توبہ اور استغفار
بہ حیثیت مسلمانوں کو کثرت توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے۔
توبہ و استغفار سے نہ صرف گناہ بخش دیے جاتے ہیں بل کہ خالق کونین اپنی مہربانی ، فضل و احسان سے تائب کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے : '' مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔'' (سورۃ الفرقان)
بہ حیثیت مسلمانوں کو کثرت توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے اور احتساب کی کیفیت کے ساتھ اخلاق و کردار کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی سے ہم کنار ہوسکیں۔ کیوں کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بخشش کے لیے پھیلا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اے ایمان والو! اللہ کی طرف سب مل کر توبہ کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ۔'' (سورہ نور)
ایک بار امام احمد بن حنبلؒ سفر میں تھے، ایک قصبے میں رات ہوگئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا۔ اُن کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤبھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام کو نہ پہچانا اور اُن کو مسجد سے باہر نکلنے کا کہا۔ امام نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سوجاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔ یہ تمام منظر ایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی تھا، اُس نانبائی نے امام کو اپنے گھر رات ٹھہرنے کی پیش کش کر دی جب کہ وہ امام کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار کر رہا ہے۔
امام نے استفسار کیا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟ نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ مالکُ المُلک نے عطا کیا۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔ امام نے پوچھا: وہ کون سی دعا ہے ؟ نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔ امام فرمانے لگے : میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے ناصرف تمہاری دُعا سُنی بل کہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا۔
٭ توبہ کی خیر و برکت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' جو شخص استغفار کی پابندی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ہر تنگی کو دور کر دے گا اور ہر غم سے خلاصی دے گا اور اس کو روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہوگا۔'' ( ابوداؤد)حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' اے اللہ! تُو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، تونے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا، میں تیرا بندہ ہوں اور جہا ں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہوسکے گا، تیرے کیے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق کے وعدے پر قائم رہوں گا، تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے، میں اقرار کرتا ہوں کہ تونے مجھے نعمتوں سے نوازا اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نافرمانیاں کیں اور گناہ کیے، اے مالک و مولا! تو مجھے معاف کردے اور میرے گناہ بخش دے، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں، جس بندے نے اخلاص کے ساتھ ، دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کیا اور اسی دن، رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آگئی تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا۔'' (بخاری)
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے جمع ہوکر جبر و قدر میں بحث کرنے لگے تو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ باہر اپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی، ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔'' (معجم الکبیر)
حضرت عبداللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: شام کو اور صبح کو ( یعنی دن شروع ہونے اور رات شروع ہونے پر) تم قل ھواللہاحد ( سورہ اخلاص) اور معوذتین (سورہ فلق، سورہ ناس) تین بار پڑھ لیا کرو، ہر چیز سے تمہارے لیے یہ کافی ہوگی۔ ( ابوداؤد، ترمذی)
٭ سید الاستغفار:
حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا، اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مرگیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا، اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مرگیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ سید الاستغفار کا ترجمہ یہ ہے :'' اے اللہ تُو ہی میرا رب ہے، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لایق نہیں، تُونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، جس قدر طاقت رکھتا ہوں، میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، پس مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔'' ( رواہ مسلم)
حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غزوۂ بنوقریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہوگئی تو آپؓ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا، نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لیے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی، حتٰی کہ ان پر غشی طاری ہوگئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لا کر اپنے دست اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چناں چہ تاج دار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بندشوں سے آزاد فرما دیا۔
(دلائل النبوہ للبیہقی)
اللہ تعالیٰ ہمارے پتھر اور سیاہ دلوں کو نرم اور صاف کرکے صحیح اور پختہ توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہ حیثیت مسلمانوں کو کثرت توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے اور احتساب کی کیفیت کے ساتھ اخلاق و کردار کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی سے ہم کنار ہوسکیں۔ کیوں کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بخشش کے لیے پھیلا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اے ایمان والو! اللہ کی طرف سب مل کر توبہ کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ۔'' (سورہ نور)
ایک بار امام احمد بن حنبلؒ سفر میں تھے، ایک قصبے میں رات ہوگئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا۔ اُن کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤبھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام کو نہ پہچانا اور اُن کو مسجد سے باہر نکلنے کا کہا۔ امام نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سوجاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔ یہ تمام منظر ایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی تھا، اُس نانبائی نے امام کو اپنے گھر رات ٹھہرنے کی پیش کش کر دی جب کہ وہ امام کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار کر رہا ہے۔
امام نے استفسار کیا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟ نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ مالکُ المُلک نے عطا کیا۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔ امام نے پوچھا: وہ کون سی دعا ہے ؟ نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔ امام فرمانے لگے : میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے ناصرف تمہاری دُعا سُنی بل کہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا۔
٭ توبہ کی خیر و برکت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' جو شخص استغفار کی پابندی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ہر تنگی کو دور کر دے گا اور ہر غم سے خلاصی دے گا اور اس کو روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہوگا۔'' ( ابوداؤد)حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' اے اللہ! تُو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، تونے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا، میں تیرا بندہ ہوں اور جہا ں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہوسکے گا، تیرے کیے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق کے وعدے پر قائم رہوں گا، تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے، میں اقرار کرتا ہوں کہ تونے مجھے نعمتوں سے نوازا اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نافرمانیاں کیں اور گناہ کیے، اے مالک و مولا! تو مجھے معاف کردے اور میرے گناہ بخش دے، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں، جس بندے نے اخلاص کے ساتھ ، دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ عرض کیا اور اسی دن، رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آگئی تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا۔'' (بخاری)
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے جمع ہوکر جبر و قدر میں بحث کرنے لگے تو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ باہر اپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی، ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔'' (معجم الکبیر)
حضرت عبداللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: شام کو اور صبح کو ( یعنی دن شروع ہونے اور رات شروع ہونے پر) تم قل ھواللہاحد ( سورہ اخلاص) اور معوذتین (سورہ فلق، سورہ ناس) تین بار پڑھ لیا کرو، ہر چیز سے تمہارے لیے یہ کافی ہوگی۔ ( ابوداؤد، ترمذی)
٭ سید الاستغفار:
حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا، اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مرگیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا، اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مرگیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔ سید الاستغفار کا ترجمہ یہ ہے :'' اے اللہ تُو ہی میرا رب ہے، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لایق نہیں، تُونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، جس قدر طاقت رکھتا ہوں، میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، پس مجھے بخش دے کیوں کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔'' ( رواہ مسلم)
حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غزوۂ بنوقریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہوگئی تو آپؓ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا، نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لیے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی، حتٰی کہ ان پر غشی طاری ہوگئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لا کر اپنے دست اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چناں چہ تاج دار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بندشوں سے آزاد فرما دیا۔
(دلائل النبوہ للبیہقی)
اللہ تعالیٰ ہمارے پتھر اور سیاہ دلوں کو نرم اور صاف کرکے صحیح اور پختہ توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین