یوم تجدید وفا
شرمندۂ تعبیر ہونے سے قاصر رکھا، ذرا سوچیے آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟
یوم پاکستان ایک خوبصورت دن، ایک جذبے کا سفر، ایک عہد کی تجدید اور ایک روشن صبح کی نوید ہے، 23 مارچ 1940 کو ہم نے پاکستان بنانے کا عہدکیا اور الحمدﷲ ہم کامیاب ہوئے، پاکستان کا حصول سنگ میل تو ہے لیکن آخری منزل نہیں، یہ وطن ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا، ایک طویل تاریخی جدوجہد اور بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد ہمیں یہ وطن ملا۔
افسوس صد افسوس وطن کے حصول کے بعد ہم اپنی اصل منزل کو فراموش کر بیٹھے، بانی اور مفکر پاکستان نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس حسین خواب کو ہمارے ارباب اختیار نے قیام پاکستان سے آج تک ، جب کہ ہم اپنی آزادی کے 71 ویں برس کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
شرمندۂ تعبیر ہونے سے قاصر رکھا، ذرا سوچیے آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں کون کون سے اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں، کن کن مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے؟ بانی اور مصور پاکستان سمیت تمام مشاہیر اور سرفروشانِ اسلام و پاکستان کی روح آج کس کرب سے گزر رہی ہے ۔اس کا اندازہ ہم وطن عزیزکی حالت زار سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
ایک عام پاکستانی جسے پاکستان کی تاریخ کا زیادہ علم نہ بھی ہو وہ بھی پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کم از کم اس مقصد کے لیے ہرگز نہیں بنایا گیا تھا جس مقصد کے لیے اسے اپنے قیام سے آج تک استعمال کیا گیا اور مزید استعمال کیا جا رہا ہے۔
قومی جوش وجذبے اور ملی غیرت وحمیت کی شان وشوکت کا بلاشبہ حقیقی تقاضا یہی ہے کہ 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں نے جن عظیم مقاصد کے لیے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا، ان عظیم مقاصد کو حقیقت کا روپ دیں، جن اعصاب شکن اور صبر آزما حالات میں اسلامیان ہند نے قرارداد پاکستان کی منظوری دی اس کے تقاضے معروضی تاریخی جدلیات سے جڑے ہوئے تھے۔
بانی پاکستان کی قیادت میں 14 اگست 1947 کو بے شمار قربانیوں کے بعد تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا جو آج 22 کروڑ پاکستانیوں کے خوابوں اور قومی اُمنگوں کا مظہر ہے لہٰذا یوم پاکستان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تاریخی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حال اور مستقبل کی صورت گری کے لیے نہ صرف غوروفکر کریں بلکہ حقیقت پر مبنی عملی اقدام اٹھائیں، اپنی کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں کا بھی بھرپور جائزہ لیں اور عہد کریں کہ ہم وطن عزیز کی ترقی، خوشحالی، مضبوطی اور سربلندی کے لیے قائد اعظم اور اقبال کے افکارکو مشعل راہ بناکر ایک زندہ اور پر عزم قوم ہونے کا ثبوت دیںگے۔ ہمارا جذبہ ایسا لازوال اور با کمال ہونا چاہیے جس سے ہم اپنے وطن کو ناقابل تسخیر اور امن و ترقی نیز اسلام کا گہوارہ بنادیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور پاکستان پر غور فرمایئے تو معلوم چلے گا کہ بانی پاکستان نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بلا مبالغہ سو سے زائد تقاریر میں مسلسل تکرار کے ساتھ صرف اسلام کی بات کی۔ قائد اعظم کی تقاریر کے چند شہ سرخیاں ملاحظہ ہوں:
٭''مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے'' (13 جنوری 1938) ٭ ''اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے'' (22 نومبر 1938) ٭ ''ملت اسلامیہ عالمی ہے'' (8 اپریل 1938) ٭ ''میں اول و آخر مسلمان ہوں'' (7 اگست 1938) ٭ ''انسان خلیفۃ اﷲ ہے'' (13 نومبر 1939) ٭ ''ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں'' (9 مارچ 1940) ٭ ''میرا پیغام قرآن ہے'' (26 مارچ 1940)
قائد اعظم نے 25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ''اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا'' قائد اعظم نے اپنی وفات سے دو تین دن پہلے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے فرمایا ''تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ کام مشکل تھا اور میں اکیلا بھی نہ کرسکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداؐ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے'' (بیان ڈاکٹر ریاض علی شاہ 11 ستمبر 1988)
علامہ اقبالؒ کا تصور پاکستان بھی ملاحظہ فرمایئے، 1930 میں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں الٰہ آباد کے مقام پر تاریخی خطبۂ صدارت دیا اور پاکستان کے قیام کی بشارت ان الفاظ میں دی۔ '' میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتاہوں'' ۔ ''اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑگئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کرسکے''
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے قیام کی بنیاد ہی اسلام ہے۔ سیکولر بھارت سے علیحدگی ہی ہم نے اس لیے اختیار کی کہ ہم اسلامی نظریہ حیات کے مطابق آزادانہ اپنی زندگی بسر کرسکیں، اسی مقصد کے تحت تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت عمل میں آئی، لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی، ہزاروں مسلمان عورتوں کی عزت و عصمت قربان ہوئیں تب کہیں جاکر پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا لیکن ہم دنیا کو پاکستان کا مطلب ''لا الٰہ الا اﷲ'' بتاکر خود منحرف ہوگئے۔
آج پاکستان کی سیاست اور حکومت پر سیکولرازم کا جو رنگ چھایا ہوا ہے، وہ ہمارے اس وعدے کی خلاف ورزی ہے جو ہم نے قیام پاکستان کے وقت اﷲ سے کیا تھا، ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم یہاں اسلام کا بول بالا کریںگے لیکن جب اﷲ مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں رمضان المبارک کی ستائیس ویں شب کو شب جمعہ میں یہ عظیم نعمت عطا فرمادی تب ہم عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے اور آج تک اپنے اس بنیادی عہد سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے عہد شکنی ہی کی سزا ہے کہ 1971 میں پاکستان دولخت ہوا اور باقی پاکستان کی سالمیت کو شدید اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ یوم پاکستان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے لیے قیام پاکستان کے وقت اﷲ سے کیے گئے اپنے عہد کو فوری طور پر پورا کریں اور اپنی خطاؤں پر شرمندہ ہوکر اﷲ کے حضور سچی توبہ کریں اور معافی مانگیں۔ امید ہے کہ فلاح پائیںگے۔