ایم کیو ایم کی مزید تقسیم

پی ایس پی اس کے بعد لندن و پاکستان اور اب بالآخر بہادرآباد اور پی آئی بی دھڑوں میں تقسیم حقیقت بنتی جارہی ہے۔


طاہر نجمی March 30, 2018
[email protected]

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان ہونے والی ملاقات نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں سب سے نمایاں جگہ حاصل کررکھی ہے، یہ ملاقات سیاسی حلقوں میںبحث کا موضوع بنی ہوئی ہے، تبصروں، تجزیوں اور قیاس آرائیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ جب کہ شہر قائد کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے دھڑے متحد ہونے کے نام پر مزید تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس جماعت کا شیرازہ بکھرنے کے بعد شہر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اب تک کوئی واضح منظرنامہ ابھر کر سامنے نہیں آسکا ہے، اہلیان کراچی بالخصوس اردو کمیونٹی تذبذب کا شکار ہے کہ آیندہ الیکشن کے بعد کیا صورتحال سامنے آئے گی، کیا کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی نشاۃ ثانیہ ہو سکے گی؟

عوامی مسائل کے سیلاب کے سامنے بندھ باندھا جاسکے گا یا نہیں؟ ایم کیو ایم کی تقسیم سے مہاجر ووٹ بینک کتنا متاثر ہوگا اور دیگر سیاسی جماعتیں اس کا کتنا فائدہ اٹھاسکیں گی؟ یہ سوالات ہر کسی کے ذہن میں گردش کررہے ہیں۔ آنیوالا وقت شہر کراچی کے عوام کے لیے خوشیوں اور مسائل کے حل کی نوید لائے گا یا احساس محرومی میں اضافے کی سوغات دیگا؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی ہب ہے، اسی لیے اس شہربے نوا کے اچھے برے حالات کا اثر وفاق پر ضرور پڑتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اور حکومت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ کراچی کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں رہے۔ کسی زمانے میں دینی جماعتیں کراچی کی اسٹیک ہولڈر ہوا کرتی تھیں۔ مگر 80ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کے وجود میںآ نے کے بعد اس جماعت نے کراچی میں بلاشرکت غیرے اپنی دھاک بٹھائے رکھی مگر اب صورتحال کچھ مختلف ہوچکی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اپنے داخلی بحران کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، ایم کیو ایم پہلے متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ میں تقسیم ہوئی، پھر پی ایس پی اس کے بعد لندن و پاکستان اور اب بالآخر بہادرآباد اور پی آئی بی دھڑوں میں تقسیم حقیقت بنتی جارہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ اب کسی لحاظ سے متحدہ نہیں رہی۔ سینیٹ الیکشن میں کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے پر شروع ہونے والا تنازع اختتام کے بجائے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، پہلے بہادر آباد گروپ کی رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو پارٹی کی کنوینرشپ سے ہٹایا اور پھرالیکشن کمیشن نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ پارٹی قیادت کے تنازع پر ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں گروپوں بہادر آباد اور پی آئی بی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد فاروق ستار کی جانب سے مسئلہ کے حل کے لیے ایک مصالحتی فارمولا پیش کیا گیا ہے جس کے جواب میں بہادر آباد گروپ نے رابطہ کمیٹی میں 40 فیصد نمایندگی دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے مگر ''مصالحت'' کا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

اصولی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے دونوں گروپوں کو یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے جانے سے گریز کرنا چاہیے تھا، ایک عام فہم شخص بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ گھر کا معاملہ گھر میں ہی حل کرنا بہتر ہوتا ہے، مسئلہ کو گھر سے باہر لے جانا رسوائی کا سامان خود اپنے ہاتھوں پیدا کرنے کے مترادف ہوتا ہے، پی آئی بی گروپ کی جانب سے ہائی کورٹ سے رجوع کرنیکا فیصلہ دانشمندانہ اقدام نہیں کہا جاسکتا، عدالت تو ٹیکنیکل پوزیشن دیکھ کر فیصلہ سنادیگی، تنازع اپنی جگہ برقرار رہے گا۔

معاملے کو عدالت میں لے جانا مسئلے کا حل نہیں۔ بظاہر تو دونوں گروپوں کے معاملات ناقابل واپسی کی حد تک جاچکے ہیں لیکن مفاہمت اور افہام و تفہیم کا دروازہ مکمل طور پر بند نظر نہیں آرہا 'قوم کے بہترین مفاد میں ضد، انا اور خواہشات کو پس پشت ڈال کر افہام و تفہیم کی راہ اپنائی جائے تو معاملات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ دونوں جانب سے اخلاص کا مظاہرہ کیا جائے۔

