جانوروں پر شفقت و نرمی
ہماری شریعت میں جانور کے ساتھ نرمی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔
بے شک ہمارے دینِ حنیف اور شریعتِ کاملہ کی فراخی میں سے ہے کہ اس نے ہمیں حسنِ سلوک، مہربانی اور نرمی کا حکم دیا ہے حتی کہ جانوروں کے ساتھ بھی۔
جانوروں کے ساتھ مہربانی اور نرمی کرنا، یہ اس حسنِ سلوک میں سے ہے جو اپنے کرنے والے کو اللہ کے حکم سے جنتوں میں داخل کردے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مفہوم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک بار ایک شخص راستے میں چلا جا رہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اسے کنواں ملا، وہ اس میں اترا اور پانی پیا جب وہ باہر نکلا تو اس کے سامنے ایک کتا پیاس کی وجہ سے زور زور سے ہانپ رہا تھا اور کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا: اس کتے کو بھی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی چناں چہ وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا اس نے کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس کی قدردانی کی اور اس کو بخش دیا۔''
لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''ہر تر جگر والی چیز میں اجر ہے۔''
٭ جانوروں سے حُسنِ سُلوک :
امام نوویؒ کہتے ہیں : آپ ﷺ کا یہ جو قول ہے (ہر تر جگر والی چیز میں اجر ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ جان دار چیز کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اس کو پانی پلا کر یا اس طرح کے اور طریقوں سے، اس میں اجر ہے اور ہر زندہ کو تر جگر والے کا نام اس لیے دیا ہے کیوں کہ مردے کا جسم اور جگر خشک ہوجاتے ہیں۔ تو اس حدیث میں ہر قابلِ احترام جانور پر احسان کرنے پر ابھارا گیا ہے اور قابلِ احترام جانور وہ ہیں جن کو مارنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور جن کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے تو شریعت کے حکم کی تعمیل ان کو مارنے سے ہوتی ہے۔ جن کے قتل کرنے کا حکم ہے وہ حربی کافر، مرتد، کاٹنے والا کتا اور وہ پانچ فاسق جانور جو حدیث میں بیان کیے گئے ہیں اور جو جانور ان کے زمرے میں ہوں۔ رہے وہ جو قابلِ احترام جانور ہیں جن کو پانی پلانے، کھانا کھلانے اور احسان کرنے پر ثواب ملتا ہے خواہ وہ انسان کی ملکیت میں (خریدا ہوا ) ہو یا (جس کو گھر میں رکھنا) مباح ہو برابر ہے۔ خواہ وہ اس کی اپنی ملکیت میں ہو یا کسی اور کی ملکیت میں۔
٭ جانوروں سے بے رحمی کا انجام :
جیسا کہ جانور کے ساتھ بے دردی سے سختی کرنا یہ ان نافرمانیوں میں سے ہے جو انسان کو آگ میں لے جائیں گی، جب الرحمن چاہے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ نہ اس نے اس کو کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی حتی کہ وہ لاغر ہو کر مرگئی۔''
امام نوویؒ کہتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بلی کو قتل کرنا حرام ہے اور اس کو بغیر کھلائے اور پلائے باندھ کر رکھنے کی بھی حرمت ہے۔ جہاں تک بلی کے سبب اس عورت کا جہنم میں داخل ہونے کا سوال ہے تو اس حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی اور وہ صرف بلی کی وجہ سے جہنم میں گئی۔ قاضی کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کافرہ ہو اور اپنے کفر کی وجہ سے بھی عذاب دی گئی اور بلی کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیا گیا اور وہ اس لیے اس کی حق دار ٹھہری کہ وہ مومن نہیں تھی جس کے کبیرہ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے صغیرہ گناہوں کو معاف کردیا جاتا۔ یہ تو قاضی کا کلام ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے کہ وہ مسلمان تھی اور جہنم میں بلی کے سبب گئی۔ جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے، یہ نافرمانی چھوٹی نہیں ہے بل کہ عورت کے اصرار کرتے رہنے پر یہ کبیرہ گناہ بن گیا۔ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالک پر اس کے جانور کا خرچ فرض ہے، واللہ اعلم۔
٭ جانوروں سے نرمی کی صلاحیتیں:
ہماری شریعت میں جانور کے ساتھ نرمی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔
اسے کھانا اور پینا مہیا کرنا۔ ایسا ٹھکانا مہیا کرنا جو اس کو ضرر رساں چیزوں سے بچائے۔ ایسا جانور جس کی تربیت ہمارے لیے مشروع ہو اور وہ ہماری ملکیت میں ہو، اسے تھکایا نہ جائے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کیا جائے۔ اور اگر وہ ایسے جانوروں میں سے ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہو تو ذبح کرتے وقت اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔
٭ احسان کا حُکم:
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے جب تم (قصاص یا حد میں کسی کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ! اور چاہیے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی (چھری کی) دھار کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔
٭ ذبح کرتے وقت احسان کا حُکم :
امام ابن دقیق العیدؒ کہتے ہیں: یہ حدیث ان جامع احادیث میں سے ہے جس میں بہت سے قواعد ہیں اور قتل میں احسان کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس میں پوری کوشش کرے اور اس پر تشدد کرنے کا ارادہ نہ کرے اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت احسان یہ ہے کہ
انسان جانور کے ساتھ نرمی کرے۔
اس کو اچانک نہ گرائے۔ اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹ کر نہ لے جائے۔ اس کا منہ قبلہ کی طرف کرے۔ بسم اللہ اور الحمدﷲ پڑھے۔ حلق اور دو ابھری ہوئی رگوں کو کاٹے اور اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائے، بے شک اللہ سبحانہ نے ہمارے لیے ایسی چیزیں مسخر کردیں کہ اگر وہ چاہتا تو انہیں ہم پر مسلط کردیتا، اس نے ہمارے لیے جن کی تربیت ہمارے لیے جائز نہیں کی گئی اور نہ ہی ہمیں ان کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ، تو ہم پر لازم ہے کہ جتنا ہوسکے ان کے ساتھ بھی نرمی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو اذیت دینے، انہیں یا ان کی اولاد کو نقصان دینے یا انہیں اپنا کھیل بنانے سے بچیں جس سے ہم اپنا دل بہلائیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' کسی ذی روح کو (نشانہ بازی کے لیے) ہدف مت بناؤ۔''
قاضی عیاضؒ کہتے ہیں: (غرض) کا مطلب ہے کسی ذی روح کو تیر پھینکنے کے لیے نصب کر دیا جائے۔
امام نوویؒ کہتے ہیں: کیوں کہ یہ جانور پر تشدد کرنا، اس کو ہلاک کرنا اور اس کی مالیت (قیمت) کو ضایع کرنا ہے ( یہ تو) اس کے ذبح کو بھی برباد کرنا ہے اگر وہ ذبح کیے جانے والے جانوروں میں سے ہے اور اگر وہ ذبح ہونے والے جانور میں سے نہ ہو تو اس کے فائدے کو ضایع کرنا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کی پیروی کریں جو ہمیں جانوروں کے ساتھ نرمی کرنے پر ابھارتا ہے اور ان کی مدد کا اتنا ہاتھ بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے جتنا ہم اس راستے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ نہایت غالب اور خوب جاننے والے اللہ سے اجر طلب کرتے ہوئے اور اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے۔ ہمیں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ ہماری انسانی، اخلاقی اور اسلامی ذمے داری ہے۔
ہمارا دین حنیف ہے اور اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے اور اس بات کی ترغیب دی ہے اور ہمارے لیے ان کے ساتھ نرمی کی صورتیں واضح کی ہیں۔ ہر قسم کی بھلائی اسی بات میں ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھام لیں اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کریں۔
جانوروں کے ساتھ مہربانی اور نرمی کرنا، یہ اس حسنِ سلوک میں سے ہے جو اپنے کرنے والے کو اللہ کے حکم سے جنتوں میں داخل کردے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مفہوم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک بار ایک شخص راستے میں چلا جا رہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اسے کنواں ملا، وہ اس میں اترا اور پانی پیا جب وہ باہر نکلا تو اس کے سامنے ایک کتا پیاس کی وجہ سے زور زور سے ہانپ رہا تھا اور کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا: اس کتے کو بھی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی چناں چہ وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا اس نے کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس کی قدردانی کی اور اس کو بخش دیا۔''
لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''ہر تر جگر والی چیز میں اجر ہے۔''
٭ جانوروں سے حُسنِ سُلوک :
امام نوویؒ کہتے ہیں : آپ ﷺ کا یہ جو قول ہے (ہر تر جگر والی چیز میں اجر ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ جان دار چیز کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اس کو پانی پلا کر یا اس طرح کے اور طریقوں سے، اس میں اجر ہے اور ہر زندہ کو تر جگر والے کا نام اس لیے دیا ہے کیوں کہ مردے کا جسم اور جگر خشک ہوجاتے ہیں۔ تو اس حدیث میں ہر قابلِ احترام جانور پر احسان کرنے پر ابھارا گیا ہے اور قابلِ احترام جانور وہ ہیں جن کو مارنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور جن کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے تو شریعت کے حکم کی تعمیل ان کو مارنے سے ہوتی ہے۔ جن کے قتل کرنے کا حکم ہے وہ حربی کافر، مرتد، کاٹنے والا کتا اور وہ پانچ فاسق جانور جو حدیث میں بیان کیے گئے ہیں اور جو جانور ان کے زمرے میں ہوں۔ رہے وہ جو قابلِ احترام جانور ہیں جن کو پانی پلانے، کھانا کھلانے اور احسان کرنے پر ثواب ملتا ہے خواہ وہ انسان کی ملکیت میں (خریدا ہوا ) ہو یا (جس کو گھر میں رکھنا) مباح ہو برابر ہے۔ خواہ وہ اس کی اپنی ملکیت میں ہو یا کسی اور کی ملکیت میں۔
٭ جانوروں سے بے رحمی کا انجام :
جیسا کہ جانور کے ساتھ بے دردی سے سختی کرنا یہ ان نافرمانیوں میں سے ہے جو انسان کو آگ میں لے جائیں گی، جب الرحمن چاہے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ نہ اس نے اس کو کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی حتی کہ وہ لاغر ہو کر مرگئی۔''
امام نوویؒ کہتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بلی کو قتل کرنا حرام ہے اور اس کو بغیر کھلائے اور پلائے باندھ کر رکھنے کی بھی حرمت ہے۔ جہاں تک بلی کے سبب اس عورت کا جہنم میں داخل ہونے کا سوال ہے تو اس حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی اور وہ صرف بلی کی وجہ سے جہنم میں گئی۔ قاضی کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کافرہ ہو اور اپنے کفر کی وجہ سے بھی عذاب دی گئی اور بلی کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیا گیا اور وہ اس لیے اس کی حق دار ٹھہری کہ وہ مومن نہیں تھی جس کے کبیرہ گناہوں سے بچنے کی وجہ سے صغیرہ گناہوں کو معاف کردیا جاتا۔ یہ تو قاضی کا کلام ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے کہ وہ مسلمان تھی اور جہنم میں بلی کے سبب گئی۔ جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے، یہ نافرمانی چھوٹی نہیں ہے بل کہ عورت کے اصرار کرتے رہنے پر یہ کبیرہ گناہ بن گیا۔ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالک پر اس کے جانور کا خرچ فرض ہے، واللہ اعلم۔
٭ جانوروں سے نرمی کی صلاحیتیں:
ہماری شریعت میں جانور کے ساتھ نرمی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔
اسے کھانا اور پینا مہیا کرنا۔ ایسا ٹھکانا مہیا کرنا جو اس کو ضرر رساں چیزوں سے بچائے۔ ایسا جانور جس کی تربیت ہمارے لیے مشروع ہو اور وہ ہماری ملکیت میں ہو، اسے تھکایا نہ جائے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کیا جائے۔ اور اگر وہ ایسے جانوروں میں سے ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہو تو ذبح کرتے وقت اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔
٭ احسان کا حُکم:
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے جب تم (قصاص یا حد میں کسی کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ! اور چاہیے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی (چھری کی) دھار کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔
٭ ذبح کرتے وقت احسان کا حُکم :
امام ابن دقیق العیدؒ کہتے ہیں: یہ حدیث ان جامع احادیث میں سے ہے جس میں بہت سے قواعد ہیں اور قتل میں احسان کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس میں پوری کوشش کرے اور اس پر تشدد کرنے کا ارادہ نہ کرے اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت احسان یہ ہے کہ
انسان جانور کے ساتھ نرمی کرے۔
اس کو اچانک نہ گرائے۔ اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹ کر نہ لے جائے۔ اس کا منہ قبلہ کی طرف کرے۔ بسم اللہ اور الحمدﷲ پڑھے۔ حلق اور دو ابھری ہوئی رگوں کو کاٹے اور اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائے، بے شک اللہ سبحانہ نے ہمارے لیے ایسی چیزیں مسخر کردیں کہ اگر وہ چاہتا تو انہیں ہم پر مسلط کردیتا، اس نے ہمارے لیے جن کی تربیت ہمارے لیے جائز نہیں کی گئی اور نہ ہی ہمیں ان کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ، تو ہم پر لازم ہے کہ جتنا ہوسکے ان کے ساتھ بھی نرمی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو اذیت دینے، انہیں یا ان کی اولاد کو نقصان دینے یا انہیں اپنا کھیل بنانے سے بچیں جس سے ہم اپنا دل بہلائیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' کسی ذی روح کو (نشانہ بازی کے لیے) ہدف مت بناؤ۔''
قاضی عیاضؒ کہتے ہیں: (غرض) کا مطلب ہے کسی ذی روح کو تیر پھینکنے کے لیے نصب کر دیا جائے۔
امام نوویؒ کہتے ہیں: کیوں کہ یہ جانور پر تشدد کرنا، اس کو ہلاک کرنا اور اس کی مالیت (قیمت) کو ضایع کرنا ہے ( یہ تو) اس کے ذبح کو بھی برباد کرنا ہے اگر وہ ذبح کیے جانے والے جانوروں میں سے ہے اور اگر وہ ذبح ہونے والے جانور میں سے نہ ہو تو اس کے فائدے کو ضایع کرنا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کی پیروی کریں جو ہمیں جانوروں کے ساتھ نرمی کرنے پر ابھارتا ہے اور ان کی مدد کا اتنا ہاتھ بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے جتنا ہم اس راستے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ نہایت غالب اور خوب جاننے والے اللہ سے اجر طلب کرتے ہوئے اور اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے۔ ہمیں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ ہماری انسانی، اخلاقی اور اسلامی ذمے داری ہے۔
ہمارا دین حنیف ہے اور اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے اور اس بات کی ترغیب دی ہے اور ہمارے لیے ان کے ساتھ نرمی کی صورتیں واضح کی ہیں۔ ہر قسم کی بھلائی اسی بات میں ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھام لیں اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کریں۔