے گا، عبادت کی تقریب منعقد نہیں ہوگی۔ لہٰذا کئی روز تک یہ اجتماع منعقد نہیں ہوا تا آنکہ معترض نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ آج جب کٹر مذہبی جنونی تنظیم آر ایس ایس جو بی جے پی حکومت کی رہنمائی کرتی ہے، وہ اساتذہ کے تقرر میں آزاد خیال امیدواروں کو مسترد کر دیتی ہے۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی کٹر قسم کے جنونی لوگ متعین کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک وفاقی پارٹی کس طرح اس قسم کے عناصر کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ملک کے لیے خطرہ ان عناصر سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ملک کی آبادی میں 80 فیصد ہندو ہیں۔ لہٰذا ملک پر حکومت کرنے کا حق بھی ہندوؤں کا ہے۔
جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل جیسے لیڈر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہندو توا کا فلسفہ اگر نافذ ہو گیا تو ملک کے لیے بہت مشکل پیدا ہو جائے گی۔ انھوں نے اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کر دیا تا کہ ملک کا آئین تیار کیا جائے۔ آج بھارت پر حکومت 80 فیصد ہندوؤں کی نہیں بلکہ آئین کی حکومت ہے۔ جس کے تحت ہر فرد کو ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ گویا ہندو بے شک آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں ہوں مگر ان کو ملک پر ہندوتوا نافذ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ ملک کا آئین سپریم حیثیت رکھتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
جب کانگریس کی سابقہ صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کی اجازت نہیں دیں گی بلکہ اپوزیشن پارٹیاں اس متعصب پارٹی کے خلاف مشترکہ ایکشن لیں گی تاکہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکے،تو اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کو اقتدار کی دوسری باری نہیں لینے دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کے پاس لوک سبھا میں اتنے اراکین نہیں کہ وہ تنہا بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک سکے ۔
ادھر مودی دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے پر امید ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے تین ضمنی انتخابات میں بی جے پی کامیاب نہیں ہو سکی ،اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے لچکدار بازو پھیلا رہی ہے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں ابھی تھوڑا وقت باقی ہے، اس دوران کرناٹک کے ریاستی انتخابات ہوںگیتاہم مودی کی طاقت اور کمزوری کا ٹیسٹ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابی معرکوں سے ہو گا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے ان پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے جو بی جے پی مخالف ہیں تا کہ 2019ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف انتخابی اتحاد تشکیل دیا جا سکے۔ جہاں تک کانگریس کے تعاون کا ذکر ہے تو ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ وہ ہر روز سونیا گاندھی کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔
حتیٰ کہ وہ ریاستیں بھی جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں وفاقی سیاسی پارٹی کے قیام میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اگر آپ یاد کریں تو جنتا پارٹی نے بھی وفاقی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ اس کے چوٹی کے لیڈر جن میں مرار جی ڈیسائی اور چرن سنگھ شامل تھے وہ باہم جھگڑتے رہے تھے۔ جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کے اتحادی منقسم ہو گئے تو جنتا حکومت اقلیتی پارٹی کی شکل اختیار کر گئی۔
پارٹی کا وفاقی ڈھانچہ سونیا گاندھی اور ممتا بینرجی کا مرہون منت ہے اور اب یہ سوال پیدا ہوا کہ لیڈروں میں سے کون وزیراعظم کی زیادہ حمایت حاصل کرے گا۔ جب یہ سوال حل ہو جائے تو پارٹی کا وفاقی ڈھانچہ برقرار رہ سکتا ہے۔
آج ملک کو جس سوال کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا بھارت اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکے گا جو اس کے بانیوں نے آزادی کے وقت اس کے لیے طے کیا تھا کہ یہاں اجتماعیت کی حکمرانی چاہیے۔ لیکن بی جے پی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے پر کمر بستہ ہے۔ وہ ملک میں ہندو نواز حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس بی جے پی کی سرپرست ہے جس کا ماٹو ہی ''ہندو توا'' ہے۔ اگر وہ باہمی طور پر اکٹھے رہنا سیکھ سکیں تو ان کے باہمی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔
سیکولر ازم اس سلسلے میں کارآمد ہو سکتا ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے مودی کے ہندو توا کے فلسفے کو شکست دی جا سکتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے ''یک جہتی اور رنگارنگی'' کا نعرہ دیا تھا۔ بھارت کی یکجہتی ہی اس کی علیحدگی پسندی کے خطرے کو شکست دے سکتی ہے۔ بی جے پی مہاتما گاندھی کے فلسفے کو شکست نہیں دے سکتی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو میں اس کی بہتری کے لیے دعا گو ہوں۔ اصل میں وہ ہندو اکثریت کے آپس میں عدم اعتماد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا لیکن یہ عدم اعتماد ہی بنیادی وجہ تھی جس کی بنیاد پر تقسیم کے بعد لوگوں کو اپنا گھر بار ترک کرنا پڑا اور دونوں اطراف میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاکت کا شکار ہوئے، جب کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مزید دور ہوتے چلے گئے۔ آر ایس ایس تقسیم کے نظریے کی اور زیادہ شدت کے ساتھ پیروی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ عناصر مہاتما گاندھی کا نظریہ باطل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اگرچہ انھوں نے گاندھی کو بے وقت قتل کر دیا لیکن اس کے باوجود جو لوگ ان کی عزت کرتے تھے انھوں نے اپنا لائحہ عمل جاری رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاتما گاندھی کا نظریہ بہت اچھا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا موقف تھا کہ اگر اس نظریے کو تا دیر قائم رکھا گیا تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
مہاتما گاندھی شام کے وقت عبادت کی تقریب منعقد کرتے تھے۔ ایک موقع پر میں بھی اس تقریب میں شامل تھا جب پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میں قرآن کی تلاوت نہیں سننا چاہتا۔ واضح رہے کہ گاندھی جی کی عبادت کے دوران گیتا، قرآن اور بائبل تینوں پڑھی جاتی تھیں۔
گاندھی جی نے کہا جب تک اعتراض کرنے والا اپنا اعتراض واپس نہیں لے گا، عبادت کی تقریب منعقد نہیں ہوگی۔ لہٰذا کئی روز تک یہ اجتماع منعقد نہیں ہوا تا آنکہ معترض نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ آج جب کٹر مذہبی جنونی تنظیم آر ایس ایس جو بی جے پی حکومت کی رہنمائی کرتی ہے، وہ اساتذہ کے تقرر میں آزاد خیال امیدواروں کو مسترد کر دیتی ہے۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی کٹر قسم کے جنونی لوگ متعین کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک وفاقی پارٹی کس طرح اس قسم کے عناصر کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ملک کے لیے خطرہ ان عناصر سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ملک کی آبادی میں 80 فیصد ہندو ہیں۔ لہٰذا ملک پر حکومت کرنے کا حق بھی ہندوؤں کا ہے۔
جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل جیسے لیڈر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہندو توا کا فلسفہ اگر نافذ ہو گیا تو ملک کے لیے بہت مشکل پیدا ہو جائے گی۔ انھوں نے اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کر دیا تا کہ ملک کا آئین تیار کیا جائے۔ آج بھارت پر حکومت 80 فیصد ہندوؤں کی نہیں بلکہ آئین کی حکومت ہے۔ جس کے تحت ہر فرد کو ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ گویا ہندو بے شک آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں ہوں مگر ان کو ملک پر ہندوتوا نافذ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ ملک کا آئین سپریم حیثیت رکھتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)