بہتر زندگی کیلیے یورپ جانے کا شوق انسانی اسمگلنگ عروج پر
یورپ کا سفر بے رحم موسم، تشدد اور موت جیسے خطرات پر مشتمل، ادائیگی مرحلہ وار ہوتی ہے۔
آج کل جب کہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہش بہت سے پاکستانیوں کو یورپ جانے پر مجبور کر رہی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے انسانی اسمگلنگ اور اس پرقابو پانے میں ایف آئی اے کے کردار پر تحقیق کی ہے۔ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے یورپ جانے کا سفر نہایت پرخطر ہے جو بے رحم موسم، نامانوس علاقوں، تشدد کے امکانات اور موت کے بہت حقیقی خطرے پر مشتمل ہے۔
یورپ کے سفر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سرحدی نگرانی، موسم اور ایجنٹوں کا کردار بھی اہم ہے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کی قسمت اگر یاوری کرے تو وہ ایک یا دو ماہ میں منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دوبار یونان جانے والے ایک شخص عدنان مختار کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ حقیقی زندگی کی ایک فلم جیسا ہے۔ ایک 22سالہ شخص اکرام الحق رواں سال جنوری میں لیبیا کے قریب الٹنے والی ایک کشتی کے حادثے میں مرنے والے ایک درجن کے قریب پاکستانیوں میں شامل تھا۔
متوفی کے سعودی عرب میں مقیم ایک رشتہ دار چوہدری بابر نے بتایا ہے کہ اس نے 2سال دبئی میں گزارنے کے بعد اپنے گھر والوں پر یورپ جانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
چوہدری بابر نے بتایا کہ اس کا والد 2عشروں سے کویت میں ہے۔ ایک بھائی متحدہ عرب امارات جبکہ ایک بھائی اسپین میں رہتا ہے۔ ڈیپورٹ کیے جانے یا کسی خوفناک صورت حال سے دوچار ہونے کا امکان بھی انہیں بار بار کوشش کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ سفر کے دوران ادائیگی قسطوں میں کی جاتی ہے۔ بیشتر لوگ ہلکے پھلکے ہو کر سفر کرتے ہیں ۔ ان کے پاس عام طور پر تھوڑی بہت رقم، ایک آدھ موبائل اور چند کپڑے ہوتے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کیلیے ''ڈونکی'' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جبکہ انہیں بیرون ملک بھجوانے کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے لیے ''ڈنکرز'' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے منڈی بہاالدین، گجرانوالا اور گجرات کے اضلاع جو انسانی اسمگلنگ کے بدنام مراکز ہیں کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ اصطلاحات اس سلوک کی نمائندگی کرتی ہیں جو یورپ جانے کے خواہشمند افراد کے ساتھ پاکستان، ایران اور ترکی میں روا رکھا جاتا ہے۔
ایک ڈنکر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یورپ تک جانے کے دو راستے ہیں۔ مختصر راستے میں خطرات زیادہ ہیں جبکہ اس کا خرچ بھی زیادہ ہے۔ طویل راستے میں دشوار گزار علاقوں میں روزانہ کم از کم12 گھنٹے سفر کرنا شامل ہے۔ پہلا راستہ پنجاب سے شروع ہوتا ہے اور کراچی تک جاتا ہے۔ اس کے بعد تارکین کو بسوں کے ذریعے گوادر پہنچایا جاتا ہے۔
ایران پاکستان سرحد کے آر پار رہنے والے بلوچ آگے کے سفر میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ دوسرے راستے میں کوئٹہ کے ذریعے تہران پہنچایا جاتا ہے۔ راستے سے واقف ایک اسمگلر نے بتایا کہ تارکین ایرانی علاقے میں اسمگلنگ کرنے والوں کی فراہم کردہ گاڑیوں کے ذریعے گروہوں کی شکل میں داخل ہوتے ہیں۔ بیشتر علاقہ ویران ہوتا ہے اور سیکیورٹی والوں سے سامنا ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
ایرانی ساحلی شہر چاہ بہار کے قریب تارکین کو ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر ڈنکر 20 سے 25 تارکین کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر ''ڈونکیز'' کو اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایک اور اسمگلر نے بتایا کہ یہ دھندا حقیقی معنوں میں بین الاقوامی ہے۔