ایم کیو ایم میں ہونے والی دھڑے بندی سے مہاجر ووٹ بینک کی تقسیم کے جو خدشات پیدا ہوئے تھے وہ پورے تو ہورہے ہیں لیکن یہ ووٹ بینک متحدہ کے دھڑوں میں ہی تقسیم ہو رہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوامی مسائل کے حل بالخصوص اردو کمیونٹی کے احساس محرومی کو ختم یا کم کرنے کے لیے واضح پروگرام پیش نہ کرنا ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں میں اس وقت حقیقی سیاسی بحران یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوامی مسائل کے حل کا کوئی پروگرام نہیں ہے، حالانکہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ شہری مسائل کے حل اور اردو کمیونٹی کی محرومیوں کے خاتمے کا پروگرام پیش کرکے ایم کیو ایم رہنماؤں کے اندرونی اختلافات کے باعث تذبذب کا شکار ہونیوالے ہمدرد، کارکنان اور سپورٹرز کی توجہ حاصل کرسکتی تھیں مگر افسوس کہ خود کو قومی جماعتیں کہلانے والی تمام سیاسی جماعتوں نے کراچی کے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا اعلان تو کردیا ہے مگر پی ٹی آئی کراچی کے عہدیداران کی آپس کی چپقلش سے انھیں فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچنے کا خدشہ ہے، انھوں نے بڑے زور و شور سے رابطہ مہم اور ممبر سازی مہم بھی شروع کی، مگر پی ٹی آئی کراچی میں 2013ء کی طرح مضبوط نظر نہیں آرہی۔ پیپلز پارٹی بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی سے دوچار دکھائی دے رہی ہے، سندھ میں گزشتہ ایک دہائی سے پی پی برسر اقتدار ہے، لیکن اس عرصہ کے دوران پی پی نے اردو بولنے والوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، محدود مدت کے لیے نافذ ہونے والا کوٹہ سسٹم میعاد مکمل ہونے کے بعد بھی نافذ العمل ہے۔

جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ کم و بیش تمام سرکاری اداروں میں اردو بولنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو کر رہ گئی ہے، سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اندرون سندھ میں خالی اسامیوں پر بھرتی ہونیوالے ملازمین اپنا تبادلہ کراچی کرالیتے ہیں اور اس طرح کراچی کے لوگوں کے لیے سرکاری ملازمت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں جب کہ ان ملازمین کے تبادلوں کے باعث خالی ہونے والی آسامیوں پر اندرون سندھ کے لوگوں کو ہی بھرتی کیا جاتا ہے۔

کوٹہ سسٹم کے نفاذ کا مقصد یہ تھا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کا حصول یقینی بنایا جاسکے تاکہ ان میں احساس محرومی پیدا نہ ہو لیکن اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بولنے والا طبقہ ہی احساس محرومی سے دوچار ہوگیا، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اب کوٹہ سسٹم تو بہت دور انھیں تو میرٹ کی بنیاد پر بھی ملازمتیں نہیں دی جارہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر احساس محرومی شدت اختیار نہیں کریگا تو پھر کیا ہوگا جب کہ رہی سہی کسر بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے نے پوری کردی ہے۔

یہ درست ہے کہ اپنے عروج کے دنوں میں طویل عرصے تک شریک اقتدار رہنے کے باوجود ایم کیو ایم شہری مسائل اور مہاجروں کے حقوق کے لیے وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی جو کہ اسے کرنا چاہیے تھا یا وہ کرسکتی تھی، مگر اب جب ایم کیو ایم تنزلی کا شکار ہے تو ایسے میں ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین خاص طور پر وہ سیاسی جماعتیں جو پوری قوم کی نمایندگی کی علمبردار بنتی ہیں ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ شہر قائد کے باسیوں اور اردو بولنے والوں کے مسائل حل کر کے انھیں یہ باور کرائیں کہ جنھیں آپ ووٹ دیتے تھے اور اپنا سمجھتے تھے وہ تو آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکیں لیکن ہمیں موقع ملا تو ہم آپ کے مسائل حل کرکے دکھائیں گے، مگر افسوس کہ اب تک ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مہاجر ووٹ بینک ایم کیو ایم کے تقسیم ہونے والے دھڑوں کے درمیان ہی گھوم رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں