حکومت مشرف کو بیرون ملک نہ جانے دے سپریم کورٹ آج عدالت میں طلبی وفاق کو بھی نوٹس
سندھ ہائیکورٹ کا واضح فیصلہ آچکا، سینیٹ کی قرارداد پر بھی عمل نہیں کیا گیا، عدالت
سپریم کورٹ نے غداری کے الزام میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواستوں میں تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے ، پرویز مشرف یا ان کے وکیل کو بھی آج (منگل) کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
پیر کوجسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل ڈویژن بینچ نے درخواست گزاروں کے وکلاکے دلائل سننے کے بعد آئین شکنی کے مبینہ مرتکب مرکزی ملزم پرویز مشرف اور وفاق کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا اور رجسٹرار آفس کو فوری طور پر فریقین کو نوٹس پہنچانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں قراردیا کہ ملزم پر سنگین غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے، غداری کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن وفاقی حکومت نے کارروائی کرنے کے بجائے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو سب سے اہم افراد کے لیے مخصوص ہو تا ہے۔
اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا جائے ۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف پر غداری مقدمے کی سماعت کی منظوری کے بارے میں تحریری حکم جاری جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر پرویز مشرف ملک سے فرار ہوئے توذمے دار وفاقی حکومت ہوگی، ادارے فرار روکنے میں کردار ادا کریں۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی وجہ سے رجسٹرار آفس نوٹس کی تعمیل نہ کرا سکے تو انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس اور چاروں صوبوں کی پولیس کے سربراہان نوٹس کی تعمیل کرائیں ۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ اگر پرویز مشرف کا نام پہلے سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں موجود نہیں تو ان کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالا جائے اور جب تک عدالت کے اس حکم میں کوئی تبدیلی نہ ہو انھیں پاکستان کی جعرافیائی حدود سے باہر جانے نہ دیا جائے ۔عدالت نے درخواست گزاروں کی طرف سے ان کی فوری گرفتاری کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نے ایک درخواست گزار امجد ملک کو بھی نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی کیونکہ وہ خود یا ان کا وکیل پیروی کے لیے موجود نہیں تھے ۔ سابق صدر کیخلاف5 الگ الگ درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے غداری سب سے بڑا جرم ہے،سب جان لیں غداری کا ٹرائل ہونا چاہیے لیکن عدالت دوسرے فریق کو بھی سنے گی۔اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہا سابق صدر کیخلاف کارروائی کیلیے درخواست21مارچ 09کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
اس موقع پر مولوی اقبال حیدر کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے اعتراض کیا کہ اے کے ڈوگر کے پاس وکالت نامہ نہیں، اس لیے وہ دلائل نہیں دے سکتے ، مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے نئی درخواست لائی جائے ۔عدالت نے اے کے ڈوگر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی نئی درخواست دائر کی ہے ، اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا ،ایمرجنسی لگائی سپریم کورٹ نے بھی انھیں غاصب قرار دے دیا ہے ،اس لیے کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ قانون بتائیں جس کے تحت مشرف کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل6 کے تحت آئین توڑنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اب حتمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا اس کیس میں کسی کو نوٹس بھجوایا گیا؟، ہم آئین اور قانون سے ہٹ کر فیصلے نہیں کرنا چاہتے۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ26جولائی 2009کو اسلام آباد میں فارم ہائوس پر مشرف کو نوٹس بھجوایا گیا مگر ملازم امیر نے نوٹس لینے سے انکار کیا ، ملکی و غیر ملکی میڈیا پر اس حوالہ سے خبر آئی مگر مقرر ہ تاریخ کو مشرف آئے نہ ان کی طرف سے کوئی پیش ہوا، جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت مشرف کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ وفاق نے بھی اس کیس میں دلچسپی نہیں دکھائی ،جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کے لیے سب کیس برابر ہیں ہم دوسرے فریق کو بھی سننا چاہیں گے ،وفاق کو بھی نوٹس جاری کر کے اس کا موقف جاننے کی کوشش کریں گے ۔