اس کا دارومدار بھروسے اور باہمی تعاون پر ہے۔ کسی قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے کوڈ نام مقرر کر دیے جاتے ہیں۔ ایک اسمگلر نے بتایا کہ ایران کو عبور کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں سیکیورٹی والوں کی مٹھی گرم کرنا نسبتا آسان ہے۔ ایک بار تارکین چاہ بہار پہنچ جائیں تو پھر وہ پکڑے جانے سے بچنے کے لیے ٹیکسی یا نجی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح شہر سے دوسرے علاقوں کو جانے والے ٹرک بھی تارکین کی منتقلی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بیشتر تارکین بندر عباس تک پہنچنے کے لیے کوسٹل ہائی وے پر مختلف گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ مختار خان نامی ایک تارک وطن نے بتایا کہ ہم زائرین کے روپ میں وہاں سے گزرتے ہیں۔ ساحلی شہر سے تارکین شیراز اور تہران کے راستے سرحدی شہر ماکو پہنچتے ہیں۔ گرفتاری سے بچ جانے والے ''ڈونکی'' اگلا سفر شروع کرنے سے پہلے نئے ڈنکر کے اشارے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہدایات نہ ملنے یا پولیس کے مستعد ہونے کی صورت میں ان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ الیاس نامی ایک شخص نے بتایا ہے کہ ایک بار وہ ایک ماہ تک ایک ایرانی اسمگلر کے گودام میں چھپا رہا جسے اس نے اپنی زندگی کا خوفناک ترین تجربہ قرار دیا۔ اسمگلر اور تارکین دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ترکی تک پہنچنا کتنا مشکل ہے۔ ہری جھنڈی ملنے کے بعد وہ کارگو لے جانے والے ٹرکوں میں سرحد عبور کرتے ہیں۔
ایک اسمگلر نے بتایا کہ ان کی نقل و حرکت بہت منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے اور ناکامی سے بچنے کے لیے متبادل منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ترکی کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کی جسمانی مشقت ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
چند ہزار روپوں کے عوض سفر کو 3 سے 5 گھنٹے تک محدود کیا جا سکتا ہے تاہم جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے انہیں 12گھنٹے طویل تھکا دینے والے راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اس سفر نے کئی تارکین کی جانیں لے لی ہیں۔ ترکی پہنچنے والے بہت سے لوگ وان شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس موقع پر پہلی قسط ادا کر دی جاتی ہے۔ وان میں ہی یونان پہنچنے کے لیے سودے بازی کی جاتی ہے۔ وان میں مستقل سکونت پذیر کچھ لوگ بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔
اسمگلرز کا کہنا ہے کہ گو ترکی میں ایران کے مقابلے میں تارکین کے لیے نقل و حرکت کی آزادی زیادہ ہے تاہم گرفتاری کی صورت میں فوری طور پر ڈیپورٹ کردیا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کے دور کے بعد سے ترکی میں غیر قانونی پاکستانیوں کو جیل میں وقت نہیں گزارنا پڑتا۔ یورپ کے بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق ترکی میں انسانی اسمگلنگ ایک اہم صنعت بن چکی ہے۔
اسمگلرز کے نیٹ ورک نہ صرف استنبول بلکہ ازمیر، ایڈرن اور انقرہ میں بھی متحرک ہیں۔ مختلف قومیتوں کے اعتبار سے انسانی اسمگلرز کی قومیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اسمگلرز کا کہنا ہے کہ یونان پہنچنے پر تارکین سے 2200سے 2500یورو تک وصول کیے جاتے ہیں۔ تارکین کو ترکی سے یونان پہنچانے کے لیے ہوا بھری کشتیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ ہر کسی کی منزل مقصود پر منحصر ہے کہ وہاں پہنچنے پر قید، ڈیپورٹیشن یا خوبصورت زندگی اس کی منتظر ہے۔ بیشتر افراد بطور تارکین وطن عارضی یا مستقل قیام کے لیے رجسٹر ہونے تک کام کی تلاش کے لیے اپنے تعلق والوں پرانحصارکرتے ہیں۔
ایک اسمگلر مختار احمد کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے تنازع سے متاثرہ افراد کے یورپ کا رخ کرنے سے پہلے تک معاملات قدرے آسان تھے تاہم اب مشکل ہو چکے ہیں بالخصوص یونان، فرانس اور برطانیہ کی پالیسیاں زیادہ سخت ہو گئی ہیں۔
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی تارکین وطن کو عام طور پر زراعت یا ہوٹلنگ وغیرہ کے شعبوں میں کم اجرت والی ملازمتیں ملتی ہیں۔ وہ 15سے 20یورو یومیہ کماتے ہیں۔ احمد نے یہ بھی بتایا کہ یونان کے مالیاتی بحران کے بعد سے بہت سے تارکین اٹلی یا بحیرہ روم کے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ذمہ دار ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی یونٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ ایک بین الاداراتی ٹاسک فورس بھی ایران میں تارکین کی آمدورفت پر نگاہ رکھنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے متعلقہ اداروں میں موثر تعاون کے فقدان پر تاسف کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012کے سانحہ تربت کے بعد اس کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔
ڈیپورٹ ہونے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے علاوہ ایف آئی اے اس دھندے میں ملوث افراد کی معلومات بھی رکھتا ہے۔ یہ افراد انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کی ریڈ بک میں بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کی فراہم کردہ معلومات نامکمل اور تصاویر غیر واضح ہوتی ہیں۔
ادارے کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے دستیاب تازہ ترین اعداد وشمار بھی 2016تک کے ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ دستاویزات کو مستقل بنیادوں پر اپ ڈیٹ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ افراد پر مقدمہ چلانا وقت طلب اور تھکا دینے والا کام ہے۔
نام اور معلومات اس وقت ہی شامل کی جاتی ہیں جب ملزم کو مجرم قرار دے دیا جائے۔ ادارے کے حالات بھی اس کی انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں ایف آئی اے نے افرادی قوت، انفرااسٹرکچر اور ادارہ جاتی صلاحیت میں کمی کو انسانی اسمگلنگ روکنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ بیتر اسمگلروں سے جب ایف آئی اے کے حوالے سے بات ہوئی تو وہ پیسے کے بل پر نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے حوالے سے پر اعتماد نظر آئے۔
ایک اسمگلر کا کہنا تھا کہ ادارہ صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب اس پر اعلی حکام، عدالتوں یا کسی سانحے کا دباؤ ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے صرف چھوٹی مچھلیوں پرہاتھ ڈالتی ہے جبکہ بڑی مچھلیوں کو ''فیس'' کی ادائی کے بعد جانے دیا جاتا ہے۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے جو 2 لاکھ سے40 لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔
انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کیلیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب ایک ایف آئی اے رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس وقت لوگوں کی اسمگلنگ کو جرم کا درجہ دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ 2013میں ادارے نے اس سلسلے میں ایک بل کا مسودہ تیار کیا تھا۔
وزارت داخلہ کی منظوری حاصل کرنے کے باوجود اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ادارے نے سانحہ تربت کے بعد اس مسودے کو ایک بار پھر آگے بڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ 1979کاامیگریشن آرڈی نینس انسانی اسمگلنگ کو روکنے یا اسے جرم قرار دینے کے لیے کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ قید یا جرمانے کے حوالے سے ایکٹ میں موجود شقوں کی بھی ملزم دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں۔ جب قانونی کارروائی کا وقت آتا ہے تو بیشتر بیانات ملزموں کے حق میں ہوتے ہیں اور یہ لوگ آسانی سے آزادی حاصل کر لیتے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکامی کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈی جی عثمان انور نے کہا ہے کہ ادارے کی کارکردگی کا ایک طائرانہ جائزہ ثابت کر دے گا کہ ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم محدود وسائل کے ساتھ اپنی بھر پور کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون نے انسانی اسمگلنگ اور اس پرقابو پانے میں ایف آئی اے کے کردار پر تحقیق کی ہے۔ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے یورپ جانے کا سفر نہایت پرخطر ہے جو بے رحم موسم، نامانوس علاقوں، تشدد کے امکانات اور موت کے بہت حقیقی خطرے پر مشتمل ہے۔
یورپ کے سفر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سرحدی نگرانی، موسم اور ایجنٹوں کا کردار بھی اہم ہے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کی قسمت اگر یاوری کرے تو وہ ایک یا دو ماہ میں منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دوبار یونان جانے والے ایک شخص عدنان مختار کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ حقیقی زندگی کی ایک فلم جیسا ہے۔ ایک 22سالہ شخص اکرام الحق رواں سال جنوری میں لیبیا کے قریب الٹنے والی ایک کشتی کے حادثے میں مرنے والے ایک درجن کے قریب پاکستانیوں میں شامل تھا۔
متوفی کے سعودی عرب میں مقیم ایک رشتہ دار چوہدری بابر نے بتایا ہے کہ اس نے 2سال دبئی میں گزارنے کے بعد اپنے گھر والوں پر یورپ جانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
چوہدری بابر نے بتایا کہ اس کا والد 2عشروں سے کویت میں ہے۔ ایک بھائی متحدہ عرب امارات جبکہ ایک بھائی اسپین میں رہتا ہے۔ ڈیپورٹ کیے جانے یا کسی خوفناک صورت حال سے دوچار ہونے کا امکان بھی انہیں بار بار کوشش کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ سفر کے دوران ادائیگی قسطوں میں کی جاتی ہے۔ بیشتر لوگ ہلکے پھلکے ہو کر سفر کرتے ہیں ۔ ان کے پاس عام طور پر تھوڑی بہت رقم، ایک آدھ موبائل اور چند کپڑے ہوتے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کیلیے ''ڈونکی'' کی اصطلاح
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کیلیے ''ڈونکی'' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جبکہ انہیں بیرون ملک بھجوانے کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے لیے ''ڈنکرز'' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے منڈی بہاالدین، گجرانوالا اور گجرات کے اضلاع جو انسانی اسمگلنگ کے بدنام مراکز ہیں کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ اصطلاحات اس سلوک کی نمائندگی کرتی ہیں جو یورپ جانے کے خواہشمند افراد کے ساتھ پاکستان، ایران اور ترکی میں روا رکھا جاتا ہے۔
ایک ڈنکر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یورپ تک جانے کے دو راستے ہیں۔ مختصر راستے میں خطرات زیادہ ہیں جبکہ اس کا خرچ بھی زیادہ ہے۔ طویل راستے میں دشوار گزار علاقوں میں روزانہ کم از کم12 گھنٹے سفر کرنا شامل ہے۔ پہلا راستہ پنجاب سے شروع ہوتا ہے اور کراچی تک جاتا ہے۔ اس کے بعد تارکین کو بسوں کے ذریعے گوادر پہنچایا جاتا ہے۔
ایران پاکستان سرحد کے آر پار رہنے والے بلوچ آگے کے سفر میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ دوسرے راستے میں کوئٹہ کے ذریعے تہران پہنچایا جاتا ہے۔ راستے سے واقف ایک اسمگلر نے بتایا کہ تارکین ایرانی علاقے میں اسمگلنگ کرنے والوں کی فراہم کردہ گاڑیوں کے ذریعے گروہوں کی شکل میں داخل ہوتے ہیں۔ بیشتر علاقہ ویران ہوتا ہے اور سیکیورٹی والوں سے سامنا ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
ایرانی ساحلی شہر چاہ بہار کے قریب تارکین کو ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر ڈنکر 20 سے 25 تارکین کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر ''ڈونکیز'' کو اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایک اور اسمگلر نے بتایا کہ یہ دھندا حقیقی معنوں میں بین الاقوامی ہے۔
اس کا دارومدار بھروسے اور باہمی تعاون پر ہے۔ کسی قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے کوڈ نام مقرر کر دیے جاتے ہیں۔ ایک اسمگلر نے بتایا کہ ایران کو عبور کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں سیکیورٹی والوں کی مٹھی گرم کرنا نسبتا آسان ہے۔ ایک بار تارکین چاہ بہار پہنچ جائیں تو پھر وہ پکڑے جانے سے بچنے کے لیے ٹیکسی یا نجی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح شہر سے دوسرے علاقوں کو جانے والے ٹرک بھی تارکین کی منتقلی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بیشتر تارکین بندر عباس تک پہنچنے کے لیے کوسٹل ہائی وے پر مختلف گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ مختار خان نامی ایک تارک وطن نے بتایا کہ ہم زائرین کے روپ میں وہاں سے گزرتے ہیں۔ ساحلی شہر سے تارکین شیراز اور تہران کے راستے سرحدی شہر ماکو پہنچتے ہیں۔ گرفتاری سے بچ جانے والے ''ڈونکی'' اگلا سفر شروع کرنے سے پہلے نئے ڈنکر کے اشارے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہدایات نہ ملنے یا پولیس کے مستعد ہونے کی صورت میں ان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ الیاس نامی ایک شخص نے بتایا ہے کہ ایک بار وہ ایک ماہ تک ایک ایرانی اسمگلر کے گودام میں چھپا رہا جسے اس نے اپنی زندگی کا خوفناک ترین تجربہ قرار دیا۔ اسمگلر اور تارکین دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ترکی تک پہنچنا کتنا مشکل ہے۔ ہری جھنڈی ملنے کے بعد وہ کارگو لے جانے والے ٹرکوں میں سرحد عبور کرتے ہیں۔
ایک اسمگلر نے بتایا کہ ان کی نقل و حرکت بہت منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے اور ناکامی سے بچنے کے لیے متبادل منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔ ترکی کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کی جسمانی مشقت ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
چند ہزار روپوں کے عوض سفر کو 3 سے 5 گھنٹے تک محدود کیا جا سکتا ہے تاہم جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے انہیں 12گھنٹے طویل تھکا دینے والے راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اس سفر نے کئی تارکین کی جانیں لے لی ہیں۔ ترکی پہنچنے والے بہت سے لوگ وان شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس موقع پر پہلی قسط ادا کر دی جاتی ہے۔ وان میں ہی یونان پہنچنے کے لیے سودے بازی کی جاتی ہے۔ وان میں مستقل سکونت پذیر کچھ لوگ بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔
اسمگلرز کا کہنا ہے کہ گو ترکی میں ایران کے مقابلے میں تارکین کے لیے نقل و حرکت کی آزادی زیادہ ہے تاہم گرفتاری کی صورت میں فوری طور پر ڈیپورٹ کردیا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کے دور کے بعد سے ترکی میں غیر قانونی پاکستانیوں کو جیل میں وقت نہیں گزارنا پڑتا۔ یورپ کے بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق ترکی میں انسانی اسمگلنگ ایک اہم صنعت بن چکی ہے۔
اسمگلرز کے نیٹ ورک نہ صرف استنبول بلکہ ازمیر، ایڈرن اور انقرہ میں بھی متحرک ہیں۔ مختلف قومیتوں کے اعتبار سے انسانی اسمگلرز کی قومیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اسمگلرز کا کہنا ہے کہ یونان پہنچنے پر تارکین سے 2200سے 2500یورو تک وصول کیے جاتے ہیں۔ تارکین کو ترکی سے یونان پہنچانے کے لیے ہوا بھری کشتیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ ہر کسی کی منزل مقصود پر منحصر ہے کہ وہاں پہنچنے پر قید، ڈیپورٹیشن یا خوبصورت زندگی اس کی منتظر ہے۔ بیشتر افراد بطور تارکین وطن عارضی یا مستقل قیام کے لیے رجسٹر ہونے تک کام کی تلاش کے لیے اپنے تعلق والوں پرانحصارکرتے ہیں۔
ایک اسمگلر مختار احمد کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے تنازع سے متاثرہ افراد کے یورپ کا رخ کرنے سے پہلے تک معاملات قدرے آسان تھے تاہم اب مشکل ہو چکے ہیں بالخصوص یونان، فرانس اور برطانیہ کی پالیسیاں زیادہ سخت ہو گئی ہیں۔
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی تارکین وطن کو عام طور پر زراعت یا ہوٹلنگ وغیرہ کے شعبوں میں کم اجرت والی ملازمتیں ملتی ہیں۔ وہ 15سے 20یورو یومیہ کماتے ہیں۔ احمد نے یہ بھی بتایا کہ یونان کے مالیاتی بحران کے بعد سے بہت سے تارکین اٹلی یا بحیرہ روم کے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ذمہ دار ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی یونٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ ایک بین الاداراتی ٹاسک فورس بھی ایران میں تارکین کی آمدورفت پر نگاہ رکھنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے متعلقہ اداروں میں موثر تعاون کے فقدان پر تاسف کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012کے سانحہ تربت کے بعد اس کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔
ڈیپورٹ ہونے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے علاوہ ایف آئی اے اس دھندے میں ملوث افراد کی معلومات بھی رکھتا ہے۔ یہ افراد انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کی ریڈ بک میں بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کی فراہم کردہ معلومات نامکمل اور تصاویر غیر واضح ہوتی ہیں۔
ادارے کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے دستیاب تازہ ترین اعداد وشمار بھی 2016تک کے ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ دستاویزات کو مستقل بنیادوں پر اپ ڈیٹ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ افراد پر مقدمہ چلانا وقت طلب اور تھکا دینے والا کام ہے۔
نام اور معلومات اس وقت ہی شامل کی جاتی ہیں جب ملزم کو مجرم قرار دے دیا جائے۔ ادارے کے حالات بھی اس کی انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں ایف آئی اے نے افرادی قوت، انفرااسٹرکچر اور ادارہ جاتی صلاحیت میں کمی کو انسانی اسمگلنگ روکنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ بیتر اسمگلروں سے جب ایف آئی اے کے حوالے سے بات ہوئی تو وہ پیسے کے بل پر نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے حوالے سے پر اعتماد نظر آئے۔
ایک اسمگلر کا کہنا تھا کہ ادارہ صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب اس پر اعلی حکام، عدالتوں یا کسی سانحے کا دباؤ ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے صرف چھوٹی مچھلیوں پرہاتھ ڈالتی ہے جبکہ بڑی مچھلیوں کو ''فیس'' کی ادائی کے بعد جانے دیا جاتا ہے۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے جو 2 لاکھ سے40 لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔
انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت
انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کیلیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب ایک ایف آئی اے رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس وقت لوگوں کی اسمگلنگ کو جرم کا درجہ دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ 2013میں ادارے نے اس سلسلے میں ایک بل کا مسودہ تیار کیا تھا۔
وزارت داخلہ کی منظوری حاصل کرنے کے باوجود اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ادارے نے سانحہ تربت کے بعد اس مسودے کو ایک بار پھر آگے بڑھانے کی ناکام کوشش کی۔ 1979کاامیگریشن آرڈی نینس انسانی اسمگلنگ کو روکنے یا اسے جرم قرار دینے کے لیے کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ قید یا جرمانے کے حوالے سے ایکٹ میں موجود شقوں کی بھی ملزم دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں۔ جب قانونی کارروائی کا وقت آتا ہے تو بیشتر بیانات ملزموں کے حق میں ہوتے ہیں اور یہ لوگ آسانی سے آزادی حاصل کر لیتے ہیں۔
محدود وسائل کے باوجود بھرپور نتائج دے رہے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے عثمان انور
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکامی کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈی جی عثمان انور نے کہا ہے کہ ادارے کی کارکردگی کا ایک طائرانہ جائزہ ثابت کر دے گا کہ ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم محدود وسائل کے ساتھ اپنی بھر پور کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