اسٹیفن ہاکنگ ایک سائنس دان کی مثالی زندگی

اپنے کام اور ذہانت کے حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ ان خوش نصیب لوگوں میں تھا جو جلد ہی شہرت اور عزت حاصل کرتے۔

اپنے کام اور ذہانت کے حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ ان خوش نصیب لوگوں میں تھا جو جلد ہی شہرت اور عزت حاصل کرتے۔فوٹو : فائل

تقدیر بھی بعض لوگوں کے ساتھ عجیب کھلواڑ کرتی ہے۔ اُن کے پاؤں میں ایسی بیڑیاں ڈال دیتی ہے کہ وہ ہزار امنگوں کے باوجود اُڑ نہیں سکتے۔ وہ اُڑنے کا سامان کرتے ہیں، طاقتِ پرواز حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں اور آسمان کی پہنائیوں میں اُن کی نگاہیں راستے بھی تلاش کرلیتی ہیں، لیکن اُن کا شوق، جذبہ، ولولہ، جوش اور جنون سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ تقدیر آڑے آجاتی ہے، اور اُن کے پاؤں زمین میں گڑ کر رہ جاتے ہیں۔

اپنی صلاحیت اور ہمت کے بل بوتے پر وہ کیا کیا عزائم باندھتے ہیں اور کیسا ولولہ اُن کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، لیکن اُن کا پیش نہیں چلتا۔ تقدیر انھیں اپنے پھیر میں ڈال لیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقدیر کے جال میں پھنس جائے تو آدمی بچارا کیا، فرشتے کے بھی پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پرواز کی صلاحیت ہی سلب ہوجاتی ہے۔ پھر وہ بھی آدمی کی طرح راندۂ درگاہ ہوجاتا ہے۔ فرشتوں کا معاملہ کیا ہے، یہ فرشتے جانیں، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ آدمی طرفہ طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔

پاؤں زمین میں گڑے ہوتے ہیں اور وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگتا ہے۔ اعصاب ناکارہ ہوجاتے ہیں، لیکن اُس کا ذہن زقندیں بھرنے لگتا ہے۔ تقدیر اور آدمی کے ٹکراؤ کا یہ کھیل بہت پرانا ہے۔ شاید ازل سے جاری ہے اور اسی طرح ابد تک جاری رہے گا۔ تاہم اس کھیل میں ہم یہ بہرحال دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی ہمتِ مرداں اپنے جذبے کا اظہار کرتی ہے تو یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی مسکراتا ہے اور کہتا ہے:

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

اگر دیکھا جائے تو یہ آدمی کی فطرت کا سب سے زیادہ عجیب اور دل چسپ رُخ ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کس آدمی کا ذکر ہورہا ہے؟ یہ کوئی بھی آدمی ہوسکتا ہے، بس وہ جو مسائل کے، تقدیر کے، حالات کے جبر کو ماننے سے انکار کردے، اور اُس کے آگے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ ہو۔ اس آدمی کا ایک نام اسٹیفن ہاکنگ بھی ہے۔ جی ہاں، وہی اسٹیفن ہاکنگ جو چند روز پہلے 76 برس کی عمر میں نہایت خاموشی اور سہولت سے عناصر کی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس دنیا میں اِس آدمی نے ہزار دقتوں کا سامنا کیا۔ بہت بڑے مسائل سے دوچار ہوا۔ یہاں تک کہ زندگی کی نفی کا احساس پیدا کرنے والے حالات بھی اِسے پیش آئے، لیکن اس نے مثالی درجے کا حوصلہ دکھایا۔