جسٹس جواد نے کہا18ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل6 میں بھی تبدیلی آئی، اس کے کیا اثرات ہیں اس کو بھی دیکھا جائے گا۔لاہور ہائی کورٹ بار راولپنڈی بینچ کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے31 جولائی کے فیصلے میں مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیا اس فیصلے کے خلاف مشرف یا وفاقی حکومت نے درخواست نہیں دی۔ جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ یہ بات جان لیں کہ غداری کا ٹرائل ہونا چاہیے ،دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے کیا کیا ،جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین توڑنے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔حامد خان نے کہا کہ ایک سینیٹر نے23 جنوری12کو مشرف کے خلاف قرارداد پیش کی جس پر ایوان میں بحث ہوئی اور قرار داد منظور کی گئی،18 اگست کو مشرف نے صدارت چھوڑی اور4 ماہ بعد ملک سے بھاگ گئے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ وہ بھاگے نہیں بلکہ عزت سے گئے ۔
انھیں جانے دیا گیا،آپ یہ لفظ استعمال نہ کریں ، پرویز مشرف جب عدالت میں آئیں تو پھر یہ لفظ استعمال کریں ،حامد خان نے کہا کہ میں پھر بھی بھاگ گئے کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بطورجج ہمارا سیدھا کام ہے ،آپ کو سنا، دوسرے فریق کو سنا اور فیصلہ دے دیا،دوسرے فریق کو بھی سنیں گے۔ جب اس بارے میں سینیٹ کی متفقہ قرارداد آگئی تواس میں بھی بہت کچھ ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ قابل دست اندازی جرم میں حکومت کو کسی کی شکایت کی ضرورت نہیں،یہاں تو ملک کی بنیاد یعنی آئین کو پامال کیا گیا،ہم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وفاق نے اب تک ان کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا بھٹو کی دانش کو دیکھیے ۔
انھوں نے ماضی کی آئین شکنی پر بھی آرٹیکل6 کا اطلاق کیا ہے ۔فاضل جج نے کہا عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کے لیے بہت توجیہات ہوتی ہیں لیکن سینیٹ کی قرار داد پر عمل کیوں نہیں ہوا؟، یہ بات ناقابل سمجھ ہے ۔وکیل شیخ احسن الدین نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ پرویزمشرف کو پہلے ہی مجرم قراردے چکی ہے،اس کے باوجودوہ سیکیورٹی میںپھررہاہے، ایڈووکیٹ حامد خان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کا نام ای سی ایل میںڈالاجائے۔ اکرام چوہدری ایڈوکیٹ نے درخواست گزار عبدالحکیم کی طرف سے دلائل دیے ،اے کے ڈوگر نے کہا لیفٹیننٹ جنرل (ر)محمود، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عزیزاحمد ،میجر جنرل (ر)غلام احمد ، میجر جنرل (ر) شاہد عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی بھی شریک جرم ہیں۔عدالت نے مزید سماعت منگل کے لیے ملتوی کر دی اور وزارت داخلہ سے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ سماعت منگل کو بھی ہوگی۔
پیر کوجسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل ڈویژن بینچ نے درخواست گزاروں کے وکلاکے دلائل سننے کے بعد آئین شکنی کے مبینہ مرتکب مرکزی ملزم پرویز مشرف اور وفاق کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا اور رجسٹرار آفس کو فوری طور پر فریقین کو نوٹس پہنچانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں قراردیا کہ ملزم پر سنگین غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے، غداری کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن وفاقی حکومت نے کارروائی کرنے کے بجائے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو سب سے اہم افراد کے لیے مخصوص ہو تا ہے۔
اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا جائے ۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف پر غداری مقدمے کی سماعت کی منظوری کے بارے میں تحریری حکم جاری جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر پرویز مشرف ملک سے فرار ہوئے توذمے دار وفاقی حکومت ہوگی، ادارے فرار روکنے میں کردار ادا کریں۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی وجہ سے رجسٹرار آفس نوٹس کی تعمیل نہ کرا سکے تو انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس اور چاروں صوبوں کی پولیس کے سربراہان نوٹس کی تعمیل کرائیں ۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ اگر پرویز مشرف کا نام پہلے سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں موجود نہیں تو ان کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالا جائے اور جب تک عدالت کے اس حکم میں کوئی تبدیلی نہ ہو انھیں پاکستان کی جعرافیائی حدود سے باہر جانے نہ دیا جائے ۔عدالت نے درخواست گزاروں کی طرف سے ان کی فوری گرفتاری کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نے ایک درخواست گزار امجد ملک کو بھی نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی کیونکہ وہ خود یا ان کا وکیل پیروی کے لیے موجود نہیں تھے ۔ سابق صدر کیخلاف5 الگ الگ درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے غداری سب سے بڑا جرم ہے،سب جان لیں غداری کا ٹرائل ہونا چاہیے لیکن عدالت دوسرے فریق کو بھی سنے گی۔اے کے ڈوگر نے دلائل دیتے ہوئے کہا سابق صدر کیخلاف کارروائی کیلیے درخواست21مارچ 09کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
اس موقع پر مولوی اقبال حیدر کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے اعتراض کیا کہ اے کے ڈوگر کے پاس وکالت نامہ نہیں، اس لیے وہ دلائل نہیں دے سکتے ، مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے نئی درخواست لائی جائے ۔عدالت نے اے کے ڈوگر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی نئی درخواست دائر کی ہے ، اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا ،ایمرجنسی لگائی سپریم کورٹ نے بھی انھیں غاصب قرار دے دیا ہے ،اس لیے کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ قانون بتائیں جس کے تحت مشرف کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل6 کے تحت آئین توڑنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اب حتمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا اس کیس میں کسی کو نوٹس بھجوایا گیا؟، ہم آئین اور قانون سے ہٹ کر فیصلے نہیں کرنا چاہتے۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ26جولائی 2009کو اسلام آباد میں فارم ہائوس پر مشرف کو نوٹس بھجوایا گیا مگر ملازم امیر نے نوٹس لینے سے انکار کیا ، ملکی و غیر ملکی میڈیا پر اس حوالہ سے خبر آئی مگر مقرر ہ تاریخ کو مشرف آئے نہ ان کی طرف سے کوئی پیش ہوا، جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت مشرف کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ وفاق نے بھی اس کیس میں دلچسپی نہیں دکھائی ،جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کے لیے سب کیس برابر ہیں ہم دوسرے فریق کو بھی سننا چاہیں گے ،وفاق کو بھی نوٹس جاری کر کے اس کا موقف جاننے کی کوشش کریں گے ۔
جسٹس جواد نے کہا18ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل6 میں بھی تبدیلی آئی، اس کے کیا اثرات ہیں اس کو بھی دیکھا جائے گا۔لاہور ہائی کورٹ بار راولپنڈی بینچ کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے31 جولائی کے فیصلے میں مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیا اس فیصلے کے خلاف مشرف یا وفاقی حکومت نے درخواست نہیں دی۔ جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ یہ بات جان لیں کہ غداری کا ٹرائل ہونا چاہیے ،دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے کیا کیا ،جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین توڑنے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔حامد خان نے کہا کہ ایک سینیٹر نے23 جنوری12کو مشرف کے خلاف قرارداد پیش کی جس پر ایوان میں بحث ہوئی اور قرار داد منظور کی گئی،18 اگست کو مشرف نے صدارت چھوڑی اور4 ماہ بعد ملک سے بھاگ گئے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ وہ بھاگے نہیں بلکہ عزت سے گئے ۔
انھیں جانے دیا گیا،آپ یہ لفظ استعمال نہ کریں ، پرویز مشرف جب عدالت میں آئیں تو پھر یہ لفظ استعمال کریں ،حامد خان نے کہا کہ میں پھر بھی بھاگ گئے کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بطورجج ہمارا سیدھا کام ہے ،آپ کو سنا، دوسرے فریق کو سنا اور فیصلہ دے دیا،دوسرے فریق کو بھی سنیں گے۔ جب اس بارے میں سینیٹ کی متفقہ قرارداد آگئی تواس میں بھی بہت کچھ ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ قابل دست اندازی جرم میں حکومت کو کسی کی شکایت کی ضرورت نہیں،یہاں تو ملک کی بنیاد یعنی آئین کو پامال کیا گیا،ہم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وفاق نے اب تک ان کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا بھٹو کی دانش کو دیکھیے ۔
انھوں نے ماضی کی آئین شکنی پر بھی آرٹیکل6 کا اطلاق کیا ہے ۔فاضل جج نے کہا عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کے لیے بہت توجیہات ہوتی ہیں لیکن سینیٹ کی قرار داد پر عمل کیوں نہیں ہوا؟، یہ بات ناقابل سمجھ ہے ۔وکیل شیخ احسن الدین نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ پرویزمشرف کو پہلے ہی مجرم قراردے چکی ہے،اس کے باوجودوہ سیکیورٹی میںپھررہاہے، ایڈووکیٹ حامد خان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کا نام ای سی ایل میںڈالاجائے۔ اکرام چوہدری ایڈوکیٹ نے درخواست گزار عبدالحکیم کی طرف سے دلائل دیے ،اے کے ڈوگر نے کہا لیفٹیننٹ جنرل (ر)محمود، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عزیزاحمد ،میجر جنرل (ر)غلام احمد ، میجر جنرل (ر) شاہد عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی بھی شریک جرم ہیں۔عدالت نے مزید سماعت منگل کے لیے ملتوی کر دی اور وزارت داخلہ سے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ سماعت منگل کو بھی ہوگی۔