زندگی سے شکایت کی اور نہ لوگوں سے کوئی گلہ کیا۔ تقدیر سے شکوہ کیا اور نہ حالات کو برا کہا- اور جب جانے کا وقت آیا تو بھی اطمینان سے دامن جھاڑ کر چل دیا۔ یہ وہی شخص ہے، جس نے اس دنیا کو، اس کے سورج، چاند، ستاروں، سیاروں کو، کہکشاؤں اور خلاؤں کو اپنی گہری اور روشن آنکھوں سے اس طرح دیکھا کہ کائنات مسکرا کر اُس کے سامنے اپنے پردے اٹھانے لگی۔ اسے اپنے رازوں میں شریک کرنے لگی، اور اپنا احوال سنانے لگی۔

اس کائنات کے سربستہ رازوں سے آگاہی کی یہ مسافت ظاہر ہے، اس کے لیے حیرتوں کا سفر تھا۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جب اس سفر کے انکشافات سامنے آتے ہیں تو انسانی شعور کی برتری اور عظمت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ انسان کے اندازوں سے ماسوا وسعتوں تک پھیلی ہوئی اس کائنات میں انسان کو وجودی حیثیت میں دیکھا جائے تو اس کی کل ہستی بس ایسی ہی ہے جیسی لق و دق صحرا میں ریت کا ایک ذرّہ یا پھر تاحدِ نگاہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں پانی کا ایک قطرہ۔ یہ ٹھیک ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ انسان کا شعور بے پناہ قدرت و اختیار رکھتا ہے، اور اس کائنات کو سمیٹنے کی حیرت افزا صلاحیت اُس میں پائی جاتی ہے۔

یہ انسان کا شعور ہے جو صحراؤں میں گلزار کھلاتا ہے اور اُسے سمندروں کی ایال تھامنے کے قابل بناتا ہے، خلاؤں کو تسخیر کرنے کی راہ سجھاتا ہے اور ذرّے کا دل چیر کر پہاڑوں کو بھسم کردینے والی قوت کو قابو میں لانا سکھاتا ہے۔ انسان کی یہی دانش و بصیرت اُسے اشرف المخلوقات ثابت کرتی ہے۔ مضمحل اعصاب اور معذور اعضا کے باوجود وہ اس کائنات میں اپنی قوت، قدرت اور قامت کا اثبات کرتا ہے۔ جی ہاں، یہی آدمی جس کا نام اسٹیفن ہاکنگ ہے، ایسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیتا ہے کہ جن سے تاریخ کے اوراق دمک اٹھتے ہیں۔ طبیعیات کی دنیا میں بیس ویں صدی کے دوسرے نصف سے لے کر سے اکیس ویں صدی کی اس دوسری دہائی کے آخری برسوں تک پھر اس کے نام کا سکہ چلتا ہے۔ وہ اس دور میں فزکس کی حیرت اور انکشاف کی عظیم الشان اور وسیع و عریض اقلیم کا بے تاج بادشاہ تسلیم کیا جاتا۔

اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942ء کو پیدا ہوا۔ ولادت کے وقت سے جواں عمری تک وہ دوسرے سب بچوں کی طرح بالکل نارمل بچہ تھا۔ البتہ اُس کی شخصیت کے دو پہلو ایسے تھے جو الگ انداز سے اس کی شخصیت کو ابھارتے تھے، ایک اُس کی غیرمعمولی ذہانت اور دوسرے ہنس مکھ طبیعت۔ تعلیم میں اُس کی دل چسپی دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ نظر آتی تھی، خاص طور پر سائنس تو اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ جب وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھا تو اُس کی سب سے زیادہ دل چسپی طبیعیات یعنی فزکس کے مضمون میں ظاہر ہوئی۔ یہ اس مضمون میں اُس کے انہماک اور ذہانت ہی کا نتیجہ تھا کہ اُس کے ساتھی طالبِ علم اُسے نیوٹن، آئن اسٹائن اور پروفیسر کہہ کر بھی مخاطب کرنے لگے۔

اعلیٰ تعلیم کے مراحل اور آئندہ ساری زندگی کے لیے فزکس کا مضمون اُس کے لیے مخصوص ہوگیا۔ فزکس کے شعبے میں اُس نے وہاں تک تعلیم حاصل کی جہاں تک حاصل کی جاسکتی تھی۔ اسی شعبے میں اُس نے تحقیق کا وہ غیرمعمولی کام بھی سرانجام دیا کہ سترھویں صدی کے نیوٹن کے بعد وہ اپنے شعبے میں سب سے بڑھ کر اعزاز و احترام کے لائق گردانا گیا۔ اس شعبے میں اپنے کام کی اہمیت سے وہ خود بھی اچھی طرح واقف تھا۔ اسی لیے کبھی کبھی موڈ میں ہوتا تو بے تکلف دوستوں کی محفل میں کہتا تھا کہ تین سو سال بعد اب جدید سائنس کی قسمت کے ستاروں کو میرے ہاتھوں چمکنا تھا۔

فزکس میں اپنی تعلیم، دل چسپی اور تحقیق و جستجو کی بدولت 1974ء میں جب اُس کی عمر صرف 32 سال تھی، وہ برطانیہ کی رائل سوسائٹی کا رُکن بنا لیا گیا۔ اُس کا اعزاز یہ ہے کہ اُسے اس سوسائٹی کے سب سے کم عمر رُکن کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ لوگوں کو ایک عمر گزارنے اور بہت کام کرنے کے بعد اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ علاوہ ازیں اسٹیفن ہاکنگ کو امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کا رُکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس کی تعلیم و تحقیق کا سفر مسلسل جاری رہا۔ لوگ اب اُس کے کام کو توجہ اور دل چسپی سے دیکھنے لگے تھے۔ اُس کی تحقیق و تفتیش نہ صرف اس شعبے میں ارتقا کے مراحل کو نمایاں کررہی تھی، بلکہ بعد ازاں کام کرنے والوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے مشعلِ راہ بھی بن رہی تھی۔

اسٹیفن ہاکنگ کیمبرج یونی ورسٹی میں 1979ء میں Lucasian پروفیسر آف میتھمیٹکس کے منصب پر فائز ہوا اور لگ بھگ تیس سال 2009ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ یہ وہی منصب ہے جس پر 1663ء میں نیوٹن نے خدمات انجام دی تھیں۔ جدید فزکس کے شعبے میں شان دار خدمات کے اعتراف میں اسٹیفن ہاکنگ کو ایک درجن سے زیادہ اعزازی ڈگریاں پیش کی گئیں اور درجنوں انعامات اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے بارے میں واشگاف انداز میں اعتراف کیا گیا کہ آئن اسٹائن کے بعد وہ فزکس کے شعبے کا سب سے اہم عالم اور محقق ہے۔

اس کی تحقیقات نے سیاروں، ستاروں اور بلیک ہولز کی اس دنیا کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، ان کی روشنی میں یہ دنیا اور اس کی حقیقت و ماہیت کے تصورات اس حد تک بدل گئے ہیں کہ اس کا کھلے لفظوں میں اظہار و اعتراف کیا گیا کہ اس عہد کا انسان ایک نئی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ یہ محض ایک بات نہیں ہے، بلکہ امرِواقعہ ہے۔ اس لیے کہ اس دور میں سائنس نے انسانی زندگی کے تجربات کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس حد تک کہ اگر صرف پچاس ساٹھ سال پہلے کی دنیا سے اس دور کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق نظر آئے گا۔

اسٹیفن ہاکنگ نے 2007ء میں جب اُس کی عمر 65 برس تھی، بذاتِ خود نیوٹن کی کششِ ثقل کی تھیوری پر تجربات کیے۔ اس موقع پر وہ کششِ ثقل سے آزاد، یعنی ''بے وزن'' فلائٹ کے ذریعے امریکا گیا۔ اس تجربے کی کام یابی، یعنی کششِ ثقل کو معطل کرکے اڑنے کا یہ کام یاب تجربہ ایک طرح سے اس کی سال گرہ کا تحفہ بن گیا۔ ظاہر ہے، وہ اس پر مسرور بھی بہت تھا۔ تاہم اُس کا خیال تھا کہ اس تجربے کی کام یابی محض اُسی کے لیے گراں قدر تحفہ نہیں ہے، بلکہ یہ کام یابی دراصل آگے چل کر سیاروں کے درمیان انسان کے آزادانہ سفر کا آغاز ثابت ہوگی۔ اس بات سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کائنات کو اور اس میں انسان کے عمل دخل اور کردار کو کس حد تک دیکھ رہا تھا۔


یہ 1963ء کی بات ہے، جب اُس کی عمر صرف اکیس برس تھی، وہ اس وقت موٹر نیورون نامی بیماری کا شکار ہوا۔ یہ عجیب و غریب بیماری تھی اور بہت کم لوگ اس کا شکار ہوتے تھے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے لوگ رفتہ رفتہ معذور ہوکر بستر پر آرہتے ہیں۔ ان کے اعصاب ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ذہن سے ان کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے۔ معالجین نے اسٹیفن ہاکنگ کے علاج کی ممکنہ صورتوں پر غور کیا اور اسے بیماری کے چنگل سے نکالنے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن تقدیر کا لکھا کچھ اور ہی تھا۔ وہ اسٹیفن ہاکنگ پر ہرگز مہربان نہیں تھی۔

علاج معالجے کی ساری کوششوں کے باوجود بالآخر اسٹیفن ہاکنگ کے سارے مسیحا ہار گئے اور انھوں نے تسلیم کرلیا کہ وہ اس ذہین اور بے مثال آدمی کو اس تباہ کن بیماری کے شکنجے سے نہیں چھڑا سکتے۔ تب اس کی زندگی کے بارے میں اندازہ لگایا گیا، اور لگ بھگ سبھی معالجین کی رائے تھی کہ وہ چند برس مشکل ہی سے جی سکے گا۔ ظاہر ہے، یہ سب کچھ بہت افسوس ناک تھا، لیکن تقدیر کے آگے بھلا کس کا پیش چلتا ہے۔ ہونی کو بھلا کون ٹال سکتا تھا۔ حقائق چاہے کتنے ہی ناپسندیدہ اور اذیت ناک کیوں نہ ہوں، لیکن ان کی نفی تو نہیں کی جاسکتی۔ انھیں تو ہر ممکن تسلیم ہی کرنا ہوتا ہے۔ سو، مان لیا گیا کہ تدبیر کا جابر پنجہ ایک بے حد قیمتی انسان کو دبوچ کر بہت جلد لے اُڑے گا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ان اندازوں کے بالکل برعکس اسٹیفن ہاکنگ نے چند برس نہیں، اس کے بعد نصف صدی سے زائد عرصہ اس دنیا میں گزارا۔ اُس کی بیماری روزافزوں تھی۔ اس کو روکنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے بیماری کا اپنا عمل جاری رہا۔ دھیرے دھیرے اسٹیفن ہاکنگ کے اعصاب جواب دیتے چلے گئے۔ وہ چاق چوبند انسان سے درجہ بہ درجہ نیچے اترتا اور معذور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک مکمل معذور و مجبور وجود میں تبدیل ہوکر اپنی ویل چیئر تک محدود ہوگیا۔ اُس کا جسم اپنے ارادے اور ذہن کے احکامات سے پوری طرح لاتعلق ہوگیا۔

وہ اب گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح ہوگیا تھا، دوسری طرف یہ معاملہ بھی کس قدر نرالا ہے کہ اُس کی سانس بہ خوبی چل رہی تھی۔ آنکھوں میں روشنی اور ذہن میں تحرک اسی طرح باقی تھا۔ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ تینوں صلاحیتیں زیادہ بہتر اور نہایت فعال سطح پر بروے کار آرہی تھیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ قدرت نے انوکھا انتظام کیا تھا۔ اس کی جسمانی معذوری کی ایک طرح سے تلافی کرتے ہوئے اسے بے پناہ ذہنی صلاحیت و قوتِ سے نواز دیا تھا۔ چناںچہ اس کا ذہن آخری وقت تک عام انسانوں کی طرح نہیں، بلکہ ان سے کہیں زیادہ تیز، متحرک اور فعال تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری دور تک کام کیا۔ یہ کام سرسری نہیں تھا، بلکہ اُس کی ذہانت اور تحقیق کے اعلیٰ کارناموں کا تسلسل تھا جن سے طبیعات کے اہلِ نظر استفادہ کرتے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کام نے صرف اسٹیفن ہاکنگ کا نام ہی روشن نہیں کیا، بلکہ دوسروں کو بھی کارگزاری کے نئے زاویے اور میدان فراہم کیے۔

اپنی زندگی کے مختلف مراحل پر اُس نے اپنی بیماری کو محسوس تو بے شک کیا، لیکن وہ اس سے مغلوب کبھی نہیں ہوا۔ ایک جگہ اُس نے لکھا ہے، لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ ALS (Amyotrophic Lateral Sclerosis کا مخفف) جیسی بیماری کا شکار ہو کر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ میرا جواب یہ ہے کہ میں اس کے بارے میں زیادہ سوچتا ہی نہیں۔ ایک موقع پر اس نے کہا کہ میں زندگی کو اتنا ہی نارمل گزارنے کی کوشش کرتا ہوں، جتنا ممکن ہے، اور میں اپنی معذوری کے حوالے سے کچھ نہیں سوچتا، نہ ہی مجھے ایسا کوئی پچھتاوا ہے کہ اس بیماری نے مجھے فلاں فلاں کام کرنے سے روک دیا ہے، اور سچ پوچھیے تو ایسے کام بہت زیادہ ہیں بھی نہیں کہ جو میں کرنے کا اب اہل نہیں ہوں۔ بلاشبہہ یہی وہ اندازِ نظر ہے جس نے اسٹیفن ہاکنگ کو نہ صرف نارمل انسان جتنی طویل عمر کی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا، بلکہ مکمل معذوری کے باوجود اُس نے وہ اعلیٰ علمی تحقیقی کام بھی کیے کہ فزکس کی تاریخ میں اُس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک بار اُس نے کہا تھا کہ میرا مقصد تو بالکل سیدھا اور صاف ہے۔ میں تو بس اس کائنات کو پوری طرح سمجھتا چاہتا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ ایسی کیوں ہے، جیسی کہ یہ ہے اور یہ بھی کہ بھلا یہ کس طرح قائم ہے؟

ساری دنیا مانتی ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ مکمل معذور ہوکر صرف ایک ویل چیئر تک محدود ہوگیا تھا۔ اُس کا جسم ایک بے جان شے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اس معذور جسم کے اوپر ایک بے حد مضبوط اور توانا ذہن پوری طرح چوکس اور بیدار تھا۔ یہ ذہن اس کائنات کو بڑی مسحور کن نگاہوں سے دیکھتا تھا، ایسے ہی جیسے کوئی محبت، شوق اور للک سے دیکھتا ہے۔ وہ اس کی ماہیت کے بارے میں سوچتا تھا۔ غور کرتا تھا کہ یہ کائنات کس طرح وجود میں آئی اور اس کا خاتمہ کب اور کس طرح ہوسکتا ہے؟ زمان و مکاں کی کیا حقیقت ہے؟ کوانٹم تھیوری اس کائنات کو ہمارے سامنے کس طرح لاتی ہے، اس کے بارے میں کیا بتاتی ہے اور اسے کیسا دکھاتی ہے؟ اُس کے اندر انوکھے سوالات اٹھتے تھے۔ وہ اُن کے جواب کی کھوج میں رہتا۔

وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ جو معمولی ذرّے ہیں جنھیں آدمی کی آنکھ اپنے بل بوتے پر دیکھ بھی نہیں سکتی، انھیں دیکھنے کے لیے اسے سہاروں یا آلات کی ضرورت ہوتی ہے، انھی معمولی ذرّوں کی اس لامتناہی کائنات میں کیا حیثیت ہے اور وہ اس وسیع و عریض کائنات پر کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں؟ یہ کائنات معرضِ وجود میں کیسے آئی تھی اور وہ کون سی قوتیں ہیں جن کے ہاتھوں میں اب اس کی باگ ڈور ہے اور جو اسے چلا رہی ہیں؟ یہ اور ایسے ہی کتنے سوالات ہیں جو اُس کے روشن اور متحرک ذہن کو ہمہ وقت اپنی طرف لگائے رکھتے تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ ان سب سوالوں کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا تھا، اور اس دنیا کے معمولی ذرّوں سے لے کر کائنات کے بڑے سیاروں پر غور و خوض کرکے ان کا جواب حاصل کرنے کی جستجو کرتا تھا۔ اسی جستجو نے اُسے وہ راستے دکھائے اور کام سمجھائے کہ اس سے پہلے کی دنیا میں جن کا گمان تک لوگوں کو نہیں گزرا تھا۔

اسٹیفن ہاکنگ نے 1965ء میں جین وائلڈ سے پہلی شادی کی۔ یہ تعلق ربع صدی تک قائم رہا اور پھر دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔ اس شادی سے اُس کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے۔ علاحدگی کے بعد اُس کی سابقہ خدمت گار نرس الین میسن سے شادی ہوئی، لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہا، بلکہ علاحدگی کی نوبت بھی تلخی اور الزامات کے ساتھ آئی۔ اسٹیفن ہاکنگ بیوی بن جانے والی نرس کے ان الزامات کی نفی کرتا تھا، لیکن وہ ان پر زیادہ بات کرنے کا خواہاں نظر نہیں آتا تھا۔ انسان بڑا ہو یا چھوٹا، کم زوری اور خامی سے صد فی صد مبرا نہیں ہوسکتا۔ اگر ہوجائے تو آدمی کیسے رہے، فرشتہ نہ بن جائے۔ خیر، اسٹیفن ہاکنگ بھی انسان ہی تھا- لیکن بلاشبہہ ایک بڑا آدمی، اور بڑے لوگ اپنے کارناموں سے یاد رکھے جاتے ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ اور اس کی پہلی بیوی کے درمیان محبت کی کہانی کو بعد ازاں ایک فلم ''دی تھیوری آف ایوری تھنگ'' میں پیش کیا گیا۔ یہ فلم 2014ء میں ریلیز ہوئی اور کامیاب رہی۔ اس فلم میں ریڈی ایڈمین نے اسٹیفن ہاکنگ کا کردار ادا کیا اور اپنی شان دار اداکاری کی وجہ سے بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ اس فلم کی سب سے بڑی داد یہ ہے کہ بعض لوگ اس بیان کو نقل کرتے ہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ نے بتایا کہ فلم کو دیکھتے ہوئے بعض لمحے ایسے بھی آئے کہ جب مجھے لگا کہ جیسے میں واقعی خود کو دیکھ رہا ہوں۔

اس کے علاوہ ہاکنگ پر 2013ء میں ایک ڈاکیو مینٹری بھی بنی تھی۔ اس میں اُس کی روزمرہ حقیقی زندگی کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ اس ڈاکیو مینٹری کا مرکزی خیال ہاکنگ کے اس احساس پر مبنی تھا کہ اُس کی زندگی چوںکہ بہت ناقابلِ یقین ہوگئی تھی اور ہر نئے دن کے بارے میں اُسے یہ احساس رہتا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہوسکتا ہے، اس لیے اُس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ایک لمحہ ضائع نہ کرے، بلکہ ہر لمحے کو بہتر سے بہتر انداز میں اپنے استعمال میں لائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ زندگی کی نعمت سے لمحہ بہ لمحہ درجۂ کمال میں استفادہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اپنے کام اور ذہانت کے حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ ان خوش نصیب لوگوں میں تھا جو جلد ہی شہرت اور عزت حاصل کرتے اور نام وری کے بامِ عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ رائل سوسائٹی، برطانیہ اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس، امریکا کی کم عمری میں رکنیت حاصل ہونے سے لے کر کیمبرج یونی ورسٹی میں اُسی منصب پر فائز ہونے تک جس پر کبھی نیوٹن فائز تھا، ایک کے بعد دوسرا بڑا اعزاز اُس کی عزت اور شہرت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی اُس کی یہ ساری نام وری دراصل اُس کے اپنے لوگوں اور اپنے شعبے تک ہی محدود تھی۔ سائنس اور فزکس سے لاتعلق لوگ اس کے بارے میں بالکل کچھ نہیں جانتے تھے۔ اس کے بعد پھر ایک واقعہ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ 1988ء میں اُس کی کتاب ''دی بریف ہسٹری آف ٹائم'' شائع ہوتی ہے اور بس پھر تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا نام چار دانگ عالم میں گونج اٹھتا ہے۔

اب اُس کی یہ شہرت سائنس یا فزکس کے دائرے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ عام آدمی بھی اس کو جاننے پہچاننے لگتے ہیں۔ اصل میں اس کتاب میں اسٹیفن ہاکنگ نے سائنس کی باتیں اور فزکس کی تھیوریز اور اس کائنات کے بارے میں نظریات اس طرح بیان کیے ہیں کہ انھیں عام لوگوں کے لیے دل چسپ اور قابلِ مطالعہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے یہ کتاب بین الاقوامی سطح پر ''بیسٹ سیلر'' بن گئی، ایک زمانہ اس کا قاری بن گیا۔ انگریزی داں طبقے میں اس کی جو پذیرائی ہوئی، وہ تو اپنی جگہ، لیکن ساتھ ہی دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ یوں اس کتاب کے قارئین کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا۔

اس کے بعد 2001ء میں اُس کی کتاب ''دی یونی ورس اِن اے نٹ شیل'' منظرِعام پر آئی۔ اس کتاب کو یقینا اُس کی پہلی کتاب کی طرح پڑھنے اور داد دینے والوں کا اتنا بڑا حلقہ تو میسر نہیں آیا، لیکن پھر بھی اس کی خاصی پذیرائی ہوئی۔ 2007ء میں ہاکنگ نے اپنی بیٹی لوسی کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے ایک کتاب ''جارجز سیکرٹ کی ٹودی یونی ورس'' شائع کی۔ اس میں اُس نے بچوں کے لیے اُن کی علمی اور ذہنی سطح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ سب نظامِ شمسی، ستارے، سیارے اور بلیک ہولز وغیرہ کیا ہیں اور کس طرح اس کائنات کے نظام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اسٹیفن ہاکنگ نے مقبولِ عام سلسلوں ''اسٹار ٹریک- دی نیکسٹ جنریشن'' اور ''دی سمپسنز'' کو بھی ایک حد تک درخورِ اعتنا جانا۔ ان سب باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہاکنگ کے نزدیک زندگی کے یا جینے کیا معنی تھے۔ یہی مثبت رویہ تھا کہ جس کی وجہ سے ہول ناک بیماری کے باوجود اُس نے اپنی زندگی کو معذوری اور مجبوری کا نشان نہیں بننے دیا، بلکہ اسے مثال کے درجے میں کامیاب، کارآمد اور بامعنی ثابت کیا۔ وہ 8 مارچ 2018ء کو جب اس دنیا سے رخصت ہورہا ہوگا تو اس نے مسکرا کر خود سے کہا ہوگا:

شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم
Load Next Story